گھوٹکی کا ’سنجے پوری‘ افطار دسترخوان پر

جو لوگ اس کارِخیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں ان کےلیے لازم ہے کہ وہ یہاں آکر افطار کے وقت کام میں ہاتھ بٹائیں

جو لوگ اس کارِخیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں ان کےلیے لازم ہے کہ وہ یہاں آکر افطار کے وقت کام میں ہاتھ بٹائیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

شہرِ اقتدار وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قدرت پوری طرح مہربان ہے۔ شہر کی خوبصورتی قابلِ دید ہے۔ مارگلہ کے حسین پہاڑوں کے دامن میں واقع جامعہ قائدِاعظم تعلیمی اعتبار سے خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ جامعہ قائداعظم کوٹہ سسٹم نافذ ہونے کی وجہ سے پورے پاکستان میں مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ معیاری تعلیم کی وجہ سے سندھ، پنجاب، خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور بلوچستان سے طلباء یہاں حصولِ تعلیم کےلیے آتے ہیں۔

چند روز قبل ماہِ رمضان المبارک میں جامعہ جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ایک دسترخوان پر بہت سے لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر افطاری کررہے تھے۔ ہمیں بھی دعوت ملی جسے بخوشی قبول کیا گیا۔ دسترخوان کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ افطار کے سارے انتظامات دیگر مذاہب کے طلباء خود سنبھالتے ہیں جن میں ہندو، عیسائی اور سکھ شامل ہیں۔ دسترخوان پر بیٹھتے ہی ایک نوجوان طالب علم نے میرے سامنے افطار کا سامان رکھا۔ سندھ کے علاقے گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے اُس نوجوان کا نام سنجے پوری تھا جو ہندو مذہب کا پیروکار ہے اور جامعہ قائداعظم میں ایل ایل بی کے دوسرے سمسٹر میں زیرِ تعلیم ہے۔



اس نوجوان کا کہنا تھا کہ ہمارا یہ گروپ دس سے زائد لوگوں پر مشتمل ہے جو رمضان المبارک کے مہینے میں اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں، جبکہ اِس عمل سے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے جس کی وجہ سے آج وہ یہاں افطار کے معاملات دیکھ رہے ہیں۔ سنجے کا کہنا تھا کہ یہاں جامعہ قائد اعظم میں ہولی، ایسٹر اور کرسمَس بھی پورے جوش جذبے سے منایا جاتا جس کے سارے معاملات ہمارے مسلمان بھائی سنبھالتے ہیں اور ہماری خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔



قارئین کی اطلاع کےلیے عرض ہے کہ یہ دسترخوان تقریباً گزشتہ تین سال سے چلتا چلا آرہا ہے۔ شعبہ تاریخ کے طالب علم شبیر حسین لُدھڑ نے اس نیک کام کو اپنی مدد آپ کے تحت چند طلباء کے ساتھ مل کر شروع کیا۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں راہگیروں، مزدوروں، ہاسٹل میں مقیم طلباء اور دیگر عملہ (جن میں سیکیورٹی گارڈز اور انتظامیہ کے ارکان شامل ہیں) اِن سب کےلیے افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یکم تا چوبیس رمضان المبارک یونیورسٹی کے احاطے میں موجود کنٹین پر ایک عام دسترخوانِ لگایا جاتا ہے جو تقریباً ساڑھے چار سو لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر افطار اور کھانے کی سہولت مفت فراہم کرتا ہے۔ دسترخوان کے اخراجات یونیورسٹی کی فیکلٹی اور طلباء مل جل کر خود برداشت کرتے ہیں۔


طلباء اپنی مدد آپ کے تحت ماہانہ جیب خرچ میں سے پیسے بچا کر دسترخوان کےلیے جمع کرواتے ہیں اور یوں قطرہ قطرہ دریا کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور پھر رمضان المبارک میں خرچ کیا جاتا ہے۔ شبیر حسین لُڈھر جو اس نیک عمل کے بانی ہیں، بتاتے ہیں کہ دسترخوان کے اخراجات باہمی تعاون سے برداشت کیے جاتے ہیں۔ دسترخوان کا کھانا بہترین طریقے سے بنایا جاتا ہے جس کےلیے ایک عدد باورچی رکھا گیا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جامعہ کے جو لوگ اس کارِ خیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں، اُن کےلیے ضروری ہے کہ وہ یہاں آکر افطار کے وقت کام میں ہاتھ بٹائیں۔ شبیر نے بتایا کہ اس نیک عمل میں چھوٹے بڑے سب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ چاچا ریاض ایک بزرگ شہری ہیں جو یونیورسٹی کے احاطے میں مزدوری کرتے ہیں۔ افطار کے وقت سارے کام چھوڑ کر فلاح کے کاموں میں اِن کا ہاتھ بٹھاتے ہیں جو نوجوان طلباء کےلیے بہترین مثال ہے۔ طلباء اپنی موٹر سائیکلوں پر ڈیوٹی پر مامور سیکیورٹی گارڈز کو افطاری اور کھانا پہنچاتے ہیں جو اپنی ڈیوٹی کی وجہ سے دسترخوان پر تشریف نہیں لاسکتے۔



دسترخوان کے بانی شبیر حسین لدھڑ جو اس وقت ڈائریکٹوریٹ آف اسٹوڈنٹس افیئرز قائداعظم یونیورسٹی میں بطور میڈیا ایڈوائزر تعینات ہیں، اُن کا کہنا تھا کہ عید سے ایک ہفتہ قبل دسترخوان پر آنے والے ضرورت مند سیکیورٹی گارڈز اور دیگر ضرورت مند ملازمین کو عید کےلیے نئے کپڑے بھی مہیا کیے جاتے ہیں۔ یہ تمام معاملات طلباء کے تعاون سے ہی چلتے ہیں۔

افطار کے بعد میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ایسے معاشرے میں جہاں نوجوان نسل، قوم، مذہب اور فکر سے آزاد ہوکر خدمتِ خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، انسانیت کو سب سے بڑا مذہب قرار دیں اور معاشرے کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں، میری نظر میں یہی لوگ معاشرے کو بہتر کرنے میں جامع کردار ادا کرتے ہیں۔ خدمت جہاں بھی ہو اسے ہر ممکن سہولت فراہم کیجیے۔ بالکل اسی طرح جیسے سنجے پوری کرتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story