ریاست مدینہ فورس
ہم جناب محترم کی مکمل تائید کرتے ہوئے، حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ اس فورس کو پہلی ’’ترجیحات‘‘ میں جگہ دے دی جائے۔
جناب قبلہ ایاز صاحب سے ہم کبھی ملے تو نہیں ہیں لیکن جب بھی ان کا نام نامی اور اسم گرامی سنتے یا پڑھتے ہیں تو دل عقیدت سے بھر جاتا ہے۔ جب نام ہی اتنا میٹھا ہے تو آدمی کتنے میٹھے ہوں گے۔ قبلہ بھی اور ایاز بھی اور پھر علامہ اقبال کا شکوہ بھی اس پر شاہد ہے کہ:
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
اور موجودہ ''ریاست مدینہ'' کے داعیوں کو ماننا پڑے گا کہ گوہر شناس اور جوہر شناس ہیں کہ در یکتا اور گوہر یک دانہ کی پہچان رکھتے ہیں، اس لیے جناب ''قبلہ ایاز'' کو بھی ان کا شایان شان منصب دے رکھاہے۔ اور یہ انھوں نے ثابت بھی کر دیا اس بیان میں کہ ریاست مدینہ کے لیے ایک خاص فورس بھی قائم کیا جانا چاہیے۔ پرانی ریاست مدینہ کا تو ہمیں علم نہیں کہ اس میں کوئی''فورس'' قائم کی گئی تھی یا نہیں لیکن موجودہ ''ریاست مدینہ'' جس کے والی شاید ہمارے مہان عظیم ولی عہد بھی رہے ہیں اس میں یقیناً فورس موجود ہے۔
یہ ہم نے آنے جانے والوں سے سنا ہوا ہے اس فورس کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات توہمیں نہیں ہیں لیکن اس کے عہدے داروں اور اہل کاروں کو متوع یا مطوع کہا جاتا ہے جو نظر رکھتے ہیں کہ کوئی دین کے معاملات میں کچھ ایسا ویسا تو نہیں کر رہا ہے اور اگر کسی کو پکڑتے ہیں تو اسے نہایت ہی سلیقے سے کیفرکردار بلکہ کیفر اعمال تک پہنچاتے ہیں۔ اس فورس میں خاص خاص چنیدہ قسم کے لوگ رکھے جاتے ہیں جو دین کو ایسا لاگو کرتے ہیں کہ مجرم تو کیا قرب و جوار کے لوگ بھی سیدھے ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کسی کے دل میں ایسا ویسا خیال یا ارادہ ہوتا ہے تو خود بخود بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے۔
یہ لوگ جب کسی طرف نکل جاتے ہیں تو ہر طرف دین ہی دین اور اسلام ہی اسلام دکھائی دینے لگتا ہے۔ گویا اتنی با برکت ہستیاں ہوتی ہیں کہ ان کے قدوم ہی سے ہر طرف برکت ہی برکت پھیل جاتی ہے۔ بخدا ہمارا بس نہیں چلتا اور محکمہ حج والے بھی نظر کرم نہیں کرتے ورنہ اڑ کر جاتے اور ان بابرکت اور مقدس ''متوع'' لوگوں کے زیر سایہ چین کی بانسری بجاتے، سوری غلطی ہو گئی کہ بجانا تو وہاں منع ہے، خیر ہم یونہی بغیر بانسری کے بھی صرف منہ کی سٹیاں بھی بجا سکتے ہیں اور ان میں اظہار خیال اور اظہار تمنا بھی کر سکتے ہیں بشرطیکہ کہ منہ کی بانسری بجانا بھی منع نہ ہو۔
اگر یہ بھی منع ہو تو ہم دل ہی دل میں بھی بہت کچھ بجانے بلکہ کرنے کا فن جانتے ہیں۔ بس ایک بار یہ سعادت مل جائے۔ باقی تو سب سنی سنائی باتیں ہیں لیکن افغانستان میں جب ''امیرالمومینین'' کے زیر سایہ حکومت یا ریاست مدینہ بنی تھی تو اس کے ''متوع'' لوگوں کو ہم نے دیکھا تھا بلکہ دیکھنے کی سعادت پائی تھی۔ سبحان اﷲ کیا لوگ تھے۔ قانون کو ایسا نافذکرتے تھے کہ مجال ہے جو کوئی رخنہ چھوٹ جائے۔ داڑھی اور پگڑی تو ظاہر سی چیزیں ہیں لیکن وہ اندر کے معاملات بھی ایک خاص قسم کے پلاس یا زنبور سے جانچتے تھے، چنانچہ اگر کوئی بازار میں نکلنے کا قصد کرتا تو اچھی طرح ''تیار'' ہو کر نکلتا تھا۔ اسے کہتے ہیں حکومت اور ریاست۔ ویسے وہ بڑے موجد قسم کے لوگ بھی تھے۔
