ڈیجیٹل پرنٹنگ اور ایمبرائڈری نے ہاتھ سے کپڑوں کی چھپائی کا فن نگل لیا
ہاتھ سے لکڑی کے ٹکڑوں پر بیل بوٹے اور نقش و نگار تراشے جاتے ہیں جنھیں کپڑوں پر چھپائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈیجیٹل پرنٹنگ اور ایمبرائڈری کی ٹیکنالوجی نے ہاتھ سے کپڑوں کی چھپائی (بلاک پرنٹنگ) کا فن نگل لیا ہے جب کہ ماہر کاریگر روزگار کے لیے متبادل ذرائع اختیار کررہے ہیں۔
لکڑی کے چھاپوں سے کپڑوں پر کی جانے والی کڑھائی اب صرف طبقہ اشرافیہ تک محدود ہوچکی ہے تاہم پوش علاقوں کے بوتیک اپنے گاہکوں سے تو منہ مانگی اجرت وصول کررہے ہیں لیکن بلاک پرنٹنگ کرنے والے کاریگروں کو مناسب معاوضہ نہیں مل رہا، بلاک پرنٹنگ ہزاروں سال پرانا فن ہے جس کی ابتدا چین سے ہوئی برصغیر میںہاتھ سے کپڑوں کی چھپائی کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے سندھ کی اجرک اس فن کی بہترین مثال ہے۔
شیشم کی لکڑی پر ہاتھ سے کندہ کاری کرکے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے بلاک بنائے جاتے ہیں ان بلاکس کو ٹھپے بھی کہا جاتا ہے، ہاتھ سے لکڑی کے ٹکڑوں پر بیل بوٹے اور نقش و نگار تراشے جاتے ہیں جنھیں کپڑوں پر چھپائی کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ فن کپڑے پر چھپائی کی بنیادی تکنیک ہے لکڑی کے چھاپوں سے پہلے ڈیزائن کی آؤٹ لائن چھاپی جاتی ہے جس کے بعد دوسرے مرحلے میں رنگوں کی بھرائی کرنے کے لیے فلنگ بلاکس استعمال کیے جاتے ہیں، ہاتھ سے چھپے ہوئے ملبوسات کی تیاری کا کام بڑھ گیا ہے، کارخانوں کے علاوہ بوتیک مالکان نے اپنی ورکشاپ بھی قائم کرلی ہیں متعدد بوتیک آرڈر پر چھپائی کرواتے ہیں۔
ہاتھ سے چھاپے گئے ڈیزائن میں انفرادیت ہوتی ہے ہر ڈیزائن منفرد ہوسکتا ہے اسی لیے امیرطبقہ میں ہاتھ سے چھاپے گئے ملبوسات پسند کیے جاتے ہیں، معروف ڈریس ڈیزائنر بھی اپنے ڈیزائن کردہ ملبوسات کو منفرد بنانے کے لیے بلاک پرنٹنگ کا سہارا لیتے ہیں اور ہر گاہک کے لیے مخصوص ڈیزائن تیار کرواتے ہیں جوکسی دوسرے گاہک کو نہیں دیا جاتا جتنا اور ملبوسات کی قیمت بھی ڈیزائن کی انفرادیت کے لحاظ سے وصول کی جاتی ہے۔
بلاک 500 سے25 ہزار روپے تک کا بنتا ہے،کاریگر
بلاک پرنٹنگ کے لیے لکڑی کے بلاک بنانے والے نارتھ کراچی کے کاریگر امجد احمد کا کہنا ہے کہ انھیں یہ فن ورثہ میں ملا اس سے قبل ان کے والد اور دادا بلاک تراشنے کا کا م کرکے روزگار کماتے رہے، امجد کے مطابق لکڑی کے بلاک (چھاپے) کئی دنوں کی سخت محنت سے تیار کیے جاتے ہیں ایک اوسط سائز کے بلاک کی تیاری میں چار سے پانچ روز لگتے ہیں اور اس کی آؤٹ لائن کے ساتھ ایک سے زائد رنگوں کی فلنگ کے بلاک بنانے میں مزید وقت لگتا ہے، بلاک(چھاپے) کی تیاری کا انحصار ڈیزائن کی باریکی پر ہوتا ہے، بلاک 500 سے25 ہزار رتپے تک کا بنتا ہے۔
امجد احمد کا شمار کراچی کے چند کاریگروں میں ہوتا ہے جو بلاک پرنٹنگ کے لیے چھاپے بناتے ہیں، امجد کا کہنا ہے کہ کاریگروں کو مناسب اجرت نہ ملنے کی وجہ سے بلاک بنانے کا فن معدوم ہوتا جارہا ہے۔عوامی سطح پر بلاک پرنٹنگ کا رجحان مقبول نہیں ہے تاہم اشرافیہ کی سطح پر اس فن کو پسند کیا جاتا ہے تاہم اس کا فائدہ کاریگروں کو نہیں ملتا بڑے بوتیک آرڈر پر بلاک اور پرنٹنگ بنواتے ہیں لیکن بلاک بنانے والوں یا ہاتھ سے پرنٹنگ کرنے والوں کو ان کی محنت کا جائزہ معاوضہ نہیں ملتا۔
