مئی میں افراط زر کی شرح بڑھ کر91 فیصد ہوگئی

اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ بڑھا کر 12.25فیصد کرنے کے اقدام پر سوالیہ نشان

جولائی میں نئے ٹیکس لگنے کے بعد افراط زر کی شرح دہرے ہندسوں میں داخل ہوسکتی ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
مئی میں افراط زر کی شرح بڑھ کر 9.1 فیصد کی سطح تک پہنچ گئی جس سے اسٹیٹ بینک کی جانب سے آئی ایم ایف کی ایک شرط کو پورا کرنے کے لیے ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھا کر 12.25فیصد کرنے کے اقدام پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق کور انفلیشن بھی مئی میں بڑھ کر 7.2 فیصد ہوگیا جو اپریل میں 7 فیصد تھا۔ اسٹیٹ بینک مانیٹری پالیسی کے فیصلے سال بہ سال کور انفلیشن کی شرح کی بنیاد پر کرتا ہے۔ 21 مئی سے مرکزی بینک نے ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھا کر 12.25فیصد کردیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس فیصلے کو بے وقتی اور آئی ایم ایف کے دبائو کا نتیجہ قرار دیا تھا۔

ڈسکائونٹ ریٹ میں آخری اضافے کے بعد اسٹیٹ بینک نے جنوری کے بعد سے شرح سود میں 6.5 فیصد اضافہ جس کا مقصد معیشت میں مجموعی طلب میں کمی لانا تھا۔ گذشتہ برس مئی میں کور انفلیشن ریٹ 7 فیصد اور ڈسکائوٹ ریٹ 6 فیصد تھا۔ اس سال مئی میں کور انفلیشن تقریباً وہی ہے مگر شرح سود دگنی ہوگئی ہے جس نے مرکزی بینک کی خودمختاری پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔


شرح سود بڑھانے کے مرکزی بینک کے فیصلے نے ڈیٹ سروسنگ کی مد میں قومی خزانے پر بوجھ بڑھادیا ہے جو ٹوٹل بجٹ کے 40 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ بلند شرح سود نے پرائیویٹ سیکٹر کے قرضے مہنگے بنادیے ہیں جس کا روزگار کے مواقع کی پیدائش پر منفی اثر پڑے گا۔

رواں مالی سال کے ابتدائی 11 ماہ کے دوران اوسط افراط زر گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 7.2فیصد کی سطح پر پہنچ گیا۔ افراط زر حکومت کے سالانہ ہدف سے زائد مگر مرکزی بینک کی دی گئی رینج کے قریب ہے۔

حکومت کی جانب سے جولائی سے گیس، بجلی، ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اور نئے ٹیکسوں کا نفاذ متوقع ہے جس کے نتیجے میں افراط زر کی شرح دہرے ہندسوں میں داخل ہوسکتی ہے۔
Load Next Story