ہندوتوا کی جیت
کانگریس جو ہندو روشن خیالی کی علامت سمجھی جاتی ہے ، بری طرح نا کام ہوگئی ہے۔
بالآخر بھارتی لوک سبھا کے نتائج آگئے ۔ لوک سبھا کی 542 نشستوں میں سے مودی اور ان کے اتحاد نے 350 نشستیں حاصل کیں۔کانگریس الائنس کو 85 اور دیگر جماعتوں کو سو سے زائد نشستیں حاصل ہوئیں ۔ مودی اتحاد 350 میں سے مودی صاحب کی پارٹی جنتا پارٹی کو 300 سے زائد نشستیں حاصل ہوئیں،گویا وہ حکومت بنانے کے لیے اپنے اتحادیوں کے بھی محتاج نہیں ہیں، مروتاً وہ ان کو چند وزارتیں دے کر خوش رکھ سکتے ہیں۔
کانگریس جو ہندو روشن خیالی کی علامت سمجھی جاتی ہے ، بری طرح نا کام ہوگئی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں سے مودی جی کے طرز حکمرانی میں ہندو توا اور ہندو انتہا پسندی کا جو چلن رہا ، اس بار بھارتی ووٹر نے اس رویے پر مہر تصدیق ثبت کردی اور ثابت کیا کہ ہندو قوم کا مجموعی ضمیر وہی کچھ ہے جو مودی صاحب کا ہے۔
ہندوستان میں کانگریس حکمران رہے یا مودی صاحب کی انتہا پسند جماعت یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے اور وہاں کے عوام نے اپنے اجتماعی احساس کو عملی شکل دے دی ہے اور مودی صاحب کی پالیسیوں پر مہر ثبت کردی ہے۔
لیکن ہمارے لیے جو سوچنے کی بات ہے وہ یہ ہے کہ ہم باآسانی کہہ دیتے ہیں کہ بھارت میں مودی کو جتوانے میں امریکا اور اسرائیل کا ہاتھ رہا ہے۔ یہ بات کسی حد تک نہیں بڑی حد تک قابل اعتبار ہے مگر معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایک ہندو مملکت ہے جب کہ دنیا بھر میں کئی درجن مسلم ممالک ہیں۔ امریکا اور اسرائیل کا بھارت کی حمایت کرنا منطقی بھی ہے اور فطری بھی اور اس کا فیصلہ پندرہ سو سال قبل ہوچکا تھا جب پیغمبر اسلامؐ نے واضح کردیا تھا کہ طاغوت اور اسلام ایک ساتھ نہیں چل سکتے اس لیے بھارت کا گٹھ جوڑ امریکا سے بھی ممکن ہے۔ اسرائیل سے بھی اور دیگر مشرکانہ و ملحدانہ فلسفہ کے حامل ممالک سے بھی ممکن ہے مگر دوستی نہیں ہوسکتی تو پاکستان سے۔
گزشتہ پچاس سالوں سے ہم امریکا کی دوستی کا دم بھرتے رہے ہیں، مگر اس کا نتیجہ کیا ہوا۔ محض منافقانہ سیاسی ہمدردیاں، امداد کے پردے میں طوق غلامی اور وقت پڑنے پر دغا دینے کے علاوہ ہمیں امریکا سے کچھ نہ مل سکا۔
ہماری حماقت اپنی جگہ اور اب ہمیں کچھ کچھ عقل آتی جا رہی ہے۔ اس لیے ہم مقابلتاً بہتر قابل اعتماد دوستوں کی طرف جھک رہے ہیں مگر ہم میں یہ سکت نہیں کہ امریکا سے بے نیاز رہ سکیں لیکن یہ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جب کوئی فیصلہ کن تنازعہ آئے گا تو امریکا کا پلہ بھارت کی طرف جھکے گا۔
اب ہم مسلم ممالک کی طرف دیکھیں تو ایک سے ایک کمزور نظر آتا ہے ایک وقت میں جب حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیر اعظم ہوئے تو کسی صحافی نے ان سے کہا آپ مسلم ممالک کا اتحاد کیوں قائم نہیں کرتے۔ انھوں نے برجستہ فرمایا ''جی ہاں مجھے معلوم ہے 0=0+0
لیکن یہ بات اس وقت اس لیے درست لگتی تھی کہ صورتحال وہی تھی اور ابھی بھی کم و بیش وہی ہے۔ لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ کسی مسلم ملک کی جارحانہ پالیسی میں اسلام زیر بحث ہی نہیں ہے۔ پاکستان ہر مسلم ملک میں جب اپنے وزرا کو دورے پر بھیجتا ہے تو یہ خبر ضرور آتی ہے کہ برادر اسلامی ملک میں وزیر اعظم یا وزیر خارجہ کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا گیا مگر تجارتی اور معاشی تعلقات بھارت ہی سے بہتر بنائے جاتے ہیں۔ لاکھ بھارت بڑا ملک ہو اور اس کی مصنوعات متنوع ہوں مگر اسلامی اخوت جوش مارے تو ڈھیروں اسلامی ممالک ایک دوسرے کی مدد کرکے ایک مضبوط زنجیر بناسکتے ہیں۔
