سیاست کے تشدد کا شکار صحافی
12 مئی 2007 جسے کراچی کا سیاہ ترین دن کہا جاتا ہے
ریاست کا چوتھا ستون ہونے کے ناطے صحافت کا کام جمہوریت کو مستحکم کرنے میں کردار ادا کرنا ہے ، تمام تر ناسازگار حالات اور سخت مشکلات کے ادوار میں بھی صحافیوں نے یہ کردار بخوبی ادا کیا، ملک میں جمہوریت آج جس مقام پر کھڑی ہے اس میں صحافیوں کی طویل جدوجہد شامل ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جن ریاستوں میں آزادی اظہار کی مکمل آزادی ہے وہ قومیں بھی ترقی یافتہ کہلاتی ہیں لیکن افسوس پاکستان سمیت اکثر ترقی پذیر ممالک میں با اثر سیاستدان اور ریاستی ادارے صحافیوں کو دبانے کیلئے تشدد سمیت ہر حربہ آزماتے ہیں یہی وجہ ہے ان ممالک میں جمہوریت کبھی پروان نہیں چڑھتی۔
ماضی میں صحافی جمہوریت کی خاطر آمریت کے آگے دیوار بن کر کھڑے رہے اور نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ بے روزگاریاں اور یہاں تک کے اپنی جانوں کا بھی نذرانہ پیش کیا۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں خاور نعیم ہاشمی، مسعود اللہ خان، اقبال جعفری اور ناصر زیدی کو کوڑے مارے گئے لیکن اس کے باوجود وہ مختلف طریقوں سے آمریت کے خلاف احتجاج کرتے رہے اس کے علاوہ جن صحافیوں نے خبر کی حرمت کے لیے مشقتیں اٹھائیں ان میں احمد ندیم قاسمی، منہاج برنا، حسین نقی، ظفرعباس اور نثارعثمانی جیسے نام نمایاں ہیں لیکن اب صورتحال بالکل مختلف دکھائی دیتی ہے چند مفاد پرست صحافیوں نے سیاسی جماعتوں سے ملکر اس مقدس پیشے کہ نہ صرف بدنام کیا بلکہ اس میں 'لفافہ صحافت' جیسی اصطلاح بھی متعارف کروائی اور اپنے جیسے دیگر مفاد پرستوں کو بھی صحافت میں شامل کرواکر سیاسی جماعتوں کی چاندنی کروائی جس کے باعث حقیقی صحافیوں کے تحفظ کو انہیں سیاسی جماعتوں سے خطرات لاحق ہونے لگے اور ان کی من پسند خبر نہ دینے، کوریج نہ کرنے یا حقیقت سے قریب تر سوال پوچھنے پر ان صحافیوں کو میڈیا کوریج کے دوران متعدد بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
فرائض کی انجام دہی کے دوران ایسا ہی ایک واقعہ 22 اگست 2016 میں متحدہ قومی موومنٹ کے جلسہ کے دوران بھی پیش آٰیا جب وہ پر امن جلسہ ان کے قائد کے کہنے پر پرتشدد جلسے میں تبدیل ہوا، ایسے میں صحافتی امور انجام دینے کے لیے وہاں موجود صحافیوں کو بھی نہ بخشا گیا اور انہیں بھی مارا پیٹا گیا، وہ اپنا بچاو تک نہ کرسکے لہذا میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان حالات میں صحافیوں کو کن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے اور آیا انہیں بھی انصاف کے لیے دھکے کھانے پڑتے ہیں یا پھر ان کی سنوائی آسانی سے ہوجاتی ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ سوشل میڈیا کی وجہ سے صحافیوں کو درپیش خطرات
پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے ڈٰیٹا بیس میں موجود ایسے ہی صحافی (کیمرہ مین) ریحان احمد جو نیو نیوز سے وابستہ ہیں، ان سے میں نے واقعے کی تفصیل طلب کی جس پر انہوں نے مجھے بتایا کہ 22 اگست کو پریس کلب پر کوریج کے دوران جب کچھ مظاہرین جب اے آر وائے نیوز پر حملہ کرنے آئے تو گیٹ پر موجود گارڈ نے انہیں روکنے کی کوشش کی جس پر میں نے ان کی فوٹیج بنائی تو مجھے ایسا کرنے سے روکا گیا، نہ رکنے پر مجھے تھپڑ رسید کیے گئے اور بعد ازاں پیچھے سے میری ٹانگ پر غالباً کسی پائپ سے زوردار وار کیا جس سے میں بے گرپڑا اور پھر مجھے ساتھی کیمرہ مین اٹھاکر لے گئے تھے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے کوئی قانونی کارروائی کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ گھر والوں کی سیفٹی کے لیے رپورٹ کرنے سے گریز کیا، اور نہ مجھے علم ہے کہ اس حوالے سے کوئی کیس بھی چل رہا ہے۔ ریحان احمد نے مجھے بتایا کہ اس حادثے کے بعد وہ ایک ماہ تک بستر پر رہے، اس دوران نہ کسی سیاسی تنظیم نے ان کی مدد کی اور نہ ہی ادارے اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے کسی قسم کی مدد فراہم کی گئی، اس وقت کے ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر صرف ان سے اسپتال میں ملنے آئے تھے اس کے علاوہ نہ کوئی سیاسی جماعت کا رہنما ان سے ملنے آیا اور نہ کوئی حکومتی عہدیدار، اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی مالی واخلاقی مدد فراہم کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی جلسہ میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اگر رپورٹر جگہ پر موجود نہ بھی ہو مگر کیمرہ مین ہر وقت موجود ہوتا ہے، 12 مئی کے واقعے میں بھی فیلڈ پر موجود تھا اور کوریج کررہا تھا، ہماری سیفٹی کے لیے کوئی مدد نہیں دی جاتی، 22 اگست کے واقعے میں بھی جب میں نے مدد کے لیے آفس کال کی تو مجھے یہ کہا گیا کہ حالات بہتر ہوتے ہی آپ کی مدد پہنچتے ہیں۔
