بلوچستان حکومت کے خلاف سازشوں کا آغاز
اڑتالیس میں پاکستان میں ضم ہونے کے بعد اگلے پچیس برس تک بلوچستان عوامی حکومت سے محروم رہا۔
اڑتالیس میں پاکستان میں ضم ہونے کے بعد اگلے پچیس برس تک بلوچستان عوامی حکومت سے محروم رہا۔ اسے صوبے کا درجہ ہی ون یونٹ کے خاتمے کے بعد نصیب ہوا۔ ستر کی دہائی کے آغاز میں یہاں پہلی عوامی جمہوری حکومت نیپ کے زیر اہتمام قائم ہوئی، جسے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے محض نو ماہ میں چلتا کردیا۔ اس کے بعد پھر بلوچستان کی کوئی بھی حکومت اس سے دگنا عرصہ نہ نکال سکی۔ سیاسی حکومتوں کو گرانا اور جوڑ توڑ کے ذریعے صوبے کے حالات کو مسلسل مخدوش بنائے رکھنا ایک روایت کی شکل اختیار کر گیا، اور چونکہ ہم روایت پرست لوگ ہیں، اس لیے اپنی روایات پر دل و جان سے قائم رہتے ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی حکومتوں کے خلاف سازشوں کی یہ روایت مختلف صورتوں میں آج بھی قائم ہے۔ نو منتخب شدہ صوبے کی اولین پہلی مڈل کلاس حکومت کو زمام اقتدار سنبھالے ابھی دو ماہ ہی گزرے ہیں کہ انھیں ہٹانے کی خبریں گردش کرنے لگی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نو منتخب شدہ حکومت اپنے ابتدائی دو ماہ کے ایام میں کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کر پائی۔ ان سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں، پوری ہوتی نظر نہیں آتیں۔ خود انھوں نے جو دعوے کیے، اب تک ان پہ کوئی عمل درآمد نہیں ہو پایا۔ کابینہ کی تشکیل میں ناکامی ان کے گلے کا پھندا بن کے رہ گئی ہے۔ صوبے کے حالات پہ ان کا کوئی کنٹرول نہیں ۔ عوام کی داد رسی کی اب تک کوئی امید نہیں... لیکن اس سب کے باوجود کسی تیسری قوت کو یہ اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی کہ ان الزامات کے تحت وہ ایک منتخب حکومت کو دو تین ماہ میں چلتا کر دے۔ اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ اور ماضی کی حکومتوں کا مسلسل حصہ رہنے والے سبھی سرداروں اور جاگیرداروں کو پریشانی تو اسی دن سیلاحق ہو گئی تھی جس دن ان کے مقابلے میں متوسط طبقے کے ایک نمایندے کو اس ایوان کا قائد بنا دیا گیا تھا، جسے انھوں نے اپنی قبائلی سلطنتوں کی طرح اپنی میراث سمجھنا شروع کردیا تھا۔
ان کے لیے یہ تصور ہی ناقابل برداشت ہے کہ جنھیں وہ اپنی 'سلطنت' میں دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہوں، ایوان میں اب انھیں ان کے ماتحت رہ کر کام کرنا ہوگا۔ جیسے اس ملک کے ہر کونے میں جاگیردار اور مولوی کا گٹھ جوڑ ہے، عین اسی طرح اسمبلیوں میں بھی ان کا اتحاد ہے۔ سردار اور مولوی یہاں بھی اتحاد کے لیے بھاگ دور کر رہے ہیں۔ یہ جو مولوی صاحبان بلوچستان کی حکومت کو غیر فطری قرار دے رہے ہیں، اپنے تئیں درست کہتے ہیں کہ فطری اتحاد تو مولوی اور جاگیردار کا ہے، انھی کے اتحاد سے فطری حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ ان کے سوا جو بھی حکومت قائم ہوگی، غیر فطری ہی کہلائے گی۔ دوسری طرف یہ جو سرداروں اور جاگیرداروں نے اکثریت کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرنے کی رٹ لگائی ہوئی ہے، یہ بھی محض ایک ڈھکوسلا ہی ہے۔ حالانکہ یہی سردار اور جاگیردار اپنے اپنے علاقوں میں اقلیت میں ہونے کے باوجود اکثریت پر مسلط ہیں۔
