سموسے میں آلو اور سیاست میں لالو
لال ریلوے کے لال ڈبوں والا ’’لالو‘‘بڑی ہی دلچسپ شخصیت ہے۔
ان اخباروالوں کو نہ جانے کیسے پتہ چل گیاہے کہ کچھ چہرے، کچھ نام اور کچھ الفاظ ہماری''چڑ'' ہیں، اس لیے کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ کھود کر ایسی خبر نکال لاتے ہیں جس میں ہماری کوئی نہ کوئی چڑ ہوتی ہے۔ اب اگر محکمہ ''بیلوے'' کی تعریف کرنا تھی بلکہ اس کے ایک عظیم کارنامے جو شاید پہلی بار اس محکمے سے سرزد ہوئے ہیں تو اس کے ساتھ ''خسارے'' کا پخ لگانا ،کیاکسی ڈاکٹر کے نسخے میں لکھاہے۔سنیے
''ساڑھے تین سوارب ''خسارے''والے پاکستان بیلوے کی آمدن میں ڈھائی کروڑ روپے کا اضافہ''۔اور آپ تو جانتے ہیں کہ ایک تو اس '' خسارے'' کے لفظ سے ہمیں ''خسرہ''ہوجاتاہے کیونکہ یہ خسرہ ہمارے پورے ملک کے پورے پورے محکموں اور اداروں کو پورا پورا لاحق ہے اور دوسری بات یہ کہ ہماری سمجھ دانی بھی کچھ۔''ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ''ٹائپ کی ہے۔ عیدالفطر پر لوگ عیدمنارہے ہوتے ہیں اور ہم اس ڈر سے کانپ رہے ہوتے ہیں کہ ''روزوں'' کے مہینے کو صرف گیارہ میہنے رہ گئے ہیں۔ چنانچہ اس محکمہ ''بیلولے''کی خبر سے ہمیں اچانک لالوپرشاد یادو کی یاد آنا ضروری تھا کیونکہ''لالو'' نے بھی بھارت کے ریلوے کا وزیر بننے کے بعد ''بیس ہزار کروڑ''کامنافع دیاتھا اور اس کا یہ مقولہ ایک زمانے میں بڑا پاپولر ہواتھا کہ
جب تک سموسے میں ''آلو''رہے گا
بھارت کی سیاست میں''لالو''رہے گا
وہاں کے لیے اور پھر خاص طور پر ریلوے کے لیے تو ''آلو اور لالو''ہی ٹھیک تھے کہ وزیر بھی لالو تھا وہاں کی ریل گاڑیاں بھی لال رنگ کی ہوتی ہیں اور''آلو''بھی آج کل لال رنگ ہی کے ہوتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں سب کچھ ''سبز''ہوتاہے سوائے لالا حویلی کے۔دوسرے یہ کہ ہمارے ہاں سموسے سے زیادہ''کھچڑی''میں آلو ڈالے جاتے ہیں۔خیر سموسہ ہو یا سیاست ایک ہی بات ہے کہ دونوں میں دو دو(س) بھی ہوتے ہیں دونوں تکون بھی ہوتے ہیں البتہ تھوڑا سافرق یہ ہے کہ سموسے میں ''آلو'' ڈالے جاتے ہیں لیکن سیاست میںآلو''کے مد کو جزر کرکے ''شد''میں بدل دیا جاتا ہے۔
ارے ہاں یہ وضاحت سب سے پہلے ضروری ہے کہ اردو کا رسم الخط ہی کچھ ایسا ہے کہ کسی بھی وقت ''آلو'' کا ''مد''گرکر''شد''میں بدل سکتاہے اور آلو کو سبزی کے بجائے ''گوشت''میں بدل سکتاہے بلکہ گوشت خور پرندے میں۔ اس لیے نوٹ کرلیجیے کہ آگے کالم میں جہاں کہیں سیاست میں ''آلو''کا لفظ آئے تو اسے آلو ہی سمجھیے گا چاہے اس کے الف کا''مد''لام کے ''شد''میں کیوں نہ بدل گیا ہو۔ چنانچہ اس غلطی کے لیے ہم نہیں کمپوزر ذمے دار ہوگا، اسے چاہے سزا دے لیجیے۔ہاں ایک اور وضاحت ریلوے اور بیلوے میں بھی ضروری ہے کیونکہ وہاں کا محکمہ ریلوے ریل چلاتا ہے جب کہ ہمارے ہاں بیل اور بیل گاڑی چلانے کا رواج ہے۔
