عید مبارک
ماہ رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس کا ہم مسلمان سال بھر انتظار کرتے ہیں۔
رمضان المبارک کا با برکت مہینہ گزر چکا ہے اور آپ جب یہ سطور ملاحظہ کر رہے ہیں توہمارے سائنس کے وزیر فواد چوہدری کے مطابق عید مبارک مگر ہمارے مفتی منیب الرحمٰن صاحب اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ شوال کا چاند شرعی اصولوں کے مطابق چاند کی شہادتیں موصول ہونے کے بعد عید کا اعلان کیا جائے گا ۔ ان کے اسی کلیئے پر عمل کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں مفتی پوپلزئی صاحب نے چاند کی شہادتیں موصول ہونے کے بعد عید کا اعلان کر دیا ہے۔
اب یہ معلوم نہیں کہ ان کا چاند پہلے کہاں سے نظر آ گیا۔ ان کے اعلان کے بعد خیبر پختونخوا میں بھی سرکاری طور پر منگل کو ہی عید منانے کا فیصلہ کیا گیا جب کہ ملک کے دوسرے صوبوں میں رہنے والے بدھ کو عید منانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ دنیا معلوم نہیں کہاںسے کہاں پہنچ چکی ہے مگر ہم دو عیدوں کے چکر سے ہی نہیں نکل سکے۔
ماہ رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس کا ہم مسلمان سال بھر انتظار کرتے ہیں اور اس ماہ مقدس میں برکتیں سمیٹنے اور اپنے گناہ بخشوانے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہو کر اپنے گناہوں کی معافی کے طلبگار ہوتے ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہیں جس کی برکتوں کا ذکر کرنے کے لیے یہ کالم ناکافی ہے اور اس لیے ہم اس کی برکتوں سے مستفید ہونے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی کی درخواست کے ساتھ اس ماہ میں ہمارے ساتھی مسلمانوں کی طرف سے روا رکھے جانے والے غیر اسلامی سلوک کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ وہ با برکت مہینہ ہے جو کہ انسانوں کے لیے تو بخشش اور مغفرت کا ذریعہ ہے مگر ہمارے دکاندار اور کاروباری حضرات کے لیے منافع خوری کا سب سے بڑا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں ہمارے مسلمان دکاندار بھائی منافع خوری کے تمام ریکارڈ توڑ دیتے ہیں اور اگلی پچھلی تمام کسریں نکال لیتے ہیں۔ ان کایہ کہنا ہوتا ہے کہ یہی تو ایک مہینہ کمائی کا ہوتا ہے۔
عید الفطر کی تیاریاں زور و شور سے جاری رہیں ، گھریلو خوتین کو جب سحری اور افطاری سے کچھ فرصت ملی تو وہ اپنے لیے اور بچوں کے لیے بازار کا چکر ضرور لگاتی رہیں لیکن جب بھی وہ بازار سے واپس لوٹتیں تو ان کی زبان پر ایک ہی شکوہ ہوتا کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی اور عید کے موقع پر چھوٹے چھوٹے تحائف کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ رواج عام ہے کہ عید الفطر کے موقع پر خاص طور پر اپنے قریبی عزیز واقارب اور ہمسائیوں کو تحفے تحائف دیے جاتے ہیں لیکن اب صورتحال کچھ اس طرح کی ہو چکی ہے کہ ایک اوسط درجے کے گھریلو اخراجات پورے کرنا ہی مشکل ہو رہا ہے اور اگراس کے بیچ میں کوئی تہوار آ جائے تو سارے مہینے کا بجٹ چوپٹ ہو جاتا ہے اور صاحب خانہ کی شامت آ جاتی ہے۔
پاکستان میں ایک بات بہت مشہور ہے کہ ہم پاکستانی اتنا ٹیکس نہیں دینے جتنا ہم صدقہ و خیرات دیتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کے بقول پاکستان کے صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور یہ ایک فیصد لوگ باقی ننانوے فیصد عوام کا بوجھ برداشت کرتے ہیں جو کہ کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ ملک اور اس کے عوام روز بروز غریب ہوتے جا رہے ہیں جب کہ اسی ملک میں بسنے والے اشرافی طبقے کے لوگ امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک کے دونوں طبقوں کے درمیان یہ خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے بلکہ اب یہ اس حد پر پہنچ گئی ہے کہ دونوں طبقوں کا کوئی مقابلہ نہیں رہا ۔
اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ملک کو کچھ لوگوں نے اس قدر غریب کر دیا ہے کہ وہ عوام کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا اور اس وقت ملک کی معیشت اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے مگر صدقہ و خیرات کے ذریعے اپنی بخشش کرانا چاہتے ہیں ان سے گزارش ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ جس ملک میں بستے ہیں اور جس کی بدولت ان کی دولت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اس کو بھی اپنے صدقہ و خیرات کی فہرست میں شامل کر لیں تا کہ ملک کا بھی بھلا ہو اور اس ملک کے عوام تک بھی اس کے ثمرات پہنچ سکیں۔
