جنوبی ایشیائی ممالک اتحاد کی ضرورت

کہتے ہیں کہ تاریخ سے ہمیں ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ مسائل تاریخی عمل کا نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔

jabbar01@gmail.com

آپ تاریخ کا مطالعہ کرلیں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں تاریخ میں جتنی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں،اس میں جہاں مذہب کے عنصر نے اہم کردار ادا کیا ہے وہاں بیشترکے پس منظر میں ہمیشہ معاشی اور اقتصادی مسئلہ بھی کارفرما رہا ہے۔

اٹھارہویں صدی کے وسط تک یورپ کی اقتصادی حالت عہد وسطیٰ سے مختلف نہ تھی لیکن سائنسی ایجادات کی بدولت یورپ میں جب صنعتی انقلاب رونما ہوا تو اس انقلاب نے یورپ کی سماجی معاشی اور سیاسی زندگی کو یکسر تبدیل کردیا۔ مشینوں کے استعمال کی وجہ سے پیداوار میں اضافہ ہوا نتیجے میں سرمایہ دار طبقے کے سرمایہ میں مزید اضافہ ہوا۔ اشیا کی وسیع پیمانے پر تیاری کی وجہ سے مال کی کھپت کے لیے نئی منڈیوں کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ایسی صورت میں یورپ کے سرمایہ دار طبقے نے دنیا کے دوسرے ممالک بالخصوص ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں نئی منڈیوں کی تلاش شروع کردی۔

کسی ملک کی ایسی سیاسی حکمت عملی جس کے تحت نسلی امتیازکی بنیاد پر وہ ملک اپنی سیاسی، عسکری اور معاشی حدود میں اضافہ کرے ایسی سیاسی حکمت عملی کو نوآبادیات کا نام دیا جاتا ہے، جس میں کئی وحدتیں ایک ہی مرکزی اقتدار کے ماتحت ہوتی ہیں۔

صنعتوں کی ترقی کے لیے خام مال اور بڑھتی ہوئی آبادی کو روزگارکی فراہمی کی ضرورت کے تحت یورپی ممالک میں نو آبادیاتی توسیع کی ایک زبردست مہم شروع ہوگئی، اس مہم کے نتیجے میں بیشتر یورپی ممالک ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک میں اپنی نوآبادیاتی کالونیاں قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ برصغیر پاک و ہند انسانی اور قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ تھا۔ برصغیر پاک و ہند کے بحری راستوں کی دریافت کے بعد یورپی اقوام کی حریصانہ نظریں اس خطے پر پڑیں دو صدیوں کے اندر اندر یہ یورپی ممالک اس خطے پر اپنی نوآبادیاتی کالونیاں قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

مشرقی وسطیٰ کے عرب علاقوں پر ترکی کا کنٹرول تھا۔انگریزوں نے سیاسی حکمت عملی کے تحت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے عربوں میں قوم پرستی کے جذبات ابھار کر ترکی کے خلاف بغاوت کرا دی۔ ان ایجنٹوں میں جنرل لارنس کو خاص شہرت حاصل ہوئی اس سازش کے نتیجے میں مصر سے لے کر ایران تک انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔

نوآبادیاتی کالونیوں کے قیام کے پس منظر میں جہاں معاشی مفادات اور نئی منڈیوں کی تلاش ایک اہم عنصر تھا وہاں اس کے پس پردہ نسلی امتیاز، تہذیبی برتری اور مذہبی جذبے کا عنصر بھی کارفرما تھا۔

مغربی ممالک نے ایشیا اور افریقہ یا دنیا کے جن علاقوں پر اپنا تسلط قائم کیا تھا وہ علاقے تعلیمی، اقتصادی اور سیاسی میدان میں پسماندہ تھے ان کے یہاں یا تو قبائلی نظام تھا یا بادشاہتیں تھیں۔ حکمران اپنی ذات میں مگن تھے انھیں عوام الناس کا کچھ خیال نہ تھا۔ عوام بھی جمہوری حقوق سے ناواقف تھے بعض ممالک اقتصادی طور پر اتنے بدحال تھے کہ وہ مغربی طاقتوں سے مدد لینے پر مجبور تھے۔ بعض ممالک دفاعی لحاظ سے اتنے کمزور تھے کہ وہ مغرب کی ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔


سب سے اہم بات اس زمانے میں مغربی سامراج نے اپنے سامراجی نظام اور تسلط کو جائز قرار دینے کے لیے ''سفید اقوام کے بوجھ'' کی اصطلاح رائج کی جس کے تحت ان کا کہنا تھا کہ سفید اقوام دنیا کی جہالت اور بدحالی دور کرکے اپنی محکوم اقوام کو مذہب، سائنس اور معاشی ترقی کے راستے پر گامزن کرے گی۔ یہ وہ عوامل تھے جن کی بنیاد پر مغرب کے تین ممالک برطانیہ، فرانس اور پرتگال نے تقریباً تمام دنیا کی اقوام کو اپنا غلام بنالیا۔

