سائنس کیا نہیں ہے
آج ہر چیز یہاں تک کہ مذہب، اخلاقیات، مابعدالطبیعات، سماجیات اور فنون لطیفہ تک اسی کی کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں۔
لفظ سائنس کا عمومی مطلب علم سمجھا جاتا ہے۔ علم کیا ہے؟ یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آج جب بھی علم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے ذہنوں میں صرف ایک خاص طرز کی تعلیم ابھرتی ہے۔ یہ وہ تعلیم ہے جوآج کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز میں پڑھائی جارہی ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ یہ تمام تر تعلیم صرف اور صرف پیسے کے لیے اور سرمایہ داریت کو اچھے غلام مہیا کرنے کے لیے ہے۔ سوال یہ ہے کہ علم کسے کہا جاسکتا ہے؟ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ علم صرف الوہی تعلیمات کا نام تھا، باقی سب فنون اور کسبِ معاش کے ذرایع قرار پاتے تھے۔ آج معاش کو اصل قرار دے لیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے جدید سائنس کا بھی خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ جدید سائنس کو وہ اعتبار دے دیا گیا ہے کہ آج ہر چیز یہاں تک کہ مذہب، اخلاقیات، مابعدالطبیعات، سماجیات اور فنون لطیفہ تک اسی کی کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں۔
جدید سائنس کا مطلب فطرت کا ایک خاص نقطہ نظر سے مطالعہ ہے۔ یہ خاص نقطہ نظر مغربی فلسفے میں ڈیکارٹ اور کانٹ کے ذریعے نئی مابعد الطبیعات کا ظہور ہے۔ اس کے تحت انسان ہی مرکز کائنات ہے۔ انسان وہ وجود ہے جو ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ وہ کسی کو جواب دہ نہیں۔ وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ حقیقت کلی اور حقیقت مطلق کا ادراک میسر ذرایع، علم، عقل، حواس، فکر، تجربات سے ممکن ہی نہیں لہٰذا انسان حقیقت تلاش تو نہیں کرسکتا لیکن حقیقت تخلیق کرسکتا ہے، لہٰذا انسان ہی خالق حقیقت قرار پاتا ہے۔ سائنس اس خلاقیت کا بلیغ ترین اظہار ہے۔ کانٹ کی کتاب ''تنقید عقل محض'' کے بعد علم کی تعریف تبدیل ہوگئی۔ انسان کے لیے صرف اس طبعی دنیا کا علم اہم ہوگیا اور ماورائے طبیعات کا علم، اقلیم علم سے خارج ہوگیا۔
کانٹ کے فلسفے کے بعد علم خارج سے نہیں داخل سے آتا ہے، لہٰذا نفس اور عقل انسانی ہی ہدایت، رہنمائی، روشنی، علم کا مرکز منبع اور ماخذ ہے۔ اب دیکھیے یہاں کتنی عظیم تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ انسانی تاریخ ایک بہت اہم موڑ لیتی ہے۔ انسان حقیقت مطلق قرار پاتا ہے، خالق حقیقت قرار پاتا ہے۔ انسان کے سوا ہر وجود اور حقیقت کا انکار کردیا جاتا ہے۔ ڈیکارٹ اور کانٹ کے مطابق چونکہ حقیقت کا حصول ممکن نہیں تھا لہٰذا انسان نے حقیقت تخلیق کرنے کا فریضہ سنبھال لیا۔ سائنس نے اس تصور حقیقت کو دنیا پر مسلط کرنے کی حکمت عملی اور سہولیات مہیا کردیں۔ اب دنیا جدیدیت پسند انسان کی خواہشات اور آرزوؤں کی چراگاہ بن گئی، اور تسخیر کائنات کے ذریعے ارادہ انسانی کو کائنات پر مسلط کرنے کا فریضہ جدید فلسفے نے مہیا کردیا۔
معاشرے میں سائنس کو نہ صرف یہ کہ اہم ترین مقام دے دیا گیا بلکہ اسے ہر شے کی کسوٹی تسلیم کرلیا گیا۔ سائنس فکر اور سائنسی طریقے کو قطعی، حتمی اور فیصل سمجھ لیا گیا۔ ہمارے مذہبی افراد کے گرد بھی سائنس نے ایسا سحر باندھا کہ وہ اس کی ماہیت جانے بغیر ہی اس پر ایسے فریفتہ ہوئے کہ قریباً ہر مذہب کا ماننے والا اپنے مذہب کو حق ثابت کرنے کے لیے سائنسی دلائل دینے لگا۔ مسلمانوں کے ہاں تو وہ زوال دیکھنے میں آرہا ہے کہ وہ اپنی پندرہ سو سالہ تاریخ کو بھلا کر الٹے سیدھے ہی سہی، سائنس سے دلائل لانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ مذہبی اداروں کو سائنس سے ثابت کرنے اور الٹی سیدھی توجیہات جن کی کوئی سائنسی اہمیت نہیں کوششیں کی گئیں۔ اس سے روحانیت اور مذہب کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا سائنس کا البتہ بول بالا ہوگیا۔ اسے معاشرے میں وہ مقام مل گیا جس کا اس نے کبھی دعویٰ بھی نہیں کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی غلامانہ عینک اتار کر سائنس کو سائنس ہی سے جاننے کی کوشش کریں۔
سائنس یقیناً اٹھارہویں صدی سے پہلے بھی موجود تھی اور ٹیکنالوجی اس سے بھی پہلے وجود رکھتی تھی، لیکن انیسویں صدی وہ زمانہ ہے جب تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاص مابعد الطبیعات کے زیر اثر سائنٹفک میتھڈ اور سرمایہ داری کے ذریعے سائنس و ٹیکنالوجی ایک خاص مقصد کے تحت یک جا ہوئے۔ تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ وہ خیالات، اثرات اور نتائج دنیا کے سامنے آئے جو دنیا نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے نہ سنے۔ جدید سائنس کا نظریہ فطری نظریہ نہیں ہے۔ یہ کوئی دریافت بھی نہیں ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی عقلی ما بعدالطبیعاتی سرگرمی ہے جس کے آثار مغرب کی چار سو سالہ تاریخ میں تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
آج ایک بہت ہی غلط فکر نے راہ پا لی ہے، جس کے مطابق سائنس کا علم قطعی اور حتمی قرار پاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سائنس ایک ہر لمحے تبدیل ہونے والا علم ہے جو کبھی قطعی، حتمی اور حقیقی علم مہیا نہیں کرتی۔ وہ کسی جُز کا بھی جُزوی علم دیتی ہے۔ اس حوالے سے معروف طبیعات دان ''فائن مین'' کے مضامین ''سکس ایزی پیسز'' کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ سائنس کا سفر قیاس، گمان اور اندازوں کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔ کوئی سائنس دان سائنسی نتائج کو حتمی اور قطعی تسلیم نہیں کرتا۔ یہ غلط فہمی بھی دور ہونے کی ضرورت ہے کہ سائنس دان تمام سائنسی نظریات تجربات کے بعد قائم کرتے ہیں۔ کئی نظریات ایسے ہیں جو محض اندازوں پر قائم کیے گئے مثال کے طور پر ''یوکاوا'' نے مختلف ذرات کے بارے میں پیش گوئی کی تھی، یہ درست ثابت ہوئی۔ ''فائن مین'' کے الفاظ میں اگرچہ سائنس مشاہدات اور تجربات کے ذریعے آگے بڑھتی ہے لیکن وہ درست اور غلط کی تمیز نہیں رکھتی۔ زیادہ سے زیادہ وہ یہ بتا سکتی ہے کہ کم غلط یا ادھورا کیا ہے۔
فائن مین (11مئی 1918 تا 15فروری 1988) کو بجا طور پر اس صدی کا آئن اسٹائن کہا جاتا ہے۔ آپ نے ''کوانٹم الیکٹرو ڈائنامکس'' میں محیرالعقل کام کیا ہے۔ آپ کو البرٹ آئن اسٹائن ایوارڈ (1954)، لارنس ایوارڈ (1962)، نوبل انعام (1965)، نیشنل میڈل فار سائنس (1979) ایسے کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ سائنس کے بارے میں آپ کا کہنا ہے کہ ''اگر کوئی چیز سائنسی نہیں ہے تو اِس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ وہ بری ہے، مثال کے طور پر ''محبت'' یہ سائنسی نہیں ہوسکتی لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ یہ غلط ہے۔ اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سائنسی نہیں''۔
