پہلا گانا ریکارڈ کرانے پر والد سے خوب مار پڑی
کبھی معاوضے کی پروا نہیں کی، اپنی زبان کو فروغ دینا میرا جنون رہا ہے
ہدایت اللہ پشتو کے ان معدودے چند سینئرگلوکاروں میں سے ہیں جنہیں قدرت نے اس انمول اور عظیم خوبی سے نوازا ہے، جسے محبت کی زبان، اور موسیقی کی اصطلاح میں ''سُر'' کہا جاتا ہے۔ ان سے مل کر آپ محبت سنتے، دیکھتے اور پاتے ہیں۔
نیلی آنکھوں اور یونانی ناک نقشہ کے مالک ہدایت اللہ کے مزاج میں تکلف کا شائبہ تک نہیں، عجز و انکساری اور احترام ان کی شخصیت کا مستقل حصہ بن گئے ہیں۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ اور پشتو زبان کے مشہور گلوکار ہدایت اللہ کاآبائی تعلق گاؤں ڈاک بیسود (نوشہرہ) کے ایک زمین دار گھرانے سے ہے۔ ان کے والد سید اللہ خان اپنے گاؤں سے آکر پشاور میں آباد ہوئے اور یہاں ہندکو زبان بولنے والی ایک لڑکی سے شادی کرنے کے بعد پشاور میںمحلہ کوچی خان (ڈبگری) میں اپنے ذاتی مکان میں رہنے لگے جہاں ہدایت اللہ نے 1940ء میں آنکھ کھولی۔
بچپن سے ہی انہیں پڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ گلی محلے کے پڑھنے والے دوسرے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر تختی پر الف، ب، لکھنا سیکھا۔ قلم، دوات اور تختی سے ان کی اس دل چسپی کو دیکھ کر والد نے انہیں ایڈورڈ ہائی سکول پشاور میں داخل کرا دیا، سکول میں ان کے چند ہم جماعت لڑکے آپس میں خوش الحانی کے ساتھ کبھی کوئی گیت اور کبھی نعت پڑھتے اور جب ایک دن ہدایت اللہ نے اپنی مترنم آواز میں نعت پڑھنا شروع کیا تو ان کے تمام ساتھی حیران رہ گئے۔ جن لڑکوں کو موسیقی سے لگاؤ تھا، انہوں نے اپنا ایک گروپ بنایا جس میں ہدایت اللہ بھی شامل ہوگئے، شام کے بعد اپنے اردگرد کے کسی محلے اور گلی کوچے میں بیٹھ کر گانا بجانا شروع کردیتے، سکول میں نعت خوانی اور سٹیج ڈراموں میں بھی اپنی آواز کا جادو جگاتے، ان کی آواز سن کر انہیں اپنے سکول کے پرنسپل نے بھی کہا تھا کہ آپ ایک دن ضرور اچھے گلوکار بنیں گے۔
موسیقی کے ساتھ ساتھ وہ اپنی پڑھائی سے بھی غافل نہیں رہے اور کلاس میں ہمیشہ فرسٹ آتے، اپنی قابلیت کی بنا پر میٹرک تک اپنے کلاس کے مانیٹر بھی رہے۔ وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے کہ انہیں ایک لڑکی سے عشق ہوگیا، یہ عشق دو طرفہ تھا۔ ہدایت اللہ اسے اپنی آواز میں گیت سناتے اور وہ خاموشی سے سنتی رہتی۔ لڑکی کی محبت اور فن گائیکی کے شوق میں مست و سرشار ہدایت اللہ کو اس دن محبت کو اپنی''پختون ولی'' پر قربان کرنا پڑا جب اپنی محبوبہ کے والد سے پختونوں کے بارے میںمنفی باتیں سنیں، یوں یہ محبت پروان چڑھنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔
دوستی کے واسطے یہ بھی ضروری تو نہیں
ایک جیسی منزلیں ہوں، ایک جیسا راستہ
اس غم اور فراق میں اگر ہدایت اللہ کو کسی نے سہارا دیا تو یہی سر سنگیت ہی تھا۔ اس زمانے میں ہندوستانی فلمیں ہوا کرتی تھیں اور ہدایت اللہ گھر والوں سے چوری چھپے فلمیں دیکھا کرتے تھے مگر جس دن انہوں نے فلم''بیجو باورا''دیکھی اور اس میں محمدرفیع کی آواز میں ''تو گنگا کی موج، میں جمنا کا دھارا، ہورہے گا ملن، یہ ہمارا تمہارا'' اور دیگر نغمے سنے تو اس آواز اور موسیقی نے ہدایت اللہ کو اتنا متاثر کیا کہ آج تک اس سحر سے باہر نہیں نکل سکے۔ علم موسیقی سے شناسائی حاصل کرنے کے لیے وہ چند مہینے اس زمانے کے مشہور موسیقار اورہارمونیم بنانے والے کاریگر استاد عندلیب کے شاگرد بھی رہے، جو ہندوستان کے مشہور گلوکار اور موسیقار جی ایم درانی کے والد تھے۔ چند مہینوں تک ان سے کسب فیض کیا۔
