بھارتی دانشوروں کی ذمے داری
کچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کی نوعیت قومی مسائل کی ہوتی ہے۔
کچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کی نوعیت قومی مسائل کی ہوتی ہے، اس قسم کے مسائل معاشرتی تضادات کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، اس قسم کے مسائل کو وہی سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں حل کر سکتی ہیں جو معاشرتی تضادات اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ بورژوا سیاست کرنے والے نہ ان مسائل کو سمجھ سکتے ہیں نہ انھیں حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، ہمارے قومی مسائل میں مسئلہ کشمیر ایک اہم مسئلہ اس لیے ہے کہ اس مسئلے کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان اور پاکستان کے لگ بھگ دو ارب غریب عوام کی زندگی اور اس کے مستقبل پر اثر پڑ رہا ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے عوام اس کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔
اس مسئلے کے حوالے سے کوئی ہنگامی حالات پیدا ہوتے ہیں تو ان کا حل اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ یہ مسائل اصل اور بنیادی مسئلے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایل او سی پر جو کشیدہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے اس کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستانی وزیر اعظم پر ہنگامی طور پر فون پر بات کر کے انھیں اس مسئلے کا فوری حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا اور داخلی طور پر بھی اس مسئلے کو حل کرنے کی تیزی سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم نے ایل او سی پر مامور فوجی افسروں کو فوری طور پر متعلقہ بھارتی فوجی افسروں سے رابطہ کرنے اور انھیں صبر و برداشت کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ایل او سی پر کشیدگی کا آغاز بھارت کے اس الزام سے ہوا کہ پاکستانی فوج کے جوانوں نے 5 بھارتی فوجیوں کو بیدردی سے قتل کر دیا، اگرچہ پاکستان کی طرف سے اس الزام کی سختی سے تردید کی گئی ہے لیکن یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ بھارت کے 5 سپاہی قتل ہوئے۔ اس مسئلے کا سنجیدہ اور غیر جذباتی حل یہ تھا کہ دونوں ملکوں کے ایک مشترکہ کمیشن کے ذریعے اس مسئلے کی تحقیق کی جاتی اور اس کا کوئی آبرومندانہ اور پر امن حل تلاش کیا جاتا، لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ اس حوالے سے الزامات اور جوابی الزامات کے ساتھ ایل او سی پر فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا اور بدقسمتی سے بھارتی چیف آف آرمی اسٹاف کے غیر دانش مندانہ بیانات اور اپنے فوجی جوانوں کو سخت جوابی اقدامات کا حکم دینے سے کشیدگی میں اضافہ ہوا اور یہ کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی کہ بھارتی حکومت نے امریکا میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظموں کی مجوزہ ملاقات کو کینسل کر دیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ ایسے حالات میں دونوں ملکوں کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات ممکن نہیں۔ ایل او سی پر بھارتی فوج کی طرف سے فائرنگ کے خلاف بھارتی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ طلب کر کے سخت احتجاج کیا گیا۔ اس ہنگامی صورتحال سے وہ کوششیں ناکام ہو گئیں جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری اور متنازعہ مسائل کو حل کرنے کے لیے کی جا رہی تھیں۔
