واہ رے غریب تیری عید نہ بدلی
زمانہ بدل گیا، انداز بدل گئے، زندگی کے طور طریقوں میں فرق آگیا، لیکن نہیں آیا تو غریب کی عید میں کوئی فرق نہ آیا
ISLAMABAD:
عید کے وہ دن کتنے اچھے ہوا کرتے تھے جب رنگ برنگے آنچل لہلاتے تھے، بازار چاند رات تو کیا رمضان کے آخری عشرے میں ہی سجنا شروع ہوتے تھے۔ کہیں عید کارڈز کے اسٹالوں پر رش دکھائی دیتا تھا، تو کہیں چوڑیاں اور مہندی اپنی بہار دکھاتی تھیں۔ بھائو تائو کرتے خواتین وحضرات پرانے دور کی ایک خوبصورتی کا نام ہوا کرتا تھا۔
کہیں نوجوان لڑکوں کے شوخ نعروں اور لڑکیوں کے شور شرابے کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، تو کہیں عیدی کےلیے بینکوں سے تازہ نوٹوں کی گڈیاں نکلوائی جاتی تھیں۔ تاہم پھر بھی کوئی نہ کوئی چیز آخری وقت تک رہ ہی جاتی تھی۔
اب مان لیا کہ وہ رونقیں وہ عیدیں اور وہ عیدیاں بھی کہاں رہیں۔ اب تو ڈیجیٹل دور کے ساتھ ساتھ عیدین بھی ڈیجیٹل ہوگئی ہیں۔ اب سب کو براہِ راست نہیں موبائل کے ذریعے مبارکباد دے دی جاتی ہے۔ ایک تو کسی کے گھر جانے کا کرایہ بچا، کہیں عید کارڈ کے پیسے بچے، تو کہیں پرانے گلے شکوؤں سے چھٹکارا مل گیا۔ کیونکہ جب ملیں گے ہی نہیں تو شکایتیں کیسی؟
لیکن اس سب کی باوجود ایک چیز جو اب تک نہیں بدلی، وہ ہے غریبوں کی عید!
عیدالفطر ہو یا عیدالاضحیٰ، دونوں پر غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ غریب پرانے دور میں بھی تن بدن کے کپڑوں سے محروم تھا اور اب بھی یہی صورتحال ہے۔ آج بھی غریب دو وقت تو کیا، ایک وقت کے کھانے کو بھی ترستا ہے۔ اور یہ امید بھی نہیں کہ کل بھی کچھ کھا سکیں گے یا نہیں۔ آج بھی وہ کوڑے کے ڈھیر سے کھانا کھاتا ہے، چاول اور روٹی کے ذرے چنتا ہے اور آج بھی اس پر یہ ظلم وستم ہوتا ہے کہ پولیس آکر اسے وہ بچا کچھا گندا باسی کھانا بھی نہیں کھانے دیتی اور جھڑکیاں دے کر اٹھا دیا جاتا ہے۔
نہ صرف یہ کہ یہ غربا جھڑکیاں سہتے ہیں، بلکہ اگر بدقسمتی سے یہ بچے ہوتے ہیں تو انھیں زیادتی کا نشانہ بھی بنادیا جاتا ہے۔ نہ تو غریبوں کے دن تبدیل ہوئے، نہ ہی راتیں۔ وہ آج بھی دکانوں پر آپ کو حسرت بھری نگاہوں سے چیزوں کی طرف دیکھتے ہوئے نظر آئیں گے۔ آج بھی میلے کچیلے کپڑے پہنے بچوں کے دل میں عید کے نئے کپڑے پہننے کی خواہش جاگے گی۔ آج بھی ان کا دل کرے گا کہ وہ بھی کوئی اچھا پکا ہوا من بھاتا کھانا کھاسکیں۔
لیکن ایسا نہیں ہوگا، اور حقیقت کی تلخیاں ان مساکین کے چہروں پر موجود رہیں گی۔ وقت کی مکروہ سیاہی ان کے پورے وجود کو ڈھانپ لے گی اور ناامیدی کے چراغ ہمہ وقت ان کی آنکھوں کا احاطہ کیے رہیں گے۔
اگرچہ سب کچھ تاریک بھی نہیں ہے، دنیا میں اچھے لوگ بھی ہیں جو ان نادار، بے کس اور مساکین کا سہارا بنتے ہیں۔ لیکن بات وہی اکثریت کی ہی ہوتی ہے۔
زمانہ بدل گیا، انداز بدل گئے، زندگی کے طور طریقوں میں فرق آگیا، لیکن نہیں آیا تو غریب کی عید میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ آج بھی وہیں کھڑا ہے، جہاں صدیوں پہلے تھا۔ نہ روٹی ملی، نہ مکان اور نہ کپڑا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
