خیبر پختونخوا حکومت وفاق سے واجبات کی وصولی کیلئے متحرک
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان اور ان کی ٹیم مرکزی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطوں میں ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت کو مرکز کی جانب سے بجلی کے منافع کی رقم نہ ملنے کی وجہ سے یقینی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اسی لیے محمود خان حکومت مرکز کے ساتھ مسلسل رابطوں میں ہے جس کی کوشش ہے کہ جاری مالی سال ختم ہونے سے قبل اس سال کے مرکز کے ذمے جو واجبات واجب الادا ہیں ان میں سے زیادہ سے زیادہ وصولی کر لی جائے تاکہ صوبائی حکومت کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ ختم ہو سکیں.
صوبائی حکومت کے لیے یہ بھی ایک دھچکا ہی تھا کہ بجلی کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے بجٹ تخمینہ جات کے برعکس مجموعی رقم میں9 ارب کی کمی ہوگئی تاہم اس کمی کے بعد باقی بچ جانے والے 56 ارب میں سے بھی اب تک صوبہ کو20 ارب ہی موصول ہوئے ہیں جبکہ 36 ارب کی وصولی اب بھی ہونی ہے اور اسی رقم کے حصول کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان اور ان کی ٹیم مرکزی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطوں میں ہیں جس کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر مرکزی حکومت نے صوبہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ جلد ہی 15 ارب انھیں فراہم کیے جائیں گے۔
اس جاری مالی سال کا گیارہواں مہینہ بھی ختم ہوا چاہتا ہے جس کے بعد صرف جون کا مہینہ باقی بچے گا جس میں اگرچہ فنڈز لگنے کی رفتار سال کے دیگر مہینوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ فنڈز کی تسلسل کے ساتھ فراہمی بھی کی جائے، اگر صوبائی حکومت کو مرکز کی جانب سے بجلی منافع کی مد میں پندرہ ارب مل جاتے ہیں تو اس سے صوبائی حکومت اپنی ان ترقیاتی سکیموں اور منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے بہتر پوزیشن میں ہوگی جن کو وہ اسی مالی سال کے دوران مکمل کرنا چاہتی ہے کیونکہ پہلے ہی صوبائی حکومت پر ترقیاتی سکیموں کا بہت بوجھ بنا ہوا ہے۔
ان سکیموں کی تکمیل کا دورانیہ چار سے پانچ سال تک پہنچاہوا ہے اور اس صورت حال کی وجہ سے نئی سکیموں کے لیے گنجائش ختم ہوکر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے جاری مالی سال کے لیے بھی حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں بہت کم تعداد میں نئی سکیمیں شامل کی تھیں اور یہی صورت حال آئندہ مالی سال کے حوالے سے بھی نظر آرہی ہے اور حکومت اس صورت حال میں تبدیلی کی خواہاں ہے ۔
یقینی طور پر وزیراعلیٰ محمود خان بھی اپنے پیش روؤں کی طرح سالانہ ترقیاتی پروگرام میں زیادہ سے زیادہ اسکیمیں شامل اورصوبہ کے مختلف اضلاع اورحلقوں کو نوازتے ہوئے اپنی پوزیشن کو بہتر کرنے کے خواہاں ہونگے اور اسی مقصد کے لیے وہ پہلے سے جاری منصوبوں اور سکیموں کے بوجھ میں کمی لانا چاہتے ہیں تاہم اس کا انحصار مرکز کی جانب سے ملنے والے پیسے پر ہے، مرکز ، خیبرپختونخوا کو اس کے حصہ کا پیسہ جتنا زیادہ اور جلدی فراہم کریگا صوبہ ترقیاتی اسکیموں اور منصوبوں کو مقررہ وقت پر مکمل کرنے کے حوالے سے اتنا ہی بہتر پوزیشن میں ہوگا اس لیے انہی خطوط پر کام کرتے ہوئے جاری ترقیاتی منصوبوں کی تعداد میں کمی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