چوں کہ استاد عندلیب اپنی ضعیف العمری کی وجہ سے جلد فوت ہوئے اس لیے ہدایت اللہ کے ساتھی گلوکار خالد ملک حیدر نے ہندوستان سے نامور ماہر موسیقی بھارت کھنڈے کی کتابیں منگوائیں مگر وہ انگریزی اور ہندی میں لکھی گئی تھیں، اس لیے ان کے پلے نہیں پڑیں۔ خالد ملک نے ایک استاد کو معاوضہ دے کر ان سے وہ کتابیں اردو میں ترجمہ کروائیں جس سے وہ موسیقی کے اہم اور بنیادی رموز و اشاروں سے واقف ہوئے۔
انہوں نے دوران تعلیم سوائے سٹیج ڈراموں کے دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میںکبھی دل چسپی نہیں لی اور اپنی تمام تر توجہ فن گائیکی پر مرکوز رکھی۔ 1958ء میں ایڈورڈ ہائی سکول سے میٹرک کرنے کے بعد غربت کی وجہ سے مزید تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور محکمہ زراعت میں بطور کلرک ملازمت اختیار کرلی۔ ان کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنی پوری کی پوری پہلی تنخواہ اپنے والد کے ہاتھ پر رکھیں مگر ان کا یہ ارمان اس وقت حسرت میں بدل گیا جب ان کی پہلی تنخواہ سے چند دن قبل ان کے والد اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ آج بھی اپنے والدین کا ذکرکرتے ہوئے بچوں کی طرح رونے لگتے ہیں۔
ملازمت کے ساتھ ساتھ انہوں نے گائیکی کا شوق بھی جاری رکھا۔ اس زمانے میں 'ہیزماسٹرز وائس' کمپنی کا ایک گروپ لاہور سے آتا رہتا تھا اور یہاں کے مرد و خواتین گلوکاروں کی آواز میں گراموفون سے گیت ریکارڈ کرتا۔ ایک روز ہدایت اللہ کو پشتو کے گلوکار رحمان گل (جو پشتو زبان کے معروف گلوکار خیال محمد کے ماموں تھے) اس گروپ کے پاس لے گئے مگر اس کے مینجر الطاف نے معذرت کی کہ ہمارا کوٹہ پورا ہوچکا، اس لیے ہم کسی نئے لڑکے کی آواز کو ریکارڈ کرنے کا رسک نہیں لے سکتے مگر رحمان گل کے بار بار اصرار پر وہ بادل نخواستہ صرف ایک گیت ریکارڈ کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے اور جیسے ہی ہدایت اللہ، فدا مطہر کا لکھا ہوا یہ گیت گانے لگے: ''ڈیر ژڑیدلے یمہ، ڈیر کڑیدلے یمہ ستا سترگو خوڑلے یمہ'' تو مینجر الطاف اپنی چارپائی سے اٹھے اور رحمان گل سے کہا کہ یہ آواز کہاں سے ڈھونڈ لائے ہو؟ پھر ہدایت اللہ کی آواز میں دوسرا گیت بھی ریکارڈ کیا گیا۔
'ہیزماسٹرز وائس' کمپنی جس گلوکار کی آواز میں بھی گیت ریکارڈ کرتی تو بعد میں اس کی ایک کاپی اس گلوکار کو بھی بجھواتی۔ اس وقت تک ہدایت اللہ کے گھر والوں کو ان کی گائیکی کا علم نہیں تھا، جب کہ وہ سارا دن انہی پروگراموں میں مصروف رہتے۔ اتفاق سے ایک دن ڈاکیا بڑا لفافہ دے گیا تو گھر میں ان کے والد اور چچا بھی موجود تھے جن کے سامنے لفافہ کھولا تو اس میں گراموفون کا ریکارڈ تھا۔ ان کے ہاتھ میں ریکارڈ دیکھ کر والد نے صفائی کا موقع دیئے بغیر مار مار کر ان کا وہ حشر کر دیا جس کو یاد کرنے پر وہ آج بھی لرز اٹھتے ہیں۔ خدا بھلا کرے ان کے چچاؤں کا کہ انہوں نے اپنے بھائی اور ہدایت اللہ کے والد کو سمجھایا کہ اس سے نہ تو ان کی ذات نسل تبدیل ہو جائے گی اور نہ اس سے کوئی میراثی بنتا ہے۔ ہاں اگر اس نے سرعام کہیں اپنے کندھے میں ہارمونیم ڈال کر گانے کی کوشش کی تو پھر دیکھا جائے گا۔ ان کی آواز میں وہ ریکارڈ جب مارکیٹ میں آیا تو لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
