قیدی بھی شہری ہیں
سردار عثمان بزدار کی جانب سے ان کی رہائی ایک مستحسن اقدام ہے۔
LOS ANGELES:
پاکستان میں جیلوں کی حالت ابتر ہے، قیدی گنجائش سے زیادہ ہیں۔ ایک ایک بیرک میں اس کی استطاعت سے زیادہ قیدی بند ہیں۔ انھیں رات کو سونے کے لیے جگہ میسر نہیں ہے۔ قیدی گھنٹے اور باریاں باندھ کر سوتے ہیں۔ باتھ روم اور دیگر سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ اس ضمن میں تمام صوبوں میں حالات یکساں ہیں۔ پنجاب میں کچھ کام ہوا ہے لیکن یہ کافی نہیںہے۔ نئی جیلیں بنی ہیں لیکن جس طرح آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اسی طرح قیدیوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر بھی ہے۔ معمولی نوعیت کے مقدمات بھی سالہاسال زیر سماعت رہتے ہیں۔ غریب آدمی جب مقدمے کے چنگل میں پھنس جاتا ہے تواس کے پاس نکلنے کے لیے نہ تو وسائل ہوتے ہیں اور نہ ہی راستہ۔ امیر کو تو مہنگے وکیل کر کے بڑے بڑے مقدمات میں بھی ضمانت مل جاتی ہے جب کہ غریب کو بکری چوری کے مقدمے میں بھی ضمانت نہیں ملتی ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ میں پانچ سال تک ضمانت کے ایک مقدمہ کے زیر سماعت رہنے پر ایکشن لینے کا فیصلہ کیا ہے اور کیس کو سپریم جیوڈیشل کونسل میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی تو عیاں ہو رہی ہے کہ طاقتور کیسے نظام انصا ف سے کھیلتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر نظام انصاف میں مناسب اصلاحات کی جائیں تو جیل میں قیدیوں کی تعداد بھی کم ہو سکتی ہے۔
جیل میں دو طرح کے قیدی ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کے مقدمات ابھی زیر سماعت ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جن کے مقدمات کی سماعت مکمل ہو گئی ہوتی ہے اور وہ اپنی سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ جو سزا کاٹ رہے ہیں، وہ تو ٹھیک ہیں لیکن جن کے مقدمات ابھی زیر سماعت ہیں ، جب تک انھیں سزا نہ ہو جائے وہ بے گناہ ہی تصور کیے جائیں گے۔ ان میں اکثر وہ ہیں جنھیں ضمانت کا حق نہیں ملتا۔ یا وہ جیوڈیشل ریمانڈ پر ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں میری رائے ہے کہ ملک بھر کی جیلوں سے قیدیوں کی آبادی کا بوجھ کم کرنے کے لیے ضمانت کے قوانین میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ تا کہ کوئی بے گناہ ایک دن بھی جیل میں نہ رہ سکے۔ فی الحال ضمانت کے قوانین کافی کمزور ہیں۔ ان میں طاقتور کے لیے تو بہت جگہ ہے لیکن کمزور بے بس ہے۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جب سپریم کورٹ کسی کو دس سال پندرہ سال یا بیس سال بعد بے گناہ قرار دیکر بری کرتا ہے تو یہ کوئی انصاف نہیں بلکہ نظام کے نقائص کو آشکار کرتا ہے۔ دس سال بعد بے گناہی کوئی بے گناہی تو نہیں۔ یہاں تو ملزم کے مر جانے کے بعد بھی اسے بری کیا گیا ہے۔ حال ہی میں احتساب عدالت کے ایک ملزم کو اس کی موت کے بعد بری کیا گیا۔ اس کے لواحقین نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ اپنے پیارے کے مر جانے کے بعد بھی مقدمہ کا فیصلہ میرٹ پر چاہتے ہیں تا کہ ان کے دامن پر لگا داغ دھویا جا سکے۔
