افطاریاں
پیراشوٹ سے جمپ لگا کر سیاست کی کسی اعلیٰ سیٹ پر جابیٹھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
الفلاح بینک کے منیجرعامر صاحب کا تعلق تو ہندسوں کی دنیا سے ہے مگر ملکی معاملات اور سیاست پر بھی اُن کی نظر بہت گہری اور دردمندانہ ہے، یہ دردمندانہ کا اضافہ میں نے اس لیے کیا کہ سیاست پر بے محابا ''بعض صورتوں میں بے بنیاد اور ذاتی تعصبات پُر تبصرہ تو ہر کوئی اٹھتے بیٹھتے کرتا ہے مگر 98% لوگ ان تبصروں کے دوران یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اصل حقیقت پاکستان ہے، اُس کے سیاست دان نہیں اوریوں سیاستدان تو سب کے اپنے اپنے ہوسکتے ہیں مگر پاکستان ہم سب کا ہے اور ہم سب اس کے ایک ہی جیسے مالک اورخادم ہیں۔
خوش قسمتی سے عامر کا تعلق اُن دو فی صد پاکستانیوں سے ہے جو ہر بات میں پاکستان کی بہتری اور سلامتی کو پیشِ نظر رکھتے ہیں، سو اُن سے گفتگو کا سیشن ہمیشہ دلچسپ اورحوصلہ افزا ہوتا ہے۔
آج باتوں باتوں میں ذکر میرے حالیہ سفری کالموں کے حوالے سے یورپ اور بالخصوص انگلستان کا چل نکلا تو بات اس نقطے پر آکر ٹھہری کہ وہ کیا طریقہ تھا جس کے تحت برطانیہ کے ہاؤس آف کامنزکا کوئی بھی ممبراپنے علاقے کی لوکل باڈی میں پرفارم کیے بغیر آگے جاہی نہیں سکتا اور وہاں ہمارے تقریباً تمام سیاستدانوں کی طرح پیراشوٹ سے جمپ لگا کر سیاست کی کسی اعلیٰ سیٹ پر جابیٹھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
میں نے عرض کیا کہ اس کا اصل جواب ہماری اور اُن کی گزشتہ چار سو برس کی تاریخ میں پوشیدہ ہے انھوں نے اپنے نو آبادیاتی دور میں ہم جیسے بہت سے ملکوں کی دولت جی بھر کے لُوٹی لیکن یہ لوٹی ہوئی اُن کے حاکم طبقوں کی جیبوں میں جانے کے بجائے اُن کے معاشروں اور عوام کی بہتری اور تربیت میں خرچ ہوئی اور یوں سو فی صد تعلیم اور سوشل سیکیورٹی کے مضبوط نظام کی وجہ سے انھوں نے اپنے عوام کو ''جمہور'' کی ایک ایسی شکل میں ڈھال دیا جہاں وہ صرف گنتی کے عدد نہیں رہے بلکہ ان کا ہر فردمِلت کے مقدر کا ستارہ بن گیا اور یوں علامہ صاحب کی ایک خاص وقت میں ''جمہوریت'' پر کی گئی تنقیدکے باوجود اُن کے معاشروں میں ''فرد'' کا ووٹ ایک ایسے نظام کا حصہ بن گیا جس میں شخصیت ، کارکردگی اور وژن تینوں ہی برابر کے حصے دار تھے یعنی اُن کی گنتی اور وزن دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ بن گئے ۔علامہ صاحب نے کہا تھا
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے!