اس طرح جب ریڈیو پاکستان پشاور کے اس وقت کے پروڈیوسر ارباب عبدالودود نے یہ خوب صورت آواز سنی تو انہوں نے ہدایت اللہ کی تلاش اور دوسروں سے ان کا اتا پتا معلوم کرنا شروع کردیا۔ تقریباً ایک مہینے کی تلاش کے بعد پشتو زبان کے نام ور گلوکار و موسیقار مرحوم رفیق شنواری انہیں ریڈیو پاکستان پشاور لے گئے اور پہلا گیت ''سنگہ چہ زما د اشنا سترگے دی'' براہ راست پیش کیا گیا کیوں کہ اس زمانے میں ریکارڈنگ کا نظام ابھی متعارف نہیں ہوا تھا۔ ہدایت اللہ اپنی ایک پرانی سائیکل پر صبح، دوپہر اور شام ریڈیو اسٹیشن آیا کرتے اور براہ راست پروگرام پیش کیا کرتے۔ چوں کہ وہ سرکاری ملازم تھے اس لیے انہیں اپنے دیگر گلوکار ساتھیوں کے مقابلے میں بہت کم معاوضہ (بیس روپے) ملتا۔ بہت کم وقت میں ان کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی جس کی وجہ سے انہیں پاکستان ٹیلی ویژن چکلالہ سے بھی بلاوا آیا، وہ ہر ہفتہ پشاور سے راولپنڈی جاتے اور وہاں بھی براہ راست پروگرام پیش کرتے۔
ہدایت اللہ نے کبھی معاوضے کی پروا نہیں کی بلکہ ان پر ہمیشہ اپنی زبان پشتو کی ترقی اور ترویج کا جنون سوار رہا ہے۔ اکثر پروگراموں میں بغیر کسی معاوضے کے شریک ہو جاتے۔ جس وقت ان کی آواز کا شہرہ کراچی میں بننے والی پشتو کی فلم ''یوسف خان شیربانو'' کے فلم ساز اور ڈائریکٹر عزیز تبسم تک پہنچا تو انہوں نے اس فلم کے لیے ہدایت اللہ کی آواز میں صرف ایک گانا ریکارڈ کرنے کے لیے انہیں دو بار ٹیلی گرام کرکے کراچی آنے کی دعوت دی۔ وہاں جاکر جب ہدایت اللہ نے اس فلم کے لیے پشتو زبان کے معروف عوامی شاعر علی حیدر جوشی کا لکھا ہوا یہ گیت''خکلے دے وطن زمونگ'' ریکارڈ کروایا تو ہدایت اللہ کی سریلی آوازکو دیکھتے ہوئے فلم کے میوزک ڈائریکٹر لعل محمد اقبال اور عزیز تبسم فلم کے آخری سین کے لیے ہدایت اللہ کی آواز میں دوسرا نغمہ بھی ریکارڈ کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور علی حیدر جوشی سے ''راشہ او راشہ خوشے میدان دے سلگئی مے راغلے روح مے روان دے'' جیسا فلم کا مشہور گیت لکھوایا۔
اس گیت کی طرز خود بنانے کے لیے ہدایت اللہ ساری رات ہوٹل کے کمرے میں بغیر کسی آلہ موسیقی کے ریاضت کرتے رہے اور جب صبح انہوں نے فلم کے میوزیک ڈائریکٹر لعل محمد کے سامنے اپنی بنائی ہوئی طرز میں گانا شروع کیا تو پورا سٹوڈیو تالیوں اور واہ واہ کی آواز سے گونج اٹھا۔
گائیکی سے فارغ ہونے کے بعد جب عزیز تبسم ان کی جیب میں دوسو روپے معاوضہ ڈالنے لگے تو انہوں نے معاوضہ لینے سے اس لیے انکار کردیا کہ یہ ہماری زبان کی پہلی فلم ہے اور مجھ پر بھی اپنی زبان کا کچھ حق بنتا ہے۔ عزیز تبسم نے جب ان کے اس جذبے کو دیکھا تو انہیں کہا کہ یہ آپ کا معاوضہ نہیں بلکہ آپ کو اتنی اچھی گائیکی پر ہم انعام دینا چاہتے ہیں، تب ہدایت اللہ نے وہ دوسو روپے قبول کیے۔ پشتو کے علاوہ انہیں ہندکو زبان میں بننے والی پہلی اور اس وقت تک آخری فلم ''قصہ خوانی'' میں بھی گانے کا اعزاز حاصل ہے، جس کے گیت اردو زبان کے معروف شاعر قتیل شفائی نے لکھے تھے۔
ہدایت اللہ کی آواز میں اس فلم کے اس گیت نے اتنی شہرت حاصل کی کہ آج بھی ہندکو زبان بولنے اور سمجھنے والے چھوٹے بڑے جب بھی ان کی آواز میں''قصہ خانی دے وچ کار عجب لیر ہوندھیے''سنتے ہیں تو ان کے قدم رک جاتے ہیں۔ انہیں افغانستان میں اس وقت کے بادشاہ ظاہرشاہ نے اپنے ذاتی محل ''دلکشا'' میں اپنی آواز کا جادو جگانے کے لیے خصوصی د عوت دی اور وہاں سے واپسی پر ان کو ڈھیر سارے تحائف سے بھی نوازا۔ انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے 1997ء میں صدر فاروق احمد خان لغاری کے صدور میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا ہے۔