سائنس کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے سائنسی نظریات کی حقیقت، ماہئیت اور اصلیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یقیناً تجربات کی بنیاد یہی نظریات ہوتے ہیں لیکن سائنس کو غیر اقداری، غیر جانبدار تصور کرنا درست نہیں ہے۔ نظریہ ایک خاص علمیت، تاریخ، تہذیب، زمان اور مکان ایک خاص تصور نفس، تصور علم، تصور انسان، تصور معاشرت و معیشت و اقدارمیں محدود و مقید ہوتا ہے، اس سے ماورا نہیں ہوتا لہٰذا وہ ایک خاص تعقل، خاص ہدف کی طرف تجربات کو اور زندگی کے رخ کو موڑ دیتا ہے جس کے نتیجے میں خاص ایجادات وجود پذیر ہوتی ہیں یعنی کوئی ایجاد غیر اقداری نہیں ہوتی کیونکہ اس ایجاد کے پیچھے جو نظریہ ہوتا ہے وہ خاص مابعد الطبیعات کا حامل ہوتا ہے اور ایجاد اسی مابعد الطبیعات کے فروغ، نفوذ، ارتقا اور تسلط کو ممکن بناتی ہے ۔
آج یہ جاننا کہ سائنس کیا نہیں ہے اس سے زیادہ ضروری ہے کہ لوگ یہ جانیں کہ سائنس کیا ہے۔
جدید سائنس کا مطلب فطرت کا ایک خاص نقطہ نظر سے مطالعہ ہے۔ یہ خاص نقطہ نظر مغربی فلسفے میں ڈیکارٹ اور کانٹ کے ذریعے نئی مابعد الطبیعات کا ظہور ہے۔ اس کے تحت انسان ہی مرکز کائنات ہے۔ انسان وہ وجود ہے جو ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ وہ کسی کو جواب دہ نہیں۔ وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ حقیقت کلی اور حقیقت مطلق کا ادراک میسر ذرایع، علم، عقل، حواس، فکر، تجربات سے ممکن ہی نہیں لہٰذا انسان حقیقت تلاش تو نہیں کرسکتا لیکن حقیقت تخلیق کرسکتا ہے، لہٰذا انسان ہی خالق حقیقت قرار پاتا ہے۔ سائنس اس خلاقیت کا بلیغ ترین اظہار ہے۔ کانٹ کی کتاب ''تنقید عقل محض'' کے بعد علم کی تعریف تبدیل ہوگئی۔ انسان کے لیے صرف اس طبعی دنیا کا علم اہم ہوگیا اور ماورائے طبیعات کا علم، اقلیم علم سے خارج ہوگیا۔
کانٹ کے فلسفے کے بعد علم خارج سے نہیں داخل سے آتا ہے، لہٰذا نفس اور عقل انسانی ہی ہدایت، رہنمائی، روشنی، علم کا مرکز منبع اور ماخذ ہے۔ اب دیکھیے یہاں کتنی عظیم تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ انسانی تاریخ ایک بہت اہم موڑ لیتی ہے۔ انسان حقیقت مطلق قرار پاتا ہے، خالق حقیقت قرار پاتا ہے۔ انسان کے سوا ہر وجود اور حقیقت کا انکار کردیا جاتا ہے۔ ڈیکارٹ اور کانٹ کے مطابق چونکہ حقیقت کا حصول ممکن نہیں تھا لہٰذا انسان نے حقیقت تخلیق کرنے کا فریضہ سنبھال لیا۔ سائنس نے اس تصور حقیقت کو دنیا پر مسلط کرنے کی حکمت عملی اور سہولیات مہیا کردیں۔ اب دنیا جدیدیت پسند انسان کی خواہشات اور آرزوؤں کی چراگاہ بن گئی، اور تسخیر کائنات کے ذریعے ارادہ انسانی کو کائنات پر مسلط کرنے کا فریضہ جدید فلسفے نے مہیا کردیا۔
معاشرے میں سائنس کو نہ صرف یہ کہ اہم ترین مقام دے دیا گیا بلکہ اسے ہر شے کی کسوٹی تسلیم کرلیا گیا۔ سائنس فکر اور سائنسی طریقے کو قطعی، حتمی اور فیصل سمجھ لیا گیا۔ ہمارے مذہبی افراد کے گرد بھی سائنس نے ایسا سحر باندھا کہ وہ اس کی ماہیت جانے بغیر ہی اس پر ایسے فریفتہ ہوئے کہ قریباً ہر مذہب کا ماننے والا اپنے مذہب کو حق ثابت کرنے کے لیے سائنسی دلائل دینے لگا۔ مسلمانوں کے ہاں تو وہ زوال دیکھنے میں آرہا ہے کہ وہ اپنی پندرہ سو سالہ تاریخ کو بھلا کر الٹے سیدھے ہی سہی، سائنس سے دلائل لانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ مذہبی اداروں کو سائنس سے ثابت کرنے اور الٹی سیدھی توجیہات جن کی کوئی سائنسی اہمیت نہیں کوششیں کی گئیں۔ اس سے روحانیت اور مذہب کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا سائنس کا البتہ بول بالا ہوگیا۔ اسے معاشرے میں وہ مقام مل گیا جس کا اس نے کبھی دعویٰ بھی نہیں کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی غلامانہ عینک اتار کر سائنس کو سائنس ہی سے جاننے کی کوشش کریں۔
