عید پر نئے معاہدہ عمرانی کی ضرورت
عید کی خوشیاں لامتناعی ہیں، اس میں غریب وامیر کی کوئی قید نہیں۔
PESHAWAR:
اسلامی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کو عیدالفطر کی بے پایاں خوشیاں منانے کا بنیادی درس ایک آفاقی قرآنی پیغام میں ملتا ہے۔ ہمارے نبی آخراالزماںﷺ نے قرآنی تعلیمات کے ذریعے مسلمانوں کو بتایا کہ پہلی امتوں پر بھی روزے فرض کیے گئے ، اس کی اساس تقویٰ پر رکھی،روزوں کی فضیلت انسانی معاشرہ میں ایک وحدت انسانی سے مشروط وہ کامل ترین عبادت ہے جس میں بندہ پورے مہینے کے زورے اس نیت سے رکھتا ہے کہ اس کی بدنی طہارت اس کی روح کی پاکیزگی اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودگی حاصل کرے۔
اور اپنے تزکیہ نفس کے لیے اللہ تعالی کے احکامات اور اسلام کی حقانیت سے مربوط دینی و مذہبی ہدایات کی ہر حکمت کو جو مظاہر فطرت کی تمام چیزوں میں نمایاں کرے اور اسے اپنے ابی مسرتوں سے ہم آہنگ کرے۔ روزہ بدن کی زکوۃ بھی ہے، اور عید کا ایک عظیم تحفہ بھی۔
عید کی خوشیاں لامتناعی ہیں، اس میں غریب وامیر کی کوئی قید نہیں،ایک سادہ دل مزدور پیشہ بندہ بھی اپنے اہل خانہ کو عید کی خوشیوں کے قابل بناسکتا ہے ، وہ بھوک اورغربت ، بیماری اور استحصال کے مارے اس نظام میں سسکتے ہوئے بھی اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے خریدنے کے جتن کرتا ہے، وہ احساس کمتری کا شکار نہیں رہتا،کسی سے گلہ نہیں کرتا کہ اس کے غربت زدہ بچے محروم جب کہ امیروں کے بچے تعیشات اور ہر قسم کی سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں ، یہ قناعت ایک سماج کے ارتقائی سفر کی ان کہی کہانیوں کا ابتدائیہ ہوتی ہے، لالچ کہتے ہیں کہ بری بلا ہے اور حسد انسان کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔
اسی طرح انسانیت بیزار سماج مساوات کی قدروں کا پامال کرتا ہے، ملکیت کی جستجو، حرص ، طمع و قوم پرستی سرمایہ پرستی کے سفینہ کو ہوس زر کی کشمکش میں غرقاب کرتی ہے، بڑی سلطنتیں عیش پرستی میں تباہ ہوجایا کرتی ہیں،اور جاہ و جلال رکھنے والے شہنشاہ خرقہ پوش اور گدڑی نشین افتادگان خاک کو سامنے پیوند زمیں ہوجاتے ہیں،درویشی عیاری کو حقارت سے بے نقاب کرتی ہے ، یہی اسلام کا پیغام ہے کہ عالم انسانیت کو جمہوریت اور انسانی ریاستی سسٹم میں خیراندیشی اور بندہ پروری کے حوالہ سے امت واحدہ میں جسد واحدہ کا مقام حاصل ہے ، اس میں کوئی برتر نہیں، اور نہ اپنے مال و اولاد اور سماجی حشمت و سر بلندی کے باعث دوسرے انسانوں سے ماورا حیثیت کا حامل ہے، اسلام میں وہی معاشرہ میں سب سے مقرب ہے حس کے اخلاق اچھے ہوں جس سے اس کا پڑوسی بھی اس کے شر سے محفوظ ہو۔
اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ عید قمری کیلنڈر سے منائی جائے یا رویت ہلال کی شرعی اصول و روایات کی روشنی میں حکومت کوئی صائب فیصلہ کرچکی ہو ، کوشش ہونی چاہیے کہ خلق خدا کو مسرت، آسودگی،اطمینان، احترام اور سکون قلبی عطا ہو، ملک خداداد کو اس کے سیاسی بحرانوں نے بے پناہ صدمات دیے ہیں، پاکستان کے عوام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی resilient قوم ہے، استقامت پسند ، سخت جان ہے، آئینی بحران آتے رہے، حکومتی سسٹم تہ وبالا ہوا، شاعرانہ تخیلات کے تحت تخت گرائے گئے،تاج اچھالے گئے ، جمہور کا زمانہ بھی آیا، جمہوریت کی دیوی کو اذن حکمرانی ملا، کبھی آمریت نے دھوبی پٹکا مارا ،لیکن قوم ایک جمہوری نظام کی تلاش میں کل بھی سرگرداں تھی اور آج بھی ہے، شدید معاشی بحران میں ایک نئی منزل کی جستجو میں آج بھی مصروف جدوجہد ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کو ایک ایسی نوجوان افرادی طاقت میسر ہے جس کا مطمع نظر پاکستان کی سلامتی اور وطن عزیز کی قومی یکجہتی اولین مقصد ہے، پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے، پاک فوج اور سیاسی قیادت کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔ تمام تر اختلافات اور سیاسی انتشار اور کشیدگی کے باوجود ہم ایک پیج پر ہیں، بھارت نے پاکستان کو دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا، مودی نے مقبوضہ وادی کو انگاروادی میں بدل دیا ہے، کشمیریوں کی نسل در نسل حریت پسندی کے دریا کو عبور کرنے میں بائیس کروڑ پاکستایوں کے ساتھ ہے۔
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، ہم نے ابھی کشمیر کا قرض چکانا ہے، مودی کے مذموم عزائم ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتے، بلوچستان کو بھارت نے ٹارگٹ کیا ہے، غیرملکی ایجنسیاں سیاسی عسکری، سفارتی و سامراجی گٹھ جوڑ سے باز نہیں آرہیں مگر پاکستانی عوام کا جذبہ لازوال کسی باطل طاقت کو قدم جمانے نہیں دے گا، کسی داعش کو پاکستانی عوام پر مسلط کروانے کی کوئی سازش کامیا ب نہیں ہونے دی جائے گی، عید الفطر کی پر مسرت ،ابدی طمانیت، بین المسلمین یک جہتی اور مذہبی و روحانی رفعتوں کی قسم کھائے ہوئے اہل وطن دشمنوں کے دانت کھٹے کردیں گے۔
لیکن شرط یہ ہے کہ قوم کو سیاستدان اعتماد میں لیں، کوئی افراتفری نہیں ہونی چاہیے، آئین اورقانون کے مطابق حکومت عوام کی خدمت کرے، عوام پر بے جا دباؤ اظہر من الشمس ہے ، بجلی مہنگی اور گیس مہنگی ترین ، مہنگائی ہوشربا، بیروزگاری بے قابو، جرائم کا جہنم سلگ رہا ہے، اسٹریٹ کرمنل عناصر کو قانونی پکڑ میں لانا چاہیے، غیر انسانی جرائم نے کراچی جیسے شہر کا چہرہ داغدار کردیا ہے، ایشیا کا صاف ستھرا شہر کہلانے والا میٹروپولیٹن سٹی کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے، شہر کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، پورا شہر موئن جو دڑو کی تصویر بنا ہوا ہے، کچی آبادیوں کو اربن ماہرین ٹائم بم سے تشبیہ دیتے ہیں، ملک کا سب سے بڑا شہر ماس ٹرانزٹ سسٹم سے محروم ہے قرون وسطیٰ کی کھٹارہ بسیں چل رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں مقررین نے کہا ہے کہ پاکستان کی نظریاتی اور روحانی اساس کلمہ طیبہ ہے مملکت خدا داد جغرافیہ نسل اور زبان کی بنیاد پر حاصل نہیں کی گئی۔ پاکستان کے حصول کی بنیاد میں رول ماڈل ریاست مدینہ ہے، پاک فوج اس کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کررہی ہے اسی طرح ہمیں پاکستان کی روحانی اور نظریاتی سرحدوں پر چوکس رہنا ہو گا تاکہ پاکستان کو بھی ریاست مدینہ کی طرح ایک اسلامی فلاحی ریاست بنا یا جائے جہاں اسلام کو عملی طور پر نافذ ہو اور اسلام کے حقیقی ثمرات سے قوم مستفید ہو سکیں یہی وہ مقصد ہے جس کے حصول کے مقصد کے لیے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں بے پناہ قربانیاں دے کر پاکستان حاصل کیا۔
