ایک ورق پاکستان کی تاریخ کا

1970ء میں ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے

tauceeph@gmail.com

شیخ مجیب الرحمن کا کردار پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم کردار ہے۔ وہ 7 مارچ 1930ء کو مغربی بنگال کے گاؤں تنگی پورا میں پیدا ہوئے۔ طالب علمی کے دور میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوئے اور تحریک پاکستان کے لیے جیل گئے۔

پاکستان بننے کے بعد انھوں نے بنگالی عوام کے حقوق کی تحریک میں شمولیت اختیارکی اور مسلم لیگی رہنما حسین شہید سہروردی کے پیروکار بن گئے۔ جب ہندوستان کے بٹوارے کے بعد پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح ڈھاکا گئے۔ انھوں نے ڈھاکا یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے اردو کو قومی زبان قرار دینے کا اعلان کیا تو شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں طلبہ کے ایک گروہ نے بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے کے لیے آواز بلند کی۔

طلبہ نے بنگالی کو قومی زبان بنانے کے لیے تحریک شروع کی۔ شیخ مجیب الرحمن بھی اس تحریک میں شامل ہوئے جس کے بعد انھیں ایک بار اور جیل جانا پڑا اور پھر یہ تحریک پورے مشرقی پاکستان میں پھیل گئی۔21 فروری 1951ء کو ڈھاکا میں طلبہ ایکشن کمیٹی نے جلوس نکالا۔ پولیس نے طلبہ کے جلوس پر فائرنگ کی، کئی طلبہ ہلاک ہوئے۔کراچی میں قائم مرکزی حکومت کو طلبہ کا مطالبہ ماننا پڑا۔ بنگالی کو اردو کے ساتھ قومی زبان قرار دے دیا گیا۔

مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں مخالف جماعتوں کے اتحاد جگتو فرنٹ کے اہم رہنماؤں میں ایک شیخ مجیب الرحمن بھی تھے۔ جگتو فرنٹ نے انتخابات میں مسلم لیگ کی حکومت کو عبرتناک شکست دی۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نورالامین کی قیادت میں مسلم لیگ صرف 2 نشستیں حاصل کرسکی۔ ادھر کراچی میں قائم مرکزی حکومت نے نو ماہ بعد جگتو فرنٹ کی حکومت کو ملک دشمن قرار دے کر برطرف کردیا۔

شیخ مجیب الرحمن اس زمانے میں صف اول کے رہنماؤں میں شامل نہیں تھے مگر جگتو فرنٹ کی حکومت کی برطرفی کے بعد انھیں پھر جیل جانا پڑا۔ بنگال کے سابق پریمیئر اور مسلم لیگ کے رہنما حسین شہید سہروردی نے مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کی اور عوامی مسلم لیگ قائم کی۔ شیخ مجیب الرحمن عوامی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔

مشرقی پاکستان کے کسان رہنما اور تحریک پاکستان کے فعال کارکن مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی قیادت میں بائیں بازو کے کارکنوں کا ایک بہت بڑا گروپ حسین شہید سروردی کے ساتھ ایک نئی سیاسی جماعت بنانے پر متفق ہوا، یوں عوامی لیگ قائم ہوئی۔ شیخ مجیب الرحمن نے اب عوامی لیگ میں سیاست شروع کی۔ وہ مولانا بھاشانی کے رفیقوں میں شامل تھے۔

شیخ مجیب الرحمن نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ جب مولانا بھاشانی نے انھیں مشورہ دیا کہ مستقبل میں جیل جانے سے بچنے کے لیے وہ مغربی پاکستان چلے جائیں۔ شیخ مجیب الرحمن سردیوں میں لاہور آئے اور سوشلسٹ رہنما میاں افتخار الدین کے گھر مقیم رہے۔ متحدہ اپوزیشن نے جب صدارتی انتخابات میں جنرل ایوب خان کے مقابلے پر محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار نامزد کیا تو شیخ مجیب الرحمن نے فاطمہ جناح کی مشرقی پاکستان میں انتخابی مہم کی قیادت سنبھالی۔ انھوں نے انتخابی مہم کو پورے مشرقی پاکستان میں منظم کیا۔ فاطمہ جناح نے مشرقی پاکستان میں تاریخی جلسوں سے خطاب کیا۔


مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور دیگر مخالف جماعتوں کے کارکنوں کی مزاحمت کی بناء پر انتخابات میں دھاندلی کی کوشش ناکام ہوگئی اور مشرقی پاکستان سے فاطمہ جناح کامیاب ہوگئیں مگر پورے ملک سے فاطمہ جناح کی ناکامی سے مشرقی پاکستان کی عوام میں مایوسی پھیلی۔ بنگلہ دیشی دانشوروں نے یہ تجزیہ کیا کہ 1962ء کے صدارتی آئین کے تحت مشرقی پاکستان کی اکثریت کی نمایندگی کبھی بھی اقتدار حاصل نہیں کرسکے گی۔ ڈھاکا یونیورسٹی شعبہ معاشیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر سبحان نے 6 نکات پیش کیے۔

