خوشیوں بھری عید مبارک ۔۔۔۔ مگر
عید اُن کی ہے جو گناہوں سے بچ گئے، جنہوں نے اپنے عمل میں اخلاص پیدا کیا اور سچّے دل سے توبہ کی
اسلام مکمل اور جامع دین ہے۔ اس پر ایمان اس وقت اور پختہ ہوجاتا ہے جب ہمیں زندگی کا کوئی گوشہ اور کوئی شعبہ ایسا نہیں ملتا جہاں اسلام نے راہ نمائی فراہم نہ کی ہو۔ خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاشرت سے یا پھر خوشی و غم کو منانے کے آداب و طریقے' اسلام نے ہر موقع پر ہماری راہ نمائی کی ہے۔
اللہ تعالی نے ہمیں اپنی خوشیوں کے اظہار کے لیے دو تہوار بھی دیے تاکہ ہم اس سے محظوظ ہوں اور ہماری زندگی مسرتوں سے بھری رہے اور ہم کسی بھی محرومی کا شکار نہ ہوں۔
دورِ جاہلیت میں بہت سے چھوٹے بڑے تہوار رائج تھے جس کے متبادل کے طور پر اللہ تعالی نے عیدالفطر و عید قربان عطا کیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: '' تم سال میں جو عیدیں منایا کرتے تھے، اب اللہ نے تم کو ان سے بہتر دو د ن عطا فرمائے ہیں۔ یعنی عیدالفطر اور عیدالضحیٰ۔''
عیدالفطر شوال کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے جو رمضان میں کی گئیں عبادتوں و ریاضتوں کا انعام ہے۔ عید کے معنی خوشی اور فطر کے معنی کھولنے کے ہیں، اس دن سے رمضان کے روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اس مناسبت سے اسے عیدالفطر کا نام دیا گیا ہے۔ جب کہ عیدالضحیٰ حضرت ابراہیمؑ کی سُنّت کی پیروی کے لیے منائی جاتی ہے۔ پیارے نبی کریمؐ نے عید کے تہوار کو خود بھی بھرپور طریقے سے منایا اور صحابہؓ کرامؓ کو بھی تلقین کی۔
اللہ تعالیٰ نے خوشی کے موقع پر ہر جائز اظہار کو پسند فرمایا ہے۔ لیکن دینِ اسلام ہرگز یہ پسند نہیں کرتا کہ کسی بھی خوشی کو حدود اللہ سے تجاوز کرتے ہوئے منایا جائے۔ اسی لیے چاند رات اور عید کے دن کی عبادت کی اہمیت دو چند بتائی گئی ہے۔ چاند رات کو لیلۃ الجائزہ کہا گیا ہے، یہ رات انعام کی رات ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ جس نے دونوں عیدوں کی چاند رات کو عبادت سے زندہ کیا، اللہ رب العزت اسے کے دل کو اس دن زندہ رکھیں گے، جب سب کے دل مُردہ ہوں گے۔ اسی طرح عید کے دن کے لیے حدیث میں آتا ہے، مفہوم: ''جب مسلمان عید گاہ کی طرف جانے لگتے ہیں تو خدائے عزوجل اپنے فرشتوں سے مخاطب ہوکر پوچھتا ہے: ''میرے فرشتو! اس مزدور کا صلہ کیا ہے جس نے اپنے رب کا کام پورا کیا۔''
فرشتے کہتے ہیں: اے ہمارے معبود! اے ہمارے آقا! اس مزدور کا صلہ یہ ہے کہ اسے بھر بھر کر مزدوری دی جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''اے فرشتو! تم سب گواہ ہوجاؤ کہ میں نے اپنے بندوں کو، جو رمضان میں روزے بھی رکھتے ہیں، اور تراویح بھی پڑھتے ہیں اس کے صلے میں اپنی خوش نودی سے نواز دیا اور ان کی مغفرت فرما دی۔''
