نیک نیت اور نیک دل حکمران
میرا ایمان ہے کہ اگر آپ کا لیڈر ایماندار ہو تو پھر فکر کی کوئی بات نہیں
محترم وزیر اعظم عمران خان بالمقابہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ذاتی خوشی کی بات یہ ہے کہ جس سیاستدان کو قوم کی امید قرار دیا تھا وہ حقیقتاً امید بن کر سامنے آیا ہے اور آج جب ان کی مختلف مواقعے پر کی گئی گفتگو کے بارے میں کچھ عرض کر نے کی کوشش کر رہا ہوں تو الفاظ کے اس خوشہ چین کو موزوں الفاظ تلاش کرنے میں بہت مشکل پیش آرہی ہے۔
وہ اپنی گفتگو میں ملک اور قوم کو درپیش مسائل کی صحیح نشاندہی کر رہے ہیں اور نشاندہی کے ساتھ ساتھ علاج بھی تجویز کر رہے ہیں ایک ایسا علاج جو ان کے بعض سیاسی ساتھیوں کو بھی راس نہیں آرہا اور وہ بھی اس علاج کا شکار بن گئے ہیں۔ وہ صرف رو نہیں رہے آنسو بھی پونچھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یہ بات ان کی ایمانداری کا ثبوت ہے ورنہ روایتی سیاستدانوں کی طرح وہ سب کچھ کہہ دینے کے باوجود دامن بچا کر نکل سکتے ہیں لیکن وہ ہر مسئلے اور بیماری کا اعتراف بھی کر رہے ہیں اور اس کے علاج کا وعدہ بھی کر رہے ہیں صرف علاج کا وعدہ ہی نہیں کیا، یہ بھی بتا رہے ہیں کہ وہ کیا علاج کریں گے ۔ یاد نہیں پڑتا کہ پاکستان کی ماضی قریب کی تاریخ میں کسی صاحب اقتدار نے ایسا دیانتدارانہ رویہ اختیار کیا ہو ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ گفتار کے غازی سیاستدانوں سے بھری پڑی ہے جو سیاستدان اقتدار میں رہے ہیں زندہ ہیں وہ عمران خان کی پاکستان کے لیے گہری وابستگی کے الفاظ سن کر اپنے ضمیر کو ملامت ضرور کرتے ہوں گے ۔ جدی پشتی سیاستدان اور اپنے سیاستدان اجداد پر فخر کرنے والے آج اپنے سیاسی اعمال کی وجہ سے ایک ایسے سیاستدان کے سامنے شرمندہ ہیں جس کے اجداد کو سیاست کی ہوا بھی نہیں لگی تھی اور جو خود کھلے میدانوں کی خوشگوار ہواؤں میں پل کر جوان ہوا جس کو اپنی قسمت ورثے میں نہیں ملی اس نے خود بنائی۔ عمران خان پر اگر بد بختی کی کوئی افتاد نہ پڑ گئی تو وہ اس ڈوبتے ہوئے ملک کی کشتی کو بھنور سے نکال لے گا۔
میرے لیے عمران خان کا سب سے بڑا وصف وہ قومی غیرت ہے جسے میں نے اس کی شخصیت میں ہمیشہ محسوس کیا ہے اور ملک کے ساتھ وہ محبت ہے جو اس کے وجود کا حصہ ہے ورنہ وہ تو ایک کھلاڑی تھا اس کے چاہنے والوںکی دنیا بھر میں کوئی کمی نہیں تھی بلکہ وہ ایک دنیاکے لیے دیومالائی شخصیت کا تشخص رکھتا تھا ۔ اس کو سیاست کے اس بد بودار میدان میںآنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جس میں آگے بڑھنے کے لیے قدم قدم پر سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں اور ٹیڑھی راہوں پر چل کر راستہ کاٹنا پڑتا ہے ۔ وہ کوئی عالم فاضل بھی نہیں ہے ۔ ابھی کچھ وقت پہلے تک سیاست میں اس کی جدو جہد جاری تھی لیکن اس کا ولولہ اور عزم اتنا پختہ تھا کہ دو دہائیوں کی سیاسی جدوجہد کے بعد پاکستان کے عوام نے بالآخر اس کو قبول کر ہی لیا اور اپنا حکمران بنا لیا۔
عمران خان کے لیے حکومت کا تخت پھولوںکی سیج بالکل بھی نہیں ہے بلکہ کانٹوں کا تاج پہن کر وہ اس تخت پر براجمان ہیں جیسے ہی اس تاج کو وہ ہلاتے جلاتے ہیں کانٹے ان کو زخمی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ بھی اپنی دھن کے پکے ہیں اور انھوںنے جو سوچ رکھا ہے وہ کر کے دکھائیں گے ان کے ارادے مضبوط ہیں اور وہ کسی بھی کرپٹ سیاستدان کو کوئی رعایت دینے کو تیار نظر نہیں آتے۔ احتساب کے شکنجے میں ان کے اپنے ساتھی بھی جکڑے جا رہے ہیں وہ اپنے ساتھیوں کو بخوشی احتساب کے لیے پیش کر رہے ہیں ۔