داڑھی نہ ہونے کی صورت میں سخت ربڑ کا ایک آلہ استعمال کیا جاتا تھا جو پنجے خوب کھینچ کر زور سے چھوڑا جاتا تھا اور ہاتھ لگائے بغیر اسے چھٹی بلکہ ساتویں آٹھویں کا دودھ یاد آ جاتا تھا۔ واہ جی واہ ۔ کمال کے لوگ تھے، دن رات دین نافذ کرتے رہتے تھے۔ صرف اس نیک جذبے سے کہ بے خبر لوگوں کو باخبر رکھا جائے اور راہ راست پر لایا جائے ورنہ کون ہے جو دوسروں کی فکرکرتا ہے لیکن وہ ہمدرد لوگ تھے کسی کو غلط راستہ اپنا کر دوزخ پہنچنے سے روکتے تھے، گویا صرف اور صرف دوسروں کی فکر اور خیرخواہی۔ ہم جیسے عامی اور بے خبر لوگ تو فکر نہیں کرتے کہ لوگ غلط راستے پر جا رہے ہیں، ان کی رہنمائی کی جائے بلکہ سوچتے ہیں کہ اچھا ہے، منخوس دوزخی بن جائے۔
لیکن وہ خدا کے نیک اور پر اسرار بندے
کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے ''کام'' سے فرصت تھی
سب پوچھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا
جناب محترم قبلہ ایاز صاحب نے حکومت کو نہایت بروقت اور انتہائی صائب مشورہ دیا ہے کیونکہ جب ریاست ہی مدینہ کی ہوئی تو اس کے لیے انتظامات بھی پورے ہونے چاہیے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ کتنا واہی تباہی کرتے پھر رہے ہیں۔ نمازیں نہیں پڑھ رہے ہیں، داڑھی مونچھوں کا صفایا کرتے ہیں۔ لباس کھانے پینے چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے میں ذرا بھی خیال نہیں رکھتے کہ ہم ریاست مدینہ میں رہ رہے ہیں، وہ بڑی بڑی باتیں تو بڑے جانیں یعنی قدم قدم اور کاغذ کاغذ سود کی جلوہ گری یا اور بھی جن کا نام نہ لینا مردہ باد لیکن چھوٹی چھوٹی خلاف ورزیوں کو تو روکا جا سکتا ہے۔
اس لیے فورس انتہائی ضروری ہے اور ویسے بھی ہمارے ہاں لائق فائق اور اہل لوگوں کی کمی نہیں ہے اور بچارے بے روزگار بھی ہیں اس لیے ایک تیر دو شکار والا معاملہ ہو جائے گا۔ بہت سارے لوگوں کو روزگار بھی مل جائے گا اور ریاست مدینہ کو صحیح خطوط پر چلانے کی سبیل بھی ہو جائے گی۔ ہم جناب محترم کی مکمل تائید کرتے ہوئے، حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ اس فورس کو پہلی ''ترجیحات'' میں جگہ دے دی جائے۔
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
اور موجودہ ''ریاست مدینہ'' کے داعیوں کو ماننا پڑے گا کہ گوہر شناس اور جوہر شناس ہیں کہ در یکتا اور گوہر یک دانہ کی پہچان رکھتے ہیں، اس لیے جناب ''قبلہ ایاز'' کو بھی ان کا شایان شان منصب دے رکھاہے۔ اور یہ انھوں نے ثابت بھی کر دیا اس بیان میں کہ ریاست مدینہ کے لیے ایک خاص فورس بھی قائم کیا جانا چاہیے۔ پرانی ریاست مدینہ کا تو ہمیں علم نہیں کہ اس میں کوئی''فورس'' قائم کی گئی تھی یا نہیں لیکن موجودہ ''ریاست مدینہ'' جس کے والی شاید ہمارے مہان عظیم ولی عہد بھی رہے ہیں اس میں یقیناً فورس موجود ہے۔
یہ ہم نے آنے جانے والوں سے سنا ہوا ہے اس فورس کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات توہمیں نہیں ہیں لیکن اس کے عہدے داروں اور اہل کاروں کو متوع یا مطوع کہا جاتا ہے جو نظر رکھتے ہیں کہ کوئی دین کے معاملات میں کچھ ایسا ویسا تو نہیں کر رہا ہے اور اگر کسی کو پکڑتے ہیں تو اسے نہایت ہی سلیقے سے کیفرکردار بلکہ کیفر اعمال تک پہنچاتے ہیں۔ اس فورس میں خاص خاص چنیدہ قسم کے لوگ رکھے جاتے ہیں جو دین کو ایسا لاگو کرتے ہیں کہ مجرم تو کیا قرب و جوار کے لوگ بھی سیدھے ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کسی کے دل میں ایسا ویسا خیال یا ارادہ ہوتا ہے تو خود بخود بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے۔
