فیصلہ وقت کرے گا
ہمارے ہاں کچھ لوگ تو بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحد کی لکیر کو اپنے بڑوں کی ایک حماقت سمجھتے ہیں۔
دسویں جماعت کے دو طالبعلم اسکول جا رہے تھے کہ ایک نے کہا، کچھ سنا تم نے مشرقی پاکستان ختم ہو گیا ہے ۔ چلو یار جغرافیہ آسان ہو گیا ہے، بڑی مشکل پڑتی تھی۔ اس کے ساتھی نے جواب دیا درست ہے جغرافیہ تو آسان ہو گیا مگر تاریخ مشکل ہو گئی ہے۔
پاکستان کی یہ تاریخ مشکل چلی آ رہی تھی، ملک سے محبت کرنیوالے اور اس کی سرحدوں کی حفاظت پر جانیں نثار کرنیوالے برسوں سے سخت مشکل میں تھے، انھیں قائد اعظم کا پاکستان یاد آتا تھا۔ اقبال کے خواب اور کلام یاد آتا تھا گو کہ ایک زمانہ گزر گیا مگر اب بھی جب چٹا گانگ کے سبز پوش پہاڑ ی سلسلے اور سند ربن کے جنگلی درخت یاد آتے ہیں تو آنکھ بھر آتی ہے ،کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ دکھ کیسے دور ہو گا۔ ہماری کتنی نسلیں سوگ مناتی رہیں گی اور پاکستان کی تاریخ کی الجھن میں مبتلا رہیں گی۔
ہمارے ہاں کچھ لوگ تو بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحد کی لکیر کو اپنے بڑوں کی ایک حماقت سمجھتے ہیں اور اسے ختم کرنے میں کوشاں رہتے ہیں ۔کچھ لوگ اس لکیر کو رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے مگر اسے ایک ایسی لکیر بنا دینا چاہتے ہیں جو کاغذوں پر تو موجود رہے مگر عملاً دکھائی نہ دے اور کچھ لوگ دونوں ملکوں میں ہر قسم کی آسانیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں جیسے آج کل یورپی یونین کے ملکوں میں رائج ہے اور یہ سب لوگ اس خطے کے جغرافیے کو آسان بنا دینا چاہتے ہیں۔
مجھے یہ سب کچھ ایک نا پختہ ذہن کے نوجوان کی ان باتوں سے یاد آیا ہے، وہ کہہ رہا ہے کہ اگر پاکستان کے حالات یہی رہے تو پہلے ایک بنگلہ دیش بنا تھا مگر اب نہ جانے کتنے بنگلہ دیش بنیں گے۔ یہ وہ نوجوان ہے جس کو موروثی طور پر ایک ایسی پارٹی ورثے میں ملی ہے جس پر ملک توڑنے کا الزام ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ اگر عام انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو عددی برتری کے باعث مشرقی پاکستان کے لیڈروں کو حکومت بنانے دیتے اور اِدھر ہم اُدھر تم کا ملک توڑنے کا نعرہ نہ لگاتے تو مشرقی پاکستان آج بھی پاکستان ہی کہلاتا اور ہم چٹاگانگ کے سر سبز پہاڑوں اور سندر بن کے جنگلوں میں شکار کھیل رہے ہوتے۔ لیکن ہماری بدبختی کہ اس وقت مغربی پاکستان میں ایک ایسا سیاسی لیڈر حکمران تھا جس کو صرف اپنے اقتدار کی فکر تھی ۔
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور اب تقریباً نصف صدی کے بعد بھٹو کے نواسے نے ملک کے سرحدی علاقوںمیں قومی اسمبلی کے منتخب شدہ شر پسند ممبران کے پاکستان مخالف پرا پیگنڈہ کے باعث بغیر سوچے سمجھے یہ کہہ دیا ہے کہ اگر ملک کے سرحدی علاقوں میں صورتحال ابتر رہی تو پاکستان کے مزید ٹکڑے ہو سکتے ہیں ۔ اس بے خبر نوجوان نے ملک کی سرحدوں کے محافظوں پر مبینہ طور پر بنگلہ دیش بنانے کا الزام بھی لگا دیا ہے ۔ اس نوجوان کو کیا معلوم کہ یہ ملک کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ کتنی مائوں ، بہنوں ، بہوئوں ، بیٹیوں نے اپنی عصمتوں کی قربانیاں دیں تھیں ۔