ہاں تو وہ لال ریلوے کے لال ڈبوں والا ''لالو''بڑی ہی دلچسپ شخصیت ہے۔ اس کے تعلق سے ریلوے کو بیلوے کانام سجتاہے۔کیونکہ اس کے بارے میں ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ کسی جگہ وزیروں کو گائیں حوالے کی گئیں یا گائے کو محکمے کا استعارہ سمجھ لیجیے اور ان کے درمیان ''دوہنے'' کا مقابلہ کیاگیا کہ کون زیادہ دودھ دوہے گا،باقی وزیر تو اپنا اپنا دودھ لے کر نکل آئے لیکن لالوپرشاد بدستور کمرے میں تھا۔ آوازیں دے کر بلا لیاگیا تو پسینے سے شرابور اور ہانپتاہوا اور بالٹی میں صرف آدھ سیر دودھ لیے ہوئے۔ساتھ ہی گالیاں بھی دے رہاتھا،کہ کم بختوں نے سب کو گائیں دی تھیں اور مجھے بیل۔دیکھاگیا تو وہ واقعی ''بیل''تھا جس سے لالو نے آدھ سیر دودھ دوہاتھا اور پھر اسی لیے محکمہ ''بیولے'' اس کے حوالے کیاگیا اور اس سے بھی اس نے بیس ہزار کروڑ کا دودھ حاصل کرکے دوبارہ گائے بنادیا۔جب کہ ہمارے ریلوے کو ابھی تک کوئی مائی کا لال لالو نہیں ملا ہے۔
صرف''آلو'' ہی ملتے ہیں(لال حویلی والے سے معذرت کیونکہ انھوں نے بہرحال کچھ نہ کچھ دودھ تو دوھ لیا، ڈھائی کروڑ کا ہی سہی)۔ خیر ''ساڑھے تین سو ارب'' خسارے کی بات نے ایک مرتبہ چونکادیا۔ اور وہ بات ایک مرتبہ پھریاد آئی کہ جس کا اس خبر میں کہیں ذکر تک نہیںہے۔یعنی ہمارے ذہن میں بہت سارے دانا دانشوروں،غلاموں اور ماہرین کی وہ تمام کتابیں اور مضامین پھر کی طرح گھومنے لگے۔ جو کالونیلزم یا نوآبادیاتی نظام کے بارے میں تھیں ہیں اور ہوں گی کہ ظالم انگریزوں کا ظالم سامراج نہایت ظالمانہ طریقے پر ہمارے وسائل کا استحصال کرکے لے جارہاتھا لیکن ہمارے حریت پسندوں نے قربانی ہزاروں جان کی دے کر ان سے چھٹکارا دلاد یا۔ شکر اﷲ کا پاکستان بچ گیا۔ لیکن آج تک پورے سترسال میں یہ پتہ نہیں لگایا جاسکا کہ استحصالیوں کے چلے جانے کے بعد بھی''سبزہ وگل''کہاں جاتاہے اور یہ خسارے کہاں سے آتے ہیں۔
ہمارے ذہن میں تو بس ایک یہی آئیڈیا آتاہے کہ وہ بڑے شاطر تھے ، جاتے جاتے کوئی ایسی خفیہ سرنگ کھود کرگئے ہیں جس کے ذریعے اب بھی اس کھیت کا سارا پانی نکل کر ان کے پاس پہنچ جاتاہے۔ ہنرمند تو وہ غضب کے تھے، اس لیے سرنگ بھی ایسی کھودی ہوگی کہ کسی کی نہیں نظر پڑتی ہے اور نہ شبہ ہوتاہے اور سرنگ تو یقیناً ہے۔نہ ہوتی تو اب تک یہ کھیت جل تھل ہونا چاہیے تھا کہ وہ پانی بھی ہمارے پاس رہ گیاہے اور اس کے علاوہ بھی پانی کے دھارے آتے ہیں، کھیت میں جاتے ہیں۔لیکن جب اگتاہے تو وہ خسارہ، قرض،سود اور مہنگائی کی صورت میں اگتاہے۔ایسے میں ان دانا دانشوروں ہی سے پوچھنا ہوگا جنھیں کالونیلزم کے ماہرین کہاجاتاہے اور کیا آپ اب بھی ہماری یہ بات نہیں مانیں گے کہ یہ سارے دانا دانشور اور ان کا سارا علم،فلسفے صرف ایک ہی کام کرتے ہیں، اصل مٹھی بھر اشرافیہ استحصالیہ اور حکمرانیہ کی چوریوں سے لوگوں کی نگاہیں کسی اور طرف بھٹکانا۔