یہ لوگ جب کسی طرف نکل جاتے ہیں تو ہر طرف دین ہی دین اور اسلام ہی اسلام دکھائی دینے لگتا ہے۔ گویا اتنی با برکت ہستیاں ہوتی ہیں کہ ان کے قدوم ہی سے ہر طرف برکت ہی برکت پھیل جاتی ہے۔ بخدا ہمارا بس نہیں چلتا اور محکمہ حج والے بھی نظر کرم نہیں کرتے ورنہ اڑ کر جاتے اور ان بابرکت اور مقدس ''متوع'' لوگوں کے زیر سایہ چین کی بانسری بجاتے، سوری غلطی ہو گئی کہ بجانا تو وہاں منع ہے، خیر ہم یونہی بغیر بانسری کے بھی صرف منہ کی سٹیاں بھی بجا سکتے ہیں اور ان میں اظہار خیال اور اظہار تمنا بھی کر سکتے ہیں بشرطیکہ کہ منہ کی بانسری بجانا بھی منع نہ ہو۔
اگر یہ بھی منع ہو تو ہم دل ہی دل میں بھی بہت کچھ بجانے بلکہ کرنے کا فن جانتے ہیں۔ بس ایک بار یہ سعادت مل جائے۔ باقی تو سب سنی سنائی باتیں ہیں لیکن افغانستان میں جب ''امیرالمومینین'' کے زیر سایہ حکومت یا ریاست مدینہ بنی تھی تو اس کے ''متوع'' لوگوں کو ہم نے دیکھا تھا بلکہ دیکھنے کی سعادت پائی تھی۔ سبحان اﷲ کیا لوگ تھے۔ قانون کو ایسا نافذکرتے تھے کہ مجال ہے جو کوئی رخنہ چھوٹ جائے۔ داڑھی اور پگڑی تو ظاہر سی چیزیں ہیں لیکن وہ اندر کے معاملات بھی ایک خاص قسم کے پلاس یا زنبور سے جانچتے تھے، چنانچہ اگر کوئی بازار میں نکلنے کا قصد کرتا تو اچھی طرح ''تیار'' ہو کر نکلتا تھا۔ اسے کہتے ہیں حکومت اور ریاست۔ ویسے وہ بڑے موجد قسم کے لوگ بھی تھے۔
داڑھی نہ ہونے کی صورت میں سخت ربڑ کا ایک آلہ استعمال کیا جاتا تھا جو پنجے خوب کھینچ کر زور سے چھوڑا جاتا تھا اور ہاتھ لگائے بغیر اسے چھٹی بلکہ ساتویں آٹھویں کا دودھ یاد آ جاتا تھا۔ واہ جی واہ ۔ کمال کے لوگ تھے، دن رات دین نافذ کرتے رہتے تھے۔ صرف اس نیک جذبے سے کہ بے خبر لوگوں کو باخبر رکھا جائے اور راہ راست پر لایا جائے ورنہ کون ہے جو دوسروں کی فکرکرتا ہے لیکن وہ ہمدرد لوگ تھے کسی کو غلط راستہ اپنا کر دوزخ پہنچنے سے روکتے تھے، گویا صرف اور صرف دوسروں کی فکر اور خیرخواہی۔ ہم جیسے عامی اور بے خبر لوگ تو فکر نہیں کرتے کہ لوگ غلط راستے پر جا رہے ہیں، ان کی رہنمائی کی جائے بلکہ سوچتے ہیں کہ اچھا ہے، منخوس دوزخی بن جائے۔
لیکن وہ خدا کے نیک اور پر اسرار بندے
کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے ''کام'' سے فرصت تھی
سب پوچھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا
جناب محترم قبلہ ایاز صاحب نے حکومت کو نہایت بروقت اور انتہائی صائب مشورہ دیا ہے کیونکہ جب ریاست ہی مدینہ کی ہوئی تو اس کے لیے انتظامات بھی پورے ہونے چاہیے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ کتنا واہی تباہی کرتے پھر رہے ہیں۔ نمازیں نہیں پڑھ رہے ہیں، داڑھی مونچھوں کا صفایا کرتے ہیں۔ لباس کھانے پینے چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے میں ذرا بھی خیال نہیں رکھتے کہ ہم ریاست مدینہ میں رہ رہے ہیں، وہ بڑی بڑی باتیں تو بڑے جانیں یعنی قدم قدم اور کاغذ کاغذ سود کی جلوہ گری یا اور بھی جن کا نام نہ لینا مردہ باد لیکن چھوٹی چھوٹی خلاف ورزیوں کو تو روکا جا سکتا ہے۔
اس لیے فورس انتہائی ضروری ہے اور ویسے بھی ہمارے ہاں لائق فائق اور اہل لوگوں کی کمی نہیں ہے اور بچارے بے روزگار بھی ہیں اس لیے ایک تیر دو شکار والا معاملہ ہو جائے گا۔ بہت سارے لوگوں کو روزگار بھی مل جائے گا اور ریاست مدینہ کو صحیح خطوط پر چلانے کی سبیل بھی ہو جائے گی۔ ہم جناب محترم کی مکمل تائید کرتے ہوئے، حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ اس فورس کو پہلی ''ترجیحات'' میں جگہ دے دی جائے۔