پاکستانی معیشت اور خطرات

امریکا اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر ایران پر ہر صورت جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے

www.facebook.com/shah Naqvi

PESHAWAR:
ڈالرکی بلند شرح نے پاکستانی معیشت کو افراتفری کا شکار کر دیا ہے۔ اس حوالے سے ایک رپورٹ میں تفصیل شائع کی گئی ہے کہ کس طرح تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود ڈالر کی شرح مبادلہ کنٹرول سے باہر ہوئی جس کے نتیجے میں معیشت کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ ایک مافیا ہے جس میں بڑے منی چینجر، کاروباری شخصیات اور سابقہ اور حاضر سروس بینکرز ،حکومت کے اندر کے لوگ بھی شامل ہیں جو ڈالر کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے والی میٹنگوں میں شامل ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق کچھ حاضر سروس بینکر بھی اس بہتی گنگا میں اپنا ہاتھ دھو رہے ہیں، سب سے پہلے وہ مختلف مافیا کے افراد کو اطلاع دیتے ہیں اس کے بعد ڈالر تیزی سے غائب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق کئی بڑے بک میکرز جن کے بھارتی بک میکر ز سے رابطے ہیں وہ بھی اس ذخیرہ اندوزی میں شامل ہیں ۔

ڈالر کے حوالے سے کس طرح سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی اور کس طرح یہ تاثر دیا گیا کہ ڈالر200 روپے تک چلا جائے گا ۔ یہ بھی کہا گیا کہ جس مافیا نے یہ مصنوعی بحران پیدا کیا ہے ان کے سابق اورموجودہ حکمرانوں سے تعلقات ہیں ۔ اس صورت حال میں عوام کو حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے ڈالر کی اندھا دھند خریداری سے گریز کرنا چاہے ۔ اس آزمائش کے وقت میں ملکی مفادات کوسامنے رکھنا اشد ضروری ہے ۔ جتنا زیادہ پاکستانی قوم اور اُس کے خوشحال طبقے ڈالر خریدیں گے اتنا ہی پاکستانی روپیہ کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائے گا۔روپیہ کمزور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کمزور ہوگا ۔ ہماری درآمدات مہنگی تر ہوتی چلی جائیں گی نتیجے میں ملک کا دفاع کمزور ہوتا چلا جائے گا۔ اس وقت ہمارا روپیہ نیپال کی کرنسی سے بھی کمزور ہے۔ افغانی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں وہاں کھڑی ہے جہاں ہم آج سے دس سال پہلے تھے۔

ہماری ڈالر سے محبت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ خورو نوش سمیت عوام کے استعمال میں آنے والی ہر شے عوام کی پہنچ سے باہر ہوجا ئے گی ۔ مہنگائی غربت بیروزگاری کاسیلاب ملک میں انارکی پیدا کرتے ہوئے ہم سب کو بہا لے جائے گا ۔ ملکی زر مبادلہ بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم درآمدی اشیائے صرف نہ خریدیں ، لگثرری اشیاء خرید نے پر ملکی بقا کے لیے اپنے اوپر پابندی لگا لیں تاکہ ملکی معیشت ڈوبنے سے بچ جائے جس کو ڈوبونے کی سازش میں ملکی و غیر ملکی قوتیں پوری طاقت سے سرگرم ہیں۔

اس حوالے سے ترکی کی مثال بھی دی جارہی ہے کہ جب وہاں معاشی بحران کی وجہ سے ڈالر اوپر گیا تو ترک عوام نے حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے پاس رکھے ہوئے ڈالر ملکی کرنسی میں تبدیل کرنا شروع کردیے۔اس وقت ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہے کہ ہماری درآمد ی اشیاء کا بل کم از کم ہو کیونکہ ہماری برآمدات پہلے سے بھی کم ہوچکی ہیں ۔اب صورت حال یہ ہے کہ ہمارے پاس انتہائی ضروری درآمدی اشیاء خریدنے کے لیے زر مبادلہ کے ذخائر انتہائی کم رہ گئے ہیں ۔ ایک اور مثال روس کی ہے جب کچھ عرصہ پہلے اس نے کریمیا کو اپنے ملک کا حصہ بنایا تو امریکا سمیت پورے یورپ نے اُس کا بدترین اقتصادی بائیکاٹ کردیا لیکن روسی عوام نے ہر معاشی سختی برداشت کرلی لیکن ملکی مفادات کا تحفظ کرنے میں اپنی حکومت کا پورا ساتھ دیا۔