متاثرہ صحافی سے بات کرنے کے بعد میں نے ان کے ادارے کا موقف لینے کے لیے رابطہ کیا تو نیو نیوز سے وابستہ آسائمنٹ ایڈیٹر احتشام خالد (جنہوں نے اس وقت بھی ریحان احمد کو اسائمنٹ پر بھیجا تھا) نے مجھے بتایا کہ جس بلڈنگ پر حملہ ہوا تھا اسی میں ہمارا دفتر ہے، جب حملہ ہوا تو ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ کس چینل پر حملہ ہوا، نیچے تمام مارکیٹیں بند ہوگئیں اور ہمارے گارڈ نے گرل کو فوری طور پر بند کردیا تاکہ کوئی اندر نہیں آسکے، اس لیے ہم خود بھی اندر ہی محصور ہوکر رہ گئے تھے، ہمیں باہر کی صورتحال کا اندازہ نہیں تھا اور نہ ہمیں یہ پتہ تھا کہ ہمارا کیمرہ مین زخمی ہوگیا ہے، ہم صرف باہر رپورٹرز سے فون پر رابطے میں تھے اورہمیں یہی کہا جارہا تھا کہ آپ اندر رہو، اور اس وقت 100 سے زائد افراد ہمارے دفتر میں موجود تھے، ہم اپنے تحفظ کی وجہ سے باہر نہیں گئے مگر جب حملہ آور چلے گئے تو ہم نے کیمرہ مین کی ہر ممکن مدد کی۔
پی پی ایف رپورٹ کے مطابق 22 اگست 2016 کو ایم کیو ایم کے ورکرز نے نہ صرف صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ انہوں نے سما نیوز کی ڈٰی ایس این جی کو بھی نشانہ بنایا اور بعد ازاں اے ار وائے اور نیوز نیوز کے دفاتر پر بھی حملے کیے اور وہاں موجود صحافیوں اور سیکیورٹی گارڈز کو زدوکوب کیا۔
ایسی صورتحال میں ڈیوٹی پر موجود صحافیوں کو ہی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ صحافتی ادارے بھی ایسی پرتشدد کارروائیوں کی زد میں آتے ہیں اور ماضی میں نہ صرف ریاستی اداروں بلکہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی مختلف میڈیا ہاؤسز کو بائیکاٹ اور پرتشدد کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس حوالے سے صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 18 برس میں پاکستان میں صحافتی اداروں پر کم سے کم 32 بار حملے کیے گئے جب کہ 22 اگست 2016 کو ایم کیو ایم کے جلسے کے دوران اے آر وائی نیوز کو پر حملہ بھی اس رپورٹ کا حصہ ہے۔
میڈیا ہاؤسز پر حملوں کے حوالے سے کیس کی تفصیلات کے لیے میں نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت سندھ ہائی کورٹ سے کیس کی تفصیلات کے لیے ای میل کی تو مجھے وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا جس پر میں نے جیو نیوز سے وابستہ کورٹ رپورٹر امین انور سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ سیاسی اجتماعات میں ہونے والے واقعات پر صحافی قانونی کارروائی نہیں کرتے اور نہ ہی اس وقت سندھ ہائی کورٹ میں کسی صحافی کا کیس چل رہا ہے البتہ 22 اگست کے حوالے سے سرکار کی مدعیت میں میڈٰیا ہاؤس پر حملے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا اور وہ اس وقت زیرسماعت ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ صحافتی تنظیموں کا صحافیوں کے تحفظ میں کردار
ایم کیو ایم کے اسی جلسے میں سیاسی کارکنان کی جانب سے تشدد کا نشانہ بننے والے ایک اور کیمرہ مین محمد سفیر کا تعلق سما نیوز سے ہے، ان سے جب میں نے بات کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ 22 اگست والے دن ایونٹ پر بھیجنے سے پہلے مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ حالات خراب ہیں اور نہ مجھے اس واقعہ کا علم تھا کہ وہاں کیا ہوا ہے، مجھے لگا ایک معمول کا جلسہ ہے اور میں ڈی ایس این جی پر کھڑے ہوکر فوٹیج بنارہا تھا، اتنے میں سیاسی ورکرز لوگوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے آرہے تھے، اس دوران میں بھی ان کے ہتھے چڑھ گیا اور ہمیں خوب مارا پیٹا گیا، اور میری ٹانگ بھی توڑ دی جس کے بعد مجھے ڈاکٹر نے 2 ماہ بیڈ ریسٹ کا کہا لیکن ایک ماہ بعد ہی آفس بلالیا گیا اور اس حالت میں بھی مجھ سے کام لیا گیا، اور اس وقت کے ڈائریکٹر نیوز اور بیورو چیف نے مجھے ڈیوٹی چھوڑنے پر مجبور کیا اور بیماری کے باوجود مجھ سے ایسے کام لیے گئے جو میں نے کبھی نہیں کیے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ادارے نے مجھے میڈیکل کا خرچہ بھی نہیں دیا جو میں نے اپنی جیب سے ادا کیا اور اس دوران پریس کلب یا کسی صحافتی تنظیمیں نے بھی مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی میں نے ان سے کسی قسم کی کوئی مدد طلب کی جب کہ مجھے پتہ چلا کہ سندھ حکومت نے زخمی ہونے والے صحافیوں کے لیے کوئی گرانٹ جاری کی گئی ہے، چونکہ میں خود زخمی تھا میں نے مختلف طریقوں سے معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ گرانٹ مجھے نہیں دی گئی۔ ان سے جب میں نے پوچھا کہ قانونی کارروائی کیوں نہیں کی جس پر انہ کا کہنا تھا کہ میرے پاس کوٹ کچہری کے پیسے نہیں تھے اس لیے ان معاملات سے دور رہنے کو ترجیح دی۔