قبائلی اضلاع میں ترقیاتی کاموں اور انتظامی امور میں بہتری لانے کے لیے تو صوبائی حکومت کوشاں ہیں تاہم جہاں تک ان اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کا معاملہ ہے تو اس پر دھند چھائی ہوئی ہے، ایک جانب تو قومی اسمبلی نے چھبیسویں آئینی ترمیم کو منظور کرلیا ہے تو ساتھ ہی یہ ترمیم ابھی سینٹ آف پاکستان سے منظوری کی منتظر ہے جس کے تحت ہی قبائلی اضلاع کے لیے نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہونا ہے اور یہ نشستیں 24 سے بڑھ کر31 ہو جائیں گی جبکہ دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان پہلے سے جاری کردہ شیڈول کے مطابق قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی انتخابات کے لیے عمل جاری رکھے ہوئے ہے جس میں کاغذات نامزدگی جمع اور ان کی جانچ پڑتال کا کام مکمل ہو چکا ہے اور جلد ہی امیدواروں کو انتخابی نشانات بھی الاٹ کر دیئے جائیں گے کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان چھبیسویں آئینی ترمیم کے آئین پاکستان کا حصہ بننے تک نہ تو الیکشن کے لیے پہلے سے جاری شیڈول کو منسوخ کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کے تحت الیکشن کے لیے جاری عمل کو روک سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے مکمل طور پر کنفیوژن موجود ہے۔ اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں اب تک قبائلی اضلاع کے مذکورہ انتخابات کے لیے اپنی انتخابی مہم بھی شروع نہیں کرسکی تھیں تاہم اب وہ متحرک ہوئی ہیں۔
جہاں سب کی نظریں ایک جانب قبائلی اضلاع میں منعقدہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات پر لگی ہوئی ہیں وہیں ان کی نظریں اپوزیشن کی تحریک پر بھی جمی ہوئی ہیں کیونکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کے خلاف عید کے بعد میدان میں نکلنے کی تیاریاں کر رہی ہیں جس کے لیے بلاول بھٹو کی افطاری میں کیے گئے فیصلے کے مطابق مولانا فضل الرحمن عید کے فوراً بعد آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کی مشاورت سے حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنے کے حوالے سے لائحہ عمل بھی وضع کیا جائے گا۔
صوبائی حکومت کے لیے یہ بھی ایک دھچکا ہی تھا کہ بجلی کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے بجٹ تخمینہ جات کے برعکس مجموعی رقم میں9 ارب کی کمی ہوگئی تاہم اس کمی کے بعد باقی بچ جانے والے 56 ارب میں سے بھی اب تک صوبہ کو20 ارب ہی موصول ہوئے ہیں جبکہ 36 ارب کی وصولی اب بھی ہونی ہے اور اسی رقم کے حصول کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان اور ان کی ٹیم مرکزی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطوں میں ہیں جس کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر مرکزی حکومت نے صوبہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ جلد ہی 15 ارب انھیں فراہم کیے جائیں گے۔
اس جاری مالی سال کا گیارہواں مہینہ بھی ختم ہوا چاہتا ہے جس کے بعد صرف جون کا مہینہ باقی بچے گا جس میں اگرچہ فنڈز لگنے کی رفتار سال کے دیگر مہینوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ فنڈز کی تسلسل کے ساتھ فراہمی بھی کی جائے، اگر صوبائی حکومت کو مرکز کی جانب سے بجلی منافع کی مد میں پندرہ ارب مل جاتے ہیں تو اس سے صوبائی حکومت اپنی ان ترقیاتی سکیموں اور منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے بہتر پوزیشن میں ہوگی جن کو وہ اسی مالی سال کے دوران مکمل کرنا چاہتی ہے کیونکہ پہلے ہی صوبائی حکومت پر ترقیاتی سکیموں کا بہت بوجھ بنا ہوا ہے۔