دراصل بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے اس ملک کو اپنا وطن سمجھا ہی نہیں وہ ایک مہمان کے طور پر یہاں قیام کرتے ہیں اور جب حکومت سے الگ ہوتے ہیں تو اپنے اصلی وطنوںکو روانہ ہوجاتے ہیں ان فصلی بٹیروں کی وجہ ملک کے وہ صاحب حیثیت لوگ جو کہ ملک کو ٹیکس دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں وہ ان پر اعتبارنہیں کرتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جانب سے حکومت کو ادا کیا گیا ٹیکس ان فصلی بٹیروں کی جیبوںمیں چلا جائے گا اور یہ اپنی جیبیں بھر کر بیرون ملک روانہ ہو جائیں گے اور پھر جب کسی جانب سے اشارہ ہو گا تو یہ اپنے آ پ کو جھاڑ پونچھ اور کینچلی بدل کر دوبارہ نازل ہو جائیں گے اس لیے یہ لوگ عوام میں اپنا اعتبار کھو چکے ہیں اور عوام حکومت کو ٹیکس کے بجائے صدقہ و خیرات سے اپنے مال کو پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ریاست کو چلانے کے لیے عوام ہی اپنی آمدن پر ٹیکس دیتے ہیں اور اسی سے ریاست کا کاروبار چلتا ہے مگر ہمارے ہاں ریاست کے کاروبار کو چلانے کے لیے سب سے پہلے حکومت کو عوام اور کاروباری افراد پر اپنا اعتماد بحال کرنا ہو گا تا کہ جو ٹیکس قومی خزانے میں جمع ہونا ہے وہ قومی خزانے میں ہی جمع ہو اور صدقہ خیرات اس کے باجود بھی جاری رہے گا۔
ابھی بھی ہمارے ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں اور ان میں کاروباری افراد ہی شامل ہیں جن کا حکومت میں کوئی عمل دخل بھی نہیں جب کہ حکومت میں شامل کاروباری افراد ٹیکس چوری ضرور کرتے ہیں اور اپنی پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جس سے ان کی بچت ہو جائے۔
بہر حال عید کا با برکت اور خوشی کا دن ہے اور اس کی برکت کے باعث ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چایئے کہ ہمارا ملک جو کہ رمضان المبار ک کے برکتوں والے مہینے میں وجود میں آیا تھا اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائیں اور اس کو دشمنوں کی سازشوں اور شر سے محفوظ فرمائیں۔ میری جانب سے تما م قارئین کو عید الفطر کی دلی مبارکباد ۔
اب یہ معلوم نہیں کہ ان کا چاند پہلے کہاں سے نظر آ گیا۔ ان کے اعلان کے بعد خیبر پختونخوا میں بھی سرکاری طور پر منگل کو ہی عید منانے کا فیصلہ کیا گیا جب کہ ملک کے دوسرے صوبوں میں رہنے والے بدھ کو عید منانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ دنیا معلوم نہیں کہاںسے کہاں پہنچ چکی ہے مگر ہم دو عیدوں کے چکر سے ہی نہیں نکل سکے۔
ماہ رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس کا ہم مسلمان سال بھر انتظار کرتے ہیں اور اس ماہ مقدس میں برکتیں سمیٹنے اور اپنے گناہ بخشوانے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہو کر اپنے گناہوں کی معافی کے طلبگار ہوتے ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہیں جس کی برکتوں کا ذکر کرنے کے لیے یہ کالم ناکافی ہے اور اس لیے ہم اس کی برکتوں سے مستفید ہونے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی کی درخواست کے ساتھ اس ماہ میں ہمارے ساتھی مسلمانوں کی طرف سے روا رکھے جانے والے غیر اسلامی سلوک کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ وہ با برکت مہینہ ہے جو کہ انسانوں کے لیے تو بخشش اور مغفرت کا ذریعہ ہے مگر ہمارے دکاندار اور کاروباری حضرات کے لیے منافع خوری کا سب سے بڑا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں ہمارے مسلمان دکاندار بھائی منافع خوری کے تمام ریکارڈ توڑ دیتے ہیں اور اگلی پچھلی تمام کسریں نکال لیتے ہیں۔ ان کایہ کہنا ہوتا ہے کہ یہی تو ایک مہینہ کمائی کا ہوتا ہے۔