ہدایت اللہ نے پہلی شادی 1962ء میں اپنی والدہ کی مرضی سے کی جس سے ان کے پانچ بچے، تین بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے جبکہ 2000 ء میں انہیں مجبوراً اس لڑکی سے شادی کرنا پڑی جس کے بارے میں ان کے اپنے گھر میں یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ ان دونوں میں محبت کا رشتہ پروان چڑھ رہا ہے۔ اپنا گھر اپنے بیٹوں کے نام کرکے گھر، بیوی بچے چھوڑ کر اپنی دوسری بیوی کے ساتھ شہر میں کرائے کے مکان میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خدا نے انہیں نیک سیرت بیوی دی ہے اور جتنی مطمئن زندگی آج گزار رہے ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں گزاری۔ محکمہ زراعت میں 25 سال ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوگئے اور اپنی جگہ اپنے بڑے بیٹے کو بھرتی کروایا، اس کے بعد سارا وقت فن گائیکی کو دینے لگے۔
وہ ناروے، سویڈن اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ امریکا میں بھی میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ شہروں میں انہیں نیو یارک بہت پسند ہے۔ خوراک میں چاول اور گوشت ان کا من بھاتا کھاجا ہے، سیاسی شخصیات اور ملکی حکم رانوں میں وہ ذوالفقار علی بھٹو کو سب سے زیادہ ذہین سیاستدان اور بہترین حکمران سمجھتے ہیں۔ اداکاروں میں دلیپ کمار اور مدھوبالا کی اداکاری سے متاثر ہیں۔ فارغ وقت میں میلوں پیدل چلنا ان کا محبوب مشغلہ رہا۔ شاعروں میں امیر حمزہ شنواری اور قتیل شفائی ان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔
پشتو کے علاوہ فارسی، ہندکو، اردو اور بنگالی زبان میں بھی بے شمار گیت گا چکے ہیں۔ پشتو کے گلوکاروں اور موسیقاروں میں رفیق شنواری جب کہ اردو کے گلوکاروں میں محمد رفیع کی آواز سے بے حد متاثر ہیں۔ 'یوسف خان شیر بانو' کے علاوہ انہوں نے 'آدم خان درخانئی'، 'دپختون تورا' اور 'کوچوان' جیسی کامیاب فلموں کے لیے بھی گیت گائے۔ فلم 'کوچوان' میں ان کی آواز میں''منزل دٹولو یودے خو سفر جدا جدا'' آج بھی لوگ بڑے شوق سے سنتے ہیں۔ فلم ''اوربل'' میں ان کے گائے گیت ''یمہ د ٹرک ڈرائیور'' سے عالم گیر شہرت حاصل کی۔ دوران سفر پہاڑ اور جنگلوںکے نظاروں سے خوب لطف اٹھاتے ہیں۔ اب تک صدارتی ایوارڈ کے علاوہ انہیں تاترہ، رفیق شنواری، گندھارا، پولیس، یوم تکبیر، خیبر، الشیخ اور سرحد ایوارڈز دیے گئے ہیں۔
بے بسی کی تصویر بنے نامور گائیک کسی مسیحا کے منتظر
انہیں اب کچھ بھی یاد نہیں کہ ان کا حافظہ بالکل کام چھوڑگیا ہے، وہ اب لاچاری،خاموشی اور بے بسی کی تصویر بنے ہوئے بستر پر پڑے ہوئے ہیں۔ وہ جادو بھری آواز جس نے پہلی پشتو فلم''یوسف خان شیربانو''کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا، وہ آواز جو اب بھی پرانے پشاوریوں کے کانوں میں رس گھولتی ہے: ''قصہ خوانی دی وچ کار عجب لیر ہوندی اے'' ہاں یہ آواز پشتو کے معروف صدارتی ایوارڈ یافتہ گلوکار ہدایت اللہ کی ہے جو آج کل بسترعلالت پر لاچاری کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس جتنی جمع پونجی تھی وہ علاج کی نذر ہوگئی ہے، پشتو کے اتنے بڑے گلوکار آج کسمپرسی کی حالت میں ایک تنگ وتاریک گھر کی چاردیواری میں بستر علالت پر پڑے کسی مسیحا کی راہ تک رہے ہیں۔ یہ توبھلا ہو افغانستان کے موجودہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا کہ ان کی خصوصی ہدایت پر گزشتہ دنوں ہدایت اللہ کے علاج معالجے کے لیے دو لاکھ روپے کا چیک ان کی بیگم کو پہنچا دیا گیا۔