ان سکیموں کی تکمیل کا دورانیہ چار سے پانچ سال تک پہنچاہوا ہے اور اس صورت حال کی وجہ سے نئی سکیموں کے لیے گنجائش ختم ہوکر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے جاری مالی سال کے لیے بھی حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں بہت کم تعداد میں نئی سکیمیں شامل کی تھیں اور یہی صورت حال آئندہ مالی سال کے حوالے سے بھی نظر آرہی ہے اور حکومت اس صورت حال میں تبدیلی کی خواہاں ہے ۔
یقینی طور پر وزیراعلیٰ محمود خان بھی اپنے پیش روؤں کی طرح سالانہ ترقیاتی پروگرام میں زیادہ سے زیادہ اسکیمیں شامل اورصوبہ کے مختلف اضلاع اورحلقوں کو نوازتے ہوئے اپنی پوزیشن کو بہتر کرنے کے خواہاں ہونگے اور اسی مقصد کے لیے وہ پہلے سے جاری منصوبوں اور سکیموں کے بوجھ میں کمی لانا چاہتے ہیں تاہم اس کا انحصار مرکز کی جانب سے ملنے والے پیسے پر ہے، مرکز ، خیبرپختونخوا کو اس کے حصہ کا پیسہ جتنا زیادہ اور جلدی فراہم کریگا صوبہ ترقیاتی اسکیموں اور منصوبوں کو مقررہ وقت پر مکمل کرنے کے حوالے سے اتنا ہی بہتر پوزیشن میں ہوگا اس لیے انہی خطوط پر کام کرتے ہوئے جاری ترقیاتی منصوبوں کی تعداد میں کمی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
قبائلی اضلاع میں ترقیاتی کاموں اور انتظامی امور میں بہتری لانے کے لیے تو صوبائی حکومت کوشاں ہیں تاہم جہاں تک ان اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کا معاملہ ہے تو اس پر دھند چھائی ہوئی ہے، ایک جانب تو قومی اسمبلی نے چھبیسویں آئینی ترمیم کو منظور کرلیا ہے تو ساتھ ہی یہ ترمیم ابھی سینٹ آف پاکستان سے منظوری کی منتظر ہے جس کے تحت ہی قبائلی اضلاع کے لیے نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہونا ہے اور یہ نشستیں 24 سے بڑھ کر31 ہو جائیں گی جبکہ دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان پہلے سے جاری کردہ شیڈول کے مطابق قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی انتخابات کے لیے عمل جاری رکھے ہوئے ہے جس میں کاغذات نامزدگی جمع اور ان کی جانچ پڑتال کا کام مکمل ہو چکا ہے اور جلد ہی امیدواروں کو انتخابی نشانات بھی الاٹ کر دیئے جائیں گے کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان چھبیسویں آئینی ترمیم کے آئین پاکستان کا حصہ بننے تک نہ تو الیکشن کے لیے پہلے سے جاری شیڈول کو منسوخ کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کے تحت الیکشن کے لیے جاری عمل کو روک سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے مکمل طور پر کنفیوژن موجود ہے۔ اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں اب تک قبائلی اضلاع کے مذکورہ انتخابات کے لیے اپنی انتخابی مہم بھی شروع نہیں کرسکی تھیں تاہم اب وہ متحرک ہوئی ہیں۔
جہاں سب کی نظریں ایک جانب قبائلی اضلاع میں منعقدہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات پر لگی ہوئی ہیں وہیں ان کی نظریں اپوزیشن کی تحریک پر بھی جمی ہوئی ہیں کیونکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کے خلاف عید کے بعد میدان میں نکلنے کی تیاریاں کر رہی ہیں جس کے لیے بلاول بھٹو کی افطاری میں کیے گئے فیصلے کے مطابق مولانا فضل الرحمن عید کے فوراً بعد آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کی مشاورت سے حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنے کے حوالے سے لائحہ عمل بھی وضع کیا جائے گا۔