ان خیالات کا اظہار تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ''پاکستان کی نظریاتی اور روحانی اساس''کے عنوان سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کیا۔ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے کہاکہ قمری کیلنڈر کے مطابق پاکستان27 رمضان المبارک کو معرض وجود میں آیا سیمینار کا مقصد یوم پاکستان منانا ہے ۔ مقررین میں وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان ، سربراہ سینیٹ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار جنرل (ر) عبدالقیوم ملک، خالد مسعود، جنرل (ر) امجد شعیب ودیگر شامل تھے۔
مقررین نے کہاکہ نام نہاد سیکولر جمہوریت میں مودی کا دوبار جیتنا در اصل دو قومی نظریہ کو ہی سچ ثابت کرتا ہے،ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں بھی اصلاحات کرنا ہوں گی ، نوجوان نسل کو قائداعظم کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے۔ضرورت تو ایک نئے معاہدہ عمرانی اور فکری، نظریاتی اور سائنسی روڈ میپ کی ہے جو قوم میں سائنس وٹیکنالوجی کا صور اسرافیل پھونک دے۔قومی تعمیر نو کے لیے قوم کی نشاۃ ثانیہ کا بگل بجائے۔ حکمراں نئی نسل کو ایک آسودہ حال ملک عنایت کریں جو ہر قسم کی عصبیت،فرقہ واریت،لسانی، منافرت اور تشدد سے پاک وصاف ہو۔اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
اسلامی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کو عیدالفطر کی بے پایاں خوشیاں منانے کا بنیادی درس ایک آفاقی قرآنی پیغام میں ملتا ہے۔ ہمارے نبی آخراالزماںﷺ نے قرآنی تعلیمات کے ذریعے مسلمانوں کو بتایا کہ پہلی امتوں پر بھی روزے فرض کیے گئے ، اس کی اساس تقویٰ پر رکھی،روزوں کی فضیلت انسانی معاشرہ میں ایک وحدت انسانی سے مشروط وہ کامل ترین عبادت ہے جس میں بندہ پورے مہینے کے زورے اس نیت سے رکھتا ہے کہ اس کی بدنی طہارت اس کی روح کی پاکیزگی اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودگی حاصل کرے۔
اور اپنے تزکیہ نفس کے لیے اللہ تعالی کے احکامات اور اسلام کی حقانیت سے مربوط دینی و مذہبی ہدایات کی ہر حکمت کو جو مظاہر فطرت کی تمام چیزوں میں نمایاں کرے اور اسے اپنے ابی مسرتوں سے ہم آہنگ کرے۔ روزہ بدن کی زکوۃ بھی ہے، اور عید کا ایک عظیم تحفہ بھی۔
عید کی خوشیاں لامتناعی ہیں، اس میں غریب وامیر کی کوئی قید نہیں،ایک سادہ دل مزدور پیشہ بندہ بھی اپنے اہل خانہ کو عید کی خوشیوں کے قابل بناسکتا ہے ، وہ بھوک اورغربت ، بیماری اور استحصال کے مارے اس نظام میں سسکتے ہوئے بھی اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے خریدنے کے جتن کرتا ہے، وہ احساس کمتری کا شکار نہیں رہتا،کسی سے گلہ نہیں کرتا کہ اس کے غربت زدہ بچے محروم جب کہ امیروں کے بچے تعیشات اور ہر قسم کی سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں ، یہ قناعت ایک سماج کے ارتقائی سفر کی ان کہی کہانیوں کا ابتدائیہ ہوتی ہے، لالچ کہتے ہیں کہ بری بلا ہے اور حسد انسان کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔
اسی طرح انسانیت بیزار سماج مساوات کی قدروں کا پامال کرتا ہے، ملکیت کی جستجو، حرص ، طمع و قوم پرستی سرمایہ پرستی کے سفینہ کو ہوس زر کی کشمکش میں غرقاب کرتی ہے، بڑی سلطنتیں عیش پرستی میں تباہ ہوجایا کرتی ہیں،اور جاہ و جلال رکھنے والے شہنشاہ خرقہ پوش اور گدڑی نشین افتادگان خاک کو سامنے پیوند زمیں ہوجاتے ہیں،درویشی عیاری کو حقارت سے بے نقاب کرتی ہے ، یہی اسلام کا پیغام ہے کہ عالم انسانیت کو جمہوریت اور انسانی ریاستی سسٹم میں خیراندیشی اور بندہ پروری کے حوالہ سے امت واحدہ میں جسد واحدہ کا مقام حاصل ہے ، اس میں کوئی برتر نہیں، اور نہ اپنے مال و اولاد اور سماجی حشمت و سر بلندی کے باعث دوسرے انسانوں سے ماورا حیثیت کا حامل ہے، اسلام میں وہی معاشرہ میں سب سے مقرب ہے حس کے اخلاق اچھے ہوں جس سے اس کا پڑوسی بھی اس کے شر سے محفوظ ہو۔
اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ عید قمری کیلنڈر سے منائی جائے یا رویت ہلال کی شرعی اصول و روایات کی روشنی میں حکومت کوئی صائب فیصلہ کرچکی ہو ، کوشش ہونی چاہیے کہ خلق خدا کو مسرت، آسودگی،اطمینان، احترام اور سکون قلبی عطا ہو، ملک خداداد کو اس کے سیاسی بحرانوں نے بے پناہ صدمات دیے ہیں، پاکستان کے عوام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی resilient قوم ہے، استقامت پسند ، سخت جان ہے، آئینی بحران آتے رہے، حکومتی سسٹم تہ وبالا ہوا، شاعرانہ تخیلات کے تحت تخت گرائے گئے،تاج اچھالے گئے ، جمہور کا زمانہ بھی آیا، جمہوریت کی دیوی کو اذن حکمرانی ملا، کبھی آمریت نے دھوبی پٹکا مارا ،لیکن قوم ایک جمہوری نظام کی تلاش میں کل بھی سرگرداں تھی اور آج بھی ہے، شدید معاشی بحران میں ایک نئی منزل کی جستجو میں آج بھی مصروف جدوجہد ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کو ایک ایسی نوجوان افرادی طاقت میسر ہے جس کا مطمع نظر پاکستان کی سلامتی اور وطن عزیز کی قومی یکجہتی اولین مقصد ہے، پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے، پاک فوج اور سیاسی قیادت کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔ تمام تر اختلافات اور سیاسی انتشار اور کشیدگی کے باوجود ہم ایک پیج پر ہیں، بھارت نے پاکستان کو دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا، مودی نے مقبوضہ وادی کو انگاروادی میں بدل دیا ہے، کشمیریوں کی نسل در نسل حریت پسندی کے دریا کو عبور کرنے میں بائیس کروڑ پاکستایوں کے ساتھ ہے۔
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، ہم نے ابھی کشمیر کا قرض چکانا ہے، مودی کے مذموم عزائم ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتے، بلوچستان کو بھارت نے ٹارگٹ کیا ہے، غیرملکی ایجنسیاں سیاسی عسکری، سفارتی و سامراجی گٹھ جوڑ سے باز نہیں آرہیں مگر پاکستانی عوام کا جذبہ لازوال کسی باطل طاقت کو قدم جمانے نہیں دے گا، کسی داعش کو پاکستانی عوام پر مسلط کروانے کی کوئی سازش کامیا ب نہیں ہونے دی جائے گی، عید الفطر کی پر مسرت ،ابدی طمانیت، بین المسلمین یک جہتی اور مذہبی و روحانی رفعتوں کی قسم کھائے ہوئے اہل وطن دشمنوں کے دانت کھٹے کردیں گے۔