ایک عمومی رائے یہ بھی ہماری جیلیں عقوبت خانوں سے کم نہیں ہیں۔ جیل میں قیدیوں کی عزت نفس مجرو ح کی جاتی ہے ۔ انگریز دور کا فرسودہ نظام آج تک رائج ہے ۔ معاشرے میں جیل میں قید افراد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ جیل میں قید اکثریت بے گناہ ہوتی ہے۔ان میں سے اکثریت اپنے جرائم کے نہیں بلکہ نظام کے قیدی ہیں۔ جب تک یہ احساس نہیں ہوگا ہم نہ تو جیلوں کی حالت بہتر کر سکتے ہیں اور نہ ہی قیدیوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے پر فوکس کر سکتے ہیں۔
اس صورتحال میں وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔ انھوں نے پنجاب کی جیلوں میں قید 514 ایسے قیدیوں کی رہائی ممکن کرائی ہے جو اپنی سزا کی مدت مکمل کر چکے تھے لیکن جرمانے کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے جیل میں قید تھے۔ اس سلسلے میں سردار عثمان بزدار نے ذاتی طور پر مخیر حضرات سے تین کر وڑ روپے سے زائداکٹھے کر کے پنجاب کی جیلوں سے 514 قیدیوں کو رہائی دلوائی ہے۔ عثمان بزدار کی اس ذاتی کاوش کی وجہ سے یہ قیدی اب عید اپنے گھروں میں منا سکیں گے۔
پنجاب کی جیلوں کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پنجاب کی جیلوں میں 65 قیدی صرف جرمانے کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے قید ہیں۔ مزید143 قیدیوں کی رہائی کے لیے 22 کروڑ 30 لاکھ درکار ہے۔ سردار عثمان بزدار پر عزم ہیں کہ وہ عید سے پہلے یہ رقم بھی جمع کر لیں گے اور ان قیدیوں کو بھی رہائی دلوا دیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی کو بھی ایک دن اضافی جیل میں قید نہیں رہنا چاہیے۔ امیر لوگ کی تو رات کو بھی رہائی ممکن ہو جاتی ہے۔ جب کہ دوسری طرف غریب قیدی جرمانہ کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے کئی کئی ماہ تک جیلوں میں قید رہتے ہیں۔ سردار عثمان بزدار کی جانب سے ان کی رہائی ایک مستحسن اقدام ہے۔
انھوں نے پہلے مرحلے میں مخیر حضرات سے چندہ اکٹھا کر کے ان قیدیوں کو رہائی دلوائی ہے۔ تا ہم میں سمجھتا ہوں کہ انھیں حکومت پنجاب کی طرف ایک ایسا نظام بنانا چاہیے کہ کوئی بھی انسان ایک دن بھی اضافی جیل میں رہنے پر مجبور نہ ہو۔ صرف پیسے نہ ہونے کی وجہ سے جیل میں قید رہنا ایک ظلم ہے۔ آپ کسی جرم کی سزا کاٹیں تو وہ جائز ہے۔ لیکن جب آپ کو یہ پتہ ہو کہ آپ کی سزا مکمل ہو چکی ہے لیکن جرمانے کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے قید ہیں تو بے بسی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس لیے پنجاب حکومت کو ایسا نظام بنانا چاہیے کہ کوئی بھی صرف جرمانہ کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے جیل میں قید نہ رہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ سردار عثمان بزدار نے جو کام شروع کیا ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن یہ صرف رمضان اور عید کے موقعے پر نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اس کو ایک مسلسل سلسلہ بنانے کی ضرورت ہے۔ جیل کے عملے کو حکومت پنجاب کو بتانا چاہیے کہ اس کے پاس ایسے کونسے قیدی ہیں جو اپنا جرمانہ ادا نہیں کر سکتے ہیں اور ان کے جرمانے کی ادائیگی کے لیے انتظامات کی ضرورت ہے۔ اگر سردار عثمان بزدار اس ضمن میں سرکاری فنڈز استعمال نہیں بھی کرنا چاہتے تو انھیں مخیر حضرات پر مشتمل ایک مستقل کمیٹی بنانی چاہیے جو جرمانے کی ادائیگی کے لیے رقوم کا بندو بست کر کے ایسے قیدیوں کی رہائی ممکن بناتی رہے۔
