آخری آزمائش
آج عوام کو جس مہنگائی کا سامنا ہے یہ مہنگائی آخری آزمائش ہے
نئے پاکستان کی نئی حکومت کی طرف سے ایک نئی خوشخبری آئی ہے جس کے مطابق نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم میں 60 لاکھ ملازمتیں اور 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔
ہماری نئی حکومت عوامی مسائل کے حل کے لیے جو کوششیں کر رہی ہے 60 لاکھ ملازمتیں اور 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری انھی کی کوششوں کا حصہ ہے اس سے قبل بھی ایک کروڑ ملازمتوں کی بشارت دی گئی تھی۔ ہوسکتا ہے حکومت ان حوالوں سے سچ بول رہی ہو لیکن جب تک ان وعدوں اور بشارتوں پر عملدرآمد کا آغاز نہیں ہوتا عوام اسے پروپیگنڈے کا حصہ ہی سمجھیں گے۔
ہمارے ملک میں کروڑوں افراد پر مشتمل بے روزگاروں کی فوج ہے اور روزگار ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے اگر مزید 60 لاکھ ملازمتوں کی کوئی سبیل نکلتی ہے تو بلاشبہ نئی حکومت کا یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ اسی طرح 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی آمد ہمارے معاشی مسائل میں گھرے ہوئے ملک کے لیے ایک فال نیک ثابت ہوسکتی ہے۔
موجودہ حکومت ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے جو انتھک کوششیں کر رہی ہے۔ اس کے پیش نظر 60 لاکھ ملازمتوں اور 25 ارب کی سرمایہ کاری کا اعلان محض پروپیگنڈا نہیں ہوسکتا لیکن ان حوالوں سے جب تک کوئی عملی پیش رفت نہ ہو عوام ان اعلانات پر کس طرح یقین کریں گے۔ عمران حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان بڑے بڑے اعلانات پر عملدرآمد کی کوئی ابتدائی ہی سہی کوشش تو کر دکھائے کیونکہ ان دل خوش کن اعلانات پر جب تک کوئی آغاز نہیں ہوتا، یہ اعلانات محض پروپیگنڈا سمجھے جائیں گے ۔
ماضی کے ڈسے ہوئے عوام عمل کے بغیر اب کسی وعدے پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ ماضی کی حکومتوں نے وعدوں کے اتنے غبارے اڑائے کہ ان سے آسمان ڈھک گیا تھا۔ اب عوام عملی اقدامات چاہتے ہیں۔ کیونکہ ماضی میں بڑے بڑے دھوکے کھائے ہوئے عوام اب فرشتوں کے وعدوں پر اس وقت تک یقین نہیں کریں گے جب تک ان وعدوں اور اعلانات پر عملدرآمد کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔
پاکستان میں بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والے کلرکی کے لیے جوتے گھسا رہے ہیں۔ حکمرانوں کی سیاہ کاریوں کا عالم یہ ہے کہ میٹرک پاس 17ویں گریڈ میں ملازمتوں پر عیش کر رہے ہیں ان کھلی ناانصافیوں نے عوام میں سخت مایوسی اور ناراضگی پیدا کردی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کی ناانصافیوں اور امتیازات کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
اپوزیشن ماضی کے علاوہ حال میں 10 سال تک برسر اقتدار رہی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ تک ختم نہیں کرسکی وہ آج 9 ماہ کی حکومت کو گرانے کے درپے ہے۔ کیونکہ اسے یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ اگر حکومت کو دو تین سال مل گئے تو وہ اتنا کام کر جائے گی کہ عوام اس کے حامی ہوجائیں گے یہی وہ خوف ہے جو اپوزیشن کو جلد ازجلد حکومت گرانے کی باتیں کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ 10 سالہ دور حکومت کے حکمرانوں پر اربوں کی کرپشن کے اتنے بڑے بڑے الزام ہیں کہ عوام اب ان حکمرانوں سے سخت بیزار ہیں اورکسی قیمت پر انھیں دوبارہ اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتے۔
پاکستان اشرافیہ کے عذاب سے اب بہ مشکل باہر نکل سکا ہے لیکن اشرافیہ ہزار جتن کر رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح عمران حکومت کو گرا کر دوبارہ الیکشن کا ڈول ڈالے اور دھاندلی کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرلے۔ اس مہم کی کامیابی کے لیے بھاری سرمائے سے پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا دیا گیا ہے کہ عمران حکومت نے مہنگائی کے ذریعے عوام کا جینا حرام کردیا ہے اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کردیا ہے لیکن یہ مہنگائی 9 ماہ کی لائی ہوئی نئی مہنگائی نہیں ہے بلکہ 10 سال کی لوٹ مار کے نتیجے میں آئی ہوئی پرانی مہنگائی ہے اس حوالے سے بدقسمتی یہ ہے کہ عمران حکومت کا میڈیا سیل اس قدر نکما اور نااہل ہے کہ وہ سچ کو اور حقائق کو عوام تک نہیں پہنچا رہا ہے۔