جمہوریت کی اس مارا ماری کا جو اثر ہمارے معاشروں میں ہے خود اُن کے معاشرے اس سے ایک بہت مختلف اور بہتر سطح پر اس نظام کے ساتھ چل رہے تھے جب کہ دوسری طرف تیسری دنیا کے مفتوح اورغلام ممالک میں جس جمہوریت کا درس دیا جارہا تھا اُس کے اندرونی تضادات کی ایک جھلک اس بات میں دیکھی جاسکتی ہے کہ ایک طرف انگریز ہم سب کو جمہوریت کی برکات ، مساوات، اضافی حقوق اور معاشرتی انصاف کا درس دے رہا تھا اور دوسری طرف لاہورمیں چیفس کالج کے نام سے ایک ایسا مخصوص مفادات کا حامل تعلیمی ادارہ بھی کام کر رہا تھا جو بنایا ہی امیر، غلامانہ ذہنیت کے حامل جاگیرداروں اور ایک مخصوص کلاس کے بچوں کے لیے تھا جب کہ دوسری طرف ایک ایسی جہالت ، غربت اور ذہنی غلامی کا دور دورہ تھا کہ اسمبلیوں تک ان کے کسی فرد کی رسائی سرے سے ممکن ہی نہیں تھی بدقسمتی سے جمہوریت کا یہی رُوپ نہ صرف ہمیں ورثے میں ملا بلکہ آج تک ہم اس کو معمولی سے فرق کے ساتھ سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ صورتِ حال پیدا ہوئی کہ انور مسعود کو علامہ صاحب کے اس شعر کے دوسرے مصرعے کو اس طرح سے تبدیل کرنا پڑا کہ
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں انسان وغیرہ
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اس ہارس ٹریڈنگ اور خاندانی اور طبقاتی پیراشوٹس کے ذریعے چھلانگ مار کر قیادت کی کرسیوں پر براجمان ان ایک ہی ہتھیلی کے چٹے بٹوں سے اوپر اُٹھ کر اس ملک کو کوئی ایسا نظام دینا ہوگا جس میں قیادت کے لیے بنیادی سطح پر انسانی خدمت کا کامیاب اور مسلسل تجربہ ضروری ہو اور کوئی بھی شخص اس کے بغیر ملکی سطح کی سیاست میں حصہ لینے کا اہل بھی نہ ہو سکے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم ٹی وی چینلز کے سیاسی پروگراموں کی سطح سے اُوپر اٹھ کر پاکستان کی سلامتی اور ترقی کو اپنی پہلی اور آخری منزل کا نہ صرف درجہ دیں بلکہ اس رستے کو کاٹنے والی ہر بلی کو بوری میں بند کرکے کسی ایسے علاقے میں نہ چھوڑ دیں جہاں سے اُس کے لیے واپسی کا رستہ ہی موجود نہ ہو ۔رمضان کا آخری عشرہ چل رہا ہے جسے دعاؤں کی قبولیت کے حوالے سے ایک خاص درجہ بھی حاصل ہے سو اس دُعا کے ساتھ کہ ہم صبح شام مایوسی کا پرچار کرنے کے بجائے اُمید ، ارادہ ، عمل اور وسعتِ قلب سے صرف اور صرف پاکستان کے حوالے سے مل کر چلنا سیکھیں۔ ایک نعت کے چند اشعار۔
یُوں لائقِ نگاہِ کرم ہم نہیں رہے
وابستہ تم سے شاہِ اُمم ہم نہیں رہے
تم نے کہا تھا مل کے ہی رہنے میں خیر ہے
آخر کو رُل گئے جوبہم ہم نہیں رہے
ایک ایک کرکے غم کی بلا سب کو کھاگئی
اک دُوجے کے جو شاملِ غم ہم نہیں رہے
ہر دل میں ہیں سجے ہوئے غرضوں کے بت کدے
کہنے کو پیروانِ صنم ہم نہیں رہے
مایوس اپنے رب سے کسی حال میں کبھی
امجدؔ ہمیں خدا کی قسم! ہم نہیں رہے!
خوش قسمتی سے عامر کا تعلق اُن دو فی صد پاکستانیوں سے ہے جو ہر بات میں پاکستان کی بہتری اور سلامتی کو پیشِ نظر رکھتے ہیں، سو اُن سے گفتگو کا سیشن ہمیشہ دلچسپ اورحوصلہ افزا ہوتا ہے۔
آج باتوں باتوں میں ذکر میرے حالیہ سفری کالموں کے حوالے سے یورپ اور بالخصوص انگلستان کا چل نکلا تو بات اس نقطے پر آکر ٹھہری کہ وہ کیا طریقہ تھا جس کے تحت برطانیہ کے ہاؤس آف کامنزکا کوئی بھی ممبراپنے علاقے کی لوکل باڈی میں پرفارم کیے بغیر آگے جاہی نہیں سکتا اور وہاں ہمارے تقریباً تمام سیاستدانوں کی طرح پیراشوٹ سے جمپ لگا کر سیاست کی کسی اعلیٰ سیٹ پر جابیٹھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
میں نے عرض کیا کہ اس کا اصل جواب ہماری اور اُن کی گزشتہ چار سو برس کی تاریخ میں پوشیدہ ہے انھوں نے اپنے نو آبادیاتی دور میں ہم جیسے بہت سے ملکوں کی دولت جی بھر کے لُوٹی لیکن یہ لوٹی ہوئی اُن کے حاکم طبقوں کی جیبوں میں جانے کے بجائے اُن کے معاشروں اور عوام کی بہتری اور تربیت میں خرچ ہوئی اور یوں سو فی صد تعلیم اور سوشل سیکیورٹی کے مضبوط نظام کی وجہ سے انھوں نے اپنے عوام کو ''جمہور'' کی ایک ایسی شکل میں ڈھال دیا جہاں وہ صرف گنتی کے عدد نہیں رہے بلکہ ان کا ہر فردمِلت کے مقدر کا ستارہ بن گیا اور یوں علامہ صاحب کی ایک خاص وقت میں ''جمہوریت'' پر کی گئی تنقیدکے باوجود اُن کے معاشروں میں ''فرد'' کا ووٹ ایک ایسے نظام کا حصہ بن گیا جس میں شخصیت ، کارکردگی اور وژن تینوں ہی برابر کے حصے دار تھے یعنی اُن کی گنتی اور وزن دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ بن گئے ۔علامہ صاحب نے کہا تھا
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے!
