فیس بک کی انسانی مزاج پڑھنے والے روبوٹ بنانے میں دلچسپی
ایک پیٹنٹ درخواست میں انسانی قد کے برابر روبوٹ لوگوں کے چہرے پڑھ کر انہیں دور موجود لوگوں کا دوست بنانے میں مدد دے گا
UNITED NATIONS:
سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک نے ایک روبوٹ کا حقِ ملکیت (پیٹنٹ) فائل کیا ہے جس کے تحت انسانی قد کے برابر روبوٹ سڑکوں پر چل کر لوگوں کے چہرے کےتاثرات نوٹ کرے گا اور دور بیٹھے لوگوں کی باہمی دوستی کرانے میں مدد دے گا۔
روبوٹ پر جدید ترین سینسر، کیمرے اور اسکرین بھی نصب ہوں گے اور وہ لوگوں سے بات بھی کرے گا ۔ اس روبوٹ کے ذریعے ہزاروں میل دور بیٹھے دو افراد ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے اور بات چیت کرکے ایک دوسرے کو دوست بناسکیں گے۔
اس ضمن میں 16 مئی 2019 کو فیس بک نے روبوٹ کی پیٹنٹ درخواست دی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ فیس بک اسے عملی جامہ بھی پہنائے گا۔ روبوٹ کی خاص بات یہ ہے کہ وہ دیکھے جانے والے لوگوں کے احساسات، تاثرات اور جسمانی حرکات و سکنات (باڈی لینگویج) کو نوٹ کرنے گا اور ان کی آواز بھی سنے گا۔ اس روبوٹ کے ذریعے دور بیٹھے لوگ کسی بھی شخص کو صدا لگا کر اس سے بات بھی کرسکیں گے۔
اگراسے فیس بک پلیٹ فارم میں شامل کردیا جائے تو ایک طرح سے روبوٹ اصل انسانوں کے قائم مقام بن کر دو لوگوں کے درمیان تبادلہ خیال کی وجہ بھی بنیں گے اور شاید دوسری جانب بیٹھے شخص کی شکل روبوٹ کے مرکزی اسکرین پر بھی دیکھی جاسکے گی۔
توقع ہے کہ پہلے روبوٹ مخصوص جگہوں پر نصب کئے جائیں گے مثلاً نیویارک کے ٹائم اسکوائر یا لندن میں ٹریفلگر اسکوائرپر جہاں لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہیں اور روبوٹ کسی پہیے یا ٹریک پر آگے بڑھیں گے اور ان میں جی پی ایس نظام نصب ہوگا۔
سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک نے ایک روبوٹ کا حقِ ملکیت (پیٹنٹ) فائل کیا ہے جس کے تحت انسانی قد کے برابر روبوٹ سڑکوں پر چل کر لوگوں کے چہرے کےتاثرات نوٹ کرے گا اور دور بیٹھے لوگوں کی باہمی دوستی کرانے میں مدد دے گا۔
روبوٹ پر جدید ترین سینسر، کیمرے اور اسکرین بھی نصب ہوں گے اور وہ لوگوں سے بات بھی کرے گا ۔ اس روبوٹ کے ذریعے ہزاروں میل دور بیٹھے دو افراد ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے اور بات چیت کرکے ایک دوسرے کو دوست بناسکیں گے۔
اس ضمن میں 16 مئی 2019 کو فیس بک نے روبوٹ کی پیٹنٹ درخواست دی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ فیس بک اسے عملی جامہ بھی پہنائے گا۔ روبوٹ کی خاص بات یہ ہے کہ وہ دیکھے جانے والے لوگوں کے احساسات، تاثرات اور جسمانی حرکات و سکنات (باڈی لینگویج) کو نوٹ کرنے گا اور ان کی آواز بھی سنے گا۔ اس روبوٹ کے ذریعے دور بیٹھے لوگ کسی بھی شخص کو صدا لگا کر اس سے بات بھی کرسکیں گے۔
اگراسے فیس بک پلیٹ فارم میں شامل کردیا جائے تو ایک طرح سے روبوٹ اصل انسانوں کے قائم مقام بن کر دو لوگوں کے درمیان تبادلہ خیال کی وجہ بھی بنیں گے اور شاید دوسری جانب بیٹھے شخص کی شکل روبوٹ کے مرکزی اسکرین پر بھی دیکھی جاسکے گی۔
توقع ہے کہ پہلے روبوٹ مخصوص جگہوں پر نصب کئے جائیں گے مثلاً نیویارک کے ٹائم اسکوائر یا لندن میں ٹریفلگر اسکوائرپر جہاں لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہیں اور روبوٹ کسی پہیے یا ٹریک پر آگے بڑھیں گے اور ان میں جی پی ایس نظام نصب ہوگا۔