پھر سبحان و تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتا ہے: '' میرے پیارے بندو! مانگو مجھ سے جو کچھ مانگتے ہو، مجھے میری عزت کی قسم! مجھے اپنے جلال کی قسم! آج عید کے اجتماع میں تم اپنی آخرت بنانے کے لیے مجھ سے جو مانگو گے، عطا کروں گا اور اپنی دنیا بنانے کے لیے جو چاہو گے اس میں بھی تمہارے بھلائی کو پیش نظر رکھوں گا۔ جب تم میرا دھیان رکھو گے میں تمہاری خطاؤں پر پردہ ڈالتا رہوں گا۔ مجھے میری عزت کی قسم! مجھے میرے جلال کی قسم! مجرموں کے سامنے تمہیں ہر گز ذلیل و رسوا نہ کروں گا۔ جاؤ تم اپنے گھروں میں بخشے بخشائے لوٹ جاؤ۔ تم مجھے راضی کرنے میں لگے رہے۔ میں تم سے راضی ہوگیا۔''
فرشتے اس بشارت پر جھوم اٹھتے ہیں اور اللہ کی اس بخشش و نوازش پر خوشیاں مناتے ہیں جو وہ اپنے بندوں پر فرماتا ہے۔ عیدالفطر کی اصل روح اس کا عملی اظہار اسلام کے اس مجموعی مزاج کے مطابق ہے جس میں بندہ اللہ کی کامل بندگی کرے اور خلقِ خدا کے ساتھ ہم دردی و حسن سلوک سے پیش آئے۔ اس لیے جہاں ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور سر بہ سجود ہوں، گڑگڑائیں، مغفرت طلب کریں، ایک ماہ کی تربیت (رمضان المبارک) مکمل ہونے پر گیارہ مہینوں کے لیے کی جانے والی اس ٹریننگ کے اختتام پر رب العالمین کا شکریہ ادا کریں، وہیں ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم عید کی ان خوشیوں میں دوسروں کو شریک رکھیں۔ عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ جیسے جیسے عید قریب آتی ہے، بازاروں میں رش بڑھتا جاتا ہے۔
خریداری عروج پر ہوتی ہے، عید کی تیاریوں میں ہم اتنا مشغول ہوتے ہیں کہ رب کا کوئی حکم یاد ہی نہیں رہتا۔ اسراف و نمود و نمائش سے بچنے کی اتنی سخت تاکید کی گئی کہ فضول خرچ کو شیطان کے بھائی کی مانند قرار دیا گیا، لیکن ہمیں اس وقت یہ احکام یاد ہی نہیں رہتے جب رمضان کے روزوں کے تحفے کی وصولی کا وقت قریب آرہا ہوتا ہے، اس وقت یہ امتحان ہوتا ہے کہ آیا ہمارے یہ روزے و عبادتیں ہمارے نفس کا تزکیہ کرنے میں کام یاب ہوئیں یا ہم اب بھی نفسانی خواہشات کا شکار ہیں ؟
اور دکھ کی بات یہ کہ چاند رات اور پھر عید کے دن بھی الاماشاء اللہ ایسے مظاہر دیکھنے و سننے کو ملتے ہیں کہ دل درد سے بوجھل ہوجائے کہ ہم مسلمان کیا اتنے بدنصیب ہوگئے کہ رمضان کے فیض کو ابھی سمیٹنے بھی نہ پائے کہ گناہوں کے سمندر میں جاگرے۔ عید کے دن باب العلم امیرالمومنین جناب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو لوگوں نے خشک روٹی کھاتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا: یاامیرالمومنینؓ آج تو عید کا دن ہے۔