امجد کے مطابق بلاک کی تیاری کے لیے شیشم کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے، لکڑی کے تنے کاٹ کر دھوپ میں سکھائے جاتے ہیںتاکہ ان کی نمی ختم کرکے انہیں مضبوط بنایا جاسکے، وقت کے ساتھ شیشم کی لکڑی کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جس سے لکڑی کے بلاکس کی لاگت بھی بڑھ گئی ہے، ایک دہائی قبل جو تنا 20سے 25ہزار روپے میں مل جاتا تھا اب ایک لاکھ سے سوا لاکھ روپے تک فروخت ہورہا ہے۔
امجد کا کہنا ہے کہ انہوں نے 18سال قبل بلاک بنانے کے ساتھ ہاتھ سے چھپائی کا بھی کام شروع کیا لیکن حالات روز بہ روز خراب ہورہے ہیں،اس کام کو جاری رکھنا دشوار تر ہوتا جارہا ہے انھوں نے کہا کہ اس فن کی پذیرائی نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے یہ فن اپنے بچوں کو منتقل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے اس فن کی نسل در نسل منتقلی کا سلسلہ بھی رک جائے گا۔
آرٹ کے طلباہاتھ سے چھپائی کے کام میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں
آرٹ کے طلباہاتھ سے چھپائی کے کام میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، نئی نسل اس فن کی ترویج میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن عوامی سطح پر کڑھائی اور ڈیجیٹل پرنٹنگ والے ملبوسات کی مقبولیت کی وجہ سے ہاتھ سے چھپائی والے کپڑوں کی فروخت کا رجحان کم ہورہا ہے۔
آرٹ انسٹی ٹیوٹ کے طلبا اپنے پراجیکٹ یا تھیسس کے طور پر ہاتھ سے چھپائی کی تکنیک پر مشتمل فن پارے بناتے ہیں جو ان کے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انسٹی ٹیوٹ کے اسٹور میں پڑے رہ جاتے ہیں، انٹرنیٹ عام ہونے کی وجہ سے گھروں پر ہاتھ سے چھپائی کرنے والی بہت سی خواتین گھر بیٹھے روزگار کمار ہیں ہیں لیکن ان کے خریداروں میںبھی امیر طبقہ سے تعلق رکھنے والے گاہک شامل ہیں۔
بلاک پرنٹنگ سے شیفون، سلک اور کاٹن کے کپڑوںپر چھپائی کی جاتی ہے، یاسر
بلاک پرنٹنگ کے ذریعے کپڑوں پر نقش و نگار بنانے والے کاریگر یاسر کاکہنا ہے کہ بلاک پرنٹنگ سے شیفون، سلک اور کاٹن کے کپڑوںپر چھپائی کی جاتی ہے جس سے سوٹ، ساڑھیاں اور کرتے بنائے جاتے ہیں۔ بڑے بوتیک آرڈر پر کارخانوں سے چھپائی کرواتے ہیں امیر طبقہ فن کی قدر کرتے ہوئے منہ مانگے داموں ہاتھ سے چھپائی والے کپڑے خریدتا ہے، ایک کرتے کی قیمت ڈھائی سے تین ہزار روپے ہوتی ہے تاہم اس کی چھپائی کی اجرت بمشکل تین سو روپے ملتی ہے۔بہت سے بوتیک سستے داموں ہاتھ سے پڑننگ والے کپڑے بیرون ملک بھی ایکسپورٹ کرتے ہیں۔
کاریگروں کے مطابق عید کے لیے چھپائی کے آرڈر آنے سے کام چل پڑا ہے لیکن عام دنوں میں گزربسر مشکل ہے۔ گزشتہ چار پانچ سال کے دوران کاروباری حالات مزید خراب ہوئے ہیں جس سے بہترین کاریگروںنے یہ پیشہ ترک کردیا ہے چھپائی کا کام کرنے والے کاریگر روزگار کے متبادل ذرائع اختیار کررہے ہیں کوئی رکشہ چلا رہا ہے تو کوئی ٹھیلہ لگارہا ہے یا پھر دکانوں پر سیلز مین کا کام کررہے ہیں اگر کام ملتا رہے تو کاریگروں کے لیے یومیہ چھ سات سو روپے کمانا مشکل نہیں ہے۔