اس ملک میں یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ حکومت میں شامل افراد کابھی احتساب ہو رہا ہے تو پھر جو حکومت سے باہر ہیں وہ واویلا کیوں کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کے سیاستدان احتسابی عمل سے گزر رہے ہیں اگر وہ اتنے ہی پاک صاف ہیں جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں تو ان کو احتساب چھو کر بھی نہیں گزرے گا اور وہ پاک صاف ہو کر احتساب کی بھٹی سے کندن بن کر نکلیں گے۔ اس لیے ان کو جمع خاطر رکھنی چاہیے اور اچھے وقت کا انتظار کرنا ہی ان کے مفاد میں ہے ، بے صبری ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
میں جس نے پرانے سیاستدانوںکی ایک بڑی تعداد دیکھی اور برتی ہے اور اخباری زندگی کا بڑاحصہ ان پرلطف لوگوں کی رفاقت میں گزار دیا ہے عمران خان جیسے اناڑی اور غیرروایتی سیاستدان کو قبول کرنے میں ہمیشہ مشکل محسوس کرتا رہا ہوں لیکن عمران خان نے رسمی سیاسی کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود جن سیاسی کامرانیوںکو حاصل کیا ہے اور جس سیاسی صلاحیت کا ثبوت دیا ہے جس کے بارے میں ان کے سیاسی حریف گلہ ہی کرتے رہتے ہیں اور ان کو اناڑی سیاستدان سمجھتے ہیں اس کے پیش نظر ان کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے گو کہ اپنے پہلے اقتدار کے دور میں ہی ان کے لیے مشکلات بہت زیادہ ہو چکی ہیں مگر بقول غالب
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
والا معاملہ بن چکا ہے وہ آہستہ آہستہ ان مشکلات سے باہر نکل آئیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی مشکلات سے باہر نکال لیں گے۔ میرا ایمان ہے کہ اگر آپ کا لیڈر ایماندار ہو تو پھر فکر کی کوئی بات نہیں وہ جلد یا بدیر اپنی نیک نیتی کی بدولت ملک اور قوم کی تقدیر بدل دیتا ہے۔ عمران خان بھی پاکستان کے تاریخی مقام تک پہنچ چکے ہیں ۔ غیر معمولی اہمیت کا یہ مرحلہ انھوںنے حیرت انگیز ترقی کے ساتھ طے کر لیا ہے اب اصل مراحل کا آغاز ہو گیا ہے ان اختیارات کو وہ کس طرح استعمال کرتے ہیں یہ وقت ہی بتائے گا ۔ بہر حال ہمیں امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور ایک نیک نیت اور نیک دل حکمران کو کچھ وقت دینا چاہیے ۔
وہ اپنی گفتگو میں ملک اور قوم کو درپیش مسائل کی صحیح نشاندہی کر رہے ہیں اور نشاندہی کے ساتھ ساتھ علاج بھی تجویز کر رہے ہیں ایک ایسا علاج جو ان کے بعض سیاسی ساتھیوں کو بھی راس نہیں آرہا اور وہ بھی اس علاج کا شکار بن گئے ہیں۔ وہ صرف رو نہیں رہے آنسو بھی پونچھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یہ بات ان کی ایمانداری کا ثبوت ہے ورنہ روایتی سیاستدانوں کی طرح وہ سب کچھ کہہ دینے کے باوجود دامن بچا کر نکل سکتے ہیں لیکن وہ ہر مسئلے اور بیماری کا اعتراف بھی کر رہے ہیں اور اس کے علاج کا وعدہ بھی کر رہے ہیں صرف علاج کا وعدہ ہی نہیں کیا، یہ بھی بتا رہے ہیں کہ وہ کیا علاج کریں گے ۔ یاد نہیں پڑتا کہ پاکستان کی ماضی قریب کی تاریخ میں کسی صاحب اقتدار نے ایسا دیانتدارانہ رویہ اختیار کیا ہو ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ گفتار کے غازی سیاستدانوں سے بھری پڑی ہے جو سیاستدان اقتدار میں رہے ہیں زندہ ہیں وہ عمران خان کی پاکستان کے لیے گہری وابستگی کے الفاظ سن کر اپنے ضمیر کو ملامت ضرور کرتے ہوں گے ۔ جدی پشتی سیاستدان اور اپنے سیاستدان اجداد پر فخر کرنے والے آج اپنے سیاسی اعمال کی وجہ سے ایک ایسے سیاستدان کے سامنے شرمندہ ہیں جس کے اجداد کو سیاست کی ہوا بھی نہیں لگی تھی اور جو خود کھلے میدانوں کی خوشگوار ہواؤں میں پل کر جوان ہوا جس کو اپنی قسمت ورثے میں نہیں ملی اس نے خود بنائی۔ عمران خان پر اگر بد بختی کی کوئی افتاد نہ پڑ گئی تو وہ اس ڈوبتے ہوئے ملک کی کشتی کو بھنور سے نکال لے گا۔
