شوگر سے بچاؤ اور فطری علاج
سادہ متوازن غذا اور صحیح تشخیص سے اس موذی مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ترقی کی دوڑ میں جہاں انسان روایتی اقدار کو نظر انداز کرتا جا رہا ہے وہیں وہ اپنے فطری طرزِزندگی کو بھی فراموش کیے ہوئے ہے۔
جب تک انسان قدرتی ماحول میں سادہ خوراک کھا کر بھی خوش رہا جب تک وہ صحت مند تھا اس کی عمر دراز تھی۔ لیکن جب سے حضرت ِ انسان نے نت نئی ایجادات کی بدولت ملنے والی سہل پسند زندگی کو اپنایا ہے جب سے مختلف نوعیت کی بیماریوں نے اسے گھیرے رکھا ہے۔ ٹھنڈے مشروبات،چائے،سگریٹ نوشی، چکنی اور میٹھی چیزوں،تیز مسالوں،مرچوں اور گوشت کے حد سے زیادہ استعمال اور آرام دہ طرز زندگی نے ہمیں اپنی صحت کا خود دشمن بنا دیا ہے۔ یہ سب عوامل ذیابیطس، ہیپا ٹائٹس ،بلڈ پریشر،کینسر، دل وگردوں کے فیل ہونے جیسی مہلک بیماریوں کا اہم سبب ہیں۔ بطورِ معالج یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر ہم اپنی خوراک میں توازن اورطرزِ زندگی میں توازن پیدا کرلیں توخاطر خواہ حد تک مندرجہ بالا مہلک اور موذی امراض سے بچ سکتے ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم صرف ذیابیطس کے حوالے سے معروضات سپردِ قلم کر رہے ہیں جو قابلِ غور بھی ہیں اور قابلِ عمل بھی۔
واضح رہے کہ مضمون خالصتاً فطری طریقہ علاج پر ہے۔ تمام معالجین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ذیابطیس کا مریض متوازن غذا اور پابندی سے ورزش معمول کا حصہ بنا لے تو وہ شوگر کے مضر اثرات سے کافی حد تک محفوظ رہ کر پر لطف زندگی گزار سکتا ہے۔ پرہیزی غذا اور ورزش انسانی جسم میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے۔ اور میٹا بولزم کے عمل کو مزید فعال کرکے جسم کو چست کرتی ہے۔ انسانی جسم میں میٹابولزم کی کارکردگی سست ہونے سے مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اورکوئی بھی بیماری آسانی سے حملہ کردیتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ایک صحت مند انسان کے خون میں شوگر کی مقدار صبح نہار منہ 80ملی گرام سے 120 ملی گرام جب کہ کھانے کے بعد120 ملی گرام سے180ملی گرام تک ہونی چاہیے۔
قارئین! قدیم طبی نظریے کے مطابق تمام امراض کی وجہ اخلاط صفرا،سودا،بلغم اور خون کی افراط وتفریط بنتی ہے۔ انسانی مزاج کاتعین بھی یہی اخلاط کرتے ہیں۔ نیچروپیتھی کی رو سے ذیابیطس کی پانچ اقسام ہیں ۔ معوی ،معدی ،کبدی دماغی اور بانقراسی اور ان کا سبب درج ذیل عوارض اور اعضا کی خرابی ہے۔
٭معوی ذیابیطس:۔اسے انتڑیوں کی خرابی سے پیدا ہونے والی ذیابیطس بھی کہا جاتا ہے۔انتڑیوں کے فعل میں خرابی واقع ہوجانے سے بھی ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔اگر ابتدائی طور پر اس خرابی کو دور کر دیا جائے تو ذیابیطس کی علامات بھی خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔انتڑیوں کی خرابی میں دائمی قبض،انتڑیوں کی سوزش،انتڑیوں کی حرکاتِ دودیہ میں نقص واقع ہونا، انتڑیوں میں زہریلی گیسوں کا ٹھہر جانا اورخشکی کی تہہ بن جانا وغیرہ شامل ہیں۔انتڑیوں میں فاضل مادوں کے زیادہ دیر تک رکے رہنے کی وجہ سے تعفن پیدا ہو جاتا ہے۔ اجابت کھل کر نہیں ہوتی۔مریض پیٹ میں بھاری پن اور بوجھ سا محسوس کرتا ہے۔دن میں کئی بار رفع حاجت کی خواہش تو ہوتی ہے مگر فراغت نہیں ہو پاتی۔ پیشاب بار بار آنے لگتا ہے اور ہر بار پاخانہ بھی قلیل مقدار میں خارج ہوتا رہتا ہے۔
