شام وعراق میں سویلینز کی ہلاکتوں کا اعتراف
امریکا نے جن ہلاکتوں کو تسلیم کیا ہے اصل میں سویلینز کی ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
امریکا کی قیادت میں کارروائیاں کرنے والی اتحادی فوج کی طرف سے اعتراف کیا گیا ہے کہ شام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ گروپ (آئی ایس) کے عسکریت پسندوں کے خلاف فضائی جنگ کی کارروائیوں میں 2014 سے اب تک 1300 سے زائد سویلین مارے جا چکے ہیں لیکن غیر جانبدار گروپوں نے کہا ہے کہ امریکا نے جن ہلاکتوں کو تسلیم کیا ہے اصل میں سویلینز کی ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان جائزہ گروپوں کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگست 2014 سے اپریل 2019تک امریکی طیاروں نے 34 ہزار 502 ہوائی حملے کیے جس کے دوران 13 سو سویلین ہلاک ہوئے۔
جائزہ گروپوں کا کہنا ہے کہ 13 سو کے علاوہ مزید ایک سو گیارہ لوگ بھی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ زبانی طور پر اتحادی امریکی فورسز یہ دعویٰ بھی کرتی رہیں کہ وہ سویلین کی ہلاکتیں روکنے کے لیے جو کچھ ان کے بس میں ہے وہ کریں گے مگر جب بمبار طیارے فضا میں سے نیچے شہریوں پر حملہ کرتے ہیں تو وہ اوپر سے ہلاکتوں کی تعداد نہیں گن سکتے بلکہ ان کو وہی اعداد وشمار بیان کرنا پڑتے ہیں جو ان کے افسران انھیں بتاتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کی تصدیق کے لیے کسی علیحدہ ایجنسی کی ضرورت ہے لیکن امریکا کے مدمقابل کھڑے ہونے کی کس میں جرأت ہو سکتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بیگناہ سویلین ہلاکتوں کے بارے میں امریکی اعتراف کا خیرمقدم کیا ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ سویلین ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔
ایمنسٹی کی لندن میں موجود گروپ کی لیڈر ڈونائیلا روویرا نے کہا ہے کہ عراق اور شام میں امریکا کی فضائی کارروائیوں سے اصل میں ہلاکتوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ مس دونائیلا کا مزید کہا ہے کہ امریکی بمباریوں سے ہونے والی ہلاکتوں اور دیگر نقصانات کا صحیح اندازہ لگانے کی ضرورت ہے جو یقینی طور پر ان سے کئی گنا زیادہ ہے جتنا امریکا کی طرف سے اعتراف کیا گیا ہے۔
مس دونائیلا نے مزید کہا کہ امریکی فوج کو تمام ہلاکتوں کی وجوہات بھی بیان کرنی چاہئیں۔ انھوں نے کہا آخر کیا وجہ ہے کہ ہر بار امریکی بمبار طیاروں کا نشانہ خطا ہو جاتا ہے اور وہ عسکریت پسندوں کی بجائے عام شہریوں کا قتل عام شروع کر دیتے ہیں۔ ایمنسٹی کی طرف سے گزشتہ ماہ جو رپورٹ جاری کی گئی ہے اس میں سویلینز کی تعداد 1600 سے زائد بیان کی گئی ہے۔ یہ ہلاکتیں شام کے شہر رقعہ (Raqa) میں گزشتہ چار ماہ میں ہوئی ہیں اور اصل میں ہلاکتوں کی تعداد 7 ہزار 9 سو سے زیادہ ہے جس کو امریکی ذرائع تسلیم نہیں کر رہے۔ حقوق انسانی کے لیے شام کے گروپ کا کہنا ہے کہ صرف شام میں 3 ہزار 8 سو سے زائد شہری ہلاکت کا شکار ہوئے۔
جائزہ گروپوں کا کہنا ہے کہ 13 سو کے علاوہ مزید ایک سو گیارہ لوگ بھی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ زبانی طور پر اتحادی امریکی فورسز یہ دعویٰ بھی کرتی رہیں کہ وہ سویلین کی ہلاکتیں روکنے کے لیے جو کچھ ان کے بس میں ہے وہ کریں گے مگر جب بمبار طیارے فضا میں سے نیچے شہریوں پر حملہ کرتے ہیں تو وہ اوپر سے ہلاکتوں کی تعداد نہیں گن سکتے بلکہ ان کو وہی اعداد وشمار بیان کرنا پڑتے ہیں جو ان کے افسران انھیں بتاتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کی تصدیق کے لیے کسی علیحدہ ایجنسی کی ضرورت ہے لیکن امریکا کے مدمقابل کھڑے ہونے کی کس میں جرأت ہو سکتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بیگناہ سویلین ہلاکتوں کے بارے میں امریکی اعتراف کا خیرمقدم کیا ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ سویلین ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔
ایمنسٹی کی لندن میں موجود گروپ کی لیڈر ڈونائیلا روویرا نے کہا ہے کہ عراق اور شام میں امریکا کی فضائی کارروائیوں سے اصل میں ہلاکتوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ مس دونائیلا کا مزید کہا ہے کہ امریکی بمباریوں سے ہونے والی ہلاکتوں اور دیگر نقصانات کا صحیح اندازہ لگانے کی ضرورت ہے جو یقینی طور پر ان سے کئی گنا زیادہ ہے جتنا امریکا کی طرف سے اعتراف کیا گیا ہے۔
مس دونائیلا نے مزید کہا کہ امریکی فوج کو تمام ہلاکتوں کی وجوہات بھی بیان کرنی چاہئیں۔ انھوں نے کہا آخر کیا وجہ ہے کہ ہر بار امریکی بمبار طیاروں کا نشانہ خطا ہو جاتا ہے اور وہ عسکریت پسندوں کی بجائے عام شہریوں کا قتل عام شروع کر دیتے ہیں۔ ایمنسٹی کی طرف سے گزشتہ ماہ جو رپورٹ جاری کی گئی ہے اس میں سویلینز کی تعداد 1600 سے زائد بیان کی گئی ہے۔ یہ ہلاکتیں شام کے شہر رقعہ (Raqa) میں گزشتہ چار ماہ میں ہوئی ہیں اور اصل میں ہلاکتوں کی تعداد 7 ہزار 9 سو سے زیادہ ہے جس کو امریکی ذرائع تسلیم نہیں کر رہے۔ حقوق انسانی کے لیے شام کے گروپ کا کہنا ہے کہ صرف شام میں 3 ہزار 8 سو سے زائد شہری ہلاکت کا شکار ہوئے۔