لیکن شرط یہ ہے کہ قوم کو سیاستدان اعتماد میں لیں، کوئی افراتفری نہیں ہونی چاہیے، آئین اورقانون کے مطابق حکومت عوام کی خدمت کرے، عوام پر بے جا دباؤ اظہر من الشمس ہے ، بجلی مہنگی اور گیس مہنگی ترین ، مہنگائی ہوشربا، بیروزگاری بے قابو، جرائم کا جہنم سلگ رہا ہے، اسٹریٹ کرمنل عناصر کو قانونی پکڑ میں لانا چاہیے، غیر انسانی جرائم نے کراچی جیسے شہر کا چہرہ داغدار کردیا ہے، ایشیا کا صاف ستھرا شہر کہلانے والا میٹروپولیٹن سٹی کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے، شہر کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، پورا شہر موئن جو دڑو کی تصویر بنا ہوا ہے، کچی آبادیوں کو اربن ماہرین ٹائم بم سے تشبیہ دیتے ہیں، ملک کا سب سے بڑا شہر ماس ٹرانزٹ سسٹم سے محروم ہے قرون وسطیٰ کی کھٹارہ بسیں چل رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں مقررین نے کہا ہے کہ پاکستان کی نظریاتی اور روحانی اساس کلمہ طیبہ ہے مملکت خدا داد جغرافیہ نسل اور زبان کی بنیاد پر حاصل نہیں کی گئی۔ پاکستان کے حصول کی بنیاد میں رول ماڈل ریاست مدینہ ہے، پاک فوج اس کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کررہی ہے اسی طرح ہمیں پاکستان کی روحانی اور نظریاتی سرحدوں پر چوکس رہنا ہو گا تاکہ پاکستان کو بھی ریاست مدینہ کی طرح ایک اسلامی فلاحی ریاست بنا یا جائے جہاں اسلام کو عملی طور پر نافذ ہو اور اسلام کے حقیقی ثمرات سے قوم مستفید ہو سکیں یہی وہ مقصد ہے جس کے حصول کے مقصد کے لیے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں بے پناہ قربانیاں دے کر پاکستان حاصل کیا۔
ان خیالات کا اظہار تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ''پاکستان کی نظریاتی اور روحانی اساس''کے عنوان سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کیا۔ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے کہاکہ قمری کیلنڈر کے مطابق پاکستان27 رمضان المبارک کو معرض وجود میں آیا سیمینار کا مقصد یوم پاکستان منانا ہے ۔ مقررین میں وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان ، سربراہ سینیٹ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار جنرل (ر) عبدالقیوم ملک، خالد مسعود، جنرل (ر) امجد شعیب ودیگر شامل تھے۔
مقررین نے کہاکہ نام نہاد سیکولر جمہوریت میں مودی کا دوبار جیتنا در اصل دو قومی نظریہ کو ہی سچ ثابت کرتا ہے،ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں بھی اصلاحات کرنا ہوں گی ، نوجوان نسل کو قائداعظم کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے۔ضرورت تو ایک نئے معاہدہ عمرانی اور فکری، نظریاتی اور سائنسی روڈ میپ کی ہے جو قوم میں سائنس وٹیکنالوجی کا صور اسرافیل پھونک دے۔قومی تعمیر نو کے لیے قوم کی نشاۃ ثانیہ کا بگل بجائے۔ حکمراں نئی نسل کو ایک آسودہ حال ملک عنایت کریں جو ہر قسم کی عصبیت،فرقہ واریت،لسانی، منافرت اور تشدد سے پاک وصاف ہو۔اللہ کرے ایسا ہی ہو۔