یورپی ممالک کی نوآبادیاتی توسیع پسندانہ مہم نے جہاں یورپی ممالک کے مابین آپس میں تعلقات کی بنیادیں مضبوط کیں وہاں مفادات کے زیادہ سے زیادہ حصول کی کوششوں کے نتیجے میں ان کے درمیان نفرت اور رقابت کا جذبہ بھی پروان چڑھا۔ اس کے نتیجے میں ایک بڑی جنگ نے جنم لیا جسے تاریخ میں جنگ عظیم اول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس جنگ کو وسائل پر قبضے کی جنگ کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا اس جنگ کے نتیجے میں سامراجی طاقتیں سیاسی لحاظ سے کمزور ہوئیں اور معاشی بحران سے بھی دوچار ہوئیں۔

اس کے نتیجے میں غیر ملکی تسلط کا شکار ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں زور پکڑگئیں اور دنیا کے مختلف حصوں کے عوام میں بیداری کی لہر پیدا ہوگئی اسی دوران جنگ عظیم دوم شروع ہوگئی، اس جنگ کے نتیجے میں دو بڑی طاقتیں فرانس اور برطانیہ اس قابل نہیں رہے کہ وہ نوآبادیات قائم رکھ سکتے، لہٰذا ایک نئے سیاسی دورکی ابتدا ہوئی جس میں ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کی محکوم اقوام نے تیزی سے سامراجی تسلط سے نجات حاصل کرنی شروع کردی۔ لہٰذا بہت سی آزاد ریاستیں وجود میں آگئیں ان میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔

اسی عرصے میں دنیا میں ایک اہم واقعہ اور ایسا رونما ہوا جس نے مغربی تہذیب اور ثقافت کے لیے زبردست چیلنج کی حیثیت اختیار کی۔ اس واقعہ کو کمیونسٹ انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہ انقلاب سرمایہ دارانہ نظام کے ردعمل میں رونما ہوا تھا۔

اشتراکی نظام میں کسی کو ضرورت سے زائد ملکیت اور اثاثے جمع کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، اس طرح کی پابندی سے معاشرہ دوسروں کا حق غصب کرنے اور دوسروں کا استحصال کرنے کے رویے سے پاک ہوجاتا ہے۔ یہ نظام ان ممالک کے لیے کشش کا باعث تھا جو سرمایہ داروں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہو رہے تھے اور غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے اس انقلاب نے یورپی ممالک کو چوکنا کردیا ۔ ان کو خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں اس انقلاب سے متاثر ہوکر ان کا محنت کش طبقہ بغاوت پر آمادہ نہ ہوجائے لہٰذا یورپی ممالک نے اس نظام کو آمریت پسند اور مذہب دشمن قرار دے کر اس کے توڑ کے لیے جمہوریت اور انسانی حقوق کا نعرہ بلند کرکے اپنے دائرہ اثر میں اضافے کی کوشش کی۔

اس طرح دنیا دو بلاک میں تقسیم ہوگئی ایک روسی بلاک اور دوسرا امریکی بلاک۔ روس اور امریکا کے مابین اس سرد جنگ کے نتیجے میں روس افغانستان جنگ ہوئی۔ یورپی ممالک بالخصوص امریکا نے روس افغان جنگ میں افغانستان کی پشت پناہی کرکے روس کو شکست سے دوچار کردیا۔ اس طرح سرمایہ داری نظام کو دنیا میں عالمی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔

کہتے ہیں کہ تاریخ سے ہمیں ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ مسائل تاریخی عمل کا نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اگر انھیں اسی پس منظر میں سمجھ لیا جائے تو اس کا علاج دریافت کیا جاسکتا ہے۔ جنگ عظیم اول کے تباہ کن اثرات اور جنگ عظیم دوم کی ہولناکیوں اور اقتصادی بحران سے یورپ نے یہ سبق حاصل کیا کہ انھوں نے آپس کے نسلی، لسانی، مذہبی اختلافات اور سرحدی تنازعات کے باوجود اپنی آزادی اور خودمختاری برقرار رکھتے ہوئے اپنے مشترکہ سیاسی اور معاشی مفادات کے تحت یورپی یونین تشکیل دی، جس کے نتیجے میں آج یورپ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے۔

جنوبی ایشیا کے ممالک جن میں پاکستان، ہندوستان، بھوٹان، مالدیپ، نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش شامل ہیں بہترین قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں اگر یہ ممالک بھی اپنی آزادی اور خودمختاری برقرار رکھتے ہوئے یورپی یونین کی طرز پر اتحاد تشکیل دیں تو اس خطے کے عوام بھی خوشحالی اور ترقی کی راہ پرگامزن ہوسکتے ہیں۔
Load Next Story