نقل کے خلاف طلبا کا رد عمل
نقل کا رجحان ہمارے معاشرے میں سرطان کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کی تشخیص و علاج کیلئے عملاً کوئی ادارہ نظر نہیں آتا ہے۔
نقل کا رجحان ہمارے معاشرے میں سرطان کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کی تشخیص و علاج کے لیے عملاً کوئی ادارہ نظر نہیں آتا ہے۔ اس سے صرف حقدار طلبا کی حق تلفی ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ ملک، معیشت اور مستقبل تینوں کے لیے خطرناک ہے۔ نقل کے رجحان کے اس کلچر میں طلبا، والدین اور اساتذہ خود بھی پریشان ہیں، لیکن کچھ کرنے سے قاصر ہیں، ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ بھی اس عمل میں شریک ہوکر اپنے نتائج کو متاثر ہونے سے بچانے کی کوششیں کریں۔ کیونکہ نقل مافیا بڑی منظم، متحرک اور اثر ورسوخ کی حامل ہوتی ہے، گزشتہ دنوں نقل کرنے پر اسلامیہ کالج کرا چی میں بڑا حیرت انگیز واقعہ پیش آیا، جب امتحانات دینے والے طلبا امتحانی پرچے میں نقل کرنے والے طلبا اور ان کو نقل کرانے والوں پر ٹوٹ پڑے۔
اس دوران دونوں جانب سے لاتوں، گھونسوں اور لاٹھیوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا، امتحانی کاپیاں اور پرچے پھاڑدیے گئے، طلبا نے کالج سے نکل کر سڑک پر احتجاج کیا، جس سے کالج سے متصل علاقوں میں بدترین ٹریفک جام ہوگیا، پولیس نے طلبا کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور شیلنگ کی، طلبا کی جانب سے پولیس پر پتھرائو کیا گیا، کئی طلبا زخمی ہوئے۔ طلبا کی جانب سے نقل کے خلاف کیا جانے والا یہ انوکھا ردعمل ''تنگ آمد بجنگ آمد'' کی صورت حال کو ظاہر کرتا ہے۔ ذہین، پڑھنے، لکھنے والے اور پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا اور ان کے والدین اپنے انٹرویوز، مذاکروں اور مراسلات میں نقل اور دیگر غیر قانونی و غیر اخلاقی طریقوں کے سدباب کا مطالبہ کرتے رہے اور تجاویز بھی پیش کرتے رہے ہیں، جن کی وجہ سے نہ صرف اہل طلبا کی حق تلفی ہوئی ہے بلکہ تعلیمی معیار بھی تباہی و بربادی سے دوچار ہوچکا ہے۔
اس تباہی میں کوچنگ سینٹر، گیس پیپر، نقل کرانے کا کاروبار، اوپن میرٹ کی جگہ کوٹہ سسٹم، سیلف فنانس اسکیم، مختلف اور طبقاتی تعلیمی نظام، تعلیمی اداروں میں سیاسی و لسانی عمل و دخل جیسے عوامل اور حکومت اور محکمہ تعلیم کی چشم پوشی بلکہ تائید بھی شامل ہے۔ آج کل متوسط طبقے کے ذہن میں بچوں کے لیے بھی تعلیم کا حصول تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کی بڑی بڑی فیسیں، مہنگی کتابیں، یونیفارم، ٹرانسپورٹ اور دیگر سرگرمیوں پر اٹھنے والے اخراجات، پھر کوچنگ سینٹرز کی فیسیں و دیگر اخراجات، یہاں تک کہ پریکٹیکل کی تیاری کے لیے ہزاروں کے اخراجات ایسے لوازم بن چکے ہیں کہ ان کے بغیر ایک ذہین طالب علم بھی کسی اچھے کالج یا پروفیشنل کالج میں داخلے سے محروم رہ جاتا ہے۔ جب کہ ان سہولیات کے حامل کم استعداد کے طلبا با آسانی پروفیشنل کالجز و یونیورسٹیز میں داخلہ حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ مشاہدہ طلبا اور ان کے والدین خود کررہے ہوتے ہیں، جس سے ان طلبا میں احساس محرومی و مایوسی پیدا ہوتی ہے، والدین بھی ذہنی کرب اور احساس ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔
کوچنگ کی ابتدا چین میں ہوئی تھی، جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مختلف مضامین کی کلاسیں علیحدہ علیحدہ نہیں ہوتی تھیں اور امتحانی سوالات کو جمع کرکے طلبا کو فراہم کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا۔ جب حکومت نے دیکھا کہ طلبا گیس پیپرز کے ذریعے کم محنت سے امتحانات میں کامیاب ہونے لگے ہیں تو ان پر پابندی عائد کردی۔ جب کہ ہمارے ہاں جگہ اور اساتذہ کا کوئی ایسا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ سرکاری اسکولوں کی بڑی بڑی عمارتیں اور اساتذہ کی خاصی تعداد موجود ہے، جہاں ہر جماعت میں طلبا کی تعداد درجن بھر سے بھی کم ہوتی ہے، بعض میں تو اساتذہ اور عملے کی تعداد طالب علموں سے زیادہ ہے، گھوسٹ اسکولوں کی بھی بڑی تعداد پائی جاتی ہے، اسکولوں میں اوطاقیں بھی قائم ہیں، جانور، مویشی بھی پائے جاتے ہیں، بعض کو نشئیوں اور جرائم پیشہ عناصر نے اپنا مسکن بنایا ہوا ہے، بعض اسکول صرف ریکارڈ پر ہیں، جن سے تنخواہیں بھی وصول کی جارہی ہیں۔ ایسے اسکول بھی ہیں جہاں تنخواہوں کا کچھ حصہ ماہانہ وصول کرکے اساتذہ اور عملے کو حاضری اور کام سے مستثنیٰ کردیا جاتا ہے۔
بلکہ بعض افراد تو ملازمتیں ہی اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ وہ اپنا کاروبار یا دوسری ملازمت بھی کرتے رہیںگے اور محکمہ تعلیم سے تنخواہیں بھی وصول کرتے رہیںگے۔ اسی لیے محکمہ تعلیم میں سفارش، رشوت، اقربا پروری اور سیاسی مداخلت عروج پر ہے، اس کی آسامیوں پر بھرتی کے نرخ متعین ہیں، بھرتی کے امیدواروں کی جو درگت بنائی جاتی ہے اور جس طرح ان کی عزت نفس سے کھیلا جاتا ہے اس کا مظاہرہ دس بارہ سال سے ٹی وی چینلز پر دنیا دیکھ رہی ہے اور ورلڈ بینک اور یورپی یونین مسلسل عدم اعتماد کا اظہار اور فنڈز روکنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ عدالتیں بھی سر پٹخ کے رہ چکی ہیں لیکن وزارت تعلیم اور محکمہ تعلیم کو نہ اپنے فرائض کا احساس ہے نہ ان میں شرم و حیا یا خوف خدا یا دنیاوی احتساب کا خوف ہے۔ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے اساتذہ امیدواروں سے بھرتی کے لیے کروڑوں روپے رشوت لینے کا اعتراف بھی کرچکے ہیں لیکن اب تک کسی کا بال بیکا نہیں ہوا۔
نوکر شاہی، سیاسی عمل دخل، سیاسی تقرر و تبادلہ، رشوت، سفارش، خوشامد، خوف، عدم تحفظ، تعلیمی اداروں میں تشدد، قتل وغارت گری، جرائم پیشہ عناصر کے عمل دخل نے اہل اور تعلیم سے لگائو رکھنے، اپنے فرائض کو بحسن و خوبی انجام دینے والے اساتذہ کی عزت نفس کو مجروح کرکے بے دست و پا کرکے رکھ دیا ہے۔ تعلیمی تعطل نے کوچنگ سینٹرز کے مواقع اور بھی بڑھا دیے ہیں۔ اعلیٰ معیار کے کالجز کے بہترین تعلیمی ریکارڈ کے حامل طلبا ان کوچنگ سینٹرز میں داخلہ لینے پر مجبور ہیں جہاں انھیں کالجز کے وہی اساتذہ تعلیم دیتے ہیں۔ اساتذہ اور عملہ طلبا کو اس بات پر بھی مجبور کرتے ہیں کہ پریکٹیکل کی تیاری بھی انھی کے سینٹروں سے کریں، ورنہ تھیوری میں غیر معمولی نمبر حاصل کرنے والے طلبا کو صرف پاسنگ مارکس ہی دیے جاتے ہیں، بعض کوچنگ سینٹرز تو مختلف کالجز کے اساتذہ کے نام کے حوالوں سے چل رہے ہیں۔ پابندی کے باوجود ملک بھر میں پروفیشنل کالجز، کیڈٹ کالجز، سی ایس ایس اور فورسز کے لیے Apptitude Test کی تیاریاں کھلے عام اشتہارات کے ذریعے کروائی جارہی ہیں۔