پی پی ایف کے ریکارڈ میں ہی موجود ایک اور کیس 92 نیوز کے رپورٹر چاند نواب کا ہے جو 3 جولائی 2018 کو کراچی ایئرپورٹ پر پیش آیا جب پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے رپورٹر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس پر میں نے چاند نواب سے رابطہ کرکے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس پر کسی قسم کی بات کرنے سے انکار کردیا، ان کا کہنا تھا کہ دوران ڈیوٹی ایسے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں اور پھر اس واقعے پر خود عمران خان نے معذرت کرلی تھی اس لیے میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔
12 مئی 2007 جسے کراچی کا سیاہ ترین دن کہا جاتا ہے، جب معزولی کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کراچی آئے اور جیسے ہی سابق چیف جسٹس کا طیارہ کراچی ایئر پورٹ پر پہنچا تو شہر میدان جنگ بن گیا، اس دوران وہاں کوریج کے لیے موجود صحافی بھی سیاسی کارکنوں کے تشدد کی زد میں آئے تھے اور ان میں صحافت کا ایک بڑا نام معروف اینکرپرسن اور سینئر تجزیہ کار طلعت حسین بھی تھے۔ طلعت حسین نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ صحافت میں دو طرح کے خطرات ہوتے ہیں، ایک حادثاتی خطرات جو بہت کم ہیں اور یہ کسی بھی جلسے یا دیگر تقریبات کے دوران پیش آتے ہیں لیکن چند خطرات صحافت کا منہ بند کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں وہ زیادہ خطرناک ہیں اور جب ریاست صحافت کا گلہ دبنے پر آجائے تو ملک میں ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں جو اس وقت موجود ہیں۔ سانحہ 12 مئی کے حوالے سے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کسی کے خلاف قانونی کارروائی کی جس پر انہوں نے کہا کہ وہ مجھ پر ذاتی طور پر حملہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ میرے ساتھ چند اور لوگوں کا مقدمہ تھا اور اس پر کمیشن بنے لیکن اس پر جو ہوا سب کے سامنے ہے، ہمارا مقدمہ یہ تھا کہ اہمارے چینل پر فائرنگ ہوئی جو کیمرے میں بھی ریکارڈ ہوا اور سب جانتے ہیں 12 مئی کے واقعے میں ایم کیو ایم ملوث تھی، جنہیں پرویز مشرف کی سپورٹ حاصل تھی ، ریاست کی سرپرستی میں جب جرائم ہوں گےتو پھر ان کا تدارک ممکن نہیں ، ان سے جب پوچھا گیا کہ ایسی صورتحال میں صحافی کو اپنے تحفظ کے لیے کیا اقدامات اٹھانے چاہیے، تو انہوں نے بتایا کہ جب ریاست اور سیاسی جماعتیں یہ تہیہ کرلیں کہ صحافیوں کی آواز کو دبانا ہے اس کے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے،اس کا پھر ایک ہی حل دکھائی دیتا ہے کہ صحافیوں کو ایس ایس جی کمانڈو بنادیں تاکہ وہ اپنا تحفظ کرسکیں یا پھر جس قسم کے خطرات کا سامنا ہے اس میں اسلحہ اٹھالے یا پھر جوڈو کراٹے کی ٹریننگ حاصل کرلے۔
اسٹوری کے حوالے سے میں نے حکومتی موقف لینے کے لیے مشیر اطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب سے بات کی۔ ان سے میں نے جرنلسٹ سیفٹی ایکٹ کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت وقتاً فوقتاً صحافیوں کی مدد کرتی رہتی ہے کیوں کہ صحافت اس ملک کا اہم ستون ہے اس لیے کچھ صحافیوں کی مدد کے لیے تو اعلانات کے ذریعے کیے جاتے ہیں لیکن کچھ کی مدد کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے اور خاموشی سے ان کی مدد کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے اس سے ایک قدم بڑھ کر سندھ انشورنس اسکیم بھی متعارف کروائی ہے جس کے تحت سندھ سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شہری کو کسی بھی حادثے کی صورت میں ایک لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گا۔ اس حوالے سے جب میں نے ان سے طریقہ کار پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے تمام شہری ایک برابر ہیں اور حادثے کا شکار ہونے والا کوئی بھی شہری آن لائن سندھ انشارنس کلیم فارم بھرسکتا ہے جس کے بعد ہماری ٹیم انجری کے حوالے سے میڈیکل رپورٹ سمیت تمام دستاویزات دیکھنے کے بعد اپنی تسلی کرنے کے بعد متاثرہ شہری کو ایک لاکھ روپے فراہم کیے جائیں گے۔ پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹ کو گرانٹس فراہم کرنے سے متعلق جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی بالکل صوبائی حکومت پریس کلب اور کے یو جیز کو گرانٹس فراہم کرتی ہے تاہم اس وقت میرے پاس درست اعداود وشمار نہیں ہیں، ورنہ آپ کے ساتھ ضرور شیئر کرتا۔ سیاسی جماعتوں میں صحافیوں پر تشدد کے حوالے سے انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے جلسوں میں ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے البتہ جن واقعات کی آپ نشاندہی کررہے ہیں میں اس جماعت کو سیاسی جماعت ہی نہیں سمجھتا اس لیے وہاں ڈسپلن کی کمی ہے، جس کی وجہ سے سیاسی ورکزرہنماؤں کی بات نہیں مانتے۔