یو اے ای کو ہی لے لیجیے ماشا اللہ معاشی ترقی کے اعتبار سے دن دونی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے مگر تجارتی تبادلہ بھارت سے جس زوروشور سے جاری ہے ۔ پاکستان سے اس کا عشر عشیر بھی نہیں، پھر ہندوستانی سرمایہ کاروں کو جو عزت و احترام اور منصب و اعتبار حاصل ہے وہ پاکستان کو نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی سیروشکار کی غرض ''اسلامی اخوت'' زور مارے اور حکمران یا شہزادے اس ملک کو نواز دیں۔
یہی صورتحال دوسرے ممالک کی ہے شاہ فیصل کے عہد میں اور اس کے اثرات کے تحت اس کے بعد تک پاکستان (امریکا کی مخاصمت کے باوجود) سعودیہ کی ہمدردی کا محور رہا مگر آج اب سعودیہ روشن خیالی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے تو یہ غیر اسلامی روشنی خیالی انھیں بھارت سے قریب لے جاتی ہے۔
لے دے کر ترکی رہ جاتا ہے جو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا زخم خوردہ اور ایک عظیم اسلامی مملکت کے پارہ پارہ ہونے کا منظر دیکھ چکا ہے اس لیے طیب اردگان اسلامی اخوت کے نقطہ نظر سے سوچتے ہیں مگر انگریز بہادر نے جس طرح ماضی کی عظیم الشان خلافت ترکی کو عرب نیشنل ازم کے ذریعے تباہ و برباد کیا وہ سازشی ذہن اب بھی کارفرما ہے۔
ہم خود بھی عمران خان صاحب کے تمام دعوؤں کے باوجود اور ''ریاست مدینہ'' کی خواب آگیں تصور کے حامل ہوتے ہوئے اسلام کو اپنی خارجی پالیسی میں کوئی اہمیت نہ دے سکے۔
اور یہ قدرت کا اصول ہے کہ آپ کو جس فرض کی ادائیگی کے لیے منتخب کیا گیا تھا، خیر امت قرار دیا گیا تھا اور بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی ہدایت کی گئی تھی اس سارے سبق کو ہم نے بھلا دیا ہے۔
کشمیر میں محض نسل کشی نہیں ہو رہی، مسلم خون کی ارزانی کے ساتھ ساتھ ان کی غیرت کو بھی ناکارہ بنایا جا رہا ہے ۔ ہم ان کے لیے بھی کوئی موثر آواز نہیں اٹھا پا رہے نہ ہماری غیرت جوش میں آتی ہے کیونکہ اسلام اب ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔
اب بھارت میں مودی صاحب ہی برسر اقتدار آئیں گے وہ وہاں کی مسلم اقلیت کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑیں گے اور آپ ان کے قائم مقام ہائی کمشنر کو بلاکر ایک احتجاجی مراسلہ اس کے حوالے کرتے رہیں گے ۔اللہ اللہ خیر صلہ۔
کانگریس جو ہندو روشن خیالی کی علامت سمجھی جاتی ہے ، بری طرح نا کام ہوگئی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں سے مودی جی کے طرز حکمرانی میں ہندو توا اور ہندو انتہا پسندی کا جو چلن رہا ، اس بار بھارتی ووٹر نے اس رویے پر مہر تصدیق ثبت کردی اور ثابت کیا کہ ہندو قوم کا مجموعی ضمیر وہی کچھ ہے جو مودی صاحب کا ہے۔
ہندوستان میں کانگریس حکمران رہے یا مودی صاحب کی انتہا پسند جماعت یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے اور وہاں کے عوام نے اپنے اجتماعی احساس کو عملی شکل دے دی ہے اور مودی صاحب کی پالیسیوں پر مہر ثبت کردی ہے۔
لیکن ہمارے لیے جو سوچنے کی بات ہے وہ یہ ہے کہ ہم باآسانی کہہ دیتے ہیں کہ بھارت میں مودی کو جتوانے میں امریکا اور اسرائیل کا ہاتھ رہا ہے۔ یہ بات کسی حد تک نہیں بڑی حد تک قابل اعتبار ہے مگر معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایک ہندو مملکت ہے جب کہ دنیا بھر میں کئی درجن مسلم ممالک ہیں۔ امریکا اور اسرائیل کا بھارت کی حمایت کرنا منطقی بھی ہے اور فطری بھی اور اس کا فیصلہ پندرہ سو سال قبل ہوچکا تھا جب پیغمبر اسلامؐ نے واضح کردیا تھا کہ طاغوت اور اسلام ایک ساتھ نہیں چل سکتے اس لیے بھارت کا گٹھ جوڑ امریکا سے بھی ممکن ہے۔ اسرائیل سے بھی اور دیگر مشرکانہ و ملحدانہ فلسفہ کے حامل ممالک سے بھی ممکن ہے مگر دوستی نہیں ہوسکتی تو پاکستان سے۔
گزشتہ پچاس سالوں سے ہم امریکا کی دوستی کا دم بھرتے رہے ہیں، مگر اس کا نتیجہ کیا ہوا۔ محض منافقانہ سیاسی ہمدردیاں، امداد کے پردے میں طوق غلامی اور وقت پڑنے پر دغا دینے کے علاوہ ہمیں امریکا سے کچھ نہ مل سکا۔