لکڑی کے چھاپوں سے کپڑوں پر کی جانے والی کڑھائی اب صرف طبقہ اشرافیہ تک محدود ہوچکی ہے تاہم پوش علاقوں کے بوتیک اپنے گاہکوں سے تو منہ مانگی اجرت وصول کررہے ہیں لیکن بلاک پرنٹنگ کرنے والے کاریگروں کو مناسب معاوضہ نہیں مل رہا، بلاک پرنٹنگ ہزاروں سال پرانا فن ہے جس کی ابتدا چین سے ہوئی برصغیر میںہاتھ سے کپڑوں کی چھپائی کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے سندھ کی اجرک اس فن کی بہترین مثال ہے۔
شیشم کی لکڑی پر ہاتھ سے کندہ کاری کرکے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے بلاک بنائے جاتے ہیں ان بلاکس کو ٹھپے بھی کہا جاتا ہے، ہاتھ سے لکڑی کے ٹکڑوں پر بیل بوٹے اور نقش و نگار تراشے جاتے ہیں جنھیں کپڑوں پر چھپائی کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ فن کپڑے پر چھپائی کی بنیادی تکنیک ہے لکڑی کے چھاپوں سے پہلے ڈیزائن کی آؤٹ لائن چھاپی جاتی ہے جس کے بعد دوسرے مرحلے میں رنگوں کی بھرائی کرنے کے لیے فلنگ بلاکس استعمال کیے جاتے ہیں، ہاتھ سے چھپے ہوئے ملبوسات کی تیاری کا کام بڑھ گیا ہے، کارخانوں کے علاوہ بوتیک مالکان نے اپنی ورکشاپ بھی قائم کرلی ہیں متعدد بوتیک آرڈر پر چھپائی کرواتے ہیں۔
ہاتھ سے چھاپے گئے ڈیزائن میں انفرادیت ہوتی ہے ہر ڈیزائن منفرد ہوسکتا ہے اسی لیے امیرطبقہ میں ہاتھ سے چھاپے گئے ملبوسات پسند کیے جاتے ہیں، معروف ڈریس ڈیزائنر بھی اپنے ڈیزائن کردہ ملبوسات کو منفرد بنانے کے لیے بلاک پرنٹنگ کا سہارا لیتے ہیں اور ہر گاہک کے لیے مخصوص ڈیزائن تیار کرواتے ہیں جوکسی دوسرے گاہک کو نہیں دیا جاتا جتنا اور ملبوسات کی قیمت بھی ڈیزائن کی انفرادیت کے لحاظ سے وصول کی جاتی ہے۔
بلاک 500 سے25 ہزار روپے تک کا بنتا ہے،کاریگر
بلاک پرنٹنگ کے لیے لکڑی کے بلاک بنانے والے نارتھ کراچی کے کاریگر امجد احمد کا کہنا ہے کہ انھیں یہ فن ورثہ میں ملا اس سے قبل ان کے والد اور دادا بلاک تراشنے کا کا م کرکے روزگار کماتے رہے، امجد کے مطابق لکڑی کے بلاک (چھاپے) کئی دنوں کی سخت محنت سے تیار کیے جاتے ہیں ایک اوسط سائز کے بلاک کی تیاری میں چار سے پانچ روز لگتے ہیں اور اس کی آؤٹ لائن کے ساتھ ایک سے زائد رنگوں کی فلنگ کے بلاک بنانے میں مزید وقت لگتا ہے، بلاک(چھاپے) کی تیاری کا انحصار ڈیزائن کی باریکی پر ہوتا ہے، بلاک 500 سے25 ہزار رتپے تک کا بنتا ہے۔
امجد احمد کا شمار کراچی کے چند کاریگروں میں ہوتا ہے جو بلاک پرنٹنگ کے لیے چھاپے بناتے ہیں، امجد کا کہنا ہے کہ کاریگروں کو مناسب اجرت نہ ملنے کی وجہ سے بلاک بنانے کا فن معدوم ہوتا جارہا ہے۔عوامی سطح پر بلاک پرنٹنگ کا رجحان مقبول نہیں ہے تاہم اشرافیہ کی سطح پر اس فن کو پسند کیا جاتا ہے تاہم اس کا فائدہ کاریگروں کو نہیں ملتا بڑے بوتیک آرڈر پر بلاک اور پرنٹنگ بنواتے ہیں لیکن بلاک بنانے والوں یا ہاتھ سے پرنٹنگ کرنے والوں کو ان کی محنت کا جائزہ معاوضہ نہیں ملتا۔