حکومت کی اس نااہلی اور کمزوری کی وجہ عوام ان حقائق سے بے خبر ہیں جو مہنگائی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ عمران حکومت ماضی کے حکمرانوں کی چھوڑی ہوئی معاشی بدحالی سے ملک کو نکالنے کے لیے دوست ملکوں اور آئی ایم ایف سے جو مدد اور قرض لے رہی ہے اسے کہا جا رہا ہے کہ بھکاری حکومت کشکول لیے دنیا بھر میں پھر رہی ہے حالانکہ ماضی کی حکومتوں نے ہمیشہ آئی ایم ایف کے در پر گھٹنے ٹیک دیے تھے یہ وہ آشکار حقیقتیں ہیں جن پر سے پردہ اٹھانے میں عمران حکومت ناکام رہی ہے جس کے نتیجے میں عوام میں ایک کنفیوژن پھیلا ہوا ہے اور اپوزیشن اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔
اشرافیہ کی یہ ذہنیت اور نفسیات ہے کہ وہ اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھتی ہے اور اقتدار کے بغیر ماہی بے آب کی طرح تڑپتی ہے یہ نفسیات جاگیردارانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے اور ساری دنیا جاگیردارانہ نظام سے پاک ہوگئی ہے لیکن ہمارا ملک ابھی تک اس آزار میں مبتلا ہے اور 10 سال تک ملک کو لوٹنے والوں میں جاگیردار طبقہ پیش پیش رہا ہے۔ پاکستان کے غریب اور شریف عوام ہر آنے والی حکومت کے وعدوں پر یقین کرکے تباہ ہوتے رہے۔ اشرافیہ نے اپنے آپ کو جمہوریت کے پردے میں چھپا رکھا ہے اور جب بھی اسے کسی طرف سے خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ حلق پھاڑ پھاڑ کر جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے کی دہائی دینے لگ جاتی ہے۔
لیکن اس بار اس کا یہ ہتھیار کام اس لیے نہیں آرہا ہے کہ میڈیا نے اشرافیہ کو کرپشن کے حوالے سے بے نقاب کردیا ہے۔ عوام حیرت سے اس کا نظارہ کر رہے ہیں۔ ملک آج جس نازک اور فیصلہ کن دور سے گزر رہا ہے اس میں میڈیا کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بلاامتیاز کرپشن سفید پوشوں کو بے نقاب کرے تاکہ پاکستان کے عوام 71 سالہ معاشی غلامی کے دلدل سے باہر آسکیں اور معاشی خوشحالی کے دور میں داخل ہوں آج عوام کو جس مہنگائی کا سامنا ہے یہ مہنگائی آخری آزمائش ہے۔
ہماری نئی حکومت عوامی مسائل کے حل کے لیے جو کوششیں کر رہی ہے 60 لاکھ ملازمتیں اور 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری انھی کی کوششوں کا حصہ ہے اس سے قبل بھی ایک کروڑ ملازمتوں کی بشارت دی گئی تھی۔ ہوسکتا ہے حکومت ان حوالوں سے سچ بول رہی ہو لیکن جب تک ان وعدوں اور بشارتوں پر عملدرآمد کا آغاز نہیں ہوتا عوام اسے پروپیگنڈے کا حصہ ہی سمجھیں گے۔
ہمارے ملک میں کروڑوں افراد پر مشتمل بے روزگاروں کی فوج ہے اور روزگار ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے اگر مزید 60 لاکھ ملازمتوں کی کوئی سبیل نکلتی ہے تو بلاشبہ نئی حکومت کا یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ اسی طرح 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی آمد ہمارے معاشی مسائل میں گھرے ہوئے ملک کے لیے ایک فال نیک ثابت ہوسکتی ہے۔
موجودہ حکومت ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے جو انتھک کوششیں کر رہی ہے۔ اس کے پیش نظر 60 لاکھ ملازمتوں اور 25 ارب کی سرمایہ کاری کا اعلان محض پروپیگنڈا نہیں ہوسکتا لیکن ان حوالوں سے جب تک کوئی عملی پیش رفت نہ ہو عوام ان اعلانات پر کس طرح یقین کریں گے۔ عمران حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان بڑے بڑے اعلانات پر عملدرآمد کی کوئی ابتدائی ہی سہی کوشش تو کر دکھائے کیونکہ ان دل خوش کن اعلانات پر جب تک کوئی آغاز نہیں ہوتا، یہ اعلانات محض پروپیگنڈا سمجھے جائیں گے ۔
ماضی کے ڈسے ہوئے عوام عمل کے بغیر اب کسی وعدے پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ ماضی کی حکومتوں نے وعدوں کے اتنے غبارے اڑائے کہ ان سے آسمان ڈھک گیا تھا۔ اب عوام عملی اقدامات چاہتے ہیں۔ کیونکہ ماضی میں بڑے بڑے دھوکے کھائے ہوئے عوام اب فرشتوں کے وعدوں پر اس وقت تک یقین نہیں کریں گے جب تک ان وعدوں اور اعلانات پر عملدرآمد کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔
پاکستان میں بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والے کلرکی کے لیے جوتے گھسا رہے ہیں۔ حکمرانوں کی سیاہ کاریوں کا عالم یہ ہے کہ میٹرک پاس 17ویں گریڈ میں ملازمتوں پر عیش کر رہے ہیں ان کھلی ناانصافیوں نے عوام میں سخت مایوسی اور ناراضگی پیدا کردی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کی ناانصافیوں اور امتیازات کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
اپوزیشن ماضی کے علاوہ حال میں 10 سال تک برسر اقتدار رہی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ تک ختم نہیں کرسکی وہ آج 9 ماہ کی حکومت کو گرانے کے درپے ہے۔ کیونکہ اسے یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ اگر حکومت کو دو تین سال مل گئے تو وہ اتنا کام کر جائے گی کہ عوام اس کے حامی ہوجائیں گے یہی وہ خوف ہے جو اپوزیشن کو جلد ازجلد حکومت گرانے کی باتیں کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ 10 سالہ دور حکومت کے حکمرانوں پر اربوں کی کرپشن کے اتنے بڑے بڑے الزام ہیں کہ عوام اب ان حکمرانوں سے سخت بیزار ہیں اورکسی قیمت پر انھیں دوبارہ اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتے۔
پاکستان اشرافیہ کے عذاب سے اب بہ مشکل باہر نکل سکا ہے لیکن اشرافیہ ہزار جتن کر رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح عمران حکومت کو گرا کر دوبارہ الیکشن کا ڈول ڈالے اور دھاندلی کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرلے۔ اس مہم کی کامیابی کے لیے بھاری سرمائے سے پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا دیا گیا ہے کہ عمران حکومت نے مہنگائی کے ذریعے عوام کا جینا حرام کردیا ہے اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کردیا ہے لیکن یہ مہنگائی 9 ماہ کی لائی ہوئی نئی مہنگائی نہیں ہے بلکہ 10 سال کی لوٹ مار کے نتیجے میں آئی ہوئی پرانی مہنگائی ہے اس حوالے سے بدقسمتی یہ ہے کہ عمران حکومت کا میڈیا سیل اس قدر نکما اور نااہل ہے کہ وہ سچ کو اور حقائق کو عوام تک نہیں پہنچا رہا ہے۔
حکومت کی اس نااہلی اور کمزوری کی وجہ عوام ان حقائق سے بے خبر ہیں جو مہنگائی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ عمران حکومت ماضی کے حکمرانوں کی چھوڑی ہوئی معاشی بدحالی سے ملک کو نکالنے کے لیے دوست ملکوں اور آئی ایم ایف سے جو مدد اور قرض لے رہی ہے اسے کہا جا رہا ہے کہ بھکاری حکومت کشکول لیے دنیا بھر میں پھر رہی ہے حالانکہ ماضی کی حکومتوں نے ہمیشہ آئی ایم ایف کے در پر گھٹنے ٹیک دیے تھے یہ وہ آشکار حقیقتیں ہیں جن پر سے پردہ اٹھانے میں عمران حکومت ناکام رہی ہے جس کے نتیجے میں عوام میں ایک کنفیوژن پھیلا ہوا ہے اور اپوزیشن اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔
اشرافیہ کی یہ ذہنیت اور نفسیات ہے کہ وہ اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھتی ہے اور اقتدار کے بغیر ماہی بے آب کی طرح تڑپتی ہے یہ نفسیات جاگیردارانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے اور ساری دنیا جاگیردارانہ نظام سے پاک ہوگئی ہے لیکن ہمارا ملک ابھی تک اس آزار میں مبتلا ہے اور 10 سال تک ملک کو لوٹنے والوں میں جاگیردار طبقہ پیش پیش رہا ہے۔ پاکستان کے غریب اور شریف عوام ہر آنے والی حکومت کے وعدوں پر یقین کرکے تباہ ہوتے رہے۔ اشرافیہ نے اپنے آپ کو جمہوریت کے پردے میں چھپا رکھا ہے اور جب بھی اسے کسی طرف سے خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ حلق پھاڑ پھاڑ کر جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے کی دہائی دینے لگ جاتی ہے۔
لیکن اس بار اس کا یہ ہتھیار کام اس لیے نہیں آرہا ہے کہ میڈیا نے اشرافیہ کو کرپشن کے حوالے سے بے نقاب کردیا ہے۔ عوام حیرت سے اس کا نظارہ کر رہے ہیں۔ ملک آج جس نازک اور فیصلہ کن دور سے گزر رہا ہے اس میں میڈیا کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بلاامتیاز کرپشن سفید پوشوں کو بے نقاب کرے تاکہ پاکستان کے عوام 71 سالہ معاشی غلامی کے دلدل سے باہر آسکیں اور معاشی خوشحالی کے دور میں داخل ہوں آج عوام کو جس مہنگائی کا سامنا ہے یہ مہنگائی آخری آزمائش ہے۔