یہ 6 نکات ویسے ہی تھے جو 2010ء میں آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کی بنیاد تھے۔ عوامی لیگ نے 6 نکات کو اپنے منشور میں شامل کیا۔ شیخ مجیب الرحمن کو ڈیفنس پاکستان رولز (DPR) کے تحت گرفتار کیا گیا۔ کئی سال بغیر مقدمہ چلائے جیلوں میں رکھا گیا۔ جنرل ایوب خان اور ان کے حواریوں نے شیخ مجیب الرحمن کو غدار اور بھارتی ایجنٹ قرار دیا۔ پھر کسی خفیہ ایجنسی نے 1967ء میں اگرتلہ سازش کیس کا انکشاف کیا۔ شیخ مجیب الرحمن کو اس سازش کا بنیادی ملزم قرار دیا گیا۔ ڈھاکا کے سابق کمشنر علاؤ الدین نے جن کا تعلق بہار سے تھا شیخ مجیب الرحمن کو اس سازش کیس میں ملوث کرنے پر اعتراض کیااور یہ نکتہ اٹھایا کہ شیخ مجیب الرحمن دو سال سے جیل میں بند ہیں۔ انھیں اس مقدمہ میں ملوث کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

اس مقدمہ کی سماعت کے لیے مشرقی پاکستان کا کوئی جج تیار نہ ہوا نہ کوئی سرکاری وکیل کا عہدہ قبول کرنا چاہتاتھا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ایس اے رحمن کو اس مقدمہ کا ٹریبونل کا جج اور منظور قادر کو پراسیکیوٹر مقرر کیا گیا۔ خفیہ ایجنسی کی رپورٹوں پرچند بنگالی فوجی افسروں کو بھی اس مقدمہ میں شامل کیا گیا۔ سرکاری میڈیا نے شیخ مجیب الرحمن اور اگرتلہ سازش کیس کے ملزموں کو غدار قرار دینے کی مہم چلائی مگر شیخ مجیب الرحمن جیل میں قید ہوکر شہرت کی بلندیوں کو پہنچ گئے۔

جب 1968ء میں پورے ملک میں جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک نے زور پکڑا اور ایوب خان کی حکومت راولپنڈی میں قائم صدارتی محل تک محدود ہوگئی تو ایوب خان نے مجبور ہو کر مستقبل میں صدارتی انتخاب نہ لڑنے کا اعلان کیا اور مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے سیاسی جماعتوں کی گول میز کانفرنس بلائی۔ متحدہ حزب اختلاف نے جس کی قیادت مولانا مودودی، نوابزادہ نصراﷲ، ایئر مارشل اصغر خان، میاں ممتاز دولتانہ اور خان ولی خان کررہے تھے۔

اعلان کیا کہ جب تک اگرتلہ سازش کیس ختم نہیں ہوگا اور شیخ مجیب الرحمن کو رہا کر کے راولپنڈی کانفرنس میں مدعو نہیں کیا جائے گا وہ کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔ جنرل ایوب خان کو اگر تلہ سازش کیس ختم کر نے اور شیخ مجیب الرحمن کو کانفرنس میں مدعو کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ شیخ مجیب الرحمن ڈھاکا جیل سے رہا ہوئے اور کانفرنس میں شرکت کے لیے راولپنڈی آئے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا بھاشانی نے کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے نئے آئینی ڈھانچے کی بنیاد صوبائی خودمختاری پر رکھنے اور 6 نکات پر عملدرآمد کے بغیر کسی سمجھوتے سے انکار کیا۔

مغربی پاکستان کے سیاست دانوں نے طالع آزما قوتوں کے دباؤ پر صوبائی خودمختاری کے نظریہ کو قبول نہیں کیا۔ گول میز کانفرنس ناکام ہوگئی۔ جنرل ایوب خان نے اپنا بنایا ہوا آئین ختم کرکے جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سونپنے کا اعلان کیا۔ یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔

1970ء میں ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے۔ مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ، سندھ اور پنجاب سے پیپلز پارٹی، سرحد اور بلوچستان سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے اکثریت حاصل کی، مگر جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے صوبائی خودمختاری پر اتفاق نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دوسری مفادات کی تابع قوتیں متحرک ہوگئیں۔

ملک ٹوٹ گیا مگر 2010ء میں سیاسی جماعتیں ویسی ہی خودمختاری پر متفق ہوگئیں جس کا مطالبہ عوامی لیگ اور دیگر جماعتیں کررہی تھیں۔ تاریخ یہ سبق سکھاتی ہے کہ سیاسی مسائل حل نہ کرنے، عوامی نمایندوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے اور ان پر غداری کے الزامات لگانے کے بعد طاقت کے ذریعے عوامی خواہشات کو کچلنے سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں اور اس صورتحال کا فائدہ منفی مقاصد والی قوتوں کو ملتا ہے۔
Load Next Story