وہاں انھیں اکثریت کے مینڈیٹ کا کوئی خیال نہیں آتا۔ اگر حکومت کرنے کا اختیار عددی اکثریت سے مشروط ہے، تو پھر ان کے حلقوں میں غریب اور محنت کش، مزدور،کسان اکثریت میں ہیں۔ اصولی طور پر نمایندہ بھی انھی میں سے ہونا چاہیے، نہ کہ پرتعیش زندگی گزارنے والا ایک سردار زادہ جو خود کو موروثی طور پر نسل در نسل سرداری اور حکمرانی کا اہل سمجھتا ہے۔ جاگیردار اقلیت میں ہو کر کوئی کام نہیں کرتا اور سیکڑوں، ہزاروں ایکڑ زمینوں کا مالک بنا بیٹھا ہے، اکثریتی اصول کے تحت یہ زمینیں ان کسانوں اور ہاریوں کو ملنی چاہئیں جو اس پہ شب و روز محنت کرتے ہیں، اس پہ اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں۔ مولوی کا وعظ چند لوگوں تک محدود رہتا ہے، عوام کی اکثریت انھیں منہ نہیں لگاتی، تو کیا وہ اکثریت کا احترام کرتے ہوئے اپنے وعظ بند کردیں گے؟ وہاں اکثریت کے پاس اختیار ہونے کا یہ قانون لاگو نہیں ہوتا، لیکن جہاں اپنے مفاد کا معاملہ آجائے، وہاں انھیں اکثریتی قاعدہ یاد آجاتا ہے۔ اہلیت، قابلیت، کردار اور عمل، حکومت کرنے کے لیے یہ لازمی عناصر انھیں یاد نہیں رہتے۔ کیونکہ ان کی اہلیت، قابلیت اور ان کا کردار و عمل ان کی ماضی کی کارکردگی میں عوام پرکھ چکے ہیں۔
انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جہاں کردار اور عمل کی بات آئے گی، وہاں یہ اپنے دامن پہ لگے داغ کسی صورت نہیں چھپا پائیں گے۔حالیہ آپریشن سے لے کر، بلوچستان کے حالات کو موجودہ نہج تک پہنچانے کی ذمے دار ماضی کی تمام حکومتوں میں یہ سبھی سردار اور مولوی شامل رہے ہیں، جنھیں آج بلوچستان کا غم کھائے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی ماضی میں حکومتیں گرانے اور بنانے میں بھی ان کا خاطرخواہ حصہ رہا ہے۔ یہ جوڑ توڑ کے ماہر رہے ہیں۔ انھیں ان قوتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے جو بلوچستان میں کسی سطح پر عوامی حکومتوں کی پذیرائی نہیں دیکھنا چاہتیں۔ انھیں مہرے کی طرح استعمال کرنے کے بعد پھر ان کے پاس وہی روایتی جواز ہوتا ہے کہ دیکھیے ہم نے تو عام آدمی کو بھی حکومت دے دی، لیکن یہ لوگ خود آپس میں مل بیٹھ نہیں سکتے۔ بادی النظر میں جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ لوگ حکومت کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں، انھیں ڈنڈے کے زور پر ہی چلایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ یہ سارا ڈرامہ انھی کی پروڈکشن میں چل رہا ہوتا ہے۔ انھی قوتوں کی ہدایت پہ اب اسلام آباد سے، بلوچستان میں فارورڈ بننے کی خبریں 'پلانٹ' کی جارہی ہیں۔
یہ اس سیاسی بلیک میلنگ کا ابھی آغاز ہے، جس نے تادم آخر موجودہ حکمرانوں کا پیچھا نہیں چھوڑنا۔ اسے منڈی کے ذرایع پر قبضے کے لیے استعمال کی جانیوالی سرمایہ کاری کے تناظر میں باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔اس سارے قضیے کا مقصد کسی بھی صورت موجودہ حکومت کی غلطیوں اور کمزوریوں کی پردہ پوشی نہیں، جس کا تذکرہ ہم نے آغاز میں ہی کردیا تھا۔ حکومت کی خرابیاں اپنی جگہ، لیکن ان خرابیوں کو ٹھیک کرنے کا ٹھیکہ ان سرداروں، نوابوں کو نہیں دیا جاسکتا، جو گزشتہ نصف صدی سے مختلف صورتوں میں مسلط چلے آرہے ہیں۔ بالخصوص مشرف کے عہد سے لے کر پیپلز پارٹی کے دور حکمرانی تک، یہ قوتیں مسلسل ایک دہائی تک حکومت میں رہی ہیں۔ ان کا طرزِ حکمرانی دیکھا جاچکا۔ انھوں نے بلوچستان کو آگ کے الاؤ میں دھکیلا۔ سیاست کو منافع بخش کاروبار بنا دیا۔ عوام کے حصے میں مزید ذلت اور رسوائی ڈالی۔ اس لیے موجودہ حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانے کا پورا موقع ملنا چاہیے، تاکہ کل ان کے پاس ایسا کوئی جواز نہ ہو کہ انھیں اپنی صلاحیتیں دکھانے کے لیے مطلوبہ وقت نہیں دیا گیا۔
