یونیورسٹی کی علمی آزادی سلب

حکومت سندھ نے یونیورسٹیوں کی خودمختاری اور علمی آزادی Academic Freedom پر حملہ کردیا۔

tauceeph@gmail.com

حکومت سندھ نے یونیورسٹیوں کی خودمختاری اور علمی آزادی Academic Freedom پر حملہ کردیا، سندھ کی دو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر رخصت کردیے گئے۔ 2008 میں پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت کی ہائر ایجوکیشن کمیشن سے جو محاذ آرائی ہوئی تھی اور ملک کی یونیورسٹیاں جس مالیاتی بحران میں مبتلا ہوئی تھی اب سندھ میں اس بحران کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگیا۔ گزشتہ ہفتے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں سہ پہر کو وزیر تعلیم نثارکھوڑو نے سندھ یونیورسٹی کا (ترمیمی) بل مجریہ 2013 پیش کیا، سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین نے اس بل پر اعتراض کیا اور بل پر غور کرنے کے لیے وقت طلب کیا مگر پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنے طے شدہ منصوبے کے تحت بل پر بحث کرانے کے بجائے ووٹنگ کرانے کا اعلان کیا۔

اس اہم قانون کی شقوں کی مرحلہ وار خواندگی نہیں ہوسکی، اسمبلی نے صرف دس منٹ میں یونیورسٹیوں کی خود مختاری کا خاتمہ کرتے ہوئے اس قانون کو منظور کرلیا۔ اس قانون کے تحت گورنر سندھ، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر، پرووائس چانسلر کے تقرر کے لیے حکومت کی ایڈوائس کے پابند ہوگئے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد وزرائے اعلیٰ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور گورنر صاحبان کی حیثیت محض علامتی ہے، اس بنا پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر گورنر صاحب کا عملدرآمد پر پابند ہونا پارلیمانی نظام کی روایت کے مطابق ہے مگر اس قانون میں حکومت سندھ نے پرووائس چانسلر، ڈینز، رجسٹرار، ڈائریکٹر فنانس اور کنٹرولر امتحانات کے تقرر کے اختیارات لے لیے، اس کے ساتھ داخلہ پالیسی کا اختیار بھی حکومت سندھ نے حاصل کرلیا۔

سابق صدر مشرف کے دور میں ہائر ایجوکیشن میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں، یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا درجہ بلند کرکے اس کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن بنایا تو پاکستان میں بھی یہ تصور آیا کہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کے تقرر کا معاملہ شفاف ہونا چاہیے، وفاق میں صدر اور صوبوں میں گورنر صاحبان کا یہ مطلق اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے وائس چانسلر کا تقررکریں، اس مقصد کے لیے سرچ کمیٹی کا تصور آیا، سرچ کمیٹی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور معروف ماہرین تعلیم کو شامل کیا گیا۔ ڈاکٹر عطا الرحمن کے تیار کردہ ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس میں کئی خامیاں تھیں مگر پہلی دفعہ وائس چانسلر کے تقرر کے لیے قائم سرچ کمیٹی میں یونیورسٹی سنڈیکیٹ اور سینیٹ کے نمایندوں اور اساتذہ کے نمایندوں کو شامل کیا گیا۔ وفاقی یونیورسٹیوں کے لیے صدر کو پابند کیا گیا کہ وہ سرچ کمیٹی اور یونیورسٹی سینیٹ کے تجویز کردہ تین اساتذہ میں سے کسی ایک کو وائس چانسلر مقرر کریں۔

