پاکستانی کرنسی اور سونے کی قیمت… حل کیا ہے

سونے کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور اس کی افادیت کا جائزہ بھی انتہائی دلچسپ ہے

ISLAMABAD:
ملک کی معاشی صورتحال کی وجہ سے قومی کرنسی اور سونے کی بڑھتی ہوئی قیمت سے پاکستانی عوام کو ایک بار پھر ایسی مشکلات کا سامنا ہے کہ وہ نہ تو روزمرہ کی ضروریات اپنے وسائل سے پورا کر سکتے ہیں اور نہ ہی شادی بیاہ کے لیے باآسانی سونا خرید سکتے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں روزانہ تیس ہزار تولے سونے کی کھپت ہے جب کہ عالمی منڈی میں سونے کی تجارت کا تخمینہ ساڑھے پانچ ٹن روزانہ ہے۔سن 2012-13میں فی تولہ سونے کی اوسط قیمت چالیس ہزار روپے تھی جب کہ گزشتہ سال2018 میں فی تولہ سونا اوسطا 58ہزار روپے میں مل جاتا تھا جب کہ اس سال سونے کی فی تولہ قیمت 71 ہزار روپے تک چلی گئی۔

پاکستانی کرنسی کی بات کریں تو گزشتہ سال 2018 کے دوران ایک ڈالر کی قدر 137روپے تک تھی، جب کہ اس سال مئی کے مہینے کے دوران ایک ڈالر 154 روپے تک پہنچ گیا۔

قومی کرنسی کی اس بے قدری اور قیمتی ترین دھات سونے کی بڑھتی ھوئی قدر نے ملکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ معیشت کو سنبھالنے کے لیے ہمیں برادر ممالک سے قرضہ لینے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا پڑا۔

یہ تمام صورتحال حکومت وقت اور پاکستانی عوام کے لیے ایک کڑی آزمائش سے کم نہیں۔

سونے کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور اس کی افادیت کا جائزہ بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ چودہویں صدی کی پہلی دہائی میں جب ہندوستان پر علاؤ دین خلجی کی حکومت تھی تو اس وقت سونے کا بھا دس روپے فی تولہ تھا۔ انیسویں صدی کے وسط تک سونے کا بھا 60 روپے تولہ تک رہا۔ انیس سو ستر میں ایک سو پچیس روپے تولہ تھا۔ گزشتہ صدی کے آخری سالوں میں سونے کی قیمت ایک بار پھر گری لیکن موجودہ صدی کے آغاز ہی سے سونے کی قیمت میں بتدریج اضافہ ہونے لگا اور اب اس کا ریٹ تمام حدیں پھلانگ گیا ہے۔

سونے کی دریافت سے لے کر آج تک سونے کے متبادل کی تلاش کبھی بار آور ثابت نہیں ھوئی۔ سونے کے مقابلے میں کئی دھاتیں متعارف کرائی گئی لیکن سونے کی کشش اہمیت اور افادیت میں کمی نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ممالک افراط زر اور کرنسی کے اتار چڑھاؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے سونے کی خریداری کرتے ہیں۔

ایک تحقیق میں یہ بھی بتاتی ہے کہ امریکا عراق سے حاصل ہونے والے تیل کو ڈالر کی بجائے سونے کے عوض فروخت کر رہا ہے تا کہ دنیا کو یہ علم نہ ہو کہ امریکا عراق سے حاصل ہونے والے تیل کی فروخت سے اب تک کتنی رقم کما چکا ہے دوسری طرف امریکا سونے کے محفوظ ذخائر میں اضافہ کر رہا ہے یہ اضافہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر مستقبل میں ڈالر کی بجائے شرح تبادلہ سونا طے پائے تو امریکا کے پاس سونے کے وافر ذخائر موجود ہوں۔

مختلف ممالک نے سونے کے ذخائر کو محفوظ رکھنے کے لیے کئی طرح کے طریقے اپنائے ہیں امریکا کے وفاقی ریزرو بینک نے سونے کے ذخائر کو نیویارک کے جزیرے مین ہٹن ( Manhattan) میں زیرزمین سمندر کی پہاڑی تہوں میں 80 فٹ گہرائی میں محفوظ کیا ہے۔