نیلی آنکھوں اور یونانی ناک نقشہ کے مالک ہدایت اللہ کے مزاج میں تکلف کا شائبہ تک نہیں، عجز و انکساری اور احترام ان کی شخصیت کا مستقل حصہ بن گئے ہیں۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ اور پشتو زبان کے مشہور گلوکار ہدایت اللہ کاآبائی تعلق گاؤں ڈاک بیسود (نوشہرہ) کے ایک زمین دار گھرانے سے ہے۔ ان کے والد سید اللہ خان اپنے گاؤں سے آکر پشاور میں آباد ہوئے اور یہاں ہندکو زبان بولنے والی ایک لڑکی سے شادی کرنے کے بعد پشاور میںمحلہ کوچی خان (ڈبگری) میں اپنے ذاتی مکان میں رہنے لگے جہاں ہدایت اللہ نے 1940ء میں آنکھ کھولی۔
بچپن سے ہی انہیں پڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ گلی محلے کے پڑھنے والے دوسرے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر تختی پر الف، ب، لکھنا سیکھا۔ قلم، دوات اور تختی سے ان کی اس دل چسپی کو دیکھ کر والد نے انہیں ایڈورڈ ہائی سکول پشاور میں داخل کرا دیا، سکول میں ان کے چند ہم جماعت لڑکے آپس میں خوش الحانی کے ساتھ کبھی کوئی گیت اور کبھی نعت پڑھتے اور جب ایک دن ہدایت اللہ نے اپنی مترنم آواز میں نعت پڑھنا شروع کیا تو ان کے تمام ساتھی حیران رہ گئے۔ جن لڑکوں کو موسیقی سے لگاؤ تھا، انہوں نے اپنا ایک گروپ بنایا جس میں ہدایت اللہ بھی شامل ہوگئے، شام کے بعد اپنے اردگرد کے کسی محلے اور گلی کوچے میں بیٹھ کر گانا بجانا شروع کردیتے، سکول میں نعت خوانی اور سٹیج ڈراموں میں بھی اپنی آواز کا جادو جگاتے، ان کی آواز سن کر انہیں اپنے سکول کے پرنسپل نے بھی کہا تھا کہ آپ ایک دن ضرور اچھے گلوکار بنیں گے۔
موسیقی کے ساتھ ساتھ وہ اپنی پڑھائی سے بھی غافل نہیں رہے اور کلاس میں ہمیشہ فرسٹ آتے، اپنی قابلیت کی بنا پر میٹرک تک اپنے کلاس کے مانیٹر بھی رہے۔ وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے کہ انہیں ایک لڑکی سے عشق ہوگیا، یہ عشق دو طرفہ تھا۔ ہدایت اللہ اسے اپنی آواز میں گیت سناتے اور وہ خاموشی سے سنتی رہتی۔ لڑکی کی محبت اور فن گائیکی کے شوق میں مست و سرشار ہدایت اللہ کو اس دن محبت کو اپنی''پختون ولی'' پر قربان کرنا پڑا جب اپنی محبوبہ کے والد سے پختونوں کے بارے میںمنفی باتیں سنیں، یوں یہ محبت پروان چڑھنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔
دوستی کے واسطے یہ بھی ضروری تو نہیں
ایک جیسی منزلیں ہوں، ایک جیسا راستہ
اس غم اور فراق میں اگر ہدایت اللہ کو کسی نے سہارا دیا تو یہی سر سنگیت ہی تھا۔ اس زمانے میں ہندوستانی فلمیں ہوا کرتی تھیں اور ہدایت اللہ گھر والوں سے چوری چھپے فلمیں دیکھا کرتے تھے مگر جس دن انہوں نے فلم''بیجو باورا''دیکھی اور اس میں محمدرفیع کی آواز میں ''تو گنگا کی موج، میں جمنا کا دھارا، ہورہے گا ملن، یہ ہمارا تمہارا'' اور دیگر نغمے سنے تو اس آواز اور موسیقی نے ہدایت اللہ کو اتنا متاثر کیا کہ آج تک اس سحر سے باہر نہیں نکل سکے۔ علم موسیقی سے شناسائی حاصل کرنے کے لیے وہ چند مہینے اس زمانے کے مشہور موسیقار اورہارمونیم بنانے والے کاریگر استاد عندلیب کے شاگرد بھی رہے، جو ہندوستان کے مشہور گلوکار اور موسیقار جی ایم درانی کے والد تھے۔ چند مہینوں تک ان سے کسب فیض کیا۔