آپؓ نے ارشاد فرمایا: عید تو اس دن ہے جس دن کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ اس قول سے اپنی عید کا مقابلہ کریں تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہم سے تو رمضان میں بہت سے گناہ نہیں چُھوٹے۔ پیارے نبی کریمؐ کی زندگی کا ہر لمحہ ان کا قول و فعل اس لیے نہیں کہ ہم پڑھیں، سنیں اور بس گزر جائیں، بل کہ اس لیے ہے کہ ہم اسے عملاً اپنی زندگی میں نافذ کریں۔ دین اسلام کی روشنی، اقدار و روایات کو تابندہ و قائم رکھیں۔ اس سے راہ نمائی حاصل کریں۔ عید کے دن کسی کے لیے دل میں کوئی رنجش کوئی بدگمانی نہ رکھیں۔ سب سے خوش ہوکر ملیں۔ مبارک باد دیں، چھوٹوں کو عیدی دیں اور بڑوں سے عیدی لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے عزیز و اقارب، پڑوس اور آس پاس میں موجود ان افراد کا جو عید کی تیاریاں ہماری طرح نہیں کرسکتے کا ضرور خیال رکھیں۔
ایک مشہور واقعہ ہے کہ پیارے نبی کریمؐ عید کی نماز ادا کرکے گھر واپس جارہے تھے کہ راستے میں ایک بچہ ملا، جو رو رہا تھا۔ نبی کریمؐ نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ آج عید کا دن ہے اور سب بچوں نے نئے کپڑے پہن رکھے ہیں، میں یتیم ہوں مجھے کسی نے نئے کپڑے لے کر نہیں دیے۔ نبی کریمؐ بچے کی یہ بات سن کر آبدیدہ ہوئے اور انتہائی شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنے گھر لے جاکر نئے کپڑے پہنائے۔ عیدالفطر کا دن صرف جشن ہی نہیں بل کہ یومِ احتساب بھی ہے۔ کیا آج ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو عید کے دن گلیوں اور سڑکوں پہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے محرومی کا شکار بچوں کو نئے کپڑے پہناتے ہوں ؟ کسی نادار و بے کس بچے کے آنسو پونچھتے ہوں؟ اپنی عید کی تیاریوں میں ان غریبوں و ناداروں کو بھی یاد رکھتے ہوں جو سارا سال نئے کپڑے پہننے کے لیے ترس جاتے ہیں؟
عید کی خوشیاں ضرور منائیں، تیاریاں بھی خوب کریں لیکن بس یہ دھیان رکھنا ضروری ہے کہ جہاں اسراف و فضول خرچی کی رب نے ممانعت کی ہے وہیں نمود و نمائش کو بھی ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ سب معاشرے میں محرومیوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہیں۔ اپنے کسی بھی عمل سے کسی کی بھی دل آزاری کا سبب نہ بنیں۔ ہم نہیں جانتے لیکن ہم میں سے جو صاحب استطاعت ہیں ان کا ہر عمل اردگرد کے غرباء بہ غور دیکھ رہے ہوتے اور اپنی محرومیوں پر کڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ہمہ وقت یہ کوشش اور دعا کرنا چاہیے کہ جانے انجانے میں ہمارے کسی بھی فعل سے کسی کے اندر محرومی نہ جنم لے، کسی کی دل آزاری نہ ہو بل کہ ہم سب کے لیے باعث راحت و رحمت بنیں۔ کوششں اور دعا کرنا ہمارا کام ہے اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا اللہ کے ذمے ہے۔
یاد رکھیے! عید ان کی نہیں جنہوں نے بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا، نئے کپڑے پہنے، خوب زیب و زینت سے نکلے، اچھے پکوان پکائے، خوب کھانے کھائے، دبیز قالین سے گھروں کو آراستہ کیا بل کہ عید ان کی ہے جو گناہوں سے بچ گئے، جنہوں نے اپنے عمل میں اخلاص پیدا کیا اور سچے دل سے توبہ کی، نیک بنے رہنے کا عزم کیا، تقوی و پرہیز گاری کی راہ اختیار کی اور دوزخ کے پُل سے آسانی سے گزر گئے۔ اس کسوٹی کے ساتھ اپنے عمل کا جائزہ لیں اور خوشیوں بھری عید منائیں۔