امجد کے مطابق بلاک کی تیاری کے لیے شیشم کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے، لکڑی کے تنے کاٹ کر دھوپ میں سکھائے جاتے ہیںتاکہ ان کی نمی ختم کرکے انہیں مضبوط بنایا جاسکے، وقت کے ساتھ شیشم کی لکڑی کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جس سے لکڑی کے بلاکس کی لاگت بھی بڑھ گئی ہے، ایک دہائی قبل جو تنا 20سے 25ہزار روپے میں مل جاتا تھا اب ایک لاکھ سے سوا لاکھ روپے تک فروخت ہورہا ہے۔
امجد کا کہنا ہے کہ انہوں نے 18سال قبل بلاک بنانے کے ساتھ ہاتھ سے چھپائی کا بھی کام شروع کیا لیکن حالات روز بہ روز خراب ہورہے ہیں،اس کام کو جاری رکھنا دشوار تر ہوتا جارہا ہے انھوں نے کہا کہ اس فن کی پذیرائی نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے یہ فن اپنے بچوں کو منتقل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے اس فن کی نسل در نسل منتقلی کا سلسلہ بھی رک جائے گا۔
آرٹ کے طلباہاتھ سے چھپائی کے کام میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں
آرٹ کے طلباہاتھ سے چھپائی کے کام میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، نئی نسل اس فن کی ترویج میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن عوامی سطح پر کڑھائی اور ڈیجیٹل پرنٹنگ والے ملبوسات کی مقبولیت کی وجہ سے ہاتھ سے چھپائی والے کپڑوں کی فروخت کا رجحان کم ہورہا ہے۔
آرٹ انسٹی ٹیوٹ کے طلبا اپنے پراجیکٹ یا تھیسس کے طور پر ہاتھ سے چھپائی کی تکنیک پر مشتمل فن پارے بناتے ہیں جو ان کے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انسٹی ٹیوٹ کے اسٹور میں پڑے رہ جاتے ہیں، انٹرنیٹ عام ہونے کی وجہ سے گھروں پر ہاتھ سے چھپائی کرنے والی بہت سی خواتین گھر بیٹھے روزگار کمار ہیں ہیں لیکن ان کے خریداروں میںبھی امیر طبقہ سے تعلق رکھنے والے گاہک شامل ہیں۔
بلاک پرنٹنگ سے شیفون، سلک اور کاٹن کے کپڑوںپر چھپائی کی جاتی ہے، یاسر
بلاک پرنٹنگ کے ذریعے کپڑوں پر نقش و نگار بنانے والے کاریگر یاسر کاکہنا ہے کہ بلاک پرنٹنگ سے شیفون، سلک اور کاٹن کے کپڑوںپر چھپائی کی جاتی ہے جس سے سوٹ، ساڑھیاں اور کرتے بنائے جاتے ہیں۔ بڑے بوتیک آرڈر پر کارخانوں سے چھپائی کرواتے ہیں امیر طبقہ فن کی قدر کرتے ہوئے منہ مانگے داموں ہاتھ سے چھپائی والے کپڑے خریدتا ہے، ایک کرتے کی قیمت ڈھائی سے تین ہزار روپے ہوتی ہے تاہم اس کی چھپائی کی اجرت بمشکل تین سو روپے ملتی ہے۔بہت سے بوتیک سستے داموں ہاتھ سے پڑننگ والے کپڑے بیرون ملک بھی ایکسپورٹ کرتے ہیں۔
کاریگروں کے مطابق عید کے لیے چھپائی کے آرڈر آنے سے کام چل پڑا ہے لیکن عام دنوں میں گزربسر مشکل ہے۔ گزشتہ چار پانچ سال کے دوران کاروباری حالات مزید خراب ہوئے ہیں جس سے بہترین کاریگروںنے یہ پیشہ ترک کردیا ہے چھپائی کا کام کرنے والے کاریگر روزگار کے متبادل ذرائع اختیار کررہے ہیں کوئی رکشہ چلا رہا ہے تو کوئی ٹھیلہ لگارہا ہے یا پھر دکانوں پر سیلز مین کا کام کررہے ہیں اگر کام ملتا رہے تو کاریگروں کے لیے یومیہ چھ سات سو روپے کمانا مشکل نہیں ہے۔