لیکن کیا یہ پہلا واقعہ ہے؟ کیا اس سے پہلے ایل او سی پر اس قسم کے واقعات نہیں ہوتے رہے؟ کیا بھارتی فوجوں کے ہاتھوں آئے دن کشمیریوں کے قتل کے واقعات نہیں ہوتے؟ کیا یہ بات درست نہیں کہ اب تک بھارتی فوجوں کے ہاتھوں 70، 80 ہزار کشمیریوں کا قتل ہوا ہے؟ اگر یہ سب درست حقائق ہیں تو پھر 5 بھارتی فوجیوں کے قتل کو اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنایا جا رہا ہے کہ وہ کوششیں ہی ناکام ہو رہی ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان قتل و غارت اور مذہبی منافرت کو ختم کرنے کے لیے کی جا رہی تھیں؟ ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ یہ مسئلے اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ انسانوں کو رنگ، نسل، مذہب و ملت کے حوالے سے تقسیم کر دیا جاتا ہے جب کہ اس تقسیم میں تقسیم ہونے والوں کی کوئی مرضی شامل ہوتی ہے نہ رضا، اس جبریہ تقسیم کا نتیجہ انسانوں کے درمیان نفرتوں اور جنگوں کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
اس قسم کے مسائل کو حل کرنے کی ذمے داری سیاستدانوں اور حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے لیکن چونکہ بدقسمتی سے سیاست دانوں اور حکمرانوں کی سوچ عموماً صرف نام نہاد قومی مفادات کے گرد گھومتی ہے، لہٰذا وہ ایسے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انھیں اور پیچیدہ کر دیتے ہیں اور کشمیر کے حوالے سے 65 سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ایسے مسائل حل کرنے کی ذمے داری ان آفاقی ویژن رکھنے والے اہل قلم، اہل دانش پر ہونی چاہیے جو قومی مفادات کے حصار سے آگے نکل کر انسانیت کے اجتماعی مفادات پر یقین رکھتے ہیں اور ایسے مسائل کے حل کے لیے رائے عامہ بنانے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔
مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ سیکولرازم کے فلسفے پر یقین رکھنے والے اور سیکولرازم کو اپنا ریاستی نظریہ قرار دے کر اس پر فخر کرنے والے سیاست دانوں، قلم کاروں، دانشوروں کے ملک کا حال یہ ہے کہ اس ملک کی بی جے پی جیسی مذہبی انتہا پسند جماعت اس ملک میں عوام کے ووٹ سے برسر اقتدار رہی ہے اور آج بھی کئی ریاستوں میں برسر اقتدار ہے۔ اس جماعت کا ایک شیطان صفت رہنما نریندر مودی جس پر گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام کا الزام ہے اور جس کے خلاف خود ہندو شاعر اور قلم کار حیوانیت کے الزام لگا رہے ہیں اور مغربی ملک جسے اس کی سفاکی کی وجہ سے ویزا دینے سے انکاری ہیں، ایسے مذہبی انتہا پسند کو آنے والے الیکشن میں وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کیا جا رہا ہے۔ کیا اس قسم کی ذہنیت سیکولرازم کے منہ پر طمانچہ نہیں؟ کیا کشمیر کے مسئلے اور اس حوالے سے ایل او سی پر پیدا کی جانے والی کشیدگی ہندوستان کے عوام میں مذہبی انتہا پسندی اور پاکستان کی مذہبی قوتوں میں انتہا پسندی کے فروغ کا سبب نہیں؟ یہ ایسے سوال ہیں جن پر ہندوستان کے اہل قلم، اہل دانش کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے، بشرطیکہ وہ خود مذہبی انتہا پسندی کا شکار نہ ہوئے ہوں۔
پاکستان مذہبی تقسیم کی بنیاد پر قائم ہوا اور پاکستان آئینی طور پر بھی ایک مذہبی ریاست ہے لیکن یہ کیسی دلچسپ صورتحال ہے کہ ایک مذہبی ریاست میں پچھلے 65 سال سے اپنا پورا زور اور وسائل لگانے کے باوجود مذہبی جماعتوں کو عوام مسترد کرتے آ رہے ہیں اور جمہوری سیاست میں مذہبی جماعتوں کو عوام نے اچھوت بنا کر رکھا ہے۔ ہندوستان کے سیاست دانوں اور حکمرانوں کو پاکستان میں جن مذہبی انتہا پسندوں سے شکایت ہے یہ انتہا پسند اور ان کی انتہا پسندی خود ہندوستان کی کشمیر کے حوالے سے متعصبانہ اور جارحانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے، پاکستان جیسی آئینی طور پر مذہبی ریاست کے عوام اپنے سیاسی اور جمہوری کردار میں اس لیے سیکولر ہیں کہ اس ملک کے اہل قلم، اہل دانش نے بڑی تکلیفیں جھیل کر ان کی سیاسی تربیت میں سیکولر فکر کی آبیاری کی ہے۔