عید کے وہ دن کتنے اچھے ہوا کرتے تھے جب رنگ برنگے آنچل لہلاتے تھے، بازار چاند رات تو کیا رمضان کے آخری عشرے میں ہی سجنا شروع ہوتے تھے۔ کہیں عید کارڈز کے اسٹالوں پر رش دکھائی دیتا تھا، تو کہیں چوڑیاں اور مہندی اپنی بہار دکھاتی تھیں۔ بھائو تائو کرتے خواتین وحضرات پرانے دور کی ایک خوبصورتی کا نام ہوا کرتا تھا۔
کہیں نوجوان لڑکوں کے شوخ نعروں اور لڑکیوں کے شور شرابے کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، تو کہیں عیدی کےلیے بینکوں سے تازہ نوٹوں کی گڈیاں نکلوائی جاتی تھیں۔ تاہم پھر بھی کوئی نہ کوئی چیز آخری وقت تک رہ ہی جاتی تھی۔
اب مان لیا کہ وہ رونقیں وہ عیدیں اور وہ عیدیاں بھی کہاں رہیں۔ اب تو ڈیجیٹل دور کے ساتھ ساتھ عیدین بھی ڈیجیٹل ہوگئی ہیں۔ اب سب کو براہِ راست نہیں موبائل کے ذریعے مبارکباد دے دی جاتی ہے۔ ایک تو کسی کے گھر جانے کا کرایہ بچا، کہیں عید کارڈ کے پیسے بچے، تو کہیں پرانے گلے شکوؤں سے چھٹکارا مل گیا۔ کیونکہ جب ملیں گے ہی نہیں تو شکایتیں کیسی؟
لیکن اس سب کی باوجود ایک چیز جو اب تک نہیں بدلی، وہ ہے غریبوں کی عید!
عیدالفطر ہو یا عیدالاضحیٰ، دونوں پر غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ غریب پرانے دور میں بھی تن بدن کے کپڑوں سے محروم تھا اور اب بھی یہی صورتحال ہے۔ آج بھی غریب دو وقت تو کیا، ایک وقت کے کھانے کو بھی ترستا ہے۔ اور یہ امید بھی نہیں کہ کل بھی کچھ کھا سکیں گے یا نہیں۔ آج بھی وہ کوڑے کے ڈھیر سے کھانا کھاتا ہے، چاول اور روٹی کے ذرے چنتا ہے اور آج بھی اس پر یہ ظلم وستم ہوتا ہے کہ پولیس آکر اسے وہ بچا کچھا گندا باسی کھانا بھی نہیں کھانے دیتی اور جھڑکیاں دے کر اٹھا دیا جاتا ہے۔
نہ صرف یہ کہ یہ غربا جھڑکیاں سہتے ہیں، بلکہ اگر بدقسمتی سے یہ بچے ہوتے ہیں تو انھیں زیادتی کا نشانہ بھی بنادیا جاتا ہے۔ نہ تو غریبوں کے دن تبدیل ہوئے، نہ ہی راتیں۔ وہ آج بھی دکانوں پر آپ کو حسرت بھری نگاہوں سے چیزوں کی طرف دیکھتے ہوئے نظر آئیں گے۔ آج بھی میلے کچیلے کپڑے پہنے بچوں کے دل میں عید کے نئے کپڑے پہننے کی خواہش جاگے گی۔ آج بھی ان کا دل کرے گا کہ وہ بھی کوئی اچھا پکا ہوا من بھاتا کھانا کھاسکیں۔
لیکن ایسا نہیں ہوگا، اور حقیقت کی تلخیاں ان مساکین کے چہروں پر موجود رہیں گی۔ وقت کی مکروہ سیاہی ان کے پورے وجود کو ڈھانپ لے گی اور ناامیدی کے چراغ ہمہ وقت ان کی آنکھوں کا احاطہ کیے رہیں گے۔
اگرچہ سب کچھ تاریک بھی نہیں ہے، دنیا میں اچھے لوگ بھی ہیں جو ان نادار، بے کس اور مساکین کا سہارا بنتے ہیں۔ لیکن بات وہی اکثریت کی ہی ہوتی ہے۔
زمانہ بدل گیا، انداز بدل گئے، زندگی کے طور طریقوں میں فرق آگیا، لیکن نہیں آیا تو غریب کی عید میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ آج بھی وہیں کھڑا ہے، جہاں صدیوں پہلے تھا۔ نہ روٹی ملی، نہ مکان اور نہ کپڑا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