راقم الحروف کی ذاتی پریکٹس میں اس طرح کے بے شمار مریض آچکے ہیں جن کی انتڑیاں درست ہوتے ہی ذیابیطس بھی جان چھوڑ گئی۔ علاوہ ازیں ماہرین طب جانتے ہیں کہ انسانی جسم کی عمدہ کارکردگی میں انتڑیوں کی بہتر کارکردگی کا عمل دخل اسی فیصد تک ہوتا ہے۔انتڑیوں کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ثقیل، نفاخ اور دیر سے ہضم ہونے والی غذاؤں کا بے دریغ اور تواتر سے استعمال ہے۔انتڑیوں کی خرابی سے پیدا ہونے والی ذیابیطس کو معوی شوگر کا نام دیا جاتا ہے۔یہاں یہ امر قابل وضاحت ہے کہ جو معالجین اسبابِ مرض کو دور کرنے پر توجہ دیتے ہیں اور ظاہری علامات کی بجائے مرض کی جڑ اکھاڑنے کی تگودو کرتے ہیں وہ مریض کو بیماری سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔مثلاً معوی ذیابیطس کا علاج کرتے وقت اگر انتڑیوں کے افعال کو درست کردیا جائے تو ظاہری علامات بھی خود ہی ختم ہو جائیں گی۔
٭معدی ذیابیطس:۔بعض اوقات معدے کی خرابی کے باعث ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ جسے معدی ذیابیطس کہا جاتا ہے۔
ذیابیطس کے زیادہ تر مریضوں کو کھانے کی طلب بار بار ہوتی ہے جس سے مریض اور کچھ معالج یہ سمجھ لیتے ہیں کہ معدہ اپنا فعل درست طریقے سے سر انجام دے رہا ہے لیکن یہ خیال درست نہیں ہے بلکہ علمِ طب کی رو سے بار بار یا بے وقت کھانے کی طلب ہونا بذات خود ایک بیماری ہے جسے ''جو ع ابقر'' کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ معالج کی ذمے داری ہے کہ وہ مرض کی تشخیص مکمل سوجھ بوجھ سے کرے اور مرض کا سبب بننے والے عوامل پر دھیان دیتے ہوئے معدے کے امراض کا علاج کرے تو انشاء اللہ معدی ذیابیطس کی علامات کا خاتمہ ہوجائے گا۔
٭کبدی ذیابیطس:۔کبد جگر کا دوسرا نام ہے۔ کافی عرصے تک جگرکے امراض میں مبتلا رہنے والے افراد میں بعض اوقات ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ اور اگر صحیح تشخیص کے بعد جگر کا علاج کیا جائے تومریض ذیابیطس کی اس قسم سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ عام طور پر امراضِ جگر میں غلبہ صفرا اور سودا،جگر کے سدے، جگر کی سوز ش( Hepatitis)وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جگر کی خرابی میں پتے اور تلی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ صفرا کا مرکز پتہ ہے جبکہ تلی سودا کا گھر ہے۔ لہٰذا ذیابیطس کا سبب پتہ اور تلی بھی ہو سکتے ہیں۔ اس بات کی تشخیص کا دارومدار معالج کی معالجاتی بصیرت پر ہوتا ہے۔
٭دماغی ذیابیطس:۔ ہمارے سر میںدماغ کے قریب بلغم پیدا کرنے والا غدود پایا جاتا ہے۔ ایسے افراد جن کا مزاج بلغمی ہوتا ہے ،جسم میں بلغم کی مقدار ضرورت سے زیادہ جمع ہو جانے سے بھی بعض اوقات ذیابیطس کی علامات ستانے لگتی ہیں۔ایسی ذیابیطس کو دماغی کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ذہنی امراض کے نتیجے میں حملہ آور ہونے والی ذیابیطس کو بھی برین شوگر کہا جاتا ہے۔دماغی ذیابیطس کا رجحان ایسے افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے جو بات بے بات ٹینشن،ڈپریشن اور ذہنی اضطراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ویسے بھی علمِ طب کی رو سے کسی ایک اخلاط کی کمی یا زیادتی امراض کا باعث بن جاتی ہے۔ بلغم کی زیادتی خون میں شامل ہوکر نظامِ دورانِ خون کو متاثر کرتی ہے جس سے بلڈ شوگر کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔
٭جنرل ذیابیطس:۔عام حملہ آور ہونے والی ذیابیطس بانقراس یا لبلبہ کے فعل میں خرابی پیدا ہونے سے واقع ہوتی ہے۔ لبلبہ ایک ایسا غدودہے جو جسم میں انسولین کی مطلوبہ ضرورت کو پوری کرتا ہے۔ چکنائی کے بے دریغ استعمال سے اس کے فعل میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ چونکہ انسانی بدن میں شکرکی سطح کو قابو میں رکھنا انسولین کا کام ہے۔ لہٰذا انسولین کی کمی یا زیادتی سے شوگر لیول متاثر ہو جا تا ہے اور ذیابیطس کی علامات نمودار ہونے لگتی ہیں۔یاد رہے بانقراس کے فعل میں خرابی غیر معیاری خوراک،سہل پسندی اور دیگر ماحولیاتی عناصر سے پید اہوتی ہے۔ لبلبے کی خرابی سے حملہ آور ہونے والی ذیابیطس کو بانقراسی یا جنرل ذیابیطس کہا جاتا ہے۔
خوراک اور روز مرہ معمولات کے حوالے سے چنداہم تجاویز:۔
شوگر سے بچاؤ کے قدرتی طریقے اپنا کر ہم اس موذی مرض کے خطرات سے کافی حد تک محفوظ ہوسکتے ہیں۔ شوگر پر غذا اور ورزش کے ذریعے قابو پانے کی حتی المقدور کوشش کی جائے۔ بصورتِ دیگر لو پو ٹینسی کی ادویات کا استعمال کیا جائے تاکہ شوگر لیول متوازن ہونے کی صورت میں دوا کو باآسانی چھوڑا جا سکے۔ تاہم ذیابطیس سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ ورزش ہے۔ روزانہ نصف گھنٹے سے پون گھنٹے واک اورجسم کو تازہ دم کرنے والی ورزش ضرور کی جائے۔ ریڑھ کی ہڈی اور دونوں ٹانگوں کی مْختلف ورزشیں باقاعدگی سے کی جائیں ،کیوں کہ ٹانگوں اور ریڑھ کی ہڈی کی ورزش سے ذیابطیس پر قابو پانے میں خاطر خواہ حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اپنا وزن کسی صورت بھی اپنے قد اور عمر کے تناسب سے نہ بڑھنے دیا جائے۔ بلڈ کولیسٹرول کو قابو میں رکھا جائے۔ چکنائی،میٹھی چیزوں اورنمک سے پرہیز کیا جائے۔
اپنے معالج سے مشورہ کریں اور اپنے مزاج کے مطابق غذ ااور پرہیز پر کار بند ہوجائیں ان شاء اللہ آپ جلد ذیابیطس جیسی موذی بیماری کے خطرات سے محفوظ ہو جائیں گے۔
جب تک انسان قدرتی ماحول میں سادہ خوراک کھا کر بھی خوش رہا جب تک وہ صحت مند تھا اس کی عمر دراز تھی۔ لیکن جب سے حضرت ِ انسان نے نت نئی ایجادات کی بدولت ملنے والی سہل پسند زندگی کو اپنایا ہے جب سے مختلف نوعیت کی بیماریوں نے اسے گھیرے رکھا ہے۔ ٹھنڈے مشروبات،چائے،سگریٹ نوشی، چکنی اور میٹھی چیزوں،تیز مسالوں،مرچوں اور گوشت کے حد سے زیادہ استعمال اور آرام دہ طرز زندگی نے ہمیں اپنی صحت کا خود دشمن بنا دیا ہے۔ یہ سب عوامل ذیابیطس، ہیپا ٹائٹس ،بلڈ پریشر،کینسر، دل وگردوں کے فیل ہونے جیسی مہلک بیماریوں کا اہم سبب ہیں۔ بطورِ معالج یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر ہم اپنی خوراک میں توازن اورطرزِ زندگی میں توازن پیدا کرلیں توخاطر خواہ حد تک مندرجہ بالا مہلک اور موذی امراض سے بچ سکتے ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم صرف ذیابیطس کے حوالے سے معروضات سپردِ قلم کر رہے ہیں جو قابلِ غور بھی ہیں اور قابلِ عمل بھی۔
واضح رہے کہ مضمون خالصتاً فطری طریقہ علاج پر ہے۔ تمام معالجین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ذیابطیس کا مریض متوازن غذا اور پابندی سے ورزش معمول کا حصہ بنا لے تو وہ شوگر کے مضر اثرات سے کافی حد تک محفوظ رہ کر پر لطف زندگی گزار سکتا ہے۔ پرہیزی غذا اور ورزش انسانی جسم میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے۔ اور میٹا بولزم کے عمل کو مزید فعال کرکے جسم کو چست کرتی ہے۔ انسانی جسم میں میٹابولزم کی کارکردگی سست ہونے سے مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اورکوئی بھی بیماری آسانی سے حملہ کردیتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ایک صحت مند انسان کے خون میں شوگر کی مقدار صبح نہار منہ 80ملی گرام سے 120 ملی گرام جب کہ کھانے کے بعد120 ملی گرام سے180ملی گرام تک ہونی چاہیے۔