ویسے اس ضمن میں اگر سرکاری فنڈز بھی استعمال ہو جائیں تو کوئی ممانعت نہیں ہونی چاہیے۔ سرکاری پیسے عام آدمی پر خرچ ہونے چاہیے۔ اور جیلوں میں قید یہ قیدی بھی پاکستان کے عام شہری ہیں۔ ان کا بھی پاکستان کے وسائل پر حق ہے۔ اس کے ساتھ سردار عثمان بزدار کو ایسے قیدیوں کی بھی مدد کرنی چاہیے جن کے پاس ضمانت ہونے کے بعد ضمانتی مچلکے دینے کے وسائل بھی نہیں ہوتے۔ ان کے لیے ضمانتی مچلکے مہیا کرنے کا بھی کوئی نظام ہونا چاہیے۔
پاکستان میں مخیر حضرات کی جیل پر توجہ بہت کم ہے۔ بڑے لوگ جیل جاتے ہی نہیں ہیں۔ اس لیے انھیں جیل کا تصور ہی نہیں ہے۔بڑے لوگ جو جیل جاتے ہیں ان کے لیے جیل بھی وی آئی پی ہوتی ہے۔ وہ عام قیدی کے ساتھ رہتے ہی نہیں ہیں۔ ان کے لیے جیل میں بھی الگ سیل موجود ہیں۔ اس لیے انھیں عام قیدیوں کے مسائل کا علم ہی نہیں ہوتا۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ریاست ایک ماں ہے۔ اور قیدی بھی اس کی اولاد ہیں۔ ریاست قیدیوں کو اپنے شہری ہونے سے انکار نہیں کر سکتی بلکہ اسے ان شہریوں کو دوبارہ اچھا شہری بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانا چاہیے۔
پاکستان میں جیلوں کی حالت ابتر ہے، قیدی گنجائش سے زیادہ ہیں۔ ایک ایک بیرک میں اس کی استطاعت سے زیادہ قیدی بند ہیں۔ انھیں رات کو سونے کے لیے جگہ میسر نہیں ہے۔ قیدی گھنٹے اور باریاں باندھ کر سوتے ہیں۔ باتھ روم اور دیگر سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ اس ضمن میں تمام صوبوں میں حالات یکساں ہیں۔ پنجاب میں کچھ کام ہوا ہے لیکن یہ کافی نہیںہے۔ نئی جیلیں بنی ہیں لیکن جس طرح آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اسی طرح قیدیوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر بھی ہے۔ معمولی نوعیت کے مقدمات بھی سالہاسال زیر سماعت رہتے ہیں۔ غریب آدمی جب مقدمے کے چنگل میں پھنس جاتا ہے تواس کے پاس نکلنے کے لیے نہ تو وسائل ہوتے ہیں اور نہ ہی راستہ۔ امیر کو تو مہنگے وکیل کر کے بڑے بڑے مقدمات میں بھی ضمانت مل جاتی ہے جب کہ غریب کو بکری چوری کے مقدمے میں بھی ضمانت نہیں ملتی ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ میں پانچ سال تک ضمانت کے ایک مقدمہ کے زیر سماعت رہنے پر ایکشن لینے کا فیصلہ کیا ہے اور کیس کو سپریم جیوڈیشل کونسل میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی تو عیاں ہو رہی ہے کہ طاقتور کیسے نظام انصا ف سے کھیلتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر نظام انصاف میں مناسب اصلاحات کی جائیں تو جیل میں قیدیوں کی تعداد بھی کم ہو سکتی ہے۔