عید الفطر کی تیاریاں زور و شور سے جاری رہیں ، گھریلو خوتین کو جب سحری اور افطاری سے کچھ فرصت ملی تو وہ اپنے لیے اور بچوں کے لیے بازار کا چکر ضرور لگاتی رہیں لیکن جب بھی وہ بازار سے واپس لوٹتیں تو ان کی زبان پر ایک ہی شکوہ ہوتا کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی اور عید کے موقع پر چھوٹے چھوٹے تحائف کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ رواج عام ہے کہ عید الفطر کے موقع پر خاص طور پر اپنے قریبی عزیز واقارب اور ہمسائیوں کو تحفے تحائف دیے جاتے ہیں لیکن اب صورتحال کچھ اس طرح کی ہو چکی ہے کہ ایک اوسط درجے کے گھریلو اخراجات پورے کرنا ہی مشکل ہو رہا ہے اور اگراس کے بیچ میں کوئی تہوار آ جائے تو سارے مہینے کا بجٹ چوپٹ ہو جاتا ہے اور صاحب خانہ کی شامت آ جاتی ہے۔
پاکستان میں ایک بات بہت مشہور ہے کہ ہم پاکستانی اتنا ٹیکس نہیں دینے جتنا ہم صدقہ و خیرات دیتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کے بقول پاکستان کے صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور یہ ایک فیصد لوگ باقی ننانوے فیصد عوام کا بوجھ برداشت کرتے ہیں جو کہ کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ ملک اور اس کے عوام روز بروز غریب ہوتے جا رہے ہیں جب کہ اسی ملک میں بسنے والے اشرافی طبقے کے لوگ امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک کے دونوں طبقوں کے درمیان یہ خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے بلکہ اب یہ اس حد پر پہنچ گئی ہے کہ دونوں طبقوں کا کوئی مقابلہ نہیں رہا ۔
اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ملک کو کچھ لوگوں نے اس قدر غریب کر دیا ہے کہ وہ عوام کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا اور اس وقت ملک کی معیشت اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے مگر صدقہ و خیرات کے ذریعے اپنی بخشش کرانا چاہتے ہیں ان سے گزارش ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ جس ملک میں بستے ہیں اور جس کی بدولت ان کی دولت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اس کو بھی اپنے صدقہ و خیرات کی فہرست میں شامل کر لیں تا کہ ملک کا بھی بھلا ہو اور اس ملک کے عوام تک بھی اس کے ثمرات پہنچ سکیں۔
دراصل بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے اس ملک کو اپنا وطن سمجھا ہی نہیں وہ ایک مہمان کے طور پر یہاں قیام کرتے ہیں اور جب حکومت سے الگ ہوتے ہیں تو اپنے اصلی وطنوںکو روانہ ہوجاتے ہیں ان فصلی بٹیروں کی وجہ ملک کے وہ صاحب حیثیت لوگ جو کہ ملک کو ٹیکس دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں وہ ان پر اعتبارنہیں کرتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جانب سے حکومت کو ادا کیا گیا ٹیکس ان فصلی بٹیروں کی جیبوںمیں چلا جائے گا اور یہ اپنی جیبیں بھر کر بیرون ملک روانہ ہو جائیں گے اور پھر جب کسی جانب سے اشارہ ہو گا تو یہ اپنے آ پ کو جھاڑ پونچھ اور کینچلی بدل کر دوبارہ نازل ہو جائیں گے اس لیے یہ لوگ عوام میں اپنا اعتبار کھو چکے ہیں اور عوام حکومت کو ٹیکس کے بجائے صدقہ و خیرات سے اپنے مال کو پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ریاست کو چلانے کے لیے عوام ہی اپنی آمدن پر ٹیکس دیتے ہیں اور اسی سے ریاست کا کاروبار چلتا ہے مگر ہمارے ہاں ریاست کے کاروبار کو چلانے کے لیے سب سے پہلے حکومت کو عوام اور کاروباری افراد پر اپنا اعتماد بحال کرنا ہو گا تا کہ جو ٹیکس قومی خزانے میں جمع ہونا ہے وہ قومی خزانے میں ہی جمع ہو اور صدقہ خیرات اس کے باجود بھی جاری رہے گا۔
ابھی بھی ہمارے ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں اور ان میں کاروباری افراد ہی شامل ہیں جن کا حکومت میں کوئی عمل دخل بھی نہیں جب کہ حکومت میں شامل کاروباری افراد ٹیکس چوری ضرور کرتے ہیں اور اپنی پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جس سے ان کی بچت ہو جائے۔
بہر حال عید کا با برکت اور خوشی کا دن ہے اور اس کی برکت کے باعث ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چایئے کہ ہمارا ملک جو کہ رمضان المبار ک کے برکتوں والے مہینے میں وجود میں آیا تھا اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائیں اور اس کو دشمنوں کی سازشوں اور شر سے محفوظ فرمائیں۔ میری جانب سے تما م قارئین کو عید الفطر کی دلی مبارکباد ۔