کراچی بدامنی کیس لیاری سومنات کا مندر نہیں جو فتح نہ ہوسکے چیف جسٹس
آئی جی سندھ اور چیف سیکریٹری کی امن او امان سے متعلق رپورٹ پرچیف جسٹس کا عدم اطمینان کا اظہار
کراچی بد امنی کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے آئی جی سندھ اور چیف سیکریٹری کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیاری سومنات کا مندر نہیں جو فتح نہ ہوسکے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر آئی جی اور چیف سیکریٹری سندھ نے اپنی رپورٹس الگ الگ پیش کیں جس پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کردیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے چیف سیکریٹری کو مخاطب کرکے کہا کہ انہیں رپورٹ ی انگریزی پر دس میں سے دس نمبر دئے جاتے ہیں لیکن اگر صورت حال وہی ہے جو اس رپورٹ میں لکھی گئی ہے تو پھر کراچی میں آج کے بعد کوئی قتل نہیں ہونا چاہئے۔ پولیس اور رینجرز ماضی میں شہر میں نو گو ایریازکی موجودگی سے انکاری تھے اب وہ اس کی تصدیق کررہے ہیں۔ کراچی بدامنی کیس کا فیصلہ سنائے دو برس ہوگئے ہیں لیکن معاملات وہیں کے وہیں ہیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد 2سال سے شہر میں ناحق خون بہتا رہاجس کی ذمہ دار صوبائی اور وفاقی حکومتیں ہیں، 60سے70 فیصد ریونیو کراچی سے آتا ہے اور پورے ملک کو نوالے دیتا ہے لیکن چیف سیکریٹری نے امن وامان سے متعلق وفاق کو ایک خط بھی نہیں لکھا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ کنٹینرمیں اسلحہ، شراب اور دیگر ممنوعہ اشیاء لائی جارہی ہیں۔ نیٹو کنٹینرز افغانستان نہیں پہنچتے بلکہ راستے میں ہی غائب ہوجاتے ہیں، کراچی بلوچستان اور دیگرعلاقوں میں یہی اسلحہ استعمال ہورہاہے،بلوچستان میں پکڑے جانے والے اسلحہ کا تعلق بھی کراچی سے ملا ہے،اسلحہ پورٹ سے کسی کے نام پرنکلتا ہے اور راستے میں کنٹینر کی سیل ٹوٹ جاتی ہے اور اسلحہ غائب ہوجاتاہے، اس معاملے کا اب نوٹس کیوں نہیں لیا گیا، کسٹم حکام نے کبھی کسی گاڑی کو پکڑا ہے؟ ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کراچی پورٹ پر 19ہزار کنٹینر غائب ہوئے ، یہ 19 ہزار کنٹینر افغانستان نہیں پہنچے اور ان کنٹینرز میں موجود جدید ہتھیار کراچی، بلوچستان اور دیگر شہروں میں استعمال ہورہا ہے۔
پولیس کی جانب پیش کردہ رپورٹ پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے سی پی ایل سی بارے میں استفسار کیا کہ یہ کون سا ادارہ ہے ، کس کے ماتحت ہے ، اس کا سربراہ کون ہے اور اس کے معاملات کیسے چلائے جاتے ہیں ہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ یہ اغوا برائے تاوان کے معاملات دیکھتا ہے،اس کے سربراہ احمد چنائےہیں اور یہ براہ راست گورنر سندھ کے ماتحت ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے کہ محکمہ پولیس اہل نہیں ہے۔ گورنر ہاؤس یا وزیراعلی ٰہاؤس سے چلائی جانےوالی باڈی پر سوالات اٹھتے ہیں، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا بینچ کراچی آتا ہے تو ہلچل مچ جاتی ہے۔ یہ کونسا طریقہ ہے کہ سپریم کورٹ کا بنچ کراچی آیا تو سیاست شروع ہوگئی،اگر انہیں گر کریڈٹ لینا ہے توذمہ داریاں ادا کریں۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے بھی وفاق کی جانب سے رپورٹ پیش کی جسے ان کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان نے خفیہ قراردے دیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اور صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے، 18ویں آئینی ترمیم کے بعد وفاق کا رویہ محتاط ہے، کراچی کے مسئلےپر آیندہ ہفتے وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیاہے، انہوں نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو جو مسائل ہیں وہ وفاق کو لکھ کر دے دیں،جلد ہی ان کے مسائل کے حل کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔
سماعت کے دوران ڈی آئی جی کراچی جنوبی امیر شیخ سے عدالت عظمیٰ نے موجودہ صورتحال پر کارروائی استفسار کیا تو انہوں نے بینچ کے سامنے خود کو مکمل طور پر لاچار قرار دے دیا، انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں وہ کوئی نتیجہ نہیں دے سکتے۔ سنی تحریک، کچھی ، بلوچ، متحدہ کے لڑکے پکڑتے ہیں تومسلح افراد شہر جلانے لگتے ہیں، لیاری میں جرائم پیشہ افراد کے پیچھے جاتے ہیں تو بلوچ خواتین اور بچے سامنے آجاتے ہیں۔ کوئی بھی پولیس افسر اگر اصولوں پر کام کرے تو اس کا تبادلہ کردیا جاتا ہے،1992 کے آپریشن میں حصہ لینے والے تمام پولیس افسر اور اہلکار قتل کردیئے گئے، پولیس افسران اور اہل کار خوف زدہ ہیں، پولیس کو جرائم کے خاتمے کے لئے مدد چاہئے، تبادلے اور تقرریاں میرٹ پر ہونی چاہئیں، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ آپ سمیت کسی پولیس افسر نے سپریم کورٹ کو کوئی لیٹر نہیں لکھا، کسی پولیس افسر نےنہیں لکھا کہ اسے کام کرنے کی بنیاد پر ہٹایا گیا،جواب میں امیر شیخ نے کہا کہ عدالت ان کے تبادلوں کا ریکارڈ دیکھ لے، کہیں 2ماہ اور کہیں 4ماہ کام کرنے دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس افسران حوصلہ دکھائیں اور بہادری سے کام کریں، اگر کوئی رکاوٹ ڈالے یا ہٹائے تو عدالت کو بتائیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ ہربات پرسمجھوتاکریں گے تو حالات پر کیسے قابو پائیں گے، کام مشکل ہے لیکن کرلیں۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ کراچی میں استعمال ہونے والا اسلحہ جدید ہے یہ درے میں نہیں بنتا، انہوں نے کہا کہ ایک پورا بحری جہاز آیا،کنٹینر شہر میں آئے،کھلے اور اسلحہ غائب ہوا، غائب ہونے والا اسلحہ آج بھی شہر کے مختلف علاقوں کے تہہ خانوں میں ہوسکتا ہے کیونکہ شادی بیاہ اور دیگر تقاریب میں جو اسلحہ عام لوگوں کے پاس نکلتا ہے وہ بہت جدید ہے۔ عدالت کی طلبی پر چیف کسٹم کلکٹر محمد یحیٰی بھی بینچ کے رو برو پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ اسلحہ اور گولیاں پورٹ سے نکلتا ہے کچھ بلوچستان جاتا ہے باقی یہیں رہ جاتا ہے، ایک پاکستانی کی حیثیت سے وہ کیسے اسمگل شدہ اسلحہ، اور منشیات آنے دے سکتے ہیں، آئی ایس آئی،ایم آئی اور آئی بی سمیت تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہر میں اسلحہ آنے سے روکیں، کسٹم حکام کنٹینر میں آنے والے سامان کی کس طرح مانیٹرنگ کرتے ہیں جس ہر چیف کسٹم کلکٹر محمد یحیٰی نے کہا کہ افغانستان جانے والے ہر کنٹینر کو کسٹم اور آرمی چیک کرتے ہیں، ان کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا ایساف اسکینڈل کے بعد ایسا ہورہا ہے، 1900کلومیٹرزمینی اور 1200 کلومیٹر سممندری حدود کی حفاظت کے لئےان کے پاس نفری انتہائی کم ہے، بلوچستان اور سندھ کے لئے کسٹمز کے پاس صرف 1700 اہلکار ہیں، ایسی صورت میں سرحد کی مکمل طور پر نگرانی نہیں ہوسکتی، ،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جولائی اور اگست میں کتنا ریونیو بندرگاہ سے حاصل کیا گیا جس پر کسٹم کلکٹر ناصر مسعود نے بتایا کہ جولائی کے مہینے میں10 ارب روپے کا ریونیو حاصل کیا گیا، ناصر مسعود کے جواب میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک کمیشن بنادیتے ہیں سب سامنے آجائے گا کہ کتنے بڑے پیمانے پر ڈیوٹی ادا کیے بغیر مال نکلتا ہے۔ نیٹو فورسز اور افغان ٹرانزٹ کے لئے جانے والے کنٹینرز میں موجود اشیا کی فہرست فراہم کریں، ہم جاننا چاہتے ہیں غیرملکی جدید اسلحہ کراچی اور بلوچستان کیسے پہنچتا ہے۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی ۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر آئی جی اور چیف سیکریٹری سندھ نے اپنی رپورٹس الگ الگ پیش کیں جس پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کردیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے چیف سیکریٹری کو مخاطب کرکے کہا کہ انہیں رپورٹ ی انگریزی پر دس میں سے دس نمبر دئے جاتے ہیں لیکن اگر صورت حال وہی ہے جو اس رپورٹ میں لکھی گئی ہے تو پھر کراچی میں آج کے بعد کوئی قتل نہیں ہونا چاہئے۔ پولیس اور رینجرز ماضی میں شہر میں نو گو ایریازکی موجودگی سے انکاری تھے اب وہ اس کی تصدیق کررہے ہیں۔ کراچی بدامنی کیس کا فیصلہ سنائے دو برس ہوگئے ہیں لیکن معاملات وہیں کے وہیں ہیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد 2سال سے شہر میں ناحق خون بہتا رہاجس کی ذمہ دار صوبائی اور وفاقی حکومتیں ہیں، 60سے70 فیصد ریونیو کراچی سے آتا ہے اور پورے ملک کو نوالے دیتا ہے لیکن چیف سیکریٹری نے امن وامان سے متعلق وفاق کو ایک خط بھی نہیں لکھا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ کنٹینرمیں اسلحہ، شراب اور دیگر ممنوعہ اشیاء لائی جارہی ہیں۔ نیٹو کنٹینرز افغانستان نہیں پہنچتے بلکہ راستے میں ہی غائب ہوجاتے ہیں، کراچی بلوچستان اور دیگرعلاقوں میں یہی اسلحہ استعمال ہورہاہے،بلوچستان میں پکڑے جانے والے اسلحہ کا تعلق بھی کراچی سے ملا ہے،اسلحہ پورٹ سے کسی کے نام پرنکلتا ہے اور راستے میں کنٹینر کی سیل ٹوٹ جاتی ہے اور اسلحہ غائب ہوجاتاہے، اس معاملے کا اب نوٹس کیوں نہیں لیا گیا، کسٹم حکام نے کبھی کسی گاڑی کو پکڑا ہے؟ ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کراچی پورٹ پر 19ہزار کنٹینر غائب ہوئے ، یہ 19 ہزار کنٹینر افغانستان نہیں پہنچے اور ان کنٹینرز میں موجود جدید ہتھیار کراچی، بلوچستان اور دیگر شہروں میں استعمال ہورہا ہے۔
پولیس کی جانب پیش کردہ رپورٹ پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے سی پی ایل سی بارے میں استفسار کیا کہ یہ کون سا ادارہ ہے ، کس کے ماتحت ہے ، اس کا سربراہ کون ہے اور اس کے معاملات کیسے چلائے جاتے ہیں ہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ یہ اغوا برائے تاوان کے معاملات دیکھتا ہے،اس کے سربراہ احمد چنائےہیں اور یہ براہ راست گورنر سندھ کے ماتحت ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے کہ محکمہ پولیس اہل نہیں ہے۔ گورنر ہاؤس یا وزیراعلی ٰہاؤس سے چلائی جانےوالی باڈی پر سوالات اٹھتے ہیں، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا بینچ کراچی آتا ہے تو ہلچل مچ جاتی ہے۔ یہ کونسا طریقہ ہے کہ سپریم کورٹ کا بنچ کراچی آیا تو سیاست شروع ہوگئی،اگر انہیں گر کریڈٹ لینا ہے توذمہ داریاں ادا کریں۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے بھی وفاق کی جانب سے رپورٹ پیش کی جسے ان کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان نے خفیہ قراردے دیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اور صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے، 18ویں آئینی ترمیم کے بعد وفاق کا رویہ محتاط ہے، کراچی کے مسئلےپر آیندہ ہفتے وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیاہے، انہوں نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو جو مسائل ہیں وہ وفاق کو لکھ کر دے دیں،جلد ہی ان کے مسائل کے حل کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔
سماعت کے دوران ڈی آئی جی کراچی جنوبی امیر شیخ سے عدالت عظمیٰ نے موجودہ صورتحال پر کارروائی استفسار کیا تو انہوں نے بینچ کے سامنے خود کو مکمل طور پر لاچار قرار دے دیا، انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں وہ کوئی نتیجہ نہیں دے سکتے۔ سنی تحریک، کچھی ، بلوچ، متحدہ کے لڑکے پکڑتے ہیں تومسلح افراد شہر جلانے لگتے ہیں، لیاری میں جرائم پیشہ افراد کے پیچھے جاتے ہیں تو بلوچ خواتین اور بچے سامنے آجاتے ہیں۔ کوئی بھی پولیس افسر اگر اصولوں پر کام کرے تو اس کا تبادلہ کردیا جاتا ہے،1992 کے آپریشن میں حصہ لینے والے تمام پولیس افسر اور اہلکار قتل کردیئے گئے، پولیس افسران اور اہل کار خوف زدہ ہیں، پولیس کو جرائم کے خاتمے کے لئے مدد چاہئے، تبادلے اور تقرریاں میرٹ پر ہونی چاہئیں، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ آپ سمیت کسی پولیس افسر نے سپریم کورٹ کو کوئی لیٹر نہیں لکھا، کسی پولیس افسر نےنہیں لکھا کہ اسے کام کرنے کی بنیاد پر ہٹایا گیا،جواب میں امیر شیخ نے کہا کہ عدالت ان کے تبادلوں کا ریکارڈ دیکھ لے، کہیں 2ماہ اور کہیں 4ماہ کام کرنے دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس افسران حوصلہ دکھائیں اور بہادری سے کام کریں، اگر کوئی رکاوٹ ڈالے یا ہٹائے تو عدالت کو بتائیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ ہربات پرسمجھوتاکریں گے تو حالات پر کیسے قابو پائیں گے، کام مشکل ہے لیکن کرلیں۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ کراچی میں استعمال ہونے والا اسلحہ جدید ہے یہ درے میں نہیں بنتا، انہوں نے کہا کہ ایک پورا بحری جہاز آیا،کنٹینر شہر میں آئے،کھلے اور اسلحہ غائب ہوا، غائب ہونے والا اسلحہ آج بھی شہر کے مختلف علاقوں کے تہہ خانوں میں ہوسکتا ہے کیونکہ شادی بیاہ اور دیگر تقاریب میں جو اسلحہ عام لوگوں کے پاس نکلتا ہے وہ بہت جدید ہے۔ عدالت کی طلبی پر چیف کسٹم کلکٹر محمد یحیٰی بھی بینچ کے رو برو پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ اسلحہ اور گولیاں پورٹ سے نکلتا ہے کچھ بلوچستان جاتا ہے باقی یہیں رہ جاتا ہے، ایک پاکستانی کی حیثیت سے وہ کیسے اسمگل شدہ اسلحہ، اور منشیات آنے دے سکتے ہیں، آئی ایس آئی،ایم آئی اور آئی بی سمیت تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہر میں اسلحہ آنے سے روکیں، کسٹم حکام کنٹینر میں آنے والے سامان کی کس طرح مانیٹرنگ کرتے ہیں جس ہر چیف کسٹم کلکٹر محمد یحیٰی نے کہا کہ افغانستان جانے والے ہر کنٹینر کو کسٹم اور آرمی چیک کرتے ہیں، ان کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا ایساف اسکینڈل کے بعد ایسا ہورہا ہے، 1900کلومیٹرزمینی اور 1200 کلومیٹر سممندری حدود کی حفاظت کے لئےان کے پاس نفری انتہائی کم ہے، بلوچستان اور سندھ کے لئے کسٹمز کے پاس صرف 1700 اہلکار ہیں، ایسی صورت میں سرحد کی مکمل طور پر نگرانی نہیں ہوسکتی، ،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جولائی اور اگست میں کتنا ریونیو بندرگاہ سے حاصل کیا گیا جس پر کسٹم کلکٹر ناصر مسعود نے بتایا کہ جولائی کے مہینے میں10 ارب روپے کا ریونیو حاصل کیا گیا، ناصر مسعود کے جواب میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک کمیشن بنادیتے ہیں سب سامنے آجائے گا کہ کتنے بڑے پیمانے پر ڈیوٹی ادا کیے بغیر مال نکلتا ہے۔ نیٹو فورسز اور افغان ٹرانزٹ کے لئے جانے والے کنٹینرز میں موجود اشیا کی فہرست فراہم کریں، ہم جاننا چاہتے ہیں غیرملکی جدید اسلحہ کراچی اور بلوچستان کیسے پہنچتا ہے۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی ۔