اس پیلی دھات سونے(Gold) کی تاریخی حیثیت بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ سونا سب سے پہلے چالیس ہزار قبل مسیح اسپین کی پہاڑی غاروں کی کھدائی کے دوران دریافت ہوا۔ کئی ہزار سال قبل مسیح میسوپوٹیمیا Mesopotamia) ( جدید عراق اور ایران کے باشندے بھی سونے کے زیورات استعمال کرتے تھے مصر کے فرعون ( بادشاہوں)نے بھی زیبائش کے لیے سونے کو استعمال کیا۔

سونے کو کرنسی یا شرح تبادلہ کے لیے پہلی بار مغربی ترکی نے سات سو سال قبل مسیح استعمال کیا اس قدیم مملکت میں سکے بھی سونے سے بنائے جاتے تھے۔

سونے کے تجزیہ سے حیران کن خصوصیات سامنے آتی ہیں۔ اسے دنیا کی بھاری ترین دھات شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ایک اعلیٰ ترین موصل ہے جس سے برقی رو بڑی تیزی سے گزرتی ہے یہی وجہ ہے کہ سونے کو الیکٹرونک کے ساز و سامان کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کمپیوٹر، ٹیلی فون، سیلولر فون، کے آلات اور اور بجلی کے بلبوں میں بھی سونے کی باریک تاروں کا استعمال کیا جاتا ہے سونے کو خلائی جہازوں اور مصنوعی سیاروں کے بیرونی خول میں سورج کی تابکاری اثرات سے محفوظ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا۔

ایک تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ ایک اونس سونے کو پھیلا کر پچاس میل لمبی باریک تار بنائی جا سکتی ہے۔ سونے کی باریکی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سونے کے 100 باریک تاروں کو اگر اوپر تلے رکھا جائے تو اخبار کے ایک صفحے جتنی موٹائی بنے گی۔

طبی تحقیق کے مطابق سونا جوڑوں کے درد (Joints pain) اور دوسری لاعلاج بیماریوں کی دواؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سونے کو طب ہی نہیں بلکہ ایلوپیتھی اور آیورویدک کی ادویات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ سونا اعصابی بیماریوں کے علاج میں بھی معاون ہے۔ اگر سونے کی ایک ڈلی کو رات کے وقت پانی بھرے گلاس میں رکھیں اور صبح وہ پانی پیا جائے تو اس سے اعصابی تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ پانی انسانی چہرے کو خوبصورت اور پرکشش بھی بناتا ھے۔

سونے کے معیار کو ماپنے کے پیمانے کو کیرٹ کہا جاتا ہے۔ 24 کیرٹ کے سونے کو اصلی اور خالص تسلیم کیا جاتا ہے۔ 22کیرٹ سونے کو 91.67% فیصد اصلی اور 18 کیرٹ سونے کو 75 فیصد اصلی شمار کیا جاتا ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ ہم 22 کیرٹ کے بیش قیمت سونے کے زیورات آخر کیوں استعمال کرتے ہیں؟ ھم قیمتی سونے کو خریدنے پر کثیر سرمایہ صرف کرتے ھیں، اور چند دن کے استعمال کے بعد اسے محفوظ رکھنے کے لیے پریشانیاں اٹھاتے ہیں۔

سونے کے زیورات بنانے کے عمل میں بھی سونے کی ایک مقدار سنار کی بھٹی کی نزر ہو جاتی ہے۔ جس سے عظیم قومی سرمائے کا ضیاع ہوتا ہے۔ اگر یہی سونا حکو مت کے پاس محفوظ رہے تو قومی خزانہ اور معیشت کو استحکام حاصل ہوگا۔

کیا یہ ممکن ہے کہ ہم 22 کیرٹ سونے کے زیورات بنانے کی بجائے Imitationزیورات کا رواج عام کریں۔ اس طرح سونے جیسی قیمتی دھات کو محفوظ بنایا جاسکے گا۔ سونے کے قیمتی زیورات چند دن پہننے کے بعد انھیں بینکوں کے لاکر میں محفوظ کر دیا جاتا ہے یا گھروں میں خفیہ جگہ پر رکھ کر مسلسل ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں۔ اگر یہ سرمایہ قومی ترقی کے کاموں میں لگایا جائے تو ملک کی معیشت زیادہ متحرک ہو سکتی ہے۔ سونے کے زیورات سے متعلق ہماری نفسیات اور سماجی رویے میں تبدیلی ضروری ہے۔ اس عمل کو آگے بڑھانے میں پارلیمنٹ عدلیہ سول سوسائٹی (social media) اور میڈیا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
Load Next Story