پولیس آرڈر 2002 گورنر نے اسمبلی کا منظور کردہ بل اعتراض لگا کر واپس کر دیا
منظورکردہ پولیس اصلاحات کا بل عدالتی فیصلے کے برخلاف ہے، پولیس کے اختیارات صوبائی حکومت نے لے لیے، عمران اسماعیل
ISLAMABAD:
سندھ پولیس میں اصلاحات کا بل پولیس آرڈر2002 ترمیمی بل 2019 گورنرسندھ نے آئینی اعتراضات کے ساتھ سندھ اسمبلی کو واپس بھیج دیا ہے۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے گورنرہاؤس میں صحافیوں کے اعزازمیں افطارڈنرکے موقع پرصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس آرڈرمیں یک طرفہ ترامیم کرکے آئی جی سندھ سمیت اعلی پولیس افسران کوہٹانے کے تمام اختیارات سندھ حکومت نے حاصل کرلیے ہیں، بل پر دیگرآئینی اعتراضات کے باعث اسے غورکے لیے جمعرات کوسندھ اسمبلی کوواپس بھیج دیا ہے۔
اس موقع پرتحریک انصاف کے ارکان سندھ اسمبلی ، قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی ، پارلیمانی لیڈرحلیم عادل شیخ دیگربھی موجود تھے۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہاکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 143 کے تحت مجلس شوری کامنظورکردہ قانون مقدم ہے، سندھ اسمبلی میں منظورکردہ پولیس اصلاحات کا ترمیمی بل عدالت کے فیصلے کے برخلاف ہے اوراس سے مطابقت نہیں رکھتا، اعلی عدالت کافیصلہ ہے کہ پولیس کی کمانڈ آئی جی پولیس کے پاس ہونی چاہیے مگر بل کے مطابق سندھ پولیس کے بیشتر اختیارات صوبائی حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ بل کے تحت آئی جی سندھ کوہٹانے یا آئی جی کی تقرری سے متعلق اختیارات صوبائی حکومت نے اپنے پاس رکھ لیے ہیں جب آئی جی سندھ حکومت سندھ کے تابع ہوگا تو پوری پولیس آزادانہ کام کرنے کے بجائے صوبائی حکومت کے تابع ہوگی۔
گورنر سندھ نے کہاکہ عدالتی فیصلے میں کہاگیا ہے کہ آئی جی پولیس تبادلے وتقرری میں آزادوخودمختارہوگا، حیرت زدہ ہوں کہ ڈی ایس پیز کے تبادلوں کا اختیاربھی آئی جی کونہیں دیاگیا، پولیس آرڈربحالی بل کے ذریعے آئی جی پولیس کواختیارات دینے کے بجائے بے اختیار کردیا ہے۔ آئی جی سندھ اپوزیشن لیڈر اور سول سوسائٹی نے پولیس آرڈربحالی بل پر اپنے شدید تحفظات کا اظہارکیا ہے،صوبے میں آزاد پولسنگ نظام کے اسمبلی پولیس آرڈربحالی بل کا ازسرنوجائزہ لے۔
انھوں نے کہاکہ آئی جی پولیس کے لیے تین افسران کے نام تجویز کرنا وفاقی حکومت کادائرہ اختیار ہے، سندھ اسمبلی کے پولیس آرڈربحالی بل میں اس کی خلاف ورزی کی گئی،پولیس آرڈر بحالی بل کی شق 11 وفاق اور صوبوں کے درمیان مروجہ طریقہ کارسے انحراف ہے، ارکان سندھ اسمبلی عدالتی فیصلے پرتوجہ دیں۔
عمران اسماعیل نے کہاکہ اعلی عدلیہ نے پولیس کی انتظامی خودمختاری سے متعلق واضح احکامات دیے ہیں، آئی جی پولیس کی تقرری،تعیناتی کی مدت اورتبادلے وتقرری کا طریقہ کارعدالتی فیصلوں میں واضح ہے، صوبائی اسمبلی قانون سازی میں بااختیارمگر عدالتی فیصلوں پرعمل بھی ضروری ہے۔
علاوہ ازیں گورنرہاؤس کی طرف سے بھجوائی گئی سمری میں پولیس آرڈر2002 ترمیمی بل 2019 آئینی اعترضات کے ساتھ مسترد کردیا گیا۔ گورنرسندھ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر دوہزار وفاقی قانون ہے ، صوبائی اسمبلی صرف معمولی ترامیم کا اختیار رکھتی ہے، صوبائی اسمبلی کامنظور کردہ کوئی قانون پارلیمنٹ کے ایکٹ سے متصادم ہوتو قانون مجلس شوری کارائج ہوگا۔
گورنرکی سمری میں مزیدکہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002بحالی بل اصل صورت میں بحال نہیں کیاگیا، گورنر عمران اسماعیل کی طرف سے پولیس آرڈر 2002 کی توثیق نہ ہونے پر پولیسنگ کانیا قانون غیرموثرہوگیا ہے اورسندھ اسمبلی کو گورنرعمران اسماعیل کے اعتراضات کی روشنی میں بل کادوبارہ جائزہ لینا ہوگا۔ پولیس سے متعلق قانون سازی صوبے میں اہم مسئلہ رہا ہے۔