پاکستان تحریک انصاف کراچی کے صدر خرم شیر زمان سے اس حوالے سے جب میں نے پوچھا کہ سیاسی کارکن صحافیوں کی عزت کیوں نہیں کرتے تو ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہاں ماضی میں ایک وقت تھا جب جلسے جلوس میں بدنظمی پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہوتا اور مجھ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما صحافیوں کی عزت کرتے ہیں اور جب لیڈر عزت کرتے ہیں تو ورکرز بھی صحافیوں کے ساتھ اچھے سے پیش آتے ہیں تاہم کبھی کبھار جلسوں میں مخالف پارٹٰی کے لوگ بھی آجاتے ہیں جو بدنظمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے میں صحافی بھی کبھی کبھار ان کا شکار بن جاتے ہیں، ایسے عناصر کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے صحافی چاند نواب پر تشدد کے حوالے سے جب میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی واقعہ کبھی پیش ہی نہیں آیا، آپ خود چاند نواب سے پوچھ سکتے ہیں۔
اسٹوری میں شامل 22 اگست کی کیس اسٹڈی کے حوالے سے ڈاکٹر فاروق ستار سمیت ایم کیو ایم کے متعدد رہنماؤں کو بار بار کالز کی گئی لیکن یہاں سے بھی کوئی جواب نہیں ملا۔
کراچی یونین آف جرنلسٹ (دستور) کے صدر طارق الحسن نے مجھے بتایا کہ جب کسی صحافی کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس پر پہلی ذمہ داری اس ادارے کی ہوتی ہے جس سے وہ وابستہ ہے، اس دوران ہمارا کام یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ صحافیوں کو انصاف دلانے یا ان کا حق دلوانے کے لیے کوششیں کرتے ہوئے ان اداروں کو یادہانی کروائیں، اس کے علاوہ کوئی صحافی مدد کے لیے ہمارے پاس آتے ہیں وہ ہم انہیں قانونی مشاورت فراہم کرنے کے علاوہ تھانے میں رپورٹ درج کروانے میں بھی ان کی مدد کرتے ہیں لیکن جہاں تک سیاسی جماعتوں کا معاملہ ہے تو اس میں جب کسی صحافی کو سیاسی جماعت کی جانب سے پریشان کیا جاتا ہے یا پھر کسی جلسہ کے دوران تشدد وغیرہ کیا جاتا ہے تو اس میں زیادہ تر معاملہ مل بیٹھ کر ہی سلجھادیا جاتا ہے اور زیادہ تر معاملات موقع پر معافی تلافی کے ذریعے ختم کردیے جاتے ہیں۔ ان سے جب میں نے پوچھا کہ اس ضمن میں آپ نے کیا کوششیں کی تو انہوں نے کہا بدقسمتی سے صحافتی تنظیمیں صرف بیانات تک ہی محدود رہ گئی ہیں، ہم ایک رویتی قسم کی مذمت کرکے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ اس سیاسی جماعت کے ایونٹ کا بائیکاٹ کردیتے ہیں لیکن اس میں بھی رپورٹر اور کیمرہ مین پر ادارے کی جانب سے پریشر آتا ہے کہ وہ اس بائیکاٹ کو ختم کریں، اور پھر اس موقع پر صحافتی تنظیمیں بھی بے بس ہوجاتی ہیں کیوں کہ ان کو معاشی مسائل کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کارکنان کی تربیت کریں کہ یہ صحافی انہیں کی کوریج کے لیے آئے ہیں اور اس کے علاوہ یہ حکومت وقت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس چیز کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ حکومتی گرانٹس پر طارق ابوالحسن نے مجھے بتایا کہ ہمیں حکومت کی جانب سے کوئی گرانٹ نہیں ملتی اور نہ ہی صحافیوں کے لیے کوئی فنڈ مختص کیا گیا ہے البتہ ہم ویلفیئر فنڈز سے بے روزگار، بیمار یا زخمی صحافیوں کی مدد کرتے ہیں اور یہ فنڈ ہم خود اپنے طور پر اکھٹا کرتے ہیں تاہم اس حوالے سے کوئی ریکارڈ نہیں رکھتے۔
کراچی یونین آف جرنلسٹ (برنا) کے صدر حسن عباس سے جب میں نے 22 اگست والے واقعے پر بات کی تو انہوں نے مجھے بتایا جب میڈٰیا ہاؤسز پر حملہ ہوا تو وہ خود اس وقت اے آر وائے کے دفتر میں موجود تھے اورانہوں نے ڈی جی رینجرز بلال اکبر اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ان عناصر کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تاہم حسن عباس نے واقعے میں کسی صحافی پر تشدد یا زخمی ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی واقعہ میرے علم میں نہیں ہے۔ کیا صحافتی تنظیموں کو حکومت کی جانب سے گرانٹس ملتی ہے ؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ بالکل سندھ حکومت کی جانب سے کراچی پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹ کو گرانٹس ملتی ہیں اور متاثرہ یا زخمی صحافی یا ان کے اہل خانہ کے لیے 5 کروڑ روپے کا فنڈز مقرر رکھا ہے جو وقتاً فوقتاً صحافیوں کو دیا جاتا ہے اور اس کا ریکارڈ بھی رکھا جاتا ہے تاہم اس فنڈز کی کوئی معیاد مقرر نہیں یہ جب بھی ہمارے پاس اکھٹا ہوجاتا ہے ہم تنظیم کے حساب سے اس کو متاثرہ صحافیوں میں تقسیم کردیتے ہیں اور جب کوئی ہم سے مدد طلب کرتا ہے تو ہم اس کا جائزہ لینے کے بعد ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ ان سے میں نے اس لسٹ کی کاپی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے کہا ان صحافیوں کا نام صیغہ راز میں رکھنے کی وجہ سے وہ مجھے کاپی فراہم نہیں کرسکتے البتہ اس لسٹ کو ہمارے ایکزیکٹو کونسل کے ممبران ضرور دیکھ سکتے ہیں اور وہی اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کس صحافی کو فنڈز فراہم کرنے ہیں۔