تاریخ کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے سرچ کمیٹی کے تصور کو قبول کیا انھوں نے وفاق میں قائم یونیورسٹیوں کے لیے قائم سرچ کمیٹی کے فیصلے کے تحت وائس چانسلر کا تقرر کیا، پنجاب، پختونخوا اور سندھ میں بھی اس فیصلے پر عملدرآمد ہوا۔ سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے بعض اوقات سرچ کمیٹی کے فیصلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلے کیے مگر جب منتخب صدر آصف زرداری ایوان صدر کے مکین بنے یوں معاملات گڑبڑ ہوئے۔ سب سے پہلے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے تقرر کے لیے سرچ کمیٹی کے سفارشات کو پس پشت ڈالا گیا پھر وفاقی اردو یونیورسٹی کی سرچ کمیٹی کے فیصلے کو نظر انداز کرنے کی بنا پر ایک سال سے زیادہ عرصے تک یونیورسٹی وائس چانسلر سے محروم رہی، سندھ یونیورسٹی کے قابل وائس چانسلر ڈاکٹر مظہر الحق صدیقی کو ہٹایا گیا اور سرچ کمیٹی قائم کیے بغیر ڈاکٹر مغل کو وائس چانسلر مقرر کیا گیا، نواب شاہ میں قائم بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی میں ایک ایم اے پاس افسر کو وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔


پیپلزپارٹی سے محبت کرنے والے دانشوروں اور اساتذہ کو توقع تھی کہ پیپلزپارٹی کی حکومت حالات سے سبق حاصل کرلے گی اور وائس چانسلر کے تقرر کے لیے سرچ کمیٹی کو فعال کیا جائے گا اور سرچ کمیٹی کو مکمل خود مختار بنانے کے ساتھ اس میں اساتذہ کو نمایندگی دی جائے گی، یونیورسٹیوں کا نظام زیادہ بہتر ہوگا مگر نئے قانون میں سرچ کمیٹی کے تصور کو ختم کردیا گیا۔ سندھ کے گورنر پہلے وائس چانسلر کی سفارش پر فیکلٹیز کے ڈین اور ڈائریکٹر فنانس کا تقرر کرتے تھے، اب نئے بل کے تحت سندھ کے گورنر حکومت کی سفارش پر رجسٹرار اور شعبہ امتحانات کے کنٹرولر کا بھی تقرر کریں گے۔ یونیورسٹیوں کے قوائد و ضوابط کے تحت رجسٹرار اور کنٹرولر امتحانات کا تقرر اعلیٰ اختیاری سلیکشن بورڈ کرتا ہے، سلیکشن بورڈ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نمایندے یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے نمایندوں سندھ پبلک سروس کمیشن کے نمایندے اور سبجیکٹ اسپیشلسٹ پر مشتمل ہوتا ہے، وائس چانسلر سلیکشن بورڈ کے سربراہ ہوتے ہیں، سلیکشن بورڈ کی سفارشات یونیورسٹی سنڈیکیٹ کی منظوری سے مشروط ہوتی ہے۔

یونیورسٹی سنڈیکیٹ، ڈین، پرووائس چانسلر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نمایندہ سیکریٹری تعلیم سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے نامزد کردہ جج اور اساتذہ کے نمایندوں اور معروف شہریوں پر مشتمل ہوتی ہے، سنڈیکیٹ کے فیصلوں کی توثیق یونیورسٹی سینیٹ میں ہوتی ہے، یونیورسٹی سینیٹ کے اجلاس کی صدارت چانسلر یا گورنر کرتے ہیں، گورنر کی عدم موجودگی میں وائس چانسلر اس کی صدارت کرتے ہیں۔ اس ترمیم کے بعد حکومت سندھ براہ راست رجسٹرار اور کنٹرولر امتحانات کا تقرر کرے گی، اس طرح یونیورسٹی کے ادارے اکیڈمک کونسل اور سنڈیکیٹ داخلہ پالیسی، نصاب کی تیاری، ڈپارٹمنٹ اور فیکلٹیز کے قیام، اساتذہ اور دیگر عملے کے تقرر کے لیے قواعد و ضوابط طے کرتے ہیں مگر اب کام حکومت سندھ خود انجام دے گی۔

ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں کلکتہ، مدراس اور ممبئی میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں، پنجاب یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو یونیورسٹیوں کے یہ ادارے قائم ہوئے، ان اداروں میں بہترین اساتذہ، ماہرین تعلیم، حکومتی نمایندے، جج صاحبان، اساتذہ اور طالب علموں کے نمایندے داخلہ پالیسی سمیت تمام معاملات پر فیصلے کرتے تھے، اساتذہ اور ماہرین تعلیم حکومتی نمایندوں کے ساتھ مل کر یونیورسٹی کی خود مختاری کو یقینی بناتے ہیں۔ جب 1972 میں پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت قائم ہوئی تو یونیورسٹی ایکٹ 1973 نافذ ہوا، اس ایکٹ میں یونیورسٹی میں یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں اساتذہ کی نمایندگی کے علاوہ طلبا کو نمایندگی دی گئی تھی۔ بھٹو حکومت کے قانون کے تحت یونیورسٹی پروفیسروں کو اپنے ڈین منتخب کرنے کا اختیارحاصل ہوا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک ترمیم کے ذریعے طلبا کی نمایندگی ختم کی گئی، سینئر پروفیسروں سے ڈین کے انتخاب کا حق چھین لیا گیا۔

اردو یونیورسٹی کی سینیٹ میں اساتذہ کے نمایندہ سید ناصر عباس کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت نے اساتذہ اور طلبا کی نمایندگی کو یقینی بنانے کے بجائے یونیورسٹی کے ادارں کو مفلوج کردیا ہے، وائس چانسلر اور اسکول کے ہیڈ ماسٹر میں کوئی فرق نہیں رہا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت سے واقفیت رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اندرون سندھ کے طلبا کے لیے کراچی کی یونیورسٹیوں میں داخلہ دلانے کے لیے داخلہ پالیسی بنانے کا اختیار اپنے پاس رکھا ہے۔ سندھ کی یکجہتی کے لیے کوشاں سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں اندرون سندھ کے طالب علموں کو داخلوں میں اولین ترجیح نہیں دی جاتی مگر یہ پالیسی سندھ یونیورسٹی، بے نظیر بھٹو یونیورسٹی، نواب شاہ لطیف یونیورسٹی، خیر پور وغیرہ کی بھی ہے، ان یونیورسٹیوں میں کراچی سے تعلق رکھنے والے طلبا کو داخلوں میں اولین ترجیح نہیں دی جاتی۔

باشعور اساتذہ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی داخلے کے مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے تو اس کو تمام وائس چانسلروں، ان یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹ اور اکیڈمک کونسل کے اراکین اور اساتذہ کے نمایندوں کو اعتماد میں لینا چاہیے اور تمام یونیورسٹیوں کے اداروں کو اپنی داخلہ پالیسی کو اس طرح ترتیب دینا چاہیے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے طالب علم سندھ کی کسی جنرل یونیورسٹی میں داخلہ لے سکیں۔ حکومت کو ایسے حالات پید اکرنے چاہئیں کہ کراچی کا طالب علم اندرون سندھ کی یونیورسٹی میں اپنی پسندکے ڈپارٹمنٹ میں داخلہ حاصل کرے، اس طرح اندرون سندھ کا طالب علم بھی اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھائے۔ حکومت یونیورسٹی کے اداروں کو مفلوج کرکے کوئی پالیسی نافذ کرے گی تو سندھ دشمن عناصر کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر مظاہر شیخ کا کہنا ہے کہ معاشرے میں یونیورسٹیوں کی اہمیت ان کی خود مختاری اور علمی آزادی کی بنا پر ہوتی ہے، علمی آزادی کی بنا پر یونیورسٹیاں دوسرے سماجی اداروں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہیں، اس لیے یونیورسٹیوں کی خود مختاری کی پالیسی سے علمی آزادی کا ادارہ مخدوش ہوگا، جس کا فائدہ طالع آزما قوتوں کو ہوگا۔ اس صورتحال میں اساتذہ کے پاس جدوجہد کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
Load Next Story