آؤ مل کر مانگیں دعائیں ہم عید کے دن
باقی نہ رہے کوئی بھی غم، عید کے دن
ہر آنگن میں خوشیوں بھرا سورج اُترے
اور چمکتا رہے ہر آنگن، عید کے دن
اللہ تعالی نے ہمیں اپنی خوشیوں کے اظہار کے لیے دو تہوار بھی دیے تاکہ ہم اس سے محظوظ ہوں اور ہماری زندگی مسرتوں سے بھری رہے اور ہم کسی بھی محرومی کا شکار نہ ہوں۔
دورِ جاہلیت میں بہت سے چھوٹے بڑے تہوار رائج تھے جس کے متبادل کے طور پر اللہ تعالی نے عیدالفطر و عید قربان عطا کیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: '' تم سال میں جو عیدیں منایا کرتے تھے، اب اللہ نے تم کو ان سے بہتر دو د ن عطا فرمائے ہیں۔ یعنی عیدالفطر اور عیدالضحیٰ۔''
عیدالفطر شوال کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے جو رمضان میں کی گئیں عبادتوں و ریاضتوں کا انعام ہے۔ عید کے معنی خوشی اور فطر کے معنی کھولنے کے ہیں، اس دن سے رمضان کے روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اس مناسبت سے اسے عیدالفطر کا نام دیا گیا ہے۔ جب کہ عیدالضحیٰ حضرت ابراہیمؑ کی سُنّت کی پیروی کے لیے منائی جاتی ہے۔ پیارے نبی کریمؐ نے عید کے تہوار کو خود بھی بھرپور طریقے سے منایا اور صحابہؓ کرامؓ کو بھی تلقین کی۔
اللہ تعالیٰ نے خوشی کے موقع پر ہر جائز اظہار کو پسند فرمایا ہے۔ لیکن دینِ اسلام ہرگز یہ پسند نہیں کرتا کہ کسی بھی خوشی کو حدود اللہ سے تجاوز کرتے ہوئے منایا جائے۔ اسی لیے چاند رات اور عید کے دن کی عبادت کی اہمیت دو چند بتائی گئی ہے۔ چاند رات کو لیلۃ الجائزہ کہا گیا ہے، یہ رات انعام کی رات ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ جس نے دونوں عیدوں کی چاند رات کو عبادت سے زندہ کیا، اللہ رب العزت اسے کے دل کو اس دن زندہ رکھیں گے، جب سب کے دل مُردہ ہوں گے۔ اسی طرح عید کے دن کے لیے حدیث میں آتا ہے، مفہوم: ''جب مسلمان عید گاہ کی طرف جانے لگتے ہیں تو خدائے عزوجل اپنے فرشتوں سے مخاطب ہوکر پوچھتا ہے: ''میرے فرشتو! اس مزدور کا صلہ کیا ہے جس نے اپنے رب کا کام پورا کیا۔''
فرشتے کہتے ہیں: اے ہمارے معبود! اے ہمارے آقا! اس مزدور کا صلہ یہ ہے کہ اسے بھر بھر کر مزدوری دی جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''اے فرشتو! تم سب گواہ ہوجاؤ کہ میں نے اپنے بندوں کو، جو رمضان میں روزے بھی رکھتے ہیں، اور تراویح بھی پڑھتے ہیں اس کے صلے میں اپنی خوش نودی سے نواز دیا اور ان کی مغفرت فرما دی۔''
پھر سبحان و تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتا ہے: '' میرے پیارے بندو! مانگو مجھ سے جو کچھ مانگتے ہو، مجھے میری عزت کی قسم! مجھے اپنے جلال کی قسم! آج عید کے اجتماع میں تم اپنی آخرت بنانے کے لیے مجھ سے جو مانگو گے، عطا کروں گا اور اپنی دنیا بنانے کے لیے جو چاہو گے اس میں بھی تمہارے بھلائی کو پیش نظر رکھوں گا۔ جب تم میرا دھیان رکھو گے میں تمہاری خطاؤں پر پردہ ڈالتا رہوں گا۔ مجھے میری عزت کی قسم! مجھے میرے جلال کی قسم! مجرموں کے سامنے تمہیں ہر گز ذلیل و رسوا نہ کروں گا۔ جاؤ تم اپنے گھروں میں بخشے بخشائے لوٹ جاؤ۔ تم مجھے راضی کرنے میں لگے رہے۔ میں تم سے راضی ہوگیا۔''