جمہوریت کی اس مارا ماری کا جو اثر ہمارے معاشروں میں ہے خود اُن کے معاشرے اس سے ایک بہت مختلف اور بہتر سطح پر اس نظام کے ساتھ چل رہے تھے جب کہ دوسری طرف تیسری دنیا کے مفتوح اورغلام ممالک میں جس جمہوریت کا درس دیا جارہا تھا اُس کے اندرونی تضادات کی ایک جھلک اس بات میں دیکھی جاسکتی ہے کہ ایک طرف انگریز ہم سب کو جمہوریت کی برکات ، مساوات، اضافی حقوق اور معاشرتی انصاف کا درس دے رہا تھا اور دوسری طرف لاہورمیں چیفس کالج کے نام سے ایک ایسا مخصوص مفادات کا حامل تعلیمی ادارہ بھی کام کر رہا تھا جو بنایا ہی امیر، غلامانہ ذہنیت کے حامل جاگیرداروں اور ایک مخصوص کلاس کے بچوں کے لیے تھا جب کہ دوسری طرف ایک ایسی جہالت ، غربت اور ذہنی غلامی کا دور دورہ تھا کہ اسمبلیوں تک ان کے کسی فرد کی رسائی سرے سے ممکن ہی نہیں تھی بدقسمتی سے جمہوریت کا یہی رُوپ نہ صرف ہمیں ورثے میں ملا بلکہ آج تک ہم اس کو معمولی سے فرق کے ساتھ سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ صورتِ حال پیدا ہوئی کہ انور مسعود کو علامہ صاحب کے اس شعر کے دوسرے مصرعے کو اس طرح سے تبدیل کرنا پڑا کہ
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں انسان وغیرہ
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اس ہارس ٹریڈنگ اور خاندانی اور طبقاتی پیراشوٹس کے ذریعے چھلانگ مار کر قیادت کی کرسیوں پر براجمان ان ایک ہی ہتھیلی کے چٹے بٹوں سے اوپر اُٹھ کر اس ملک کو کوئی ایسا نظام دینا ہوگا جس میں قیادت کے لیے بنیادی سطح پر انسانی خدمت کا کامیاب اور مسلسل تجربہ ضروری ہو اور کوئی بھی شخص اس کے بغیر ملکی سطح کی سیاست میں حصہ لینے کا اہل بھی نہ ہو سکے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم ٹی وی چینلز کے سیاسی پروگراموں کی سطح سے اُوپر اٹھ کر پاکستان کی سلامتی اور ترقی کو اپنی پہلی اور آخری منزل کا نہ صرف درجہ دیں بلکہ اس رستے کو کاٹنے والی ہر بلی کو بوری میں بند کرکے کسی ایسے علاقے میں نہ چھوڑ دیں جہاں سے اُس کے لیے واپسی کا رستہ ہی موجود نہ ہو ۔رمضان کا آخری عشرہ چل رہا ہے جسے دعاؤں کی قبولیت کے حوالے سے ایک خاص درجہ بھی حاصل ہے سو اس دُعا کے ساتھ کہ ہم صبح شام مایوسی کا پرچار کرنے کے بجائے اُمید ، ارادہ ، عمل اور وسعتِ قلب سے صرف اور صرف پاکستان کے حوالے سے مل کر چلنا سیکھیں۔ ایک نعت کے چند اشعار۔
یُوں لائقِ نگاہِ کرم ہم نہیں رہے
وابستہ تم سے شاہِ اُمم ہم نہیں رہے
تم نے کہا تھا مل کے ہی رہنے میں خیر ہے
آخر کو رُل گئے جوبہم ہم نہیں رہے
ایک ایک کرکے غم کی بلا سب کو کھاگئی
اک دُوجے کے جو شاملِ غم ہم نہیں رہے
ہر دل میں ہیں سجے ہوئے غرضوں کے بت کدے
کہنے کو پیروانِ صنم ہم نہیں رہے
مایوس اپنے رب سے کسی حال میں کبھی
امجدؔ ہمیں خدا کی قسم! ہم نہیں رہے!