مرکزی حکومت کو بھی یہ سمجھنا ہوگا فوری طور پر کسی بھی قسم کی اِن ہاؤس تبدیلی محض بلوچستان کی حد تک نہیں، مرکز میں بھی ان کے لیے مسائل پیدا کرے گی۔ سندھ میں جس طرح نائن زیرو پر حاضری سے ن لیگپر اعتراض اٹھا، بلوچستان میں سابق حکومتوں کے ہم پیالہ و ہم نوالہ رہنے والے سرداروں کا ساتھ دینے کی صورت میں وہی اعتراضات سامنے آ سکتے ہیں۔ یہ یاد رکھیے کہ بلوچستان میں موجودہ حکومت کی ناکامی محض عام آدمی کی ناکامی ہی نہیں ہوگی، بلکہ یہ اس صوبے میں سرداروں کی حتمی فتح کی علامت ہوگی۔ حکومت کو گرانے کی کسی بھی صورت کی کامیابی بلوچستان میں اسمبلیوں کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھنے والوں کی کامیابی ہوگی۔
یہ اس پڑھے لکھے طبقے کی ناکامی ہوگی جو تمام تر سخت گیر موقف اور اختلافات کے باوجود سیاسی عمل کے تسلسل پر یقین رکھتا ہے۔ بلوچستان کی پہلی سیاسی جمہوری حکومت ناکام ہوئی، تو نیپ میں شامل سردار خیر بخش مری اس وقت بلوچستان اسمبلی کا حصہ تھے۔ حیدرآباد جیل میں ہی ان کی کایا کلپ ہوئی، وہاں سے نکلے تو پھر پاکستان اور پارلیمانی سیاست کے سبھی دروازے بند کر آئے اور پھرکبھی پلٹ کر نہ دیکھا۔ اس زمانے میں خیربخش مری کی فکر سے قریب رہنے والے، بلوچستان کے موجودہ حکمران اپنے مسلسل سیاسی تجربوں کی بِنا پر آج اسی ایوان تک پہنچے ہیں، جسے سردار مری ستر کی دہائی میں بے مصرف قرار دے چکے۔ ان کی ناکامی انھیں اسی راہ پہ ڈالنے کا موجب بن سکتی ہے، جسے بوجوہ وہ دو دہائی قبل ترک کرچکے۔
جس طرح پاکستان میں عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے، اسی طرح یقین جانیے کہ بلوچستان میں ناکام ترین اور بدترین مڈل کلاس سیاسی حکومت بھی، اپنے رویوں میں انتہائی غیر جمہوری اعلیٰ ترین سرداروں کی کامیاب ترین حکومت سے کہیں زیادہ قابل قبول ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نو منتخب شدہ حکومت اپنے ابتدائی دو ماہ کے ایام میں کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کر پائی۔ ان سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں، پوری ہوتی نظر نہیں آتیں۔ خود انھوں نے جو دعوے کیے، اب تک ان پہ کوئی عمل درآمد نہیں ہو پایا۔ کابینہ کی تشکیل میں ناکامی ان کے گلے کا پھندا بن کے رہ گئی ہے۔ صوبے کے حالات پہ ان کا کوئی کنٹرول نہیں ۔ عوام کی داد رسی کی اب تک کوئی امید نہیں... لیکن اس سب کے باوجود کسی تیسری قوت کو یہ اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی کہ ان الزامات کے تحت وہ ایک منتخب حکومت کو دو تین ماہ میں چلتا کر دے۔ اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ اور ماضی کی حکومتوں کا مسلسل حصہ رہنے والے سبھی سرداروں اور جاگیرداروں کو پریشانی تو اسی دن سیلاحق ہو گئی تھی جس دن ان کے مقابلے میں متوسط طبقے کے ایک نمایندے کو اس ایوان کا قائد بنا دیا گیا تھا، جسے انھوں نے اپنی قبائلی سلطنتوں کی طرح اپنی میراث سمجھنا شروع کردیا تھا۔
