رحیم بخش آزاد کچھ یادیں کچھ باتیں

خیر رحیم بخش آزاد سے میری دوستی 30 سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔

23 مئی کو مجھے اطلاع ملی کہ ہمارے کامریڈ محنت کشوں کے استاد ، دانشور، صحافی ترقی پسند تحریک پاکستان اور خصوصاً لیاری کے عوام، محنت کشوں، طالب علموں، نوجوانوں کو انقلابی درس دینے والے رحیم بخش آزاد اپنے لاکھوں دوستوں کا دکھ بانٹنے والے بابائے لیاری ہمارا ساتھ چھوڑ گئے۔

یہ اطلاع بھی مجھے انقلابی دانشور اور معروف صحافی کالم نگار جو امریکا میں رہتے ہیں اور وہیں سے پاکستان کی کہانیاں خصوصی طور پر سندھ کی داستان اخبار میں کالم کے ذریعے ہم تک پہنچ جاتی ہیں شکریہ حسن مجتبیٰ شکریہ مگر یہاں پاکستان اور خاص کر کراچی سے شایع ہونے والے کسی بھی اخبار میں رحیم بخش آزاد کے انتقال کی خبر نہیں چھپی اور نہ ہی کسی ٹی وی چینل نے خبر نشر کی۔

مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوگیا ہے۔ میں جو ہر روزکراچی سٹی اسٹیشن، بولٹن مارکیٹ، آرٹس کونسل، پریس کلب، صدر آتا جاتا رہتا ہوں کئی اخبارات کا مطالعہ بھی کرتا ہوں لیکن بدقسمتی سے 12 روز سے گھر پر ہوں کیونکہ باتھ روم میں گر جانے کی وجہ سے سر اورکمر میں شدید چوٹ لگ گئی تھی ڈاکٹروں کو چیک کرایا تو انھوں نے گھر پر 15 روز کے لیے بیڈ ریسٹ کرنے کا مشورہ دیا۔

سو اب تک گھر پر ہوں کسی دوست نے فون یا میسج کرکے بھی نہیں بتایا گو کہ 21 یا 22 مئی کو رحیم بخش چلے گئے تھے۔پھر بھی مجھے تسلی نہ ہوئی میں نے فوری طور پر کامریڈ خالق زردان کو فون کیا اس نے کہا کہ ہاں گزشتہ روز ہمیں رحیم بخش آزاد چھوڑ گئے اور آج ان کا سوم ہے۔ پھر میں نے نادر شاہ عادل سے پوچھا اور ان سے اظہار تعزیت کیا۔ خالق زردان نے کہا کہ سوشل میڈیا پر خبر چل رہی ہے۔ میں چونکہ 74 سال کی عمر میں سوشل میڈیا نہیں دیکھ پاتا گوکہ میرے بیٹے اس کا استعمال کرتے ہیں۔

خیر رحیم بخش آزاد سے میری دوستی 30 سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ میں ریلوے کی ٹریڈ یونین میں کام کرتا رہا ہوں اور اب بھی کر رہا ہوں۔ میں نے اور رحیم بخش آزاد نے رمپا پلازہ سے نکلنے والے جریدے '' جفاکش'' میں کام کیا اور جس دن فائرنگ کا واقعہ ہوا اس روز ہم ساتھ ہی تھے مگر دفتر نہ جاسکے ۔ سول اسپتال کراچی چلے گئے جہاں مرحومین کی لاشیں لائی جا رہی تھیں اور ماہنامہ '' بدلتی دنیا'' میں بھی ساتھ کام کیا۔ یہ دونوں میگزین اب بند ہیں۔ پھر لیل و نہار بند ہوا۔ ارشاد راؤ کا الفتح بند ہوا۔ اب کوئی میگزین ایسا نہیں کہ جسے پڑھا جاسکے۔


لیکن پھر فکشن ہاؤس کے ظہور احمد معروف تاریخ دان (عوامی) کے ڈاکٹر مبارک علی کی جانب سے سہ ماہی تاریخ شایع ہوا۔اس کے علاوہ انجمن ترقی پسند کے روح رواں اور ان کے ساتھی ارتقا بھی شایع کرتے ہیں۔ لیفٹ کے دوست امداد قاضی سرخ پرچم شایع کرتے ہیں، اسی طرح ڈاکٹر لال خان '' طبقاتی جدوجہد'' شایع کرتے ہیں ۔ عوامی ورکرز پارٹی کے زیر اہتمام عابد حسن منٹو کی ادارت میں عوامی جمہوریت شایع ہوتے ہیں اب کتابیں تو بہت ہیں قیمت بہت زیادہ ہے۔ لکھنے والوں میں لکھنے والے بھی موجود ہیں۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان، ظہیر اختر بیدری، جاوید چوہدری، نادر شاہ عادل، حامد میر، ڈاکٹر منظور احمد، سہیل احمد وڑائچ اور خاص کر حسن مجتبیٰ خوب لکھتے ہیں۔