دوسری جانب آئی جی سندھ کلیم امام نے بھی خط کے ذریعے اپنے تحفظات سے حکومت سندھ کو آگاہ کیا تھا۔
سندھ پولیس میں اصلاحات کا بل پولیس آرڈر2002 ترمیمی بل 2019 گورنرسندھ نے آئینی اعتراضات کے ساتھ سندھ اسمبلی کو واپس بھیج دیا ہے۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے گورنرہاؤس میں صحافیوں کے اعزازمیں افطارڈنرکے موقع پرصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس آرڈرمیں یک طرفہ ترامیم کرکے آئی جی سندھ سمیت اعلی پولیس افسران کوہٹانے کے تمام اختیارات سندھ حکومت نے حاصل کرلیے ہیں، بل پر دیگرآئینی اعتراضات کے باعث اسے غورکے لیے جمعرات کوسندھ اسمبلی کوواپس بھیج دیا ہے۔
اس موقع پرتحریک انصاف کے ارکان سندھ اسمبلی ، قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی ، پارلیمانی لیڈرحلیم عادل شیخ دیگربھی موجود تھے۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہاکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 143 کے تحت مجلس شوری کامنظورکردہ قانون مقدم ہے، سندھ اسمبلی میں منظورکردہ پولیس اصلاحات کا ترمیمی بل عدالت کے فیصلے کے برخلاف ہے اوراس سے مطابقت نہیں رکھتا، اعلی عدالت کافیصلہ ہے کہ پولیس کی کمانڈ آئی جی پولیس کے پاس ہونی چاہیے مگر بل کے مطابق سندھ پولیس کے بیشتر اختیارات صوبائی حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ بل کے تحت آئی جی سندھ کوہٹانے یا آئی جی کی تقرری سے متعلق اختیارات صوبائی حکومت نے اپنے پاس رکھ لیے ہیں جب آئی جی سندھ حکومت سندھ کے تابع ہوگا تو پوری پولیس آزادانہ کام کرنے کے بجائے صوبائی حکومت کے تابع ہوگی۔
گورنر سندھ نے کہاکہ عدالتی فیصلے میں کہاگیا ہے کہ آئی جی پولیس تبادلے وتقرری میں آزادوخودمختارہوگا، حیرت زدہ ہوں کہ ڈی ایس پیز کے تبادلوں کا اختیاربھی آئی جی کونہیں دیاگیا، پولیس آرڈربحالی بل کے ذریعے آئی جی پولیس کواختیارات دینے کے بجائے بے اختیار کردیا ہے۔ آئی جی سندھ اپوزیشن لیڈر اور سول سوسائٹی نے پولیس آرڈربحالی بل پر اپنے شدید تحفظات کا اظہارکیا ہے،صوبے میں آزاد پولسنگ نظام کے اسمبلی پولیس آرڈربحالی بل کا ازسرنوجائزہ لے۔
انھوں نے کہاکہ آئی جی پولیس کے لیے تین افسران کے نام تجویز کرنا وفاقی حکومت کادائرہ اختیار ہے، سندھ اسمبلی کے پولیس آرڈربحالی بل میں اس کی خلاف ورزی کی گئی،پولیس آرڈر بحالی بل کی شق 11 وفاق اور صوبوں کے درمیان مروجہ طریقہ کارسے انحراف ہے، ارکان سندھ اسمبلی عدالتی فیصلے پرتوجہ دیں۔
عمران اسماعیل نے کہاکہ اعلی عدلیہ نے پولیس کی انتظامی خودمختاری سے متعلق واضح احکامات دیے ہیں، آئی جی پولیس کی تقرری،تعیناتی کی مدت اورتبادلے وتقرری کا طریقہ کارعدالتی فیصلوں میں واضح ہے، صوبائی اسمبلی قانون سازی میں بااختیارمگر عدالتی فیصلوں پرعمل بھی ضروری ہے۔
علاوہ ازیں گورنرہاؤس کی طرف سے بھجوائی گئی سمری میں پولیس آرڈر2002 ترمیمی بل 2019 آئینی اعترضات کے ساتھ مسترد کردیا گیا۔ گورنرسندھ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر دوہزار وفاقی قانون ہے ، صوبائی اسمبلی صرف معمولی ترامیم کا اختیار رکھتی ہے، صوبائی اسمبلی کامنظور کردہ کوئی قانون پارلیمنٹ کے ایکٹ سے متصادم ہوتو قانون مجلس شوری کارائج ہوگا۔
گورنرکی سمری میں مزیدکہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002بحالی بل اصل صورت میں بحال نہیں کیاگیا، گورنر عمران اسماعیل کی طرف سے پولیس آرڈر 2002 کی توثیق نہ ہونے پر پولیسنگ کانیا قانون غیرموثرہوگیا ہے اورسندھ اسمبلی کو گورنرعمران اسماعیل کے اعتراضات کی روشنی میں بل کادوبارہ جائزہ لینا ہوگا۔ پولیس سے متعلق قانون سازی صوبے میں اہم مسئلہ رہا ہے۔
دوسری جانب آئی جی سندھ کلیم امام نے بھی خط کے ذریعے اپنے تحفظات سے حکومت سندھ کو آگاہ کیا تھا۔