پاکستان کے موجودہ حکمران جماعت پر یہ الزام ہے کہ اس کے تعلقات مذہبی انتہا پسندوں سے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ہو لیکن بھارت سے تعلقات کی استواری کے حوالے سے میاں صاحب نے جو جرأت مندانہ پالیسی اختیار کی ہے ہم بھی اس کی تحسین کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے ڈیلی ٹیلیگراف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''اگر ملک میں خوشحالی لانا ہے تو بھارت کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت کرنا ہو گی۔ کرش انڈیا کا نعرہ ترک کر کے بھارت سے دوستی کا نعرہ بلند کرنا چاہیے۔ میں انتخابات میں اپنی کامیابی کو بھارت کے ساتھ امن کے مینڈیٹ کے طور پر دیکھتا ہوں، پاکستان کی حکومت اور فوج دونوں عوم کی فلاح و بہبود کے لیے دفاعی بجٹ میں کٹوتی پر متفق ہیں لیکن بھارت کو بھی ہمارا ساتھ دینا ہو گا کیونکہ دونوں ملک اب تک اسلحے کی احمقانہ دوڑ پر پہلے ہی اربوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔''
نواز شریف ایک بورژوا پارٹی کے سربراہ ہیں، ان سے کسی انقلاب کی توقع تو نہیں کی جا سکتی ہے لیکن بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی اہمیت اور ضرورت کو وہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں بھارت مخالف مضبوط طاقتوں کی سخت مخالفت کے باوجود اگر نواز شریف اس حد تک آگے آ رہے ہیں تو بھارتی حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ 5 بھارتی فوجیوں کے قتل کو بہانہ بنا کر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے عمل کو سبوتاژ نہ کریں۔ بھارتی اہل قلم، اہل دانش اور میڈیا کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ مذہبی تفریق کی گھاٹیوں سے باہر نکل کر اپنے ملک اور غریب عوام کے بہتر مستقبل کے لیے نواز شریف کی کوششوں اور تجاویز کی حمایت کریں اور بھارت کی رائے عامہ کو پاکستان سے دوستی بڑھانے اور مذہبی رواداری پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے، ورنہ بھارت نریندر مودیوں کے قبضے میں اسی طرح چلا جائے گا جس طرح پاکستان دہشت گردوں کے قبضے میں جا رہا ہے۔
اس مسئلے کے حوالے سے کوئی ہنگامی حالات پیدا ہوتے ہیں تو ان کا حل اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ یہ مسائل اصل اور بنیادی مسئلے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایل او سی پر جو کشیدہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے اس کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستانی وزیر اعظم پر ہنگامی طور پر فون پر بات کر کے انھیں اس مسئلے کا فوری حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا اور داخلی طور پر بھی اس مسئلے کو حل کرنے کی تیزی سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم نے ایل او سی پر مامور فوجی افسروں کو فوری طور پر متعلقہ بھارتی فوجی افسروں سے رابطہ کرنے اور انھیں صبر و برداشت کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ایل او سی پر کشیدگی کا آغاز بھارت کے اس الزام سے ہوا کہ پاکستانی فوج کے جوانوں نے 5 بھارتی فوجیوں کو بیدردی سے قتل کر دیا، اگرچہ پاکستان کی طرف سے اس الزام کی سختی سے تردید کی گئی ہے لیکن یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ بھارت کے 5 سپاہی قتل ہوئے۔ اس مسئلے کا سنجیدہ اور غیر جذباتی حل یہ تھا کہ دونوں ملکوں کے ایک مشترکہ کمیشن کے ذریعے اس مسئلے کی تحقیق کی جاتی اور اس کا کوئی آبرومندانہ اور پر امن حل تلاش کیا جاتا، لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ اس حوالے سے الزامات اور جوابی الزامات کے ساتھ ایل او سی پر فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا اور بدقسمتی سے بھارتی چیف آف آرمی اسٹاف کے غیر دانش مندانہ بیانات اور اپنے فوجی جوانوں کو سخت جوابی اقدامات کا حکم دینے سے کشیدگی میں اضافہ ہوا اور یہ کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی کہ بھارتی حکومت نے امریکا میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظموں کی مجوزہ ملاقات کو کینسل کر دیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ ایسے حالات میں دونوں ملکوں کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات ممکن نہیں۔ ایل او سی پر بھارتی فوج کی طرف سے فائرنگ کے خلاف بھارتی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ طلب کر کے سخت احتجاج کیا گیا۔ اس ہنگامی صورتحال سے وہ کوششیں ناکام ہو گئیں جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری اور متنازعہ مسائل کو حل کرنے کے لیے کی جا رہی تھیں۔
لیکن کیا یہ پہلا واقعہ ہے؟ کیا اس سے پہلے ایل او سی پر اس قسم کے واقعات نہیں ہوتے رہے؟ کیا بھارتی فوجوں کے ہاتھوں آئے دن کشمیریوں کے قتل کے واقعات نہیں ہوتے؟ کیا یہ بات درست نہیں کہ اب تک بھارتی فوجوں کے ہاتھوں 70، 80 ہزار کشمیریوں کا قتل ہوا ہے؟ اگر یہ سب درست حقائق ہیں تو پھر 5 بھارتی فوجیوں کے قتل کو اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنایا جا رہا ہے کہ وہ کوششیں ہی ناکام ہو رہی ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان قتل و غارت اور مذہبی منافرت کو ختم کرنے کے لیے کی جا رہی تھیں؟ ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ یہ مسئلے اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ انسانوں کو رنگ، نسل، مذہب و ملت کے حوالے سے تقسیم کر دیا جاتا ہے جب کہ اس تقسیم میں تقسیم ہونے والوں کی کوئی مرضی شامل ہوتی ہے نہ رضا، اس جبریہ تقسیم کا نتیجہ انسانوں کے درمیان نفرتوں اور جنگوں کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
اس قسم کے مسائل کو حل کرنے کی ذمے داری سیاستدانوں اور حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے لیکن چونکہ بدقسمتی سے سیاست دانوں اور حکمرانوں کی سوچ عموماً صرف نام نہاد قومی مفادات کے گرد گھومتی ہے، لہٰذا وہ ایسے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انھیں اور پیچیدہ کر دیتے ہیں اور کشمیر کے حوالے سے 65 سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ایسے مسائل حل کرنے کی ذمے داری ان آفاقی ویژن رکھنے والے اہل قلم، اہل دانش پر ہونی چاہیے جو قومی مفادات کے حصار سے آگے نکل کر انسانیت کے اجتماعی مفادات پر یقین رکھتے ہیں اور ایسے مسائل کے حل کے لیے رائے عامہ بنانے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔
مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ سیکولرازم کے فلسفے پر یقین رکھنے والے اور سیکولرازم کو اپنا ریاستی نظریہ قرار دے کر اس پر فخر کرنے والے سیاست دانوں، قلم کاروں، دانشوروں کے ملک کا حال یہ ہے کہ اس ملک کی بی جے پی جیسی مذہبی انتہا پسند جماعت اس ملک میں عوام کے ووٹ سے برسر اقتدار رہی ہے اور آج بھی کئی ریاستوں میں برسر اقتدار ہے۔ اس جماعت کا ایک شیطان صفت رہنما نریندر مودی جس پر گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام کا الزام ہے اور جس کے خلاف خود ہندو شاعر اور قلم کار حیوانیت کے الزام لگا رہے ہیں اور مغربی ملک جسے اس کی سفاکی کی وجہ سے ویزا دینے سے انکاری ہیں، ایسے مذہبی انتہا پسند کو آنے والے الیکشن میں وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کیا جا رہا ہے۔ کیا اس قسم کی ذہنیت سیکولرازم کے منہ پر طمانچہ نہیں؟ کیا کشمیر کے مسئلے اور اس حوالے سے ایل او سی پر پیدا کی جانے والی کشیدگی ہندوستان کے عوام میں مذہبی انتہا پسندی اور پاکستان کی مذہبی قوتوں میں انتہا پسندی کے فروغ کا سبب نہیں؟ یہ ایسے سوال ہیں جن پر ہندوستان کے اہل قلم، اہل دانش کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے، بشرطیکہ وہ خود مذہبی انتہا پسندی کا شکار نہ ہوئے ہوں۔
پاکستان مذہبی تقسیم کی بنیاد پر قائم ہوا اور پاکستان آئینی طور پر بھی ایک مذہبی ریاست ہے لیکن یہ کیسی دلچسپ صورتحال ہے کہ ایک مذہبی ریاست میں پچھلے 65 سال سے اپنا پورا زور اور وسائل لگانے کے باوجود مذہبی جماعتوں کو عوام مسترد کرتے آ رہے ہیں اور جمہوری سیاست میں مذہبی جماعتوں کو عوام نے اچھوت بنا کر رکھا ہے۔ ہندوستان کے سیاست دانوں اور حکمرانوں کو پاکستان میں جن مذہبی انتہا پسندوں سے شکایت ہے یہ انتہا پسند اور ان کی انتہا پسندی خود ہندوستان کی کشمیر کے حوالے سے متعصبانہ اور جارحانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے، پاکستان جیسی آئینی طور پر مذہبی ریاست کے عوام اپنے سیاسی اور جمہوری کردار میں اس لیے سیکولر ہیں کہ اس ملک کے اہل قلم، اہل دانش نے بڑی تکلیفیں جھیل کر ان کی سیاسی تربیت میں سیکولر فکر کی آبیاری کی ہے۔
پاکستان کے موجودہ حکمران جماعت پر یہ الزام ہے کہ اس کے تعلقات مذہبی انتہا پسندوں سے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ہو لیکن بھارت سے تعلقات کی استواری کے حوالے سے میاں صاحب نے جو جرأت مندانہ پالیسی اختیار کی ہے ہم بھی اس کی تحسین کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے ڈیلی ٹیلیگراف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''اگر ملک میں خوشحالی لانا ہے تو بھارت کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت کرنا ہو گی۔ کرش انڈیا کا نعرہ ترک کر کے بھارت سے دوستی کا نعرہ بلند کرنا چاہیے۔ میں انتخابات میں اپنی کامیابی کو بھارت کے ساتھ امن کے مینڈیٹ کے طور پر دیکھتا ہوں، پاکستان کی حکومت اور فوج دونوں عوم کی فلاح و بہبود کے لیے دفاعی بجٹ میں کٹوتی پر متفق ہیں لیکن بھارت کو بھی ہمارا ساتھ دینا ہو گا کیونکہ دونوں ملک اب تک اسلحے کی احمقانہ دوڑ پر پہلے ہی اربوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔''
نواز شریف ایک بورژوا پارٹی کے سربراہ ہیں، ان سے کسی انقلاب کی توقع تو نہیں کی جا سکتی ہے لیکن بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی اہمیت اور ضرورت کو وہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں بھارت مخالف مضبوط طاقتوں کی سخت مخالفت کے باوجود اگر نواز شریف اس حد تک آگے آ رہے ہیں تو بھارتی حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ 5 بھارتی فوجیوں کے قتل کو بہانہ بنا کر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے عمل کو سبوتاژ نہ کریں۔ بھارتی اہل قلم، اہل دانش اور میڈیا کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ مذہبی تفریق کی گھاٹیوں سے باہر نکل کر اپنے ملک اور غریب عوام کے بہتر مستقبل کے لیے نواز شریف کی کوششوں اور تجاویز کی حمایت کریں اور بھارت کی رائے عامہ کو پاکستان سے دوستی بڑھانے اور مذہبی رواداری پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے، ورنہ بھارت نریندر مودیوں کے قبضے میں اسی طرح چلا جائے گا جس طرح پاکستان دہشت گردوں کے قبضے میں جا رہا ہے۔