ماضی میں صحافی جمہوریت کی خاطر آمریت کے آگے دیوار بن کر کھڑے رہے اور نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ بے روزگاریاں اور یہاں تک کے اپنی جانوں کا بھی نذرانہ پیش کیا۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں خاور نعیم ہاشمی، مسعود اللہ خان، اقبال جعفری اور ناصر زیدی کو کوڑے مارے گئے لیکن اس کے باوجود وہ مختلف طریقوں سے آمریت کے خلاف احتجاج کرتے رہے اس کے علاوہ جن صحافیوں نے خبر کی حرمت کے لیے مشقتیں اٹھائیں ان میں احمد ندیم قاسمی، منہاج برنا، حسین نقی، ظفرعباس اور نثارعثمانی جیسے نام نمایاں ہیں لیکن اب صورتحال بالکل مختلف دکھائی دیتی ہے چند مفاد پرست صحافیوں نے سیاسی جماعتوں سے ملکر اس مقدس پیشے کہ نہ صرف بدنام کیا بلکہ اس میں 'لفافہ صحافت' جیسی اصطلاح بھی متعارف کروائی اور اپنے جیسے دیگر مفاد پرستوں کو بھی صحافت میں شامل کرواکر سیاسی جماعتوں کی چاندنی کروائی جس کے باعث حقیقی صحافیوں کے تحفظ کو انہیں سیاسی جماعتوں سے خطرات لاحق ہونے لگے اور ان کی من پسند خبر نہ دینے، کوریج نہ کرنے یا حقیقت سے قریب تر سوال پوچھنے پر ان صحافیوں کو میڈیا کوریج کے دوران متعدد بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
فرائض کی انجام دہی کے دوران ایسا ہی ایک واقعہ 22 اگست 2016 میں متحدہ قومی موومنٹ کے جلسہ کے دوران بھی پیش آٰیا جب وہ پر امن جلسہ ان کے قائد کے کہنے پر پرتشدد جلسے میں تبدیل ہوا، ایسے میں صحافتی امور انجام دینے کے لیے وہاں موجود صحافیوں کو بھی نہ بخشا گیا اور انہیں بھی مارا پیٹا گیا، وہ اپنا بچاو تک نہ کرسکے لہذا میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان حالات میں صحافیوں کو کن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے اور آیا انہیں بھی انصاف کے لیے دھکے کھانے پڑتے ہیں یا پھر ان کی سنوائی آسانی سے ہوجاتی ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ سوشل میڈیا کی وجہ سے صحافیوں کو درپیش خطرات
پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے ڈٰیٹا بیس میں موجود ایسے ہی صحافی (کیمرہ مین) ریحان احمد جو نیو نیوز سے وابستہ ہیں، ان سے میں نے واقعے کی تفصیل طلب کی جس پر انہوں نے مجھے بتایا کہ 22 اگست کو پریس کلب پر کوریج کے دوران جب کچھ مظاہرین جب اے آر وائے نیوز پر حملہ کرنے آئے تو گیٹ پر موجود گارڈ نے انہیں روکنے کی کوشش کی جس پر میں نے ان کی فوٹیج بنائی تو مجھے ایسا کرنے سے روکا گیا، نہ رکنے پر مجھے تھپڑ رسید کیے گئے اور بعد ازاں پیچھے سے میری ٹانگ پر غالباً کسی پائپ سے زوردار وار کیا جس سے میں بے گرپڑا اور پھر مجھے ساتھی کیمرہ مین اٹھاکر لے گئے تھے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے کوئی قانونی کارروائی کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ گھر والوں کی سیفٹی کے لیے رپورٹ کرنے سے گریز کیا، اور نہ مجھے علم ہے کہ اس حوالے سے کوئی کیس بھی چل رہا ہے۔ ریحان احمد نے مجھے بتایا کہ اس حادثے کے بعد وہ ایک ماہ تک بستر پر رہے، اس دوران نہ کسی سیاسی تنظیم نے ان کی مدد کی اور نہ ہی ادارے اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے کسی قسم کی مدد فراہم کی گئی، اس وقت کے ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر صرف ان سے اسپتال میں ملنے آئے تھے اس کے علاوہ نہ کوئی سیاسی جماعت کا رہنما ان سے ملنے آیا اور نہ کوئی حکومتی عہدیدار، اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی مالی واخلاقی مدد فراہم کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی جلسہ میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اگر رپورٹر جگہ پر موجود نہ بھی ہو مگر کیمرہ مین ہر وقت موجود ہوتا ہے، 12 مئی کے واقعے میں بھی فیلڈ پر موجود تھا اور کوریج کررہا تھا، ہماری سیفٹی کے لیے کوئی مدد نہیں دی جاتی، 22 اگست کے واقعے میں بھی جب میں نے مدد کے لیے آفس کال کی تو مجھے یہ کہا گیا کہ حالات بہتر ہوتے ہی آپ کی مدد پہنچتے ہیں۔