فرشتے اس بشارت پر جھوم اٹھتے ہیں اور اللہ کی اس بخشش و نوازش پر خوشیاں مناتے ہیں جو وہ اپنے بندوں پر فرماتا ہے۔ عیدالفطر کی اصل روح اس کا عملی اظہار اسلام کے اس مجموعی مزاج کے مطابق ہے جس میں بندہ اللہ کی کامل بندگی کرے اور خلقِ خدا کے ساتھ ہم دردی و حسن سلوک سے پیش آئے۔ اس لیے جہاں ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور سر بہ سجود ہوں، گڑگڑائیں، مغفرت طلب کریں، ایک ماہ کی تربیت (رمضان المبارک) مکمل ہونے پر گیارہ مہینوں کے لیے کی جانے والی اس ٹریننگ کے اختتام پر رب العالمین کا شکریہ ادا کریں، وہیں ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم عید کی ان خوشیوں میں دوسروں کو شریک رکھیں۔ عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ جیسے جیسے عید قریب آتی ہے، بازاروں میں رش بڑھتا جاتا ہے۔
خریداری عروج پر ہوتی ہے، عید کی تیاریوں میں ہم اتنا مشغول ہوتے ہیں کہ رب کا کوئی حکم یاد ہی نہیں رہتا۔ اسراف و نمود و نمائش سے بچنے کی اتنی سخت تاکید کی گئی کہ فضول خرچ کو شیطان کے بھائی کی مانند قرار دیا گیا، لیکن ہمیں اس وقت یہ احکام یاد ہی نہیں رہتے جب رمضان کے روزوں کے تحفے کی وصولی کا وقت قریب آرہا ہوتا ہے، اس وقت یہ امتحان ہوتا ہے کہ آیا ہمارے یہ روزے و عبادتیں ہمارے نفس کا تزکیہ کرنے میں کام یاب ہوئیں یا ہم اب بھی نفسانی خواہشات کا شکار ہیں ؟
اور دکھ کی بات یہ کہ چاند رات اور پھر عید کے دن بھی الاماشاء اللہ ایسے مظاہر دیکھنے و سننے کو ملتے ہیں کہ دل درد سے بوجھل ہوجائے کہ ہم مسلمان کیا اتنے بدنصیب ہوگئے کہ رمضان کے فیض کو ابھی سمیٹنے بھی نہ پائے کہ گناہوں کے سمندر میں جاگرے۔ عید کے دن باب العلم امیرالمومنین جناب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو لوگوں نے خشک روٹی کھاتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے کہا: یاامیرالمومنینؓ آج تو عید کا دن ہے۔
آپؓ نے ارشاد فرمایا: عید تو اس دن ہے جس دن کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ اس قول سے اپنی عید کا مقابلہ کریں تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہم سے تو رمضان میں بہت سے گناہ نہیں چُھوٹے۔ پیارے نبی کریمؐ کی زندگی کا ہر لمحہ ان کا قول و فعل اس لیے نہیں کہ ہم پڑھیں، سنیں اور بس گزر جائیں، بل کہ اس لیے ہے کہ ہم اسے عملاً اپنی زندگی میں نافذ کریں۔ دین اسلام کی روشنی، اقدار و روایات کو تابندہ و قائم رکھیں۔ اس سے راہ نمائی حاصل کریں۔ عید کے دن کسی کے لیے دل میں کوئی رنجش کوئی بدگمانی نہ رکھیں۔ سب سے خوش ہوکر ملیں۔ مبارک باد دیں، چھوٹوں کو عیدی دیں اور بڑوں سے عیدی لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے عزیز و اقارب، پڑوس اور آس پاس میں موجود ان افراد کا جو عید کی تیاریاں ہماری طرح نہیں کرسکتے کا ضرور خیال رکھیں۔