چوں کہ استاد عندلیب اپنی ضعیف العمری کی وجہ سے جلد فوت ہوئے اس لیے ہدایت اللہ کے ساتھی گلوکار خالد ملک حیدر نے ہندوستان سے نامور ماہر موسیقی بھارت کھنڈے کی کتابیں منگوائیں مگر وہ انگریزی اور ہندی میں لکھی گئی تھیں، اس لیے ان کے پلے نہیں پڑیں۔ خالد ملک نے ایک استاد کو معاوضہ دے کر ان سے وہ کتابیں اردو میں ترجمہ کروائیں جس سے وہ موسیقی کے اہم اور بنیادی رموز و اشاروں سے واقف ہوئے۔
انہوں نے دوران تعلیم سوائے سٹیج ڈراموں کے دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میںکبھی دل چسپی نہیں لی اور اپنی تمام تر توجہ فن گائیکی پر مرکوز رکھی۔ 1958ء میں ایڈورڈ ہائی سکول سے میٹرک کرنے کے بعد غربت کی وجہ سے مزید تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور محکمہ زراعت میں بطور کلرک ملازمت اختیار کرلی۔ ان کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنی پوری کی پوری پہلی تنخواہ اپنے والد کے ہاتھ پر رکھیں مگر ان کا یہ ارمان اس وقت حسرت میں بدل گیا جب ان کی پہلی تنخواہ سے چند دن قبل ان کے والد اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ آج بھی اپنے والدین کا ذکرکرتے ہوئے بچوں کی طرح رونے لگتے ہیں۔
ملازمت کے ساتھ ساتھ انہوں نے گائیکی کا شوق بھی جاری رکھا۔ اس زمانے میں 'ہیزماسٹرز وائس' کمپنی کا ایک گروپ لاہور سے آتا رہتا تھا اور یہاں کے مرد و خواتین گلوکاروں کی آواز میں گراموفون سے گیت ریکارڈ کرتا۔ ایک روز ہدایت اللہ کو پشتو کے گلوکار رحمان گل (جو پشتو زبان کے معروف گلوکار خیال محمد کے ماموں تھے) اس گروپ کے پاس لے گئے مگر اس کے مینجر الطاف نے معذرت کی کہ ہمارا کوٹہ پورا ہوچکا، اس لیے ہم کسی نئے لڑکے کی آواز کو ریکارڈ کرنے کا رسک نہیں لے سکتے مگر رحمان گل کے بار بار اصرار پر وہ بادل نخواستہ صرف ایک گیت ریکارڈ کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے اور جیسے ہی ہدایت اللہ، فدا مطہر کا لکھا ہوا یہ گیت گانے لگے: ''ڈیر ژڑیدلے یمہ، ڈیر کڑیدلے یمہ ستا سترگو خوڑلے یمہ'' تو مینجر الطاف اپنی چارپائی سے اٹھے اور رحمان گل سے کہا کہ یہ آواز کہاں سے ڈھونڈ لائے ہو؟ پھر ہدایت اللہ کی آواز میں دوسرا گیت بھی ریکارڈ کیا گیا۔
'ہیزماسٹرز وائس' کمپنی جس گلوکار کی آواز میں بھی گیت ریکارڈ کرتی تو بعد میں اس کی ایک کاپی اس گلوکار کو بھی بجھواتی۔ اس وقت تک ہدایت اللہ کے گھر والوں کو ان کی گائیکی کا علم نہیں تھا، جب کہ وہ سارا دن انہی پروگراموں میں مصروف رہتے۔ اتفاق سے ایک دن ڈاکیا بڑا لفافہ دے گیا تو گھر میں ان کے والد اور چچا بھی موجود تھے جن کے سامنے لفافہ کھولا تو اس میں گراموفون کا ریکارڈ تھا۔ ان کے ہاتھ میں ریکارڈ دیکھ کر والد نے صفائی کا موقع دیئے بغیر مار مار کر ان کا وہ حشر کر دیا جس کو یاد کرنے پر وہ آج بھی لرز اٹھتے ہیں۔ خدا بھلا کرے ان کے چچاؤں کا کہ انہوں نے اپنے بھائی اور ہدایت اللہ کے والد کو سمجھایا کہ اس سے نہ تو ان کی ذات نسل تبدیل ہو جائے گی اور نہ اس سے کوئی میراثی بنتا ہے۔ ہاں اگر اس نے سرعام کہیں اپنے کندھے میں ہارمونیم ڈال کر گانے کی کوشش کی تو پھر دیکھا جائے گا۔ ان کی آواز میں وہ ریکارڈ جب مارکیٹ میں آیا تو لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