''ساڑھے تین سوارب ''خسارے''والے پاکستان بیلوے کی آمدن میں ڈھائی کروڑ روپے کا اضافہ''۔اور آپ تو جانتے ہیں کہ ایک تو اس '' خسارے'' کے لفظ سے ہمیں ''خسرہ''ہوجاتاہے کیونکہ یہ خسرہ ہمارے پورے ملک کے پورے پورے محکموں اور اداروں کو پورا پورا لاحق ہے اور دوسری بات یہ کہ ہماری سمجھ دانی بھی کچھ۔''ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ''ٹائپ کی ہے۔ عیدالفطر پر لوگ عیدمنارہے ہوتے ہیں اور ہم اس ڈر سے کانپ رہے ہوتے ہیں کہ ''روزوں'' کے مہینے کو صرف گیارہ میہنے رہ گئے ہیں۔ چنانچہ اس محکمہ ''بیلولے''کی خبر سے ہمیں اچانک لالوپرشاد یادو کی یاد آنا ضروری تھا کیونکہ''لالو'' نے بھی بھارت کے ریلوے کا وزیر بننے کے بعد ''بیس ہزار کروڑ''کامنافع دیاتھا اور اس کا یہ مقولہ ایک زمانے میں بڑا پاپولر ہواتھا کہ
جب تک سموسے میں ''آلو''رہے گا
بھارت کی سیاست میں''لالو''رہے گا
وہاں کے لیے اور پھر خاص طور پر ریلوے کے لیے تو ''آلو اور لالو''ہی ٹھیک تھے کہ وزیر بھی لالو تھا وہاں کی ریل گاڑیاں بھی لال رنگ کی ہوتی ہیں اور''آلو''بھی آج کل لال رنگ ہی کے ہوتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں سب کچھ ''سبز''ہوتاہے سوائے لالا حویلی کے۔دوسرے یہ کہ ہمارے ہاں سموسے سے زیادہ''کھچڑی''میں آلو ڈالے جاتے ہیں۔خیر سموسہ ہو یا سیاست ایک ہی بات ہے کہ دونوں میں دو دو(س) بھی ہوتے ہیں دونوں تکون بھی ہوتے ہیں البتہ تھوڑا سافرق یہ ہے کہ سموسے میں ''آلو'' ڈالے جاتے ہیں لیکن سیاست میںآلو''کے مد کو جزر کرکے ''شد''میں بدل دیا جاتا ہے۔
ارے ہاں یہ وضاحت سب سے پہلے ضروری ہے کہ اردو کا رسم الخط ہی کچھ ایسا ہے کہ کسی بھی وقت ''آلو'' کا ''مد''گرکر''شد''میں بدل سکتاہے اور آلو کو سبزی کے بجائے ''گوشت''میں بدل سکتاہے بلکہ گوشت خور پرندے میں۔ اس لیے نوٹ کرلیجیے کہ آگے کالم میں جہاں کہیں سیاست میں ''آلو''کا لفظ آئے تو اسے آلو ہی سمجھیے گا چاہے اس کے الف کا''مد''لام کے ''شد''میں کیوں نہ بدل گیا ہو۔ چنانچہ اس غلطی کے لیے ہم نہیں کمپوزر ذمے دار ہوگا، اسے چاہے سزا دے لیجیے۔ہاں ایک اور وضاحت ریلوے اور بیلوے میں بھی ضروری ہے کیونکہ وہاں کا محکمہ ریلوے ریل چلاتا ہے جب کہ ہمارے ہاں بیل اور بیل گاڑی چلانے کا رواج ہے۔
