وزیر اعظم کو خط لکنے کیلیے22دن کی مہلت پرویز اشرف کا واضح یقین دہانی سے گریز

فیصلہ اٹل ہے، خط لکھنا پڑیگا، آپ ملزم نہیں باوقار وزیراعظم ہیں، خط کا وعدہ کریں، الیکشن تک بے فکر ہوجائیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد:وزیراعظم راجا پرویز اشرف این آر او عملدرآمد کیس میں پیشی کے لیے سپریم کورٹ آمد پر لوگوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلارہے ہیں (فوٹو : ایکسپریس)

سپریم کورٹ نے وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کی استدعا منظور کرکے انھیں سوئس حکام کو خط لکھنے کے حکم پر عملدرآمد کیلیے18ستمبر تک مہلت دیدی ہے اور وزیراعظم کو آئندہ سماعت پر بھی پیش ہونے کیلیے پابند کیا ہے۔ دوران سماعت عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ خط لکھنے کا فیصلہ اٹل ہے، حکومت کو خط لکھنا پڑے گا لیکن عملدرآمد میں جتنی تاخیر ہو گی معاملات اتنے گھمبیر ہوتے جائیں گے۔ عدالت نے وزیر اعظم پر واضح کیا کہ اگر فیصلے پر عملدرآمد کیلیے واضح یقین دہانی ہو تو عدالت حکومت کے تمام خدشات دور کرنے کیلیے تیار ہے اور حکومت کی ہر ممکن دادرسی کریگی۔

وزیراعظم این آراو عملدرآمد کیس میں اظہار وجوہ کے نوٹس پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوئے اور بتایا کہ یہ ان کیلیے ایک اعزاز ہے کہ وہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم پر بینچ کے سامنے حاضر ہیں، وہ عدلیہ کی آزادی اور وقار پر یقین رکھتے ہیں اور تہہ دل سے اس کی عزت کرتے ہیں۔ جب دو مہینے پیشتر انھوں نے عہدہ سنبھالا تو دیگر بڑے مسائل کے علاوہ این آراو عملدرآمد کیس کا معاملہ بھی تھا۔ اس کیس نے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کی ہے، نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی یہ معاملہ زیربحث ہے اور مشکلات کا باعث ہے،

بطور وزیر اعظم اس ضمن میں ان پر شدید دبائو ہے اور ان کی شدید خواہش ہے کہ یہ معاملہ ہمیشہ کیلیے حل ہوجائے، اس لیے وہ اس مسئلے کو اپنے اتحادیوں، کابینہ کے ارکان کے اشتراک اور مشاورت سے حل کر نا چاہتے ہیں، وزیراعظم نے عدالت سے استدعا کی کہ اس مقصد کیلیے انھیں 4 سے 6 ہفتے کی مہلت دی جائے۔ یہ آئین وقانون کا معاملہ ہے اور وہ خود قانون سے نابلد ہیں، اس لیے عدالتی حکم کو سمجھنے کیلیے وقت درکار ہے، تاریخ مانگنے کا ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ خدانخواستہ وہ عدالت کا احترام نہیں کرتے، اب تو جو بھی غیرملکی سفارتکار یا مندوب ان سے ملنے آتے ہیں تو وہ بھی اس کیس کے حوالے سے استفسار کرتے ہیں۔ بینچ کے سربراہ مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا احترام عدالت آنے سے نہیں بلکہ عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد سے ہوتا ہے۔


آپ ایک ملزم نہیں بلکہ ایک باوقار قوم کے باوقار وزیراعظم کی حیثیت سے پیش ہوئے ہیں اور ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ عدالتوں میں پیش ہونا کوئی معیوب بات نہیں، اس سے پہلے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی پیش ہوئے تھے، یہ آنا جانا مسئلے کا حل نہیں بلکہ ملک قیوم نے جو غیر قانونی خط لکھا تھا اس کی واپسی کیلیے خط لکھنے سے یہ مسئلہ حل ہوگا۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا بنایا گیا ہے، اس مسئلے کے حل کیلیے عدالت کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے تاکہ حکومت کے خدشات دور کیے جاسکیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی اور پیشکش نہیں کی جاسکتی۔ ہم پہلے پاکستانی پھر جج یا وزیراعظم ہیں، مسئلہ حل کرنے سے حل ہوگا اور غیر یقینی کی صورتحال خود بخود ختم ہوجائیگی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا جو ہونا تھا وہ ہوگیا، اب اس کے حل کیلیے ٹھوس پیشرفت ہونی چاہیے۔ راجا پرویز اشرف نے کہا اس مسئلے کو کیوں لٹکایا گیا وہ ان کی سمجھ سے باہر ہے،

انھیں عدالت میں حاضری کیلیے کسی نوٹس کی ضرورت نہیں، ایک فون کال پر حاضر ہوجائیں گے۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ آپ کے بیان میں تضاد ہے، ایک طرف اور مسائل کی بات ہورہی ہے تو دوسری طرف اس مسئلے کو بھی لٹکانا نہیں چاہتے۔ جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعظم کو کہا کہ یہ مسئلہ آپ کے دروازے پر آیا ہے اس کو حل کریں بعد میں انکوائری کریں کہ کس نے کیوں لٹکایا جو میٹنگز عدالت میں پیش ہونے یا نہ ہونے کے معاملے پر ہوئیں، اگر وہی فیصلے پر عمل کیلیے کی جاتیں تو اب تک یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ جسٹس اطہر سعید نے کہا جتنا اس مسئلے کو لٹکایا جائے گا، معاملات خراب ہوتے جائیں گے،

اس تاخیر کے باعث ایک وزیر اعظم بھی جا چکے ہیں۔ وزیر اعظم نے میڈیا پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ خواہ مخواہ اس معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میڈیا کو چھوڑدیں، آج واضح کمٹمنٹ کریں کہ خط لکھ دیا جائیگا پھر انتخابات تک بے فکر ہوجائیں۔ اس کیلیے وزیر اعظم خود خط نہیں لکھیں گے بلکہ کسی کو اختیار دیا جائیگا۔ اگر فیصلے پر عمل نہیں ہوگا تو پھر قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ عدالت کے بار بار اصرار کے باوجود وزیراعظم نے خط لکھنے کی واضح یقین دہانی نہیں کرائی تاہم عدالت کو یقین دلایا کہ اس مسئلے کو حل کر دیا جائیگا۔ عدالت نے پہلے سماعت 12ستمبر تک ملتوی کی تو وزیر اعظم نے کہا کہ وہ چین جا رہے ہیں، اس تاریخ پر موجود نہیں ہوں گے۔

انھوں نے عدالت سے شوکاز واپس لینے کی بھی استدعا کی اور کہا کہ اس سے بیرون ملک اچھا تاثر نہیں جائیگا لیکن عدالت نے اس استدعا سے اتفاق نہیں کیا تاہم سماعت18ستمبر تک ملتوی کردی اور وزیر اعظم کو ہدایت کی کہ وہ خود حاضر ہوں۔ عدالت نے آبزرویشن دی کہ وزیر اعظم کی موجودگی میں معاملہ حل کی طرف جائیگا۔ آئی این پی کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم کسی شخص کو خط لکھنے کا اختیار دیدیں، بے شک فاروق ایچ نائیک کو اختیار دیدیں۔ عدالتوں کو وزیر اعظم تبدیل کرنے کا شوق نہیں۔ این این آئی کے مطابق عدالت نے کہا کہ وزیراعظم خط لکھنے کی کمٹمنٹ دیں تو الیکشن تک وزیراعظم رہیں۔

Recommended Stories

Load Next Story