یہ ملک اللہ اور رسول کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، اس ملک کے بارے میں جس کے منہ جو آتا ہے وہ کہہ دیتا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ آج کے نوجوان لیڈروں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ پاکستان کے بارے میں کوئی غلط بات کریں، ان کو وراثتی سیاست مل گئی ہے لیکن ان کو شائد یہ معلوم نہیں کہ ان کی سیاسی وراثت کوئی شاندار ماضی نہیں رکھتی ہے ۔ اس وقت ملک کی صورتحال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں چند شر پسند اور غدار وطن لوگوں نے اعلانیہ طور پر ملک کے خلاف سازش شروع کر دی اور اپنے معدودے چند ساتھیوں اور معصوم عوام کو ورغلا کر فوج کی چوکی پر حملہ بھی کر دیا اور اس کے ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ فوج قبائلی علاقوں سے چلی جائے ورنہ حالات بہت خراب ہو جائیں گے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو یکایک پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر آئے ہیں ان میں ایک کا نام علی وزیر اور دوسرے کا نام محسن داوڑ ہے اور وہ فاٹا سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ وہ پشتون تحفظ تحریک کے صف اول کے رہنما ہیں۔ انھوں نے کھلم کھلا پاکستان اور اس کے حفاظتی اداروں کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا اور اس پر عمل بھی شروع کر دیا۔ ان کا مطالبہ وزیر ستان کے علاقے سے فوج کا انخلا ہے ۔ یعنی ہماری فوج جس نے اپنے کئی ساتھیوں کی قربانیاں دے کر قبائلی علاقوں کو شر پسند عناصر سے پاک کیا تھا، وہ ان چند لوگوں کے مطالبے پر قبائلی علاقے کو خالی کر کے چلی جائے تا کہ وہاں پر شر پسند دوبارہ سے اپنے قدم جما سکیں اور پاکستان کے اندر سیکیورٹی کی صورتحال کو خراب کیا جا سکے۔
آخری اطلاعات کے مطابق یہ لوگ ملک کی حفاظتی ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں اور دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان کی یہ بد قسمتی رہی کہ یہاں پر وقتاً فوقتاً ایسے شر پسند عناصر سر اٹھاتے رہے جو ملک سلامتی کے خلاف تھے اور انھوں نے پاکستان میں شورش برپا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ ان لوگوں کی سر پرستی کون کرتا ہے اس کے بارے میں بڑے وثوق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے دشمن ملک بھارت اور عالمی طاقتیں جو اس خطے میں امن کو برداشت نہیں کر سکتیں، وہ ان عناصر کی پشت پناہی کرتی ہیں اور ہمارے مقامی سیاستدان اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر ان کے ساتھ مل کر ملک کو نقصان پہچانے کی کوشش میں اپنا کردار نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ وہی سیاسی قیادت ہے جس کا اس ملک کے بغیر گزارا ممکن نہیں اور خدانخواستہ اگر یہ ملک نہ رہا تو وہ حکمرانی کس پر کریں گے ۔ یہ سیاسی قیادت جب حکمرانی سے دور ہوتی ہے تو یہ ملک کے خلاف سازشیں شروع کر دیتی ہے اور حکمرانی کے دور میں ان سے بڑا محب وطن کوئی اور نہیں ہوتا۔ پاکستانی اپنی صفوں میں موجود ان کالی بھیڑوں کو پہچان گئے ہیں۔ یہ لوگ ہماری ملک کی سلامتی کے درپے ہیں اور اپنے ان اداروں کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہر حال میں اس ملک کے دفاع کی ضامن ہیں اور جن کے ہاں خود احتسابی کا ایک مضبوط عمل موجود ہے جس کی ایک جھلک ہم نے دیکھ بھی لی ہے۔ شروعات ہو چکی ہے انجام کیا ہو تا ہے ، اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔
پاکستان کی یہ تاریخ مشکل چلی آ رہی تھی، ملک سے محبت کرنیوالے اور اس کی سرحدوں کی حفاظت پر جانیں نثار کرنیوالے برسوں سے سخت مشکل میں تھے، انھیں قائد اعظم کا پاکستان یاد آتا تھا۔ اقبال کے خواب اور کلام یاد آتا تھا گو کہ ایک زمانہ گزر گیا مگر اب بھی جب چٹا گانگ کے سبز پوش پہاڑ ی سلسلے اور سند ربن کے جنگلی درخت یاد آتے ہیں تو آنکھ بھر آتی ہے ،کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ دکھ کیسے دور ہو گا۔ ہماری کتنی نسلیں سوگ مناتی رہیں گی اور پاکستان کی تاریخ کی الجھن میں مبتلا رہیں گی۔
ہمارے ہاں کچھ لوگ تو بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحد کی لکیر کو اپنے بڑوں کی ایک حماقت سمجھتے ہیں اور اسے ختم کرنے میں کوشاں رہتے ہیں ۔کچھ لوگ اس لکیر کو رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے مگر اسے ایک ایسی لکیر بنا دینا چاہتے ہیں جو کاغذوں پر تو موجود رہے مگر عملاً دکھائی نہ دے اور کچھ لوگ دونوں ملکوں میں ہر قسم کی آسانیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں جیسے آج کل یورپی یونین کے ملکوں میں رائج ہے اور یہ سب لوگ اس خطے کے جغرافیے کو آسان بنا دینا چاہتے ہیں۔
مجھے یہ سب کچھ ایک نا پختہ ذہن کے نوجوان کی ان باتوں سے یاد آیا ہے، وہ کہہ رہا ہے کہ اگر پاکستان کے حالات یہی رہے تو پہلے ایک بنگلہ دیش بنا تھا مگر اب نہ جانے کتنے بنگلہ دیش بنیں گے۔ یہ وہ نوجوان ہے جس کو موروثی طور پر ایک ایسی پارٹی ورثے میں ملی ہے جس پر ملک توڑنے کا الزام ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ اگر عام انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو عددی برتری کے باعث مشرقی پاکستان کے لیڈروں کو حکومت بنانے دیتے اور اِدھر ہم اُدھر تم کا ملک توڑنے کا نعرہ نہ لگاتے تو مشرقی پاکستان آج بھی پاکستان ہی کہلاتا اور ہم چٹاگانگ کے سر سبز پہاڑوں اور سندر بن کے جنگلوں میں شکار کھیل رہے ہوتے۔ لیکن ہماری بدبختی کہ اس وقت مغربی پاکستان میں ایک ایسا سیاسی لیڈر حکمران تھا جس کو صرف اپنے اقتدار کی فکر تھی ۔
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور اب تقریباً نصف صدی کے بعد بھٹو کے نواسے نے ملک کے سرحدی علاقوںمیں قومی اسمبلی کے منتخب شدہ شر پسند ممبران کے پاکستان مخالف پرا پیگنڈہ کے باعث بغیر سوچے سمجھے یہ کہہ دیا ہے کہ اگر ملک کے سرحدی علاقوں میں صورتحال ابتر رہی تو پاکستان کے مزید ٹکڑے ہو سکتے ہیں ۔ اس بے خبر نوجوان نے ملک کی سرحدوں کے محافظوں پر مبینہ طور پر بنگلہ دیش بنانے کا الزام بھی لگا دیا ہے ۔ اس نوجوان کو کیا معلوم کہ یہ ملک کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ کتنی مائوں ، بہنوں ، بہوئوں ، بیٹیوں نے اپنی عصمتوں کی قربانیاں دیں تھیں ۔