میرے لیے عمران خان کا سب سے بڑا وصف وہ قومی غیرت ہے جسے میں نے اس کی شخصیت میں ہمیشہ محسوس کیا ہے اور ملک کے ساتھ وہ محبت ہے جو اس کے وجود کا حصہ ہے ورنہ وہ تو ایک کھلاڑی تھا اس کے چاہنے والوںکی دنیا بھر میں کوئی کمی نہیں تھی بلکہ وہ ایک دنیاکے لیے دیومالائی شخصیت کا تشخص رکھتا تھا ۔ اس کو سیاست کے اس بد بودار میدان میںآنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جس میں آگے بڑھنے کے لیے قدم قدم پر سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں اور ٹیڑھی راہوں پر چل کر راستہ کاٹنا پڑتا ہے ۔ وہ کوئی عالم فاضل بھی نہیں ہے ۔ ابھی کچھ وقت پہلے تک سیاست میں اس کی جدو جہد جاری تھی لیکن اس کا ولولہ اور عزم اتنا پختہ تھا کہ دو دہائیوں کی سیاسی جدوجہد کے بعد پاکستان کے عوام نے بالآخر اس کو قبول کر ہی لیا اور اپنا حکمران بنا لیا۔
عمران خان کے لیے حکومت کا تخت پھولوںکی سیج بالکل بھی نہیں ہے بلکہ کانٹوں کا تاج پہن کر وہ اس تخت پر براجمان ہیں جیسے ہی اس تاج کو وہ ہلاتے جلاتے ہیں کانٹے ان کو زخمی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ بھی اپنی دھن کے پکے ہیں اور انھوںنے جو سوچ رکھا ہے وہ کر کے دکھائیں گے ان کے ارادے مضبوط ہیں اور وہ کسی بھی کرپٹ سیاستدان کو کوئی رعایت دینے کو تیار نظر نہیں آتے۔ احتساب کے شکنجے میں ان کے اپنے ساتھی بھی جکڑے جا رہے ہیں وہ اپنے ساتھیوں کو بخوشی احتساب کے لیے پیش کر رہے ہیں ۔
اس ملک میں یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ حکومت میں شامل افراد کابھی احتساب ہو رہا ہے تو پھر جو حکومت سے باہر ہیں وہ واویلا کیوں کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کے سیاستدان احتسابی عمل سے گزر رہے ہیں اگر وہ اتنے ہی پاک صاف ہیں جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں تو ان کو احتساب چھو کر بھی نہیں گزرے گا اور وہ پاک صاف ہو کر احتساب کی بھٹی سے کندن بن کر نکلیں گے۔ اس لیے ان کو جمع خاطر رکھنی چاہیے اور اچھے وقت کا انتظار کرنا ہی ان کے مفاد میں ہے ، بے صبری ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
میں جس نے پرانے سیاستدانوںکی ایک بڑی تعداد دیکھی اور برتی ہے اور اخباری زندگی کا بڑاحصہ ان پرلطف لوگوں کی رفاقت میں گزار دیا ہے عمران خان جیسے اناڑی اور غیرروایتی سیاستدان کو قبول کرنے میں ہمیشہ مشکل محسوس کرتا رہا ہوں لیکن عمران خان نے رسمی سیاسی کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود جن سیاسی کامرانیوںکو حاصل کیا ہے اور جس سیاسی صلاحیت کا ثبوت دیا ہے جس کے بارے میں ان کے سیاسی حریف گلہ ہی کرتے رہتے ہیں اور ان کو اناڑی سیاستدان سمجھتے ہیں اس کے پیش نظر ان کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے گو کہ اپنے پہلے اقتدار کے دور میں ہی ان کے لیے مشکلات بہت زیادہ ہو چکی ہیں مگر بقول غالب
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
والا معاملہ بن چکا ہے وہ آہستہ آہستہ ان مشکلات سے باہر نکل آئیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی مشکلات سے باہر نکال لیں گے۔ میرا ایمان ہے کہ اگر آپ کا لیڈر ایماندار ہو تو پھر فکر کی کوئی بات نہیں وہ جلد یا بدیر اپنی نیک نیتی کی بدولت ملک اور قوم کی تقدیر بدل دیتا ہے۔ عمران خان بھی پاکستان کے تاریخی مقام تک پہنچ چکے ہیں ۔ غیر معمولی اہمیت کا یہ مرحلہ انھوںنے حیرت انگیز ترقی کے ساتھ طے کر لیا ہے اب اصل مراحل کا آغاز ہو گیا ہے ان اختیارات کو وہ کس طرح استعمال کرتے ہیں یہ وقت ہی بتائے گا ۔ بہر حال ہمیں امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور ایک نیک نیت اور نیک دل حکمران کو کچھ وقت دینا چاہیے ۔