پاکستان کی معاشی بدحالی اور ہمارے خطے کے حالات میں گہرا تعلق ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، اس کے بغیر ہم موجودہ معاشی بحران کی تہہ میں نہیں جا سکتے ۔ ہم سب کو پتہ ہے کہ امریکا پچھلے18 سال سے افغانستان میں پھنسا ہوا ہے اور ہماری مدد کے بغیر وہ باعزت طریقے سے افغانستان سے نہیں نکل سکتا۔ اگر ہم مدد نہ کریں تو امریکا کو بہت بڑی تباہی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ پاکستان پر افغانستان کے حوالے سے امریکا کا آج بھی شدید دباؤ ہے۔ نہ صرف ظاہراً بلکہ اندرون خانہ امریکی دباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ پاکستان کو اپنی مرضی کے راستے پر چلانے کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی تلوار پہلے ہی لٹک رہی ہے کہ پاکستان کو کسی بھی وقت گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں ڈالا جاسکتا ہے۔اوپر سے مزید سونے پر سہاگہ آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک اور دوسرے مالیاتی اداروں کی شرائط ہمارے دونوں ہاتھ ہی نہیں پیر بھی باندھ کر رکھ دیں گی۔


شدت پسند وں کے خلاف اقدامات کے باوجود امریکا کسی صورت مطمئن نہیں۔ شدت پسندوں کا معاملہ نہ صرف امریکا کی ترجیح ہے بلکہ یہ تو بھارت کے عین مفاد میںہے۔ اُس کا توالزام ہی یہی ہے کہ پاکستان مدت سے شدت پسندوں کی سرپرستی کررہا ہے۔جب تک پاکستان اس معاملے میں پیچھے نہیں ہٹتا ہم پاکستان سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ اس چیز کو بنیاد بنا کر بھارت نے ایک عرصے سے مذاکرات میں تعطل ڈالا ہوا ہے۔ہم بار بار بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کررہے ہیں یہاں تک کہ التجا پر آگئے ہیں لیکن بھارت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟جواب یہ ہے کہ بھارت سمجھتا ہے کہ اس وقت مذاکرات پاکستان کی ضرورت ہے بھارت کی نہیں۔اگر بھارت مذاکرات کی ٹیبل پر آگیا تو پاکستان کو بہت فائدہ ہوجائے گا ۔ اس وقت ضرورت ہے کہ پاکستان خطے اور معاشی معاملات کے حوالے سے جس دلدل میں دھنسا ہوا ہے اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا جائے، پاکستان کو وہ شرائط ماننے پر مجبور کیا جائے جو بھارت اور امریکا کے مفاد میں ہوں۔ہمسایہ ممالک افغانستان سے ہمارے تعلقات دشمنی پر مبنی ہیں، ایران سے تعلقات بھی اطمینان بخش نہیں ،رہ گیا بھارت تو شاید ہی کسی اورملک کو اپنے ہمسایہ ممالک سے خارجی معاملات پر ایسے مسائل کا سامنا ہو۔

امریکا اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر ایران پر ہر صورت جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے ۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے جو بظاہر ممکن نظر آرہا ہے تو پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا؟ امریکی دباؤ میں آ کر ترکی اور بھارت دونوں نے ایران سے تیل خرید کے معاہدے منسوخ کردیے ہیں۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے اعتراف کیا ہے کہ امریکا کی حالیہ اقتصادی پابندیاں 1980 کی دہائی کے مقابلے میں بہت سخت ہیں۔ اُس وقت ایران کو صرف ہتھیاروں پر پابندی کا سامنا تھا اُ س وقت ہمیں بینکوں، تیل کی فروخت یا درآمدات یا برآمدات مسائل کا سامنا نہیں تھا ۔امریکی سوچ یہ ہے کہ ان معاشی پابندیوں سختیوں سے تنگ آکر ایرانی عوام تہران حکومت کے خلاف بغاوت کردیںگے لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات سے روس ،چین اور اُس کے اتحادی بھی سخت پریشان ہیں لیکن امریکی صدر اگلے الیکشن میں اپنی کامیابی یقینی بنانے کے لیے ایران کو ہرصورت زیر کرنا چاہتے ہیں۔

۔۔۔جون جولائی سے شروع ہونے والا وقت بتائے گا کہ امریکا ایران نیا معاہدہ ہوتا ہے یا جنگ۔۔
Load Next Story