سائنس یقیناً اٹھارہویں صدی سے پہلے بھی موجود تھی اور ٹیکنالوجی اس سے بھی پہلے وجود رکھتی تھی، لیکن انیسویں صدی وہ زمانہ ہے جب تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاص مابعد الطبیعات کے زیر اثر سائنٹفک میتھڈ اور سرمایہ داری کے ذریعے سائنس و ٹیکنالوجی ایک خاص مقصد کے تحت یک جا ہوئے۔ تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ وہ خیالات، اثرات اور نتائج دنیا کے سامنے آئے جو دنیا نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے نہ سنے۔ جدید سائنس کا نظریہ فطری نظریہ نہیں ہے۔ یہ کوئی دریافت بھی نہیں ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی عقلی ما بعدالطبیعاتی سرگرمی ہے جس کے آثار مغرب کی چار سو سالہ تاریخ میں تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
آج ایک بہت ہی غلط فکر نے راہ پا لی ہے، جس کے مطابق سائنس کا علم قطعی اور حتمی قرار پاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سائنس ایک ہر لمحے تبدیل ہونے والا علم ہے جو کبھی قطعی، حتمی اور حقیقی علم مہیا نہیں کرتی۔ وہ کسی جُز کا بھی جُزوی علم دیتی ہے۔ اس حوالے سے معروف طبیعات دان ''فائن مین'' کے مضامین ''سکس ایزی پیسز'' کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ سائنس کا سفر قیاس، گمان اور اندازوں کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔ کوئی سائنس دان سائنسی نتائج کو حتمی اور قطعی تسلیم نہیں کرتا۔ یہ غلط فہمی بھی دور ہونے کی ضرورت ہے کہ سائنس دان تمام سائنسی نظریات تجربات کے بعد قائم کرتے ہیں۔ کئی نظریات ایسے ہیں جو محض اندازوں پر قائم کیے گئے مثال کے طور پر ''یوکاوا'' نے مختلف ذرات کے بارے میں پیش گوئی کی تھی، یہ درست ثابت ہوئی۔ ''فائن مین'' کے الفاظ میں اگرچہ سائنس مشاہدات اور تجربات کے ذریعے آگے بڑھتی ہے لیکن وہ درست اور غلط کی تمیز نہیں رکھتی۔ زیادہ سے زیادہ وہ یہ بتا سکتی ہے کہ کم غلط یا ادھورا کیا ہے۔
فائن مین (11مئی 1918 تا 15فروری 1988) کو بجا طور پر اس صدی کا آئن اسٹائن کہا جاتا ہے۔ آپ نے ''کوانٹم الیکٹرو ڈائنامکس'' میں محیرالعقل کام کیا ہے۔ آپ کو البرٹ آئن اسٹائن ایوارڈ (1954)، لارنس ایوارڈ (1962)، نوبل انعام (1965)، نیشنل میڈل فار سائنس (1979) ایسے کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ سائنس کے بارے میں آپ کا کہنا ہے کہ ''اگر کوئی چیز سائنسی نہیں ہے تو اِس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ وہ بری ہے، مثال کے طور پر ''محبت'' یہ سائنسی نہیں ہوسکتی لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ یہ غلط ہے۔ اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سائنسی نہیں''۔
سائنس کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے سائنسی نظریات کی حقیقت، ماہئیت اور اصلیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یقیناً تجربات کی بنیاد یہی نظریات ہوتے ہیں لیکن سائنس کو غیر اقداری، غیر جانبدار تصور کرنا درست نہیں ہے۔ نظریہ ایک خاص علمیت، تاریخ، تہذیب، زمان اور مکان ایک خاص تصور نفس، تصور علم، تصور انسان، تصور معاشرت و معیشت و اقدارمیں محدود و مقید ہوتا ہے، اس سے ماورا نہیں ہوتا لہٰذا وہ ایک خاص تعقل، خاص ہدف کی طرف تجربات کو اور زندگی کے رخ کو موڑ دیتا ہے جس کے نتیجے میں خاص ایجادات وجود پذیر ہوتی ہیں یعنی کوئی ایجاد غیر اقداری نہیں ہوتی کیونکہ اس ایجاد کے پیچھے جو نظریہ ہوتا ہے وہ خاص مابعد الطبیعات کا حامل ہوتا ہے اور ایجاد اسی مابعد الطبیعات کے فروغ، نفوذ، ارتقا اور تسلط کو ممکن بناتی ہے ۔
آج یہ جاننا کہ سائنس کیا نہیں ہے اس سے زیادہ ضروری ہے کہ لوگ یہ جانیں کہ سائنس کیا ہے۔