جیل میں دو طرح کے قیدی ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کے مقدمات ابھی زیر سماعت ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جن کے مقدمات کی سماعت مکمل ہو گئی ہوتی ہے اور وہ اپنی سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ جو سزا کاٹ رہے ہیں، وہ تو ٹھیک ہیں لیکن جن کے مقدمات ابھی زیر سماعت ہیں ، جب تک انھیں سزا نہ ہو جائے وہ بے گناہ ہی تصور کیے جائیں گے۔ ان میں اکثر وہ ہیں جنھیں ضمانت کا حق نہیں ملتا۔ یا وہ جیوڈیشل ریمانڈ پر ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں میری رائے ہے کہ ملک بھر کی جیلوں سے قیدیوں کی آبادی کا بوجھ کم کرنے کے لیے ضمانت کے قوانین میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ تا کہ کوئی بے گناہ ایک دن بھی جیل میں نہ رہ سکے۔ فی الحال ضمانت کے قوانین کافی کمزور ہیں۔ ان میں طاقتور کے لیے تو بہت جگہ ہے لیکن کمزور بے بس ہے۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جب سپریم کورٹ کسی کو دس سال پندرہ سال یا بیس سال بعد بے گناہ قرار دیکر بری کرتا ہے تو یہ کوئی انصاف نہیں بلکہ نظام کے نقائص کو آشکار کرتا ہے۔ دس سال بعد بے گناہی کوئی بے گناہی تو نہیں۔ یہاں تو ملزم کے مر جانے کے بعد بھی اسے بری کیا گیا ہے۔ حال ہی میں احتساب عدالت کے ایک ملزم کو اس کی موت کے بعد بری کیا گیا۔ اس کے لواحقین نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ اپنے پیارے کے مر جانے کے بعد بھی مقدمہ کا فیصلہ میرٹ پر چاہتے ہیں تا کہ ان کے دامن پر لگا داغ دھویا جا سکے۔
ایک عمومی رائے یہ بھی ہماری جیلیں عقوبت خانوں سے کم نہیں ہیں۔ جیل میں قیدیوں کی عزت نفس مجرو ح کی جاتی ہے ۔ انگریز دور کا فرسودہ نظام آج تک رائج ہے ۔ معاشرے میں جیل میں قید افراد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ جیل میں قید اکثریت بے گناہ ہوتی ہے۔ان میں سے اکثریت اپنے جرائم کے نہیں بلکہ نظام کے قیدی ہیں۔ جب تک یہ احساس نہیں ہوگا ہم نہ تو جیلوں کی حالت بہتر کر سکتے ہیں اور نہ ہی قیدیوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے پر فوکس کر سکتے ہیں۔
اس صورتحال میں وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔ انھوں نے پنجاب کی جیلوں میں قید 514 ایسے قیدیوں کی رہائی ممکن کرائی ہے جو اپنی سزا کی مدت مکمل کر چکے تھے لیکن جرمانے کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے جیل میں قید تھے۔ اس سلسلے میں سردار عثمان بزدار نے ذاتی طور پر مخیر حضرات سے تین کر وڑ روپے سے زائداکٹھے کر کے پنجاب کی جیلوں سے 514 قیدیوں کو رہائی دلوائی ہے۔ عثمان بزدار کی اس ذاتی کاوش کی وجہ سے یہ قیدی اب عید اپنے گھروں میں منا سکیں گے۔
پنجاب کی جیلوں کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پنجاب کی جیلوں میں 65 قیدی صرف جرمانے کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے قید ہیں۔ مزید143 قیدیوں کی رہائی کے لیے 22 کروڑ 30 لاکھ درکار ہے۔ سردار عثمان بزدار پر عزم ہیں کہ وہ عید سے پہلے یہ رقم بھی جمع کر لیں گے اور ان قیدیوں کو بھی رہائی دلوا دیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی کو بھی ایک دن اضافی جیل میں قید نہیں رہنا چاہیے۔ امیر لوگ کی تو رات کو بھی رہائی ممکن ہو جاتی ہے۔ جب کہ دوسری طرف غریب قیدی جرمانہ کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے کئی کئی ماہ تک جیلوں میں قید رہتے ہیں۔ سردار عثمان بزدار کی جانب سے ان کی رہائی ایک مستحسن اقدام ہے۔