ہاں تو وہ لال ریلوے کے لال ڈبوں والا ''لالو''بڑی ہی دلچسپ شخصیت ہے۔ اس کے تعلق سے ریلوے کو بیلوے کانام سجتاہے۔کیونکہ اس کے بارے میں ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ کسی جگہ وزیروں کو گائیں حوالے کی گئیں یا گائے کو محکمے کا استعارہ سمجھ لیجیے اور ان کے درمیان ''دوہنے'' کا مقابلہ کیاگیا کہ کون زیادہ دودھ دوہے گا،باقی وزیر تو اپنا اپنا دودھ لے کر نکل آئے لیکن لالوپرشاد بدستور کمرے میں تھا۔ آوازیں دے کر بلا لیاگیا تو پسینے سے شرابور اور ہانپتاہوا اور بالٹی میں صرف آدھ سیر دودھ لیے ہوئے۔ساتھ ہی گالیاں بھی دے رہاتھا،کہ کم بختوں نے سب کو گائیں دی تھیں اور مجھے بیل۔دیکھاگیا تو وہ واقعی ''بیل''تھا جس سے لالو نے آدھ سیر دودھ دوہاتھا اور پھر اسی لیے محکمہ ''بیولے'' اس کے حوالے کیاگیا اور اس سے بھی اس نے بیس ہزار کروڑ کا دودھ حاصل کرکے دوبارہ گائے بنادیا۔جب کہ ہمارے ریلوے کو ابھی تک کوئی مائی کا لال لالو نہیں ملا ہے۔
صرف''آلو'' ہی ملتے ہیں(لال حویلی والے سے معذرت کیونکہ انھوں نے بہرحال کچھ نہ کچھ دودھ تو دوھ لیا، ڈھائی کروڑ کا ہی سہی)۔ خیر ''ساڑھے تین سو ارب'' خسارے کی بات نے ایک مرتبہ چونکادیا۔ اور وہ بات ایک مرتبہ پھریاد آئی کہ جس کا اس خبر میں کہیں ذکر تک نہیںہے۔یعنی ہمارے ذہن میں بہت سارے دانا دانشوروں،غلاموں اور ماہرین کی وہ تمام کتابیں اور مضامین پھر کی طرح گھومنے لگے۔ جو کالونیلزم یا نوآبادیاتی نظام کے بارے میں تھیں ہیں اور ہوں گی کہ ظالم انگریزوں کا ظالم سامراج نہایت ظالمانہ طریقے پر ہمارے وسائل کا استحصال کرکے لے جارہاتھا لیکن ہمارے حریت پسندوں نے قربانی ہزاروں جان کی دے کر ان سے چھٹکارا دلاد یا۔ شکر اﷲ کا پاکستان بچ گیا۔ لیکن آج تک پورے سترسال میں یہ پتہ نہیں لگایا جاسکا کہ استحصالیوں کے چلے جانے کے بعد بھی''سبزہ وگل''کہاں جاتاہے اور یہ خسارے کہاں سے آتے ہیں۔
ہمارے ذہن میں تو بس ایک یہی آئیڈیا آتاہے کہ وہ بڑے شاطر تھے ، جاتے جاتے کوئی ایسی خفیہ سرنگ کھود کرگئے ہیں جس کے ذریعے اب بھی اس کھیت کا سارا پانی نکل کر ان کے پاس پہنچ جاتاہے۔ ہنرمند تو وہ غضب کے تھے، اس لیے سرنگ بھی ایسی کھودی ہوگی کہ کسی کی نہیں نظر پڑتی ہے اور نہ شبہ ہوتاہے اور سرنگ تو یقیناً ہے۔نہ ہوتی تو اب تک یہ کھیت جل تھل ہونا چاہیے تھا کہ وہ پانی بھی ہمارے پاس رہ گیاہے اور اس کے علاوہ بھی پانی کے دھارے آتے ہیں، کھیت میں جاتے ہیں۔لیکن جب اگتاہے تو وہ خسارہ، قرض،سود اور مہنگائی کی صورت میں اگتاہے۔ایسے میں ان دانا دانشوروں ہی سے پوچھنا ہوگا جنھیں کالونیلزم کے ماہرین کہاجاتاہے اور کیا آپ اب بھی ہماری یہ بات نہیں مانیں گے کہ یہ سارے دانا دانشور اور ان کا سارا علم،فلسفے صرف ایک ہی کام کرتے ہیں، اصل مٹھی بھر اشرافیہ استحصالیہ اور حکمرانیہ کی چوریوں سے لوگوں کی نگاہیں کسی اور طرف بھٹکانا۔