کوچنگ سینٹر کے نام سے نوٹس فروخت ہورہے ہیں۔ طلبا کامیابی کے لیے کئی کئی کوچنگ سینٹرز کے نوٹس اور گیس پیپرز لینے پر مجبور ہیں۔ بورڈ میں پیپر پاس کرانے، اپنی پسند کے نمبر حاصل کرنے اور پوزیشن حاصل کرنے والوں سے رشوت وصول کرنے کے نرخ مقرر ہیں۔ اس تعلیمی کلچر میں وزارت تعلیم، محکمہ تعلیم اور تعلیمی مافیا نے باہم اشتراک سے غریب اور متوسط طبقے کے لیے اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند کردیے ہیں۔ چائلڈ لیبر اور حفظان صحت کے معیار کی بنیاد پر ورلڈ بینک اور یورپی یونین جیسے ادارے ہماری درآمدات پر پابندیاں عائد کردیتے ہیں لیکن تعلیم کی تباہی پر محض عدم اعتماد کا اظہار اور تعلیمی فنڈز روکنے کی دھمکیوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ جب ہم خود ہی اپنے دشمن بنے ہوئے ہیں تو پھر ہمیں کسی دوسرے دشمن کی کیا ضرورت ہے۔
اس دوران دونوں جانب سے لاتوں، گھونسوں اور لاٹھیوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا، امتحانی کاپیاں اور پرچے پھاڑدیے گئے، طلبا نے کالج سے نکل کر سڑک پر احتجاج کیا، جس سے کالج سے متصل علاقوں میں بدترین ٹریفک جام ہوگیا، پولیس نے طلبا کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور شیلنگ کی، طلبا کی جانب سے پولیس پر پتھرائو کیا گیا، کئی طلبا زخمی ہوئے۔ طلبا کی جانب سے نقل کے خلاف کیا جانے والا یہ انوکھا ردعمل ''تنگ آمد بجنگ آمد'' کی صورت حال کو ظاہر کرتا ہے۔ ذہین، پڑھنے، لکھنے والے اور پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا اور ان کے والدین اپنے انٹرویوز، مذاکروں اور مراسلات میں نقل اور دیگر غیر قانونی و غیر اخلاقی طریقوں کے سدباب کا مطالبہ کرتے رہے اور تجاویز بھی پیش کرتے رہے ہیں، جن کی وجہ سے نہ صرف اہل طلبا کی حق تلفی ہوئی ہے بلکہ تعلیمی معیار بھی تباہی و بربادی سے دوچار ہوچکا ہے۔
اس تباہی میں کوچنگ سینٹر، گیس پیپر، نقل کرانے کا کاروبار، اوپن میرٹ کی جگہ کوٹہ سسٹم، سیلف فنانس اسکیم، مختلف اور طبقاتی تعلیمی نظام، تعلیمی اداروں میں سیاسی و لسانی عمل و دخل جیسے عوامل اور حکومت اور محکمہ تعلیم کی چشم پوشی بلکہ تائید بھی شامل ہے۔ آج کل متوسط طبقے کے ذہن میں بچوں کے لیے بھی تعلیم کا حصول تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کی بڑی بڑی فیسیں، مہنگی کتابیں، یونیفارم، ٹرانسپورٹ اور دیگر سرگرمیوں پر اٹھنے والے اخراجات، پھر کوچنگ سینٹرز کی فیسیں و دیگر اخراجات، یہاں تک کہ پریکٹیکل کی تیاری کے لیے ہزاروں کے اخراجات ایسے لوازم بن چکے ہیں کہ ان کے بغیر ایک ذہین طالب علم بھی کسی اچھے کالج یا پروفیشنل کالج میں داخلے سے محروم رہ جاتا ہے۔ جب کہ ان سہولیات کے حامل کم استعداد کے طلبا با آسانی پروفیشنل کالجز و یونیورسٹیز میں داخلہ حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ مشاہدہ طلبا اور ان کے والدین خود کررہے ہوتے ہیں، جس سے ان طلبا میں احساس محرومی و مایوسی پیدا ہوتی ہے، والدین بھی ذہنی کرب اور احساس ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔
کوچنگ کی ابتدا چین میں ہوئی تھی، جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مختلف مضامین کی کلاسیں علیحدہ علیحدہ نہیں ہوتی تھیں اور امتحانی سوالات کو جمع کرکے طلبا کو فراہم کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا۔ جب حکومت نے دیکھا کہ طلبا گیس پیپرز کے ذریعے کم محنت سے امتحانات میں کامیاب ہونے لگے ہیں تو ان پر پابندی عائد کردی۔ جب کہ ہمارے ہاں جگہ اور اساتذہ کا کوئی ایسا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ سرکاری اسکولوں کی بڑی بڑی عمارتیں اور اساتذہ کی خاصی تعداد موجود ہے، جہاں ہر جماعت میں طلبا کی تعداد درجن بھر سے بھی کم ہوتی ہے، بعض میں تو اساتذہ اور عملے کی تعداد طالب علموں سے زیادہ ہے، گھوسٹ اسکولوں کی بھی بڑی تعداد پائی جاتی ہے، اسکولوں میں اوطاقیں بھی قائم ہیں، جانور، مویشی بھی پائے جاتے ہیں، بعض کو نشئیوں اور جرائم پیشہ عناصر نے اپنا مسکن بنایا ہوا ہے، بعض اسکول صرف ریکارڈ پر ہیں، جن سے تنخواہیں بھی وصول کی جارہی ہیں۔ ایسے اسکول بھی ہیں جہاں تنخواہوں کا کچھ حصہ ماہانہ وصول کرکے اساتذہ اور عملے کو حاضری اور کام سے مستثنیٰ کردیا جاتا ہے۔