انھوں نے پہلے مرحلے میں مخیر حضرات سے چندہ اکٹھا کر کے ان قیدیوں کو رہائی دلوائی ہے۔ تا ہم میں سمجھتا ہوں کہ انھیں حکومت پنجاب کی طرف ایک ایسا نظام بنانا چاہیے کہ کوئی بھی انسان ایک دن بھی اضافی جیل میں رہنے پر مجبور نہ ہو۔ صرف پیسے نہ ہونے کی وجہ سے جیل میں قید رہنا ایک ظلم ہے۔ آپ کسی جرم کی سزا کاٹیں تو وہ جائز ہے۔ لیکن جب آپ کو یہ پتہ ہو کہ آپ کی سزا مکمل ہو چکی ہے لیکن جرمانے کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے قید ہیں تو بے بسی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس لیے پنجاب حکومت کو ایسا نظام بنانا چاہیے کہ کوئی بھی صرف جرمانہ کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے جیل میں قید نہ رہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ سردار عثمان بزدار نے جو کام شروع کیا ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن یہ صرف رمضان اور عید کے موقعے پر نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اس کو ایک مسلسل سلسلہ بنانے کی ضرورت ہے۔ جیل کے عملے کو حکومت پنجاب کو بتانا چاہیے کہ اس کے پاس ایسے کونسے قیدی ہیں جو اپنا جرمانہ ادا نہیں کر سکتے ہیں اور ان کے جرمانے کی ادائیگی کے لیے انتظامات کی ضرورت ہے۔ اگر سردار عثمان بزدار اس ضمن میں سرکاری فنڈز استعمال نہیں بھی کرنا چاہتے تو انھیں مخیر حضرات پر مشتمل ایک مستقل کمیٹی بنانی چاہیے جو جرمانے کی ادائیگی کے لیے رقوم کا بندو بست کر کے ایسے قیدیوں کی رہائی ممکن بناتی رہے۔
ویسے اس ضمن میں اگر سرکاری فنڈز بھی استعمال ہو جائیں تو کوئی ممانعت نہیں ہونی چاہیے۔ سرکاری پیسے عام آدمی پر خرچ ہونے چاہیے۔ اور جیلوں میں قید یہ قیدی بھی پاکستان کے عام شہری ہیں۔ ان کا بھی پاکستان کے وسائل پر حق ہے۔ اس کے ساتھ سردار عثمان بزدار کو ایسے قیدیوں کی بھی مدد کرنی چاہیے جن کے پاس ضمانت ہونے کے بعد ضمانتی مچلکے دینے کے وسائل بھی نہیں ہوتے۔ ان کے لیے ضمانتی مچلکے مہیا کرنے کا بھی کوئی نظام ہونا چاہیے۔
پاکستان میں مخیر حضرات کی جیل پر توجہ بہت کم ہے۔ بڑے لوگ جیل جاتے ہی نہیں ہیں۔ اس لیے انھیں جیل کا تصور ہی نہیں ہے۔بڑے لوگ جو جیل جاتے ہیں ان کے لیے جیل بھی وی آئی پی ہوتی ہے۔ وہ عام قیدی کے ساتھ رہتے ہی نہیں ہیں۔ ان کے لیے جیل میں بھی الگ سیل موجود ہیں۔ اس لیے انھیں عام قیدیوں کے مسائل کا علم ہی نہیں ہوتا۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ریاست ایک ماں ہے۔ اور قیدی بھی اس کی اولاد ہیں۔ ریاست قیدیوں کو اپنے شہری ہونے سے انکار نہیں کر سکتی بلکہ اسے ان شہریوں کو دوبارہ اچھا شہری بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانا چاہیے۔