اس طرح جب ریڈیو پاکستان پشاور کے اس وقت کے پروڈیوسر ارباب عبدالودود نے یہ خوب صورت آواز سنی تو انہوں نے ہدایت اللہ کی تلاش اور دوسروں سے ان کا اتا پتا معلوم کرنا شروع کردیا۔ تقریباً ایک مہینے کی تلاش کے بعد پشتو زبان کے نام ور گلوکار و موسیقار مرحوم رفیق شنواری انہیں ریڈیو پاکستان پشاور لے گئے اور پہلا گیت ''سنگہ چہ زما د اشنا سترگے دی'' براہ راست پیش کیا گیا کیوں کہ اس زمانے میں ریکارڈنگ کا نظام ابھی متعارف نہیں ہوا تھا۔ ہدایت اللہ اپنی ایک پرانی سائیکل پر صبح، دوپہر اور شام ریڈیو اسٹیشن آیا کرتے اور براہ راست پروگرام پیش کیا کرتے۔ چوں کہ وہ سرکاری ملازم تھے اس لیے انہیں اپنے دیگر گلوکار ساتھیوں کے مقابلے میں بہت کم معاوضہ (بیس روپے) ملتا۔ بہت کم وقت میں ان کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی جس کی وجہ سے انہیں پاکستان ٹیلی ویژن چکلالہ سے بھی بلاوا آیا، وہ ہر ہفتہ پشاور سے راولپنڈی جاتے اور وہاں بھی براہ راست پروگرام پیش کرتے۔
ہدایت اللہ نے کبھی معاوضے کی پروا نہیں کی بلکہ ان پر ہمیشہ اپنی زبان پشتو کی ترقی اور ترویج کا جنون سوار رہا ہے۔ اکثر پروگراموں میں بغیر کسی معاوضے کے شریک ہو جاتے۔ جس وقت ان کی آواز کا شہرہ کراچی میں بننے والی پشتو کی فلم ''یوسف خان شیربانو'' کے فلم ساز اور ڈائریکٹر عزیز تبسم تک پہنچا تو انہوں نے اس فلم کے لیے ہدایت اللہ کی آواز میں صرف ایک گانا ریکارڈ کرنے کے لیے انہیں دو بار ٹیلی گرام کرکے کراچی آنے کی دعوت دی۔ وہاں جاکر جب ہدایت اللہ نے اس فلم کے لیے پشتو زبان کے معروف عوامی شاعر علی حیدر جوشی کا لکھا ہوا یہ گیت''خکلے دے وطن زمونگ'' ریکارڈ کروایا تو ہدایت اللہ کی سریلی آوازکو دیکھتے ہوئے فلم کے میوزک ڈائریکٹر لعل محمد اقبال اور عزیز تبسم فلم کے آخری سین کے لیے ہدایت اللہ کی آواز میں دوسرا نغمہ بھی ریکارڈ کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور علی حیدر جوشی سے ''راشہ او راشہ خوشے میدان دے سلگئی مے راغلے روح مے روان دے'' جیسا فلم کا مشہور گیت لکھوایا۔
اس گیت کی طرز خود بنانے کے لیے ہدایت اللہ ساری رات ہوٹل کے کمرے میں بغیر کسی آلہ موسیقی کے ریاضت کرتے رہے اور جب صبح انہوں نے فلم کے میوزیک ڈائریکٹر لعل محمد کے سامنے اپنی بنائی ہوئی طرز میں گانا شروع کیا تو پورا سٹوڈیو تالیوں اور واہ واہ کی آواز سے گونج اٹھا۔
گائیکی سے فارغ ہونے کے بعد جب عزیز تبسم ان کی جیب میں دوسو روپے معاوضہ ڈالنے لگے تو انہوں نے معاوضہ لینے سے اس لیے انکار کردیا کہ یہ ہماری زبان کی پہلی فلم ہے اور مجھ پر بھی اپنی زبان کا کچھ حق بنتا ہے۔ عزیز تبسم نے جب ان کے اس جذبے کو دیکھا تو انہیں کہا کہ یہ آپ کا معاوضہ نہیں بلکہ آپ کو اتنی اچھی گائیکی پر ہم انعام دینا چاہتے ہیں، تب ہدایت اللہ نے وہ دوسو روپے قبول کیے۔ پشتو کے علاوہ انہیں ہندکو زبان میں بننے والی پہلی اور اس وقت تک آخری فلم ''قصہ خوانی'' میں بھی گانے کا اعزاز حاصل ہے، جس کے گیت اردو زبان کے معروف شاعر قتیل شفائی نے لکھے تھے۔
ہدایت اللہ کی آواز میں اس فلم کے اس گیت نے اتنی شہرت حاصل کی کہ آج بھی ہندکو زبان بولنے اور سمجھنے والے چھوٹے بڑے جب بھی ان کی آواز میں''قصہ خانی دے وچ کار عجب لیر ہوندھیے''سنتے ہیں تو ان کے قدم رک جاتے ہیں۔ انہیں افغانستان میں اس وقت کے بادشاہ ظاہرشاہ نے اپنے ذاتی محل ''دلکشا'' میں اپنی آواز کا جادو جگانے کے لیے خصوصی د عوت دی اور وہاں سے واپسی پر ان کو ڈھیر سارے تحائف سے بھی نوازا۔ انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے 1997ء میں صدر فاروق احمد خان لغاری کے صدور میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا ہے۔