بلکہ بعض افراد تو ملازمتیں ہی اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ وہ اپنا کاروبار یا دوسری ملازمت بھی کرتے رہیںگے اور محکمہ تعلیم سے تنخواہیں بھی وصول کرتے رہیںگے۔ اسی لیے محکمہ تعلیم میں سفارش، رشوت، اقربا پروری اور سیاسی مداخلت عروج پر ہے، اس کی آسامیوں پر بھرتی کے نرخ متعین ہیں، بھرتی کے امیدواروں کی جو درگت بنائی جاتی ہے اور جس طرح ان کی عزت نفس سے کھیلا جاتا ہے اس کا مظاہرہ دس بارہ سال سے ٹی وی چینلز پر دنیا دیکھ رہی ہے اور ورلڈ بینک اور یورپی یونین مسلسل عدم اعتماد کا اظہار اور فنڈز روکنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ عدالتیں بھی سر پٹخ کے رہ چکی ہیں لیکن وزارت تعلیم اور محکمہ تعلیم کو نہ اپنے فرائض کا احساس ہے نہ ان میں شرم و حیا یا خوف خدا یا دنیاوی احتساب کا خوف ہے۔ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے اساتذہ امیدواروں سے بھرتی کے لیے کروڑوں روپے رشوت لینے کا اعتراف بھی کرچکے ہیں لیکن اب تک کسی کا بال بیکا نہیں ہوا۔
نوکر شاہی، سیاسی عمل دخل، سیاسی تقرر و تبادلہ، رشوت، سفارش، خوشامد، خوف، عدم تحفظ، تعلیمی اداروں میں تشدد، قتل وغارت گری، جرائم پیشہ عناصر کے عمل دخل نے اہل اور تعلیم سے لگائو رکھنے، اپنے فرائض کو بحسن و خوبی انجام دینے والے اساتذہ کی عزت نفس کو مجروح کرکے بے دست و پا کرکے رکھ دیا ہے۔ تعلیمی تعطل نے کوچنگ سینٹرز کے مواقع اور بھی بڑھا دیے ہیں۔ اعلیٰ معیار کے کالجز کے بہترین تعلیمی ریکارڈ کے حامل طلبا ان کوچنگ سینٹرز میں داخلہ لینے پر مجبور ہیں جہاں انھیں کالجز کے وہی اساتذہ تعلیم دیتے ہیں۔ اساتذہ اور عملہ طلبا کو اس بات پر بھی مجبور کرتے ہیں کہ پریکٹیکل کی تیاری بھی انھی کے سینٹروں سے کریں، ورنہ تھیوری میں غیر معمولی نمبر حاصل کرنے والے طلبا کو صرف پاسنگ مارکس ہی دیے جاتے ہیں، بعض کوچنگ سینٹرز تو مختلف کالجز کے اساتذہ کے نام کے حوالوں سے چل رہے ہیں۔ پابندی کے باوجود ملک بھر میں پروفیشنل کالجز، کیڈٹ کالجز، سی ایس ایس اور فورسز کے لیے Apptitude Test کی تیاریاں کھلے عام اشتہارات کے ذریعے کروائی جارہی ہیں۔
کوچنگ سینٹر کے نام سے نوٹس فروخت ہورہے ہیں۔ طلبا کامیابی کے لیے کئی کئی کوچنگ سینٹرز کے نوٹس اور گیس پیپرز لینے پر مجبور ہیں۔ بورڈ میں پیپر پاس کرانے، اپنی پسند کے نمبر حاصل کرنے اور پوزیشن حاصل کرنے والوں سے رشوت وصول کرنے کے نرخ مقرر ہیں۔ اس تعلیمی کلچر میں وزارت تعلیم، محکمہ تعلیم اور تعلیمی مافیا نے باہم اشتراک سے غریب اور متوسط طبقے کے لیے اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند کردیے ہیں۔ چائلڈ لیبر اور حفظان صحت کے معیار کی بنیاد پر ورلڈ بینک اور یورپی یونین جیسے ادارے ہماری درآمدات پر پابندیاں عائد کردیتے ہیں لیکن تعلیم کی تباہی پر محض عدم اعتماد کا اظہار اور تعلیمی فنڈز روکنے کی دھمکیوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ جب ہم خود ہی اپنے دشمن بنے ہوئے ہیں تو پھر ہمیں کسی دوسرے دشمن کی کیا ضرورت ہے۔