قارئین! قدیم طبی نظریے کے مطابق تمام امراض کی وجہ اخلاط صفرا،سودا،بلغم اور خون کی افراط وتفریط بنتی ہے۔ انسانی مزاج کاتعین بھی یہی اخلاط کرتے ہیں۔ نیچروپیتھی کی رو سے ذیابیطس کی پانچ اقسام ہیں ۔ معوی ،معدی ،کبدی دماغی اور بانقراسی اور ان کا سبب درج ذیل عوارض اور اعضا کی خرابی ہے۔
٭معوی ذیابیطس:۔اسے انتڑیوں کی خرابی سے پیدا ہونے والی ذیابیطس بھی کہا جاتا ہے۔انتڑیوں کے فعل میں خرابی واقع ہوجانے سے بھی ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔اگر ابتدائی طور پر اس خرابی کو دور کر دیا جائے تو ذیابیطس کی علامات بھی خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔انتڑیوں کی خرابی میں دائمی قبض،انتڑیوں کی سوزش،انتڑیوں کی حرکاتِ دودیہ میں نقص واقع ہونا، انتڑیوں میں زہریلی گیسوں کا ٹھہر جانا اورخشکی کی تہہ بن جانا وغیرہ شامل ہیں۔انتڑیوں میں فاضل مادوں کے زیادہ دیر تک رکے رہنے کی وجہ سے تعفن پیدا ہو جاتا ہے۔ اجابت کھل کر نہیں ہوتی۔مریض پیٹ میں بھاری پن اور بوجھ سا محسوس کرتا ہے۔دن میں کئی بار رفع حاجت کی خواہش تو ہوتی ہے مگر فراغت نہیں ہو پاتی۔ پیشاب بار بار آنے لگتا ہے اور ہر بار پاخانہ بھی قلیل مقدار میں خارج ہوتا رہتا ہے۔
راقم الحروف کی ذاتی پریکٹس میں اس طرح کے بے شمار مریض آچکے ہیں جن کی انتڑیاں درست ہوتے ہی ذیابیطس بھی جان چھوڑ گئی۔ علاوہ ازیں ماہرین طب جانتے ہیں کہ انسانی جسم کی عمدہ کارکردگی میں انتڑیوں کی بہتر کارکردگی کا عمل دخل اسی فیصد تک ہوتا ہے۔انتڑیوں کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ثقیل، نفاخ اور دیر سے ہضم ہونے والی غذاؤں کا بے دریغ اور تواتر سے استعمال ہے۔انتڑیوں کی خرابی سے پیدا ہونے والی ذیابیطس کو معوی شوگر کا نام دیا جاتا ہے۔یہاں یہ امر قابل وضاحت ہے کہ جو معالجین اسبابِ مرض کو دور کرنے پر توجہ دیتے ہیں اور ظاہری علامات کی بجائے مرض کی جڑ اکھاڑنے کی تگودو کرتے ہیں وہ مریض کو بیماری سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔مثلاً معوی ذیابیطس کا علاج کرتے وقت اگر انتڑیوں کے افعال کو درست کردیا جائے تو ظاہری علامات بھی خود ہی ختم ہو جائیں گی۔
٭معدی ذیابیطس:۔بعض اوقات معدے کی خرابی کے باعث ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ جسے معدی ذیابیطس کہا جاتا ہے۔
ذیابیطس کے زیادہ تر مریضوں کو کھانے کی طلب بار بار ہوتی ہے جس سے مریض اور کچھ معالج یہ سمجھ لیتے ہیں کہ معدہ اپنا فعل درست طریقے سے سر انجام دے رہا ہے لیکن یہ خیال درست نہیں ہے بلکہ علمِ طب کی رو سے بار بار یا بے وقت کھانے کی طلب ہونا بذات خود ایک بیماری ہے جسے ''جو ع ابقر'' کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ معالج کی ذمے داری ہے کہ وہ مرض کی تشخیص مکمل سوجھ بوجھ سے کرے اور مرض کا سبب بننے والے عوامل پر دھیان دیتے ہوئے معدے کے امراض کا علاج کرے تو انشاء اللہ معدی ذیابیطس کی علامات کا خاتمہ ہوجائے گا۔