ہدایت اللہ نے پہلی شادی 1962ء میں اپنی والدہ کی مرضی سے کی جس سے ان کے پانچ بچے، تین بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے جبکہ 2000 ء میں انہیں مجبوراً اس لڑکی سے شادی کرنا پڑی جس کے بارے میں ان کے اپنے گھر میں یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ ان دونوں میں محبت کا رشتہ پروان چڑھ رہا ہے۔ اپنا گھر اپنے بیٹوں کے نام کرکے گھر، بیوی بچے چھوڑ کر اپنی دوسری بیوی کے ساتھ شہر میں کرائے کے مکان میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خدا نے انہیں نیک سیرت بیوی دی ہے اور جتنی مطمئن زندگی آج گزار رہے ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں گزاری۔ محکمہ زراعت میں 25 سال ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوگئے اور اپنی جگہ اپنے بڑے بیٹے کو بھرتی کروایا، اس کے بعد سارا وقت فن گائیکی کو دینے لگے۔
وہ ناروے، سویڈن اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ امریکا میں بھی میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ شہروں میں انہیں نیو یارک بہت پسند ہے۔ خوراک میں چاول اور گوشت ان کا من بھاتا کھاجا ہے، سیاسی شخصیات اور ملکی حکم رانوں میں وہ ذوالفقار علی بھٹو کو سب سے زیادہ ذہین سیاستدان اور بہترین حکمران سمجھتے ہیں۔ اداکاروں میں دلیپ کمار اور مدھوبالا کی اداکاری سے متاثر ہیں۔ فارغ وقت میں میلوں پیدل چلنا ان کا محبوب مشغلہ رہا۔ شاعروں میں امیر حمزہ شنواری اور قتیل شفائی ان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔
پشتو کے علاوہ فارسی، ہندکو، اردو اور بنگالی زبان میں بھی بے شمار گیت گا چکے ہیں۔ پشتو کے گلوکاروں اور موسیقاروں میں رفیق شنواری جب کہ اردو کے گلوکاروں میں محمد رفیع کی آواز سے بے حد متاثر ہیں۔ 'یوسف خان شیر بانو' کے علاوہ انہوں نے 'آدم خان درخانئی'، 'دپختون تورا' اور 'کوچوان' جیسی کامیاب فلموں کے لیے بھی گیت گائے۔ فلم 'کوچوان' میں ان کی آواز میں''منزل دٹولو یودے خو سفر جدا جدا'' آج بھی لوگ بڑے شوق سے سنتے ہیں۔ فلم ''اوربل'' میں ان کے گائے گیت ''یمہ د ٹرک ڈرائیور'' سے عالم گیر شہرت حاصل کی۔ دوران سفر پہاڑ اور جنگلوںکے نظاروں سے خوب لطف اٹھاتے ہیں۔ اب تک صدارتی ایوارڈ کے علاوہ انہیں تاترہ، رفیق شنواری، گندھارا، پولیس، یوم تکبیر، خیبر، الشیخ اور سرحد ایوارڈز دیے گئے ہیں۔
بے بسی کی تصویر بنے نامور گائیک کسی مسیحا کے منتظر
انہیں اب کچھ بھی یاد نہیں کہ ان کا حافظہ بالکل کام چھوڑگیا ہے، وہ اب لاچاری،خاموشی اور بے بسی کی تصویر بنے ہوئے بستر پر پڑے ہوئے ہیں۔ وہ جادو بھری آواز جس نے پہلی پشتو فلم''یوسف خان شیربانو''کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا، وہ آواز جو اب بھی پرانے پشاوریوں کے کانوں میں رس گھولتی ہے: ''قصہ خوانی دی وچ کار عجب لیر ہوندی اے'' ہاں یہ آواز پشتو کے معروف صدارتی ایوارڈ یافتہ گلوکار ہدایت اللہ کی ہے جو آج کل بسترعلالت پر لاچاری کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس جتنی جمع پونجی تھی وہ علاج کی نذر ہوگئی ہے، پشتو کے اتنے بڑے گلوکار آج کسمپرسی کی حالت میں ایک تنگ وتاریک گھر کی چاردیواری میں بستر علالت پر پڑے کسی مسیحا کی راہ تک رہے ہیں۔ یہ توبھلا ہو افغانستان کے موجودہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا کہ ان کی خصوصی ہدایت پر گزشتہ دنوں ہدایت اللہ کے علاج معالجے کے لیے دو لاکھ روپے کا چیک ان کی بیگم کو پہنچا دیا گیا۔