ہماری حماقت اپنی جگہ اور اب ہمیں کچھ کچھ عقل آتی جا رہی ہے۔ اس لیے ہم مقابلتاً بہتر قابل اعتماد دوستوں کی طرف جھک رہے ہیں مگر ہم میں یہ سکت نہیں کہ امریکا سے بے نیاز رہ سکیں لیکن یہ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جب کوئی فیصلہ کن تنازعہ آئے گا تو امریکا کا پلہ بھارت کی طرف جھکے گا۔
اب ہم مسلم ممالک کی طرف دیکھیں تو ایک سے ایک کمزور نظر آتا ہے ایک وقت میں جب حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیر اعظم ہوئے تو کسی صحافی نے ان سے کہا آپ مسلم ممالک کا اتحاد کیوں قائم نہیں کرتے۔ انھوں نے برجستہ فرمایا ''جی ہاں مجھے معلوم ہے 0=0+0
لیکن یہ بات اس وقت اس لیے درست لگتی تھی کہ صورتحال وہی تھی اور ابھی بھی کم و بیش وہی ہے۔ لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ کسی مسلم ملک کی جارحانہ پالیسی میں اسلام زیر بحث ہی نہیں ہے۔ پاکستان ہر مسلم ملک میں جب اپنے وزرا کو دورے پر بھیجتا ہے تو یہ خبر ضرور آتی ہے کہ برادر اسلامی ملک میں وزیر اعظم یا وزیر خارجہ کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا گیا مگر تجارتی اور معاشی تعلقات بھارت ہی سے بہتر بنائے جاتے ہیں۔ لاکھ بھارت بڑا ملک ہو اور اس کی مصنوعات متنوع ہوں مگر اسلامی اخوت جوش مارے تو ڈھیروں اسلامی ممالک ایک دوسرے کی مدد کرکے ایک مضبوط زنجیر بناسکتے ہیں۔
یو اے ای کو ہی لے لیجیے ماشا اللہ معاشی ترقی کے اعتبار سے دن دونی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے مگر تجارتی تبادلہ بھارت سے جس زوروشور سے جاری ہے ۔ پاکستان سے اس کا عشر عشیر بھی نہیں، پھر ہندوستانی سرمایہ کاروں کو جو عزت و احترام اور منصب و اعتبار حاصل ہے وہ پاکستان کو نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی سیروشکار کی غرض ''اسلامی اخوت'' زور مارے اور حکمران یا شہزادے اس ملک کو نواز دیں۔
یہی صورتحال دوسرے ممالک کی ہے شاہ فیصل کے عہد میں اور اس کے اثرات کے تحت اس کے بعد تک پاکستان (امریکا کی مخاصمت کے باوجود) سعودیہ کی ہمدردی کا محور رہا مگر آج اب سعودیہ روشن خیالی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے تو یہ غیر اسلامی روشنی خیالی انھیں بھارت سے قریب لے جاتی ہے۔
لے دے کر ترکی رہ جاتا ہے جو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا زخم خوردہ اور ایک عظیم اسلامی مملکت کے پارہ پارہ ہونے کا منظر دیکھ چکا ہے اس لیے طیب اردگان اسلامی اخوت کے نقطہ نظر سے سوچتے ہیں مگر انگریز بہادر نے جس طرح ماضی کی عظیم الشان خلافت ترکی کو عرب نیشنل ازم کے ذریعے تباہ و برباد کیا وہ سازشی ذہن اب بھی کارفرما ہے۔
ہم خود بھی عمران خان صاحب کے تمام دعوؤں کے باوجود اور ''ریاست مدینہ'' کی خواب آگیں تصور کے حامل ہوتے ہوئے اسلام کو اپنی خارجی پالیسی میں کوئی اہمیت نہ دے سکے۔
اور یہ قدرت کا اصول ہے کہ آپ کو جس فرض کی ادائیگی کے لیے منتخب کیا گیا تھا، خیر امت قرار دیا گیا تھا اور بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی ہدایت کی گئی تھی اس سارے سبق کو ہم نے بھلا دیا ہے۔
کشمیر میں محض نسل کشی نہیں ہو رہی، مسلم خون کی ارزانی کے ساتھ ساتھ ان کی غیرت کو بھی ناکارہ بنایا جا رہا ہے ۔ ہم ان کے لیے بھی کوئی موثر آواز نہیں اٹھا پا رہے نہ ہماری غیرت جوش میں آتی ہے کیونکہ اسلام اب ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔
اب بھارت میں مودی صاحب ہی برسر اقتدار آئیں گے وہ وہاں کی مسلم اقلیت کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑیں گے اور آپ ان کے قائم مقام ہائی کمشنر کو بلاکر ایک احتجاجی مراسلہ اس کے حوالے کرتے رہیں گے ۔اللہ اللہ خیر صلہ۔