٭کبدی ذیابیطس:۔کبد جگر کا دوسرا نام ہے۔ کافی عرصے تک جگرکے امراض میں مبتلا رہنے والے افراد میں بعض اوقات ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ اور اگر صحیح تشخیص کے بعد جگر کا علاج کیا جائے تومریض ذیابیطس کی اس قسم سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ عام طور پر امراضِ جگر میں غلبہ صفرا اور سودا،جگر کے سدے، جگر کی سوز ش( Hepatitis)وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جگر کی خرابی میں پتے اور تلی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ صفرا کا مرکز پتہ ہے جبکہ تلی سودا کا گھر ہے۔ لہٰذا ذیابیطس کا سبب پتہ اور تلی بھی ہو سکتے ہیں۔ اس بات کی تشخیص کا دارومدار معالج کی معالجاتی بصیرت پر ہوتا ہے۔
٭دماغی ذیابیطس:۔ ہمارے سر میںدماغ کے قریب بلغم پیدا کرنے والا غدود پایا جاتا ہے۔ ایسے افراد جن کا مزاج بلغمی ہوتا ہے ،جسم میں بلغم کی مقدار ضرورت سے زیادہ جمع ہو جانے سے بھی بعض اوقات ذیابیطس کی علامات ستانے لگتی ہیں۔ایسی ذیابیطس کو دماغی کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ذہنی امراض کے نتیجے میں حملہ آور ہونے والی ذیابیطس کو بھی برین شوگر کہا جاتا ہے۔دماغی ذیابیطس کا رجحان ایسے افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے جو بات بے بات ٹینشن،ڈپریشن اور ذہنی اضطراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ویسے بھی علمِ طب کی رو سے کسی ایک اخلاط کی کمی یا زیادتی امراض کا باعث بن جاتی ہے۔ بلغم کی زیادتی خون میں شامل ہوکر نظامِ دورانِ خون کو متاثر کرتی ہے جس سے بلڈ شوگر کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔
٭جنرل ذیابیطس:۔عام حملہ آور ہونے والی ذیابیطس بانقراس یا لبلبہ کے فعل میں خرابی پیدا ہونے سے واقع ہوتی ہے۔ لبلبہ ایک ایسا غدودہے جو جسم میں انسولین کی مطلوبہ ضرورت کو پوری کرتا ہے۔ چکنائی کے بے دریغ استعمال سے اس کے فعل میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ چونکہ انسانی بدن میں شکرکی سطح کو قابو میں رکھنا انسولین کا کام ہے۔ لہٰذا انسولین کی کمی یا زیادتی سے شوگر لیول متاثر ہو جا تا ہے اور ذیابیطس کی علامات نمودار ہونے لگتی ہیں۔یاد رہے بانقراس کے فعل میں خرابی غیر معیاری خوراک،سہل پسندی اور دیگر ماحولیاتی عناصر سے پید اہوتی ہے۔ لبلبے کی خرابی سے حملہ آور ہونے والی ذیابیطس کو بانقراسی یا جنرل ذیابیطس کہا جاتا ہے۔
خوراک اور روز مرہ معمولات کے حوالے سے چنداہم تجاویز:۔
شوگر سے بچاؤ کے قدرتی طریقے اپنا کر ہم اس موذی مرض کے خطرات سے کافی حد تک محفوظ ہوسکتے ہیں۔ شوگر پر غذا اور ورزش کے ذریعے قابو پانے کی حتی المقدور کوشش کی جائے۔ بصورتِ دیگر لو پو ٹینسی کی ادویات کا استعمال کیا جائے تاکہ شوگر لیول متوازن ہونے کی صورت میں دوا کو باآسانی چھوڑا جا سکے۔ تاہم ذیابطیس سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ ورزش ہے۔ روزانہ نصف گھنٹے سے پون گھنٹے واک اورجسم کو تازہ دم کرنے والی ورزش ضرور کی جائے۔ ریڑھ کی ہڈی اور دونوں ٹانگوں کی مْختلف ورزشیں باقاعدگی سے کی جائیں ،کیوں کہ ٹانگوں اور ریڑھ کی ہڈی کی ورزش سے ذیابطیس پر قابو پانے میں خاطر خواہ حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اپنا وزن کسی صورت بھی اپنے قد اور عمر کے تناسب سے نہ بڑھنے دیا جائے۔ بلڈ کولیسٹرول کو قابو میں رکھا جائے۔ چکنائی،میٹھی چیزوں اورنمک سے پرہیز کیا جائے۔
اپنے معالج سے مشورہ کریں اور اپنے مزاج کے مطابق غذ ااور پرہیز پر کار بند ہوجائیں ان شاء اللہ آپ جلد ذیابیطس جیسی موذی بیماری کے خطرات سے محفوظ ہو جائیں گے۔