کراچی میں امن کا قیام کیسے… اتفاق رائے ضروری ہے

قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی‘ اے این پی‘ جے یو آئی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کی حمایت۔

پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے مناسب لائحہ عمل اختیار کریں۔ فوٹو: فائل

قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی' اے این پی' جے یو آئی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کی حمایت کر دی ہے۔ کراچی کے حالات جس قدر بگڑ چکے ہیں وہ اس کے متقاضی ہیں کہ اس کا فوری حل نکالا جائے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود سیاسی جماعتوں نے ملک کو ترقی دینے اور امن کا گہوارہ بنانے کے نام پر عوام سے ووٹ حاصل کیے، اب ان پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے مناسب لائحہ عمل اختیار کریں۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور انتہائی اہم شہر ہے اس لیے یہاں بگڑتے ہوئے حالات کو سدھارنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔

کراچی میں پولیس کے ساتھ ساتھ رینجرز اہلکار بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں اس لیے وہاں جرائم پر قابو پانے کے لیے ان اداروں ہی سے بہتر انداز میں کام لینے کی ضرورت ہے۔ اگر کہیں کوئی کمی یا خامی موجود ہے تو اسے بہتر منصوبہ بندی سے دور کیا جا سکتا ہے۔ فوج بلانے سے نئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جن کا حکومت کو بھی بخوبی ادراک ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کراچی کے حالات پر تمام فریقین پر مشتمل کمیٹی کے قیام کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ شہر میں اتفاق رائے کے بغیر فوج بلانا صوبائی حکومت کے مینڈیٹ کے ساتھ زیادتی ہوگی، فوج تب آتی ہے جب مکمل اتفاق رائے ہو۔ پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے بھی اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ کراچی میں فوج طلب کی گئی تو انسانی حقوق معطل ہو جائیں گے۔ کراچی میں مختلف جرائم پیشہ گروہ موجود ہیں جو بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بہت سے جرائم پیشہ افراد کو سیاسی جماعتوں کی آشیر باد حاصل ہے اس لیے جب بھی ان افراد کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو اسے سیاسی انتقام کا نام دے کر واویلا مچا دیا جاتا ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ کراچی شہر میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ ابتدائی تفتیش کرنا اور مجرموں کو پکڑنا پولیس کی ذمے داری ہے اگر پولیس اپنے فرائض سے کوتاہی برتے گی تو معاملات بہتر نہیں ہو سکتے۔ فوج کے ذریعے آپریشن سے حالات وقتی طور پر تو بہتر ہو سکتے ہیں مگر معاملات کو مستقل طور پر درست رکھنے کے لیے پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی دبائو' سفارش اور رشوت کے کلچر نے بھی محکمہ پولیس کی کارکردگی کو شدید نقصان پہنچایا ہے لہٰذا محکمہ پولیس کو فعال بنانے کے لیے اسے ان برائیوں سے پاک کرنا ہوگا۔ صدر آصف علی زرداری نے جمعرات کو بلاول ہائوس میں وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کے موقع پر کہا کہ منتخب ایوانوں کی موجودگی میں فوج بلانے کے مطالبے کا کوئی جواز نہیں، صوبائی حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے جرائم پیشہ افراد کو نشان عبرت بنائے' عوام کا تحفظ ہماری اولین ذمے داری ہے اس میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ کراچی میں جمہوری حکومت بھی موجود ہے، پولیس اور رینجرز اہلکار بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں مگر شہر کے حالات بہتر ہونے کے بجائے روز بروز بگڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔


آخر اس کا ذمے دار کون ہے؟ جمعرات کو کراچی بدامنی کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس'جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کراچی میں 2 سال میں 4 ہزار 952 شہری اور اہلکار جاں بحق ہوئے' یہ خون ناحق بہا جس کی ذمے دار وفاقی و صوبائی حکومتیں ہیں۔ کراچی میں پولیس افسران کو مجرموں کے خلاف کارروائی کے لیے فری ہینڈ دینے کے ساتھ ساتھ ان افسران کی سیکیورٹی کے نظام کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ جرائم پیشہ گروہ بہت طاقتور ہو چکے ہیں کوئی بھی پولیس افسر ان کے خلاف کارروائی سے گھبراتا ہے۔ ڈی آئی جی سائوتھ کراچی نے بھی سپریم کورٹ میں اسی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ 92ء کے آپریشن میں حصہ لینے والے تمام افسران کو قتل کردیا گیا۔ جب مجرم پولیس سے زیادہ طاقتور اور بااثر ہوں گے تو ایسے میں پولیس ان کے خلاف کیسے کارروائی کرے گی۔

کراچی میں مجرموں کی پشت پناہی کون کر رہا ہے' انھیں اسلحہ اور مالی معاونت کون فراہم کر رہا ہے جب تک اصل مگرمچھوں کو قانون کی گرفت میں نہیں لایا جائے گا' چند ایک مجرموں کو پکڑنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ کراچی میں مجرموں سے جو اب تک اسلحہ پکڑا گیا ہے وہ غیر ملکی اور انتہائی جدید ساخت کا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی سماعت کے دوران یہی سوال چیف کلکٹر کسٹم سے استفسار کیا کہ اسلحہ کہاں سے آتا ہے اور کس طرح ملک بھر میں پھیلتا ہے' افغان ٹریڈ اور نیٹو کے جو کنٹینرز غائب ہوئے وہ کہاں ہیں؟ کراچی کوئی علاقہ غیر نہیںجہاں اسلحے کے کنٹینرز کے کنٹینرز غائب ہو جائیں اور قانون نافذ کرنے والے اور دیگر سرکاری ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہیں۔ ملک میں بہت سے سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ادارے کام کر رہے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ ان اداروں کو ملک میں بڑی تعداد میں آنے والے اسلحہ اور اس کے غائب ہونے کی خبر ہی نہ ہو۔ کیا یہ سیکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے یا کرپشن کا شاخسانہ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بلا امتیاز سرکاری اداروں میں چھپی ہوئی ان کالی بھیڑوں کے خلاف بھی کارروائی کرنا ہو گی۔

اگر سرکاری اداروں کے افسران اسی طرح کرپشن میں ملوث رہے تو مجرموں کے خلاف کیا جانے والا کوئی بھی آپریشن کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ ان تمام ذرایع کا سدباب ضروری ہے جو مجرموں کو کسی نہ کسی طرح تقویت دے رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے کراچی میں کارروائی کے بارے میں کہا کہ پورے کراچی میں آپریشن کی ضرورت نہیں' بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلا امتیاز ٹارگٹڈ آپریشن کی ضرورت ہے' یہ آپریشن وزیراعلیٰ سندھ کی نگرانی ہی میں ہو گا۔ یہ خوش آیند امر ہے کہ قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں نے ٹارگٹڈ آپریشن کی حمایت کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کراچی میں امن چاہتی ہیں۔ اب ان جماعتوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوئی ہے کہ وہ شہر قائد کو پرامن بنانے کے لیے ہر قسم کے اختلاف سے بالاتر ہو کر حکومت کا ساتھ دیں کیونکہ عوامی حمایت کے بغیر کوئی بھی حکومتی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا۔
Load Next Story