ایک مشہور واقعہ ہے کہ پیارے نبی کریمؐ عید کی نماز ادا کرکے گھر واپس جارہے تھے کہ راستے میں ایک بچہ ملا، جو رو رہا تھا۔ نبی کریمؐ نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ آج عید کا دن ہے اور سب بچوں نے نئے کپڑے پہن رکھے ہیں، میں یتیم ہوں مجھے کسی نے نئے کپڑے لے کر نہیں دیے۔ نبی کریمؐ بچے کی یہ بات سن کر آبدیدہ ہوئے اور انتہائی شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنے گھر لے جاکر نئے کپڑے پہنائے۔ عیدالفطر کا دن صرف جشن ہی نہیں بل کہ یومِ احتساب بھی ہے۔ کیا آج ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو عید کے دن گلیوں اور سڑکوں پہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے محرومی کا شکار بچوں کو نئے کپڑے پہناتے ہوں ؟ کسی نادار و بے کس بچے کے آنسو پونچھتے ہوں؟ اپنی عید کی تیاریوں میں ان غریبوں و ناداروں کو بھی یاد رکھتے ہوں جو سارا سال نئے کپڑے پہننے کے لیے ترس جاتے ہیں؟
عید کی خوشیاں ضرور منائیں، تیاریاں بھی خوب کریں لیکن بس یہ دھیان رکھنا ضروری ہے کہ جہاں اسراف و فضول خرچی کی رب نے ممانعت کی ہے وہیں نمود و نمائش کو بھی ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ سب معاشرے میں محرومیوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہیں۔ اپنے کسی بھی عمل سے کسی کی بھی دل آزاری کا سبب نہ بنیں۔ ہم نہیں جانتے لیکن ہم میں سے جو صاحب استطاعت ہیں ان کا ہر عمل اردگرد کے غرباء بہ غور دیکھ رہے ہوتے اور اپنی محرومیوں پر کڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ہمہ وقت یہ کوشش اور دعا کرنا چاہیے کہ جانے انجانے میں ہمارے کسی بھی فعل سے کسی کے اندر محرومی نہ جنم لے، کسی کی دل آزاری نہ ہو بل کہ ہم سب کے لیے باعث راحت و رحمت بنیں۔ کوششں اور دعا کرنا ہمارا کام ہے اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا اللہ کے ذمے ہے۔
یاد رکھیے! عید ان کی نہیں جنہوں نے بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا، نئے کپڑے پہنے، خوب زیب و زینت سے نکلے، اچھے پکوان پکائے، خوب کھانے کھائے، دبیز قالین سے گھروں کو آراستہ کیا بل کہ عید ان کی ہے جو گناہوں سے بچ گئے، جنہوں نے اپنے عمل میں اخلاص پیدا کیا اور سچے دل سے توبہ کی، نیک بنے رہنے کا عزم کیا، تقوی و پرہیز گاری کی راہ اختیار کی اور دوزخ کے پُل سے آسانی سے گزر گئے۔ اس کسوٹی کے ساتھ اپنے عمل کا جائزہ لیں اور خوشیوں بھری عید منائیں۔
آؤ مل کر مانگیں دعائیں ہم عید کے دن
باقی نہ رہے کوئی بھی غم، عید کے دن
ہر آنگن میں خوشیوں بھرا سورج اُترے
اور چمکتا رہے ہر آنگن، عید کے دن