’’عید کے بعد‘‘
رمضان کے مہینے میں شائد ہی کوئی ایسی افطاری کی تقریب ہو جس میں حکومت کی ناکامی کا ڈھنڈورا نہ پیٹا گیا ہو۔
تمام دنیا کے اہلِ فکر و نظر اس بات پر متفق ہیں کہ جو فرد یا جماعت اپنے مستقبل کو کسی نہ کسی بدشگونی کے تناظر میں دیکھنا شروع کر دے اُس کی ذہنی حالت abnormal کے بجائے subnormal کے احاطے میں داخل ہو جاتی ہے اور بدقسمتی سے آج کل ہمارا معاشرہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر اس طرح کی صورتِ حال سے گزر رہا ہے کہ آپ جس بھی محفل میں بیٹھیںہر آدمی آپ کو یا تو حکومتِ وقت پر تنقید کی بوچھاڑ کرتا نظر آئے گا یا ایک ایسی مایوسی کا شکار ہو گا جس میں آپ کو کوئی چیز بھی درست نظر نہیں آتی۔
رمضان کے مہینے میں شائد ہی کوئی ایسی افطاری کی تقریب ہو جس میں حکومت کی ناکامی کا ڈھنڈورا نہ پیٹا گیا ہو اور یہ پیش گوئی نہ کی گئی ہو کہ یہ حکومت آج گئی کہ کل گئی کیونکہ ان لوگوں کو حکومت چلانے کا طریقہ ہی سرے سے نہیں آتا اور یہ کہ خالی عمران خان کی ذاتی ایمانداری اور نیک نیتی کے پی ٹی آئی کے پلّے میں کچھ بھی نہیں ہے ان ساری باتوں سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس حکومت کو اقتدار سے الگ کر دینے سے وہ سب مسئلے حل ہو جائیں گے جن کے لیے ہم نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پر اس کو ترجیح دی تھی اور یہ کہ کیا سمندر سے تیل نہ نکلنے پر اس لیے بھنگڑے ڈالنا جائز اور مناسب ہے کہ اس سے عمران خان کے اس سے متعلق دعوے جھوٹ اور امید یں خاک میں مل گئی ہیں یا کیا یہ ناکامی ہم سب کی مشترکہ بدقسمتی نہیں ہے؟
اس سلسلے کی ایک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ عید جو ہمارا ایک خوشیوں بھرا تہوار ہے اس کو ہم نے اپنے زوال ، تباہی، بدنظمی، مصائب اور سیاسی شورشرابے کا نقطہ آغاز بنا دیا ہے اور ہر بُری خبر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ عیدکے بعد قوم اس کے لیے تیار رہے ۔ ایک منٹ کے لیے مان لیا جائے کہ عید کے بعد اس حکومت اور عوام کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی اور نہ صرف یہ کہ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی مزید چیخیں نکلیں گی بلکہ عالمی سازشوں کا دائرہ بھی اس قدر تنگ ہو جائے گا کہ آپ کے ایٹمی اسلحے کے ساتھ ساتھ خود ریاست کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا اور یوں اس حکومت کا قائم رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔
حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ باتیں اس انداز میں کی جاتی ہیں جسے ان کے کرنے و الے خود کسی اور ملک کے باشندے ہوں ۔ دو روز قبل اپنے مرحبا دوا خانے والے عزیزی حکیم عثمان کی افطاری میں بھی کچھ اس طرح کی گفتگو چل رہی تھی۔ ڈیفنس کلب کے ایک ہال میں طرح طرح کے بے شمار کھانے ایک بہت آرام دہ اور نیم شاہانہ قسم کے ماحول میں اذانِ مغرب کے منتظر تھے کہ جس کے بعد اُن پر ان سب لوگوں نے حملہ آور ہونا تھا جن کے پاس دنیا کی ہر نعمت پہلے سے موجود تھی ۔ ایک دوست نے حوصلہ کر کے ان احباب سے پوچھا کہ یہ سب کچھ جو اس وقت اُن کے پاس ہے کیا وہ خود یا ان کے بڑے قیام پاکستان کے بعد آنے والی پہلی عید پر اس کا تصور بھی کر سکتے تھے ؟
آرمی کے مارشل لاء ہوں یا سول حکومتیں ، بین الاقوامی سازشیں ہوں یا ملک کا دو لخت ہونا، دہشت گردی کی وارداتیں ہوں یا مہنگائی کا طوفان کیا ان سب کے باوجود آپ میں سے ایک دو فیصد چھوڑ کر سب کو یہ آسائشیں اسی ملک نے مہیا کیں؟ اور اس کے بدلے میں ہم سب نے اس کو کیا دیا ہے ؟ سو خدا کے لیے بھائی لوگو اپنے گریبان میں بھی جھانکو اور اللہ کا شکر ادا کرنا بھی سیکھو یہ ملک کسی ایک سیاسی پارٹی ، چند سیاسی خاندانوں یا نام نہاد اسٹیبلشمنٹ ہی کا نہیں ہم سب کا بھی ہے بے شک عام اور غریب آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہو گئی ہے مگر حکومت اور اپوزیشن دونوں کی تقریروں اور کارکردگی سے قطع نظر کیا یہ ہم سب کا اجتماعی مسئلہ نہیں ؟ اور اگر ہے تو کیا اسے ہماری جگہ کوئی اور حل کرے گا ؟