ان کے لیے یہ تصور ہی ناقابل برداشت ہے کہ جنھیں وہ اپنی 'سلطنت' میں دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہوں، ایوان میں اب انھیں ان کے ماتحت رہ کر کام کرنا ہوگا۔ جیسے اس ملک کے ہر کونے میں جاگیردار اور مولوی کا گٹھ جوڑ ہے، عین اسی طرح اسمبلیوں میں بھی ان کا اتحاد ہے۔ سردار اور مولوی یہاں بھی اتحاد کے لیے بھاگ دور کر رہے ہیں۔ یہ جو مولوی صاحبان بلوچستان کی حکومت کو غیر فطری قرار دے رہے ہیں، اپنے تئیں درست کہتے ہیں کہ فطری اتحاد تو مولوی اور جاگیردار کا ہے، انھی کے اتحاد سے فطری حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ ان کے سوا جو بھی حکومت قائم ہوگی، غیر فطری ہی کہلائے گی۔ دوسری طرف یہ جو سرداروں اور جاگیرداروں نے اکثریت کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرنے کی رٹ لگائی ہوئی ہے، یہ بھی محض ایک ڈھکوسلا ہی ہے۔ حالانکہ یہی سردار اور جاگیردار اپنے اپنے علاقوں میں اقلیت میں ہونے کے باوجود اکثریت پر مسلط ہیں۔
وہاں انھیں اکثریت کے مینڈیٹ کا کوئی خیال نہیں آتا۔ اگر حکومت کرنے کا اختیار عددی اکثریت سے مشروط ہے، تو پھر ان کے حلقوں میں غریب اور محنت کش، مزدور،کسان اکثریت میں ہیں۔ اصولی طور پر نمایندہ بھی انھی میں سے ہونا چاہیے، نہ کہ پرتعیش زندگی گزارنے والا ایک سردار زادہ جو خود کو موروثی طور پر نسل در نسل سرداری اور حکمرانی کا اہل سمجھتا ہے۔ جاگیردار اقلیت میں ہو کر کوئی کام نہیں کرتا اور سیکڑوں، ہزاروں ایکڑ زمینوں کا مالک بنا بیٹھا ہے، اکثریتی اصول کے تحت یہ زمینیں ان کسانوں اور ہاریوں کو ملنی چاہئیں جو اس پہ شب و روز محنت کرتے ہیں، اس پہ اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں۔ مولوی کا وعظ چند لوگوں تک محدود رہتا ہے، عوام کی اکثریت انھیں منہ نہیں لگاتی، تو کیا وہ اکثریت کا احترام کرتے ہوئے اپنے وعظ بند کردیں گے؟ وہاں اکثریت کے پاس اختیار ہونے کا یہ قانون لاگو نہیں ہوتا، لیکن جہاں اپنے مفاد کا معاملہ آجائے، وہاں انھیں اکثریتی قاعدہ یاد آجاتا ہے۔ اہلیت، قابلیت، کردار اور عمل، حکومت کرنے کے لیے یہ لازمی عناصر انھیں یاد نہیں رہتے۔ کیونکہ ان کی اہلیت، قابلیت اور ان کا کردار و عمل ان کی ماضی کی کارکردگی میں عوام پرکھ چکے ہیں۔
انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جہاں کردار اور عمل کی بات آئے گی، وہاں یہ اپنے دامن پہ لگے داغ کسی صورت نہیں چھپا پائیں گے۔حالیہ آپریشن سے لے کر، بلوچستان کے حالات کو موجودہ نہج تک پہنچانے کی ذمے دار ماضی کی تمام حکومتوں میں یہ سبھی سردار اور مولوی شامل رہے ہیں، جنھیں آج بلوچستان کا غم کھائے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی ماضی میں حکومتیں گرانے اور بنانے میں بھی ان کا خاطرخواہ حصہ رہا ہے۔ یہ جوڑ توڑ کے ماہر رہے ہیں۔ انھیں ان قوتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے جو بلوچستان میں کسی سطح پر عوامی حکومتوں کی پذیرائی نہیں دیکھنا چاہتیں۔ انھیں مہرے کی طرح استعمال کرنے کے بعد پھر ان کے پاس وہی روایتی جواز ہوتا ہے کہ دیکھیے ہم نے تو عام آدمی کو بھی حکومت دے دی، لیکن یہ لوگ خود آپس میں مل بیٹھ نہیں سکتے۔ بادی النظر میں جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ لوگ حکومت کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں، انھیں ڈنڈے کے زور پر ہی چلایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ یہ سارا ڈرامہ انھی کی پروڈکشن میں چل رہا ہوتا ہے۔ انھی قوتوں کی ہدایت پہ اب اسلام آباد سے، بلوچستان میں فارورڈ بننے کی خبریں 'پلانٹ' کی جارہی ہیں۔