یہ ملک اللہ اور رسول کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، اس ملک کے بارے میں جس کے منہ جو آتا ہے وہ کہہ دیتا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ آج کے نوجوان لیڈروں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ پاکستان کے بارے میں کوئی غلط بات کریں، ان کو وراثتی سیاست مل گئی ہے لیکن ان کو شائد یہ معلوم نہیں کہ ان کی سیاسی وراثت کوئی شاندار ماضی نہیں رکھتی ہے ۔ اس وقت ملک کی صورتحال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں چند شر پسند اور غدار وطن لوگوں نے اعلانیہ طور پر ملک کے خلاف سازش شروع کر دی اور اپنے معدودے چند ساتھیوں اور معصوم عوام کو ورغلا کر فوج کی چوکی پر حملہ بھی کر دیا اور اس کے ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ فوج قبائلی علاقوں سے چلی جائے ورنہ حالات بہت خراب ہو جائیں گے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو یکایک پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر آئے ہیں ان میں ایک کا نام علی وزیر اور دوسرے کا نام محسن داوڑ ہے اور وہ فاٹا سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ وہ پشتون تحفظ تحریک کے صف اول کے رہنما ہیں۔ انھوں نے کھلم کھلا پاکستان اور اس کے حفاظتی اداروں کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا اور اس پر عمل بھی شروع کر دیا۔ ان کا مطالبہ وزیر ستان کے علاقے سے فوج کا انخلا ہے ۔ یعنی ہماری فوج جس نے اپنے کئی ساتھیوں کی قربانیاں دے کر قبائلی علاقوں کو شر پسند عناصر سے پاک کیا تھا، وہ ان چند لوگوں کے مطالبے پر قبائلی علاقے کو خالی کر کے چلی جائے تا کہ وہاں پر شر پسند دوبارہ سے اپنے قدم جما سکیں اور پاکستان کے اندر سیکیورٹی کی صورتحال کو خراب کیا جا سکے۔
آخری اطلاعات کے مطابق یہ لوگ ملک کی حفاظتی ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں اور دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان کی یہ بد قسمتی رہی کہ یہاں پر وقتاً فوقتاً ایسے شر پسند عناصر سر اٹھاتے رہے جو ملک سلامتی کے خلاف تھے اور انھوں نے پاکستان میں شورش برپا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ ان لوگوں کی سر پرستی کون کرتا ہے اس کے بارے میں بڑے وثوق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے دشمن ملک بھارت اور عالمی طاقتیں جو اس خطے میں امن کو برداشت نہیں کر سکتیں، وہ ان عناصر کی پشت پناہی کرتی ہیں اور ہمارے مقامی سیاستدان اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر ان کے ساتھ مل کر ملک کو نقصان پہچانے کی کوشش میں اپنا کردار نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ وہی سیاسی قیادت ہے جس کا اس ملک کے بغیر گزارا ممکن نہیں اور خدانخواستہ اگر یہ ملک نہ رہا تو وہ حکمرانی کس پر کریں گے ۔ یہ سیاسی قیادت جب حکمرانی سے دور ہوتی ہے تو یہ ملک کے خلاف سازشیں شروع کر دیتی ہے اور حکمرانی کے دور میں ان سے بڑا محب وطن کوئی اور نہیں ہوتا۔ پاکستانی اپنی صفوں میں موجود ان کالی بھیڑوں کو پہچان گئے ہیں۔ یہ لوگ ہماری ملک کی سلامتی کے درپے ہیں اور اپنے ان اداروں کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہر حال میں اس ملک کے دفاع کی ضامن ہیں اور جن کے ہاں خود احتسابی کا ایک مضبوط عمل موجود ہے جس کی ایک جھلک ہم نے دیکھ بھی لی ہے۔ شروعات ہو چکی ہے انجام کیا ہو تا ہے ، اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