یہ حکومت لاکھ ناتجربہ کار سہی مگر کیا اس سے پہلے جو'' تجربہ کار'' مہربان اسے چلا رہے تھے اُس میں سب کچھ ٹھیک تھا؟ محفل میں کچھ دیر کو خاموشی سی چھاگئی اور آہستہ آہستہ احباب نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ تنقید کا اصل مقصد تعمیری ہونا چاہیے کہ تخریب کے پرچار اور اس تکرار سے آج تک کبھی نہ تو کسی مسئلے کا حل نکلا ہے اور نہ ہی قوموں کی تقدیر یا اُن کے حالات بدلے ہیں سو کیوں نہ عید کے بعد آنے والے دنوں کو دھمکیوں اور بدشگونیوں کے بجائے باہمی اتحاد اعتماد اور حبِ وطن کے مشترکہ جذبے سے کوئی بہتر شکل دینے کی کوشش کی جائے یعنی اختلاف اور تنقید کا مقصد اُلجھنے اور اُلجھانے کے بجائے سلجھائو اور خیر کا حصول ہوتاکہ اگلی عید پر ہر طرح کے معاملات میں کچھ نہ کچھ بہتری آئے اور یاد رکھنے والی بات یہی ہے کہ بہتری کے لیے اُمید اور محنت اور ہر اچھے کام کا اپنی ذات سے آغاز ہی واحد رستہ ہے سو میری طرف سے عیدکی مبارک کے ساتھ یہ تحفہ قبول فرمایئے۔
یہ خواب وہ ہے
کہ جس کی ضّو سے کروڑوں آنکھوں میں روشنی ہے
اسے بنانے میں اور بچانے میں
اپنے پُرکھوں نے کتنی جانوں کی بھینٹ دی ہے
ہمارے ہونے کی اب ضمانت اگر ہے کوئی تو وہ یہی ہے
یہ خواب وہ ہے
کہ جس کی حُرمت کی ہم حفاظت نہ کرسکے ہیں
نہ اس کا چہرہ اُجال پائے نہ اس کی دَرزوں کو بھر سکے ہیں!
یہ خواب ہی ہے مگر یہاں پہ
ہمارے ہونے کا استعارا
ہم اس کے باسی یہ گھر ہمارا
ہر ایک شئے کو نگلتا جاتا ہے یوں تو لمحوں کا تیز دھارا
یہ خواب لیکن امر ہے پھر بھی!
...............
یہ گزرا ''کل'' تھا یہ ''آج'' بھی ہے
اور آنے والے جو کل ہیں اُن کی تمام شوبھا
بھی سر بسر ہے اِسی کے دم سے!
سو ہم کو مل کر نکالنا ہے
اسے سمے کے حصارِ غم سے!
اور اس سے پہلے کہ رُوٹھ جائے یہ خواب اک دن
ہماری آنکھوں سے اور ہم سے!!
رمضان کے مہینے میں شائد ہی کوئی ایسی افطاری کی تقریب ہو جس میں حکومت کی ناکامی کا ڈھنڈورا نہ پیٹا گیا ہو اور یہ پیش گوئی نہ کی گئی ہو کہ یہ حکومت آج گئی کہ کل گئی کیونکہ ان لوگوں کو حکومت چلانے کا طریقہ ہی سرے سے نہیں آتا اور یہ کہ خالی عمران خان کی ذاتی ایمانداری اور نیک نیتی کے پی ٹی آئی کے پلّے میں کچھ بھی نہیں ہے ان ساری باتوں سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس حکومت کو اقتدار سے الگ کر دینے سے وہ سب مسئلے حل ہو جائیں گے جن کے لیے ہم نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پر اس کو ترجیح دی تھی اور یہ کہ کیا سمندر سے تیل نہ نکلنے پر اس لیے بھنگڑے ڈالنا جائز اور مناسب ہے کہ اس سے عمران خان کے اس سے متعلق دعوے جھوٹ اور امید یں خاک میں مل گئی ہیں یا کیا یہ ناکامی ہم سب کی مشترکہ بدقسمتی نہیں ہے؟
اس سلسلے کی ایک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ عید جو ہمارا ایک خوشیوں بھرا تہوار ہے اس کو ہم نے اپنے زوال ، تباہی، بدنظمی، مصائب اور سیاسی شورشرابے کا نقطہ آغاز بنا دیا ہے اور ہر بُری خبر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ عیدکے بعد قوم اس کے لیے تیار رہے ۔ ایک منٹ کے لیے مان لیا جائے کہ عید کے بعد اس حکومت اور عوام کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی اور نہ صرف یہ کہ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی مزید چیخیں نکلیں گی بلکہ عالمی سازشوں کا دائرہ بھی اس قدر تنگ ہو جائے گا کہ آپ کے ایٹمی اسلحے کے ساتھ ساتھ خود ریاست کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا اور یوں اس حکومت کا قائم رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔
حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ باتیں اس انداز میں کی جاتی ہیں جسے ان کے کرنے و الے خود کسی اور ملک کے باشندے ہوں ۔ دو روز قبل اپنے مرحبا دوا خانے والے عزیزی حکیم عثمان کی افطاری میں بھی کچھ اس طرح کی گفتگو چل رہی تھی۔ ڈیفنس کلب کے ایک ہال میں طرح طرح کے بے شمار کھانے ایک بہت آرام دہ اور نیم شاہانہ قسم کے ماحول میں اذانِ مغرب کے منتظر تھے کہ جس کے بعد اُن پر ان سب لوگوں نے حملہ آور ہونا تھا جن کے پاس دنیا کی ہر نعمت پہلے سے موجود تھی ۔ ایک دوست نے حوصلہ کر کے ان احباب سے پوچھا کہ یہ سب کچھ جو اس وقت اُن کے پاس ہے کیا وہ خود یا ان کے بڑے قیام پاکستان کے بعد آنے والی پہلی عید پر اس کا تصور بھی کر سکتے تھے ؟
آرمی کے مارشل لاء ہوں یا سول حکومتیں ، بین الاقوامی سازشیں ہوں یا ملک کا دو لخت ہونا، دہشت گردی کی وارداتیں ہوں یا مہنگائی کا طوفان کیا ان سب کے باوجود آپ میں سے ایک دو فیصد چھوڑ کر سب کو یہ آسائشیں اسی ملک نے مہیا کیں؟ اور اس کے بدلے میں ہم سب نے اس کو کیا دیا ہے ؟ سو خدا کے لیے بھائی لوگو اپنے گریبان میں بھی جھانکو اور اللہ کا شکر ادا کرنا بھی سیکھو یہ ملک کسی ایک سیاسی پارٹی ، چند سیاسی خاندانوں یا نام نہاد اسٹیبلشمنٹ ہی کا نہیں ہم سب کا بھی ہے بے شک عام اور غریب آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہو گئی ہے مگر حکومت اور اپوزیشن دونوں کی تقریروں اور کارکردگی سے قطع نظر کیا یہ ہم سب کا اجتماعی مسئلہ نہیں ؟ اور اگر ہے تو کیا اسے ہماری جگہ کوئی اور حل کرے گا ؟
یہ حکومت لاکھ ناتجربہ کار سہی مگر کیا اس سے پہلے جو'' تجربہ کار'' مہربان اسے چلا رہے تھے اُس میں سب کچھ ٹھیک تھا؟ محفل میں کچھ دیر کو خاموشی سی چھاگئی اور آہستہ آہستہ احباب نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ تنقید کا اصل مقصد تعمیری ہونا چاہیے کہ تخریب کے پرچار اور اس تکرار سے آج تک کبھی نہ تو کسی مسئلے کا حل نکلا ہے اور نہ ہی قوموں کی تقدیر یا اُن کے حالات بدلے ہیں سو کیوں نہ عید کے بعد آنے والے دنوں کو دھمکیوں اور بدشگونیوں کے بجائے باہمی اتحاد اعتماد اور حبِ وطن کے مشترکہ جذبے سے کوئی بہتر شکل دینے کی کوشش کی جائے یعنی اختلاف اور تنقید کا مقصد اُلجھنے اور اُلجھانے کے بجائے سلجھائو اور خیر کا حصول ہوتاکہ اگلی عید پر ہر طرح کے معاملات میں کچھ نہ کچھ بہتری آئے اور یاد رکھنے والی بات یہی ہے کہ بہتری کے لیے اُمید اور محنت اور ہر اچھے کام کا اپنی ذات سے آغاز ہی واحد رستہ ہے سو میری طرف سے عیدکی مبارک کے ساتھ یہ تحفہ قبول فرمایئے۔
یہ خواب وہ ہے
کہ جس کی ضّو سے کروڑوں آنکھوں میں روشنی ہے
اسے بنانے میں اور بچانے میں
اپنے پُرکھوں نے کتنی جانوں کی بھینٹ دی ہے
ہمارے ہونے کی اب ضمانت اگر ہے کوئی تو وہ یہی ہے
یہ خواب وہ ہے
کہ جس کی حُرمت کی ہم حفاظت نہ کرسکے ہیں
نہ اس کا چہرہ اُجال پائے نہ اس کی دَرزوں کو بھر سکے ہیں!
یہ خواب ہی ہے مگر یہاں پہ
ہمارے ہونے کا استعارا
ہم اس کے باسی یہ گھر ہمارا
ہر ایک شئے کو نگلتا جاتا ہے یوں تو لمحوں کا تیز دھارا
یہ خواب لیکن امر ہے پھر بھی!
...............
یہ گزرا ''کل'' تھا یہ ''آج'' بھی ہے
اور آنے والے جو کل ہیں اُن کی تمام شوبھا
بھی سر بسر ہے اِسی کے دم سے!
سو ہم کو مل کر نکالنا ہے
اسے سمے کے حصارِ غم سے!
اور اس سے پہلے کہ رُوٹھ جائے یہ خواب اک دن
ہماری آنکھوں سے اور ہم سے!!