یہ اس سیاسی بلیک میلنگ کا ابھی آغاز ہے، جس نے تادم آخر موجودہ حکمرانوں کا پیچھا نہیں چھوڑنا۔ اسے منڈی کے ذرایع پر قبضے کے لیے استعمال کی جانیوالی سرمایہ کاری کے تناظر میں باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔اس سارے قضیے کا مقصد کسی بھی صورت موجودہ حکومت کی غلطیوں اور کمزوریوں کی پردہ پوشی نہیں، جس کا تذکرہ ہم نے آغاز میں ہی کردیا تھا۔ حکومت کی خرابیاں اپنی جگہ، لیکن ان خرابیوں کو ٹھیک کرنے کا ٹھیکہ ان سرداروں، نوابوں کو نہیں دیا جاسکتا، جو گزشتہ نصف صدی سے مختلف صورتوں میں مسلط چلے آرہے ہیں۔ بالخصوص مشرف کے عہد سے لے کر پیپلز پارٹی کے دور حکمرانی تک، یہ قوتیں مسلسل ایک دہائی تک حکومت میں رہی ہیں۔ ان کا طرزِ حکمرانی دیکھا جاچکا۔ انھوں نے بلوچستان کو آگ کے الاؤ میں دھکیلا۔ سیاست کو منافع بخش کاروبار بنا دیا۔ عوام کے حصے میں مزید ذلت اور رسوائی ڈالی۔ اس لیے موجودہ حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانے کا پورا موقع ملنا چاہیے، تاکہ کل ان کے پاس ایسا کوئی جواز نہ ہو کہ انھیں اپنی صلاحیتیں دکھانے کے لیے مطلوبہ وقت نہیں دیا گیا۔
مرکزی حکومت کو بھی یہ سمجھنا ہوگا فوری طور پر کسی بھی قسم کی اِن ہاؤس تبدیلی محض بلوچستان کی حد تک نہیں، مرکز میں بھی ان کے لیے مسائل پیدا کرے گی۔ سندھ میں جس طرح نائن زیرو پر حاضری سے ن لیگپر اعتراض اٹھا، بلوچستان میں سابق حکومتوں کے ہم پیالہ و ہم نوالہ رہنے والے سرداروں کا ساتھ دینے کی صورت میں وہی اعتراضات سامنے آ سکتے ہیں۔ یہ یاد رکھیے کہ بلوچستان میں موجودہ حکومت کی ناکامی محض عام آدمی کی ناکامی ہی نہیں ہوگی، بلکہ یہ اس صوبے میں سرداروں کی حتمی فتح کی علامت ہوگی۔ حکومت کو گرانے کی کسی بھی صورت کی کامیابی بلوچستان میں اسمبلیوں کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھنے والوں کی کامیابی ہوگی۔
یہ اس پڑھے لکھے طبقے کی ناکامی ہوگی جو تمام تر سخت گیر موقف اور اختلافات کے باوجود سیاسی عمل کے تسلسل پر یقین رکھتا ہے۔ بلوچستان کی پہلی سیاسی جمہوری حکومت ناکام ہوئی، تو نیپ میں شامل سردار خیر بخش مری اس وقت بلوچستان اسمبلی کا حصہ تھے۔ حیدرآباد جیل میں ہی ان کی کایا کلپ ہوئی، وہاں سے نکلے تو پھر پاکستان اور پارلیمانی سیاست کے سبھی دروازے بند کر آئے اور پھرکبھی پلٹ کر نہ دیکھا۔ اس زمانے میں خیربخش مری کی فکر سے قریب رہنے والے، بلوچستان کے موجودہ حکمران اپنے مسلسل سیاسی تجربوں کی بِنا پر آج اسی ایوان تک پہنچے ہیں، جسے سردار مری ستر کی دہائی میں بے مصرف قرار دے چکے۔ ان کی ناکامی انھیں اسی راہ پہ ڈالنے کا موجب بن سکتی ہے، جسے بوجوہ وہ دو دہائی قبل ترک کرچکے۔
جس طرح پاکستان میں عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے، اسی طرح یقین جانیے کہ بلوچستان میں ناکام ترین اور بدترین مڈل کلاس سیاسی حکومت بھی، اپنے رویوں میں انتہائی غیر جمہوری اعلیٰ ترین سرداروں کی کامیاب ترین حکومت سے کہیں زیادہ قابل قبول ہے۔