خیر یہ تو لکھنے پڑھنے کی بات تھی اب رحیم بخش آزاد کی بات کرتے ہیں وہ ایک عظیم انسان تھے نہ وہ قوم پرست تھے، نہ بلوچ، نہ سندھی، نہ پٹھان، نہ پنجابی اور نہ ہی اردو کے لسانی تعصب کا شکار تھے انھوں نے ساری زندگی پاکستان کے محنت کشوں کے حقوق کی بات کی اور جدوجہد کی۔ کل ہی ان کے بیٹے آصف آزاد سے بات کی ، اظہار تعزیت کیا۔ انھوں نے ان کے لیاری اور شیر شاہ کے خدابخش بلوچ، علی ناصر، رحیم اسلام آباد، PPP کے رہنما خدا بخش لاسی اور بے شمار شاگردوں اور دوستوں کے بارے میں بتایا جن میں، میں بھی شامل تھا اور ابھی کل ہی خبر ملی ہے کامریڈ محمد احمد ہمدانی بھی 23-05-2019 کو حیدرآباد میں چل بسے۔ آخرکیا بنے گا؟

دائم آباد رہے گی دنیا

ہم نہ ہونگے کوئی ہم سا ہوگا

رحیم بخش آزاد میں کئی ایک خوبیاں تھیں وہ صحافت کے ساتھ ساتھ سیاست اور ٹریڈ یونین بھی کرتے تھے۔سماجی کاموں کا انھوں نے ٹھیکہ لیا ہوا تھا۔ اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ بڑے ہشاش بشاش تھے۔ لطیفے سنانے کے بھی ماسٹر تھے۔ کھانے پینے کے بھی ماسٹر تھے بھرا بھرا جسم، قدکاٹھ بھی ٹھیک ٹھاک، لکھنے پڑھنے کے ماسٹر مگر ساری عمر لیاری میں ہی گزار دی۔ میں ان کے سوم اور جنازے میں نہ جا سکا سدا افسوس رہے گا۔ سوچا ان کے بارے میں کچھ لکھ دوں کسی اخبار میں چھپ جائے اور اہل پاکستان کے محنت کشوں، کارکنوں اور انقلابی دانشوروں کو معلوم ہوجائے کہ رحیم بخش آزاد ہم میں نہیں رہے۔ وہ ایک سایہ دار درخت تھا لیاری کی زمین سے اکھڑ گیا، لیاری میں پھر نئے پودے جنم لیں گے، لیاری اب ترقی پسندوں انقلابی دانشورں سے خالی ہوتا جا رہا ہے ۔

اب لیاری کے نوجوانوں، شاعروں، ادیبوں، دانشوروں کو پھر سے بھرپور جوش و خروش سے آگے بڑھنا ہوگا۔شبیر ارمان بلوچ صحافی کراچی کا المیہ اور لیاری کا دکھ لکھتے ہیں، لیاری میں بڑا آرٹ ہے، بڑا ٹیلنٹ ہے، کھلاڑی ہیں، باکسر ہیں، فٹ بالر ہیں، فنکار ہیں، ہنس مکھ ہیں۔ لیاری زندہ ہے، لیاری زندہ رہے گا۔ لیاری کے نادر شاہ عادل ہیں۔ ن۔م دانش امریکا میں خیر سے ہیں۔ لالہ لال بخش رند چلے گئے۔ دانشور شاد یوسف نسکندی دنیا سے سدھار گئے، صدیق بلوچ چلے گئے۔ اب لطیف بلوچ ہیں، ارمان بلوچ ہیں، ن۔م دانش زندہ ہیں لکھتے رہیں ہم پڑھتے رہیں گے۔ کراچی کے عوام آپ سے بہت پیار کرتے ہیں کرتے رہیں گے۔ ایک مرتبہ پھر حسن مجتبیٰ زندہ باد، خدا حافظ رحیم بخش آزاد۔۔۔خدا حافظ! آپ کی بھرپور زندگی کو سرخ سلام۔
Load Next Story