متاثرہ صحافی سے بات کرنے کے بعد میں نے ان کے ادارے کا موقف لینے کے لیے رابطہ کیا تو نیو نیوز سے وابستہ آسائمنٹ ایڈیٹر احتشام خالد (جنہوں نے اس وقت بھی ریحان احمد کو اسائمنٹ پر بھیجا تھا) نے مجھے بتایا کہ جس بلڈنگ پر حملہ ہوا تھا اسی میں ہمارا دفتر ہے، جب حملہ ہوا تو ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ کس چینل پر حملہ ہوا، نیچے تمام مارکیٹیں بند ہوگئیں اور ہمارے گارڈ نے گرل کو فوری طور پر بند کردیا تاکہ کوئی اندر نہیں آسکے، اس لیے ہم خود بھی اندر ہی محصور ہوکر رہ گئے تھے، ہمیں باہر کی صورتحال کا اندازہ نہیں تھا اور نہ ہمیں یہ پتہ تھا کہ ہمارا کیمرہ مین زخمی ہوگیا ہے، ہم صرف باہر رپورٹرز سے فون پر رابطے میں تھے اورہمیں یہی کہا جارہا تھا کہ آپ اندر رہو، اور اس وقت 100 سے زائد افراد ہمارے دفتر میں موجود تھے، ہم اپنے تحفظ کی وجہ سے باہر نہیں گئے مگر جب حملہ آور چلے گئے تو ہم نے کیمرہ مین کی ہر ممکن مدد کی۔
پی پی ایف رپورٹ کے مطابق 22 اگست 2016 کو ایم کیو ایم کے ورکرز نے نہ صرف صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ انہوں نے سما نیوز کی ڈٰی ایس این جی کو بھی نشانہ بنایا اور بعد ازاں اے ار وائے اور نیوز نیوز کے دفاتر پر بھی حملے کیے اور وہاں موجود صحافیوں اور سیکیورٹی گارڈز کو زدوکوب کیا۔
ایسی صورتحال میں ڈیوٹی پر موجود صحافیوں کو ہی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ صحافتی ادارے بھی ایسی پرتشدد کارروائیوں کی زد میں آتے ہیں اور ماضی میں نہ صرف ریاستی اداروں بلکہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی مختلف میڈیا ہاؤسز کو بائیکاٹ اور پرتشدد کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس حوالے سے صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 18 برس میں پاکستان میں صحافتی اداروں پر کم سے کم 32 بار حملے کیے گئے جب کہ 22 اگست 2016 کو ایم کیو ایم کے جلسے کے دوران اے آر وائی نیوز کو پر حملہ بھی اس رپورٹ کا حصہ ہے۔
میڈیا ہاؤسز پر حملوں کے حوالے سے کیس کی تفصیلات کے لیے میں نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت سندھ ہائی کورٹ سے کیس کی تفصیلات کے لیے ای میل کی تو مجھے وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا جس پر میں نے جیو نیوز سے وابستہ کورٹ رپورٹر امین انور سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ سیاسی اجتماعات میں ہونے والے واقعات پر صحافی قانونی کارروائی نہیں کرتے اور نہ ہی اس وقت سندھ ہائی کورٹ میں کسی صحافی کا کیس چل رہا ہے البتہ 22 اگست کے حوالے سے سرکار کی مدعیت میں میڈٰیا ہاؤس پر حملے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا اور وہ اس وقت زیرسماعت ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں؛ صحافتی تنظیموں کا صحافیوں کے تحفظ میں کردار
ایم کیو ایم کے اسی جلسے میں سیاسی کارکنان کی جانب سے تشدد کا نشانہ بننے والے ایک اور کیمرہ مین محمد سفیر کا تعلق سما نیوز سے ہے، ان سے جب میں نے بات کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ 22 اگست والے دن ایونٹ پر بھیجنے سے پہلے مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ حالات خراب ہیں اور نہ مجھے اس واقعہ کا علم تھا کہ وہاں کیا ہوا ہے، مجھے لگا ایک معمول کا جلسہ ہے اور میں ڈی ایس این جی پر کھڑے ہوکر فوٹیج بنارہا تھا، اتنے میں سیاسی ورکرز لوگوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے آرہے تھے، اس دوران میں بھی ان کے ہتھے چڑھ گیا اور ہمیں خوب مارا پیٹا گیا، اور میری ٹانگ بھی توڑ دی جس کے بعد مجھے ڈاکٹر نے 2 ماہ بیڈ ریسٹ کا کہا لیکن ایک ماہ بعد ہی آفس بلالیا گیا اور اس حالت میں بھی مجھ سے کام لیا گیا، اور اس وقت کے ڈائریکٹر نیوز اور بیورو چیف نے مجھے ڈیوٹی چھوڑنے پر مجبور کیا اور بیماری کے باوجود مجھ سے ایسے کام لیے گئے جو میں نے کبھی نہیں کیے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ادارے نے مجھے میڈیکل کا خرچہ بھی نہیں دیا جو میں نے اپنی جیب سے ادا کیا اور اس دوران پریس کلب یا کسی صحافتی تنظیمیں نے بھی مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی میں نے ان سے کسی قسم کی کوئی مدد طلب کی جب کہ مجھے پتہ چلا کہ سندھ حکومت نے زخمی ہونے والے صحافیوں کے لیے کوئی گرانٹ جاری کی گئی ہے، چونکہ میں خود زخمی تھا میں نے مختلف طریقوں سے معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ گرانٹ مجھے نہیں دی گئی۔ ان سے جب میں نے پوچھا کہ قانونی کارروائی کیوں نہیں کی جس پر انہ کا کہنا تھا کہ میرے پاس کوٹ کچہری کے پیسے نہیں تھے اس لیے ان معاملات سے دور رہنے کو ترجیح دی۔
پی پی ایف کے ریکارڈ میں ہی موجود ایک اور کیس 92 نیوز کے رپورٹر چاند نواب کا ہے جو 3 جولائی 2018 کو کراچی ایئرپورٹ پر پیش آیا جب پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے رپورٹر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس پر میں نے چاند نواب سے رابطہ کرکے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس پر کسی قسم کی بات کرنے سے انکار کردیا، ان کا کہنا تھا کہ دوران ڈیوٹی ایسے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں اور پھر اس واقعے پر خود عمران خان نے معذرت کرلی تھی اس لیے میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔
12 مئی 2007 جسے کراچی کا سیاہ ترین دن کہا جاتا ہے، جب معزولی کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کراچی آئے اور جیسے ہی سابق چیف جسٹس کا طیارہ کراچی ایئر پورٹ پر پہنچا تو شہر میدان جنگ بن گیا، اس دوران وہاں کوریج کے لیے موجود صحافی بھی سیاسی کارکنوں کے تشدد کی زد میں آئے تھے اور ان میں صحافت کا ایک بڑا نام معروف اینکرپرسن اور سینئر تجزیہ کار طلعت حسین بھی تھے۔ طلعت حسین نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ صحافت میں دو طرح کے خطرات ہوتے ہیں، ایک حادثاتی خطرات جو بہت کم ہیں اور یہ کسی بھی جلسے یا دیگر تقریبات کے دوران پیش آتے ہیں لیکن چند خطرات صحافت کا منہ بند کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں وہ زیادہ خطرناک ہیں اور جب ریاست صحافت کا گلہ دبنے پر آجائے تو ملک میں ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں جو اس وقت موجود ہیں۔ سانحہ 12 مئی کے حوالے سے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کسی کے خلاف قانونی کارروائی کی جس پر انہوں نے کہا کہ وہ مجھ پر ذاتی طور پر حملہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ میرے ساتھ چند اور لوگوں کا مقدمہ تھا اور اس پر کمیشن بنے لیکن اس پر جو ہوا سب کے سامنے ہے، ہمارا مقدمہ یہ تھا کہ اہمارے چینل پر فائرنگ ہوئی جو کیمرے میں بھی ریکارڈ ہوا اور سب جانتے ہیں 12 مئی کے واقعے میں ایم کیو ایم ملوث تھی، جنہیں پرویز مشرف کی سپورٹ حاصل تھی ، ریاست کی سرپرستی میں جب جرائم ہوں گےتو پھر ان کا تدارک ممکن نہیں ، ان سے جب پوچھا گیا کہ ایسی صورتحال میں صحافی کو اپنے تحفظ کے لیے کیا اقدامات اٹھانے چاہیے، تو انہوں نے بتایا کہ جب ریاست اور سیاسی جماعتیں یہ تہیہ کرلیں کہ صحافیوں کی آواز کو دبانا ہے اس کے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے،اس کا پھر ایک ہی حل دکھائی دیتا ہے کہ صحافیوں کو ایس ایس جی کمانڈو بنادیں تاکہ وہ اپنا تحفظ کرسکیں یا پھر جس قسم کے خطرات کا سامنا ہے اس میں اسلحہ اٹھالے یا پھر جوڈو کراٹے کی ٹریننگ حاصل کرلے۔
اسٹوری کے حوالے سے میں نے حکومتی موقف لینے کے لیے مشیر اطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب سے بات کی۔ ان سے میں نے جرنلسٹ سیفٹی ایکٹ کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت وقتاً فوقتاً صحافیوں کی مدد کرتی رہتی ہے کیوں کہ صحافت اس ملک کا اہم ستون ہے اس لیے کچھ صحافیوں کی مدد کے لیے تو اعلانات کے ذریعے کیے جاتے ہیں لیکن کچھ کی مدد کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے اور خاموشی سے ان کی مدد کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے اس سے ایک قدم بڑھ کر سندھ انشورنس اسکیم بھی متعارف کروائی ہے جس کے تحت سندھ سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شہری کو کسی بھی حادثے کی صورت میں ایک لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گا۔ اس حوالے سے جب میں نے ان سے طریقہ کار پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے تمام شہری ایک برابر ہیں اور حادثے کا شکار ہونے والا کوئی بھی شہری آن لائن سندھ انشارنس کلیم فارم بھرسکتا ہے جس کے بعد ہماری ٹیم انجری کے حوالے سے میڈیکل رپورٹ سمیت تمام دستاویزات دیکھنے کے بعد اپنی تسلی کرنے کے بعد متاثرہ شہری کو ایک لاکھ روپے فراہم کیے جائیں گے۔ پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹ کو گرانٹس فراہم کرنے سے متعلق جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی بالکل صوبائی حکومت پریس کلب اور کے یو جیز کو گرانٹس فراہم کرتی ہے تاہم اس وقت میرے پاس درست اعداود وشمار نہیں ہیں، ورنہ آپ کے ساتھ ضرور شیئر کرتا۔ سیاسی جماعتوں میں صحافیوں پر تشدد کے حوالے سے انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے جلسوں میں ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے البتہ جن واقعات کی آپ نشاندہی کررہے ہیں میں اس جماعت کو سیاسی جماعت ہی نہیں سمجھتا اس لیے وہاں ڈسپلن کی کمی ہے، جس کی وجہ سے سیاسی ورکزرہنماؤں کی بات نہیں مانتے۔
پاکستان تحریک انصاف کراچی کے صدر خرم شیر زمان سے اس حوالے سے جب میں نے پوچھا کہ سیاسی کارکن صحافیوں کی عزت کیوں نہیں کرتے تو ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہاں ماضی میں ایک وقت تھا جب جلسے جلوس میں بدنظمی پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہوتا اور مجھ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما صحافیوں کی عزت کرتے ہیں اور جب لیڈر عزت کرتے ہیں تو ورکرز بھی صحافیوں کے ساتھ اچھے سے پیش آتے ہیں تاہم کبھی کبھار جلسوں میں مخالف پارٹٰی کے لوگ بھی آجاتے ہیں جو بدنظمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے میں صحافی بھی کبھی کبھار ان کا شکار بن جاتے ہیں، ایسے عناصر کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے صحافی چاند نواب پر تشدد کے حوالے سے جب میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی واقعہ کبھی پیش ہی نہیں آیا، آپ خود چاند نواب سے پوچھ سکتے ہیں۔
اسٹوری میں شامل 22 اگست کی کیس اسٹڈی کے حوالے سے ڈاکٹر فاروق ستار سمیت ایم کیو ایم کے متعدد رہنماؤں کو بار بار کالز کی گئی لیکن یہاں سے بھی کوئی جواب نہیں ملا۔
کراچی یونین آف جرنلسٹ (دستور) کے صدر طارق الحسن نے مجھے بتایا کہ جب کسی صحافی کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس پر پہلی ذمہ داری اس ادارے کی ہوتی ہے جس سے وہ وابستہ ہے، اس دوران ہمارا کام یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ صحافیوں کو انصاف دلانے یا ان کا حق دلوانے کے لیے کوششیں کرتے ہوئے ان اداروں کو یادہانی کروائیں، اس کے علاوہ کوئی صحافی مدد کے لیے ہمارے پاس آتے ہیں وہ ہم انہیں قانونی مشاورت فراہم کرنے کے علاوہ تھانے میں رپورٹ درج کروانے میں بھی ان کی مدد کرتے ہیں لیکن جہاں تک سیاسی جماعتوں کا معاملہ ہے تو اس میں جب کسی صحافی کو سیاسی جماعت کی جانب سے پریشان کیا جاتا ہے یا پھر کسی جلسہ کے دوران تشدد وغیرہ کیا جاتا ہے تو اس میں زیادہ تر معاملہ مل بیٹھ کر ہی سلجھادیا جاتا ہے اور زیادہ تر معاملات موقع پر معافی تلافی کے ذریعے ختم کردیے جاتے ہیں۔ ان سے جب میں نے پوچھا کہ اس ضمن میں آپ نے کیا کوششیں کی تو انہوں نے کہا بدقسمتی سے صحافتی تنظیمیں صرف بیانات تک ہی محدود رہ گئی ہیں، ہم ایک رویتی قسم کی مذمت کرکے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ اس سیاسی جماعت کے ایونٹ کا بائیکاٹ کردیتے ہیں لیکن اس میں بھی رپورٹر اور کیمرہ مین پر ادارے کی جانب سے پریشر آتا ہے کہ وہ اس بائیکاٹ کو ختم کریں، اور پھر اس موقع پر صحافتی تنظیمیں بھی بے بس ہوجاتی ہیں کیوں کہ ان کو معاشی مسائل کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کارکنان کی تربیت کریں کہ یہ صحافی انہیں کی کوریج کے لیے آئے ہیں اور اس کے علاوہ یہ حکومت وقت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس چیز کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ حکومتی گرانٹس پر طارق ابوالحسن نے مجھے بتایا کہ ہمیں حکومت کی جانب سے کوئی گرانٹ نہیں ملتی اور نہ ہی صحافیوں کے لیے کوئی فنڈ مختص کیا گیا ہے البتہ ہم ویلفیئر فنڈز سے بے روزگار، بیمار یا زخمی صحافیوں کی مدد کرتے ہیں اور یہ فنڈ ہم خود اپنے طور پر اکھٹا کرتے ہیں تاہم اس حوالے سے کوئی ریکارڈ نہیں رکھتے۔
کراچی یونین آف جرنلسٹ (برنا) کے صدر حسن عباس سے جب میں نے 22 اگست والے واقعے پر بات کی تو انہوں نے مجھے بتایا جب میڈٰیا ہاؤسز پر حملہ ہوا تو وہ خود اس وقت اے آر وائے کے دفتر میں موجود تھے اورانہوں نے ڈی جی رینجرز بلال اکبر اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ان عناصر کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تاہم حسن عباس نے واقعے میں کسی صحافی پر تشدد یا زخمی ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی واقعہ میرے علم میں نہیں ہے۔ کیا صحافتی تنظیموں کو حکومت کی جانب سے گرانٹس ملتی ہے ؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ بالکل سندھ حکومت کی جانب سے کراچی پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹ کو گرانٹس ملتی ہیں اور متاثرہ یا زخمی صحافی یا ان کے اہل خانہ کے لیے 5 کروڑ روپے کا فنڈز مقرر رکھا ہے جو وقتاً فوقتاً صحافیوں کو دیا جاتا ہے اور اس کا ریکارڈ بھی رکھا جاتا ہے تاہم اس فنڈز کی کوئی معیاد مقرر نہیں یہ جب بھی ہمارے پاس اکھٹا ہوجاتا ہے ہم تنظیم کے حساب سے اس کو متاثرہ صحافیوں میں تقسیم کردیتے ہیں اور جب کوئی ہم سے مدد طلب کرتا ہے تو ہم اس کا جائزہ لینے کے بعد ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ ان سے میں نے اس لسٹ کی کاپی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے کہا ان صحافیوں کا نام صیغہ راز میں رکھنے کی وجہ سے وہ مجھے کاپی فراہم نہیں کرسکتے البتہ اس لسٹ کو ہمارے ایکزیکٹو کونسل کے ممبران ضرور دیکھ سکتے ہیں اور وہی اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کس صحافی کو فنڈز فراہم کرنے ہیں۔