براڈلے ہال

مولانا ظفر علی خان، جواہر لعل نہرو، بھگت سنگھ، جوش ملیح آبادی اور بہت سے دیگر مشاہیر کا تعلق براڈلے ہال سے رہا ہے

انگریز دور میں ہندوستان میں انقلابِ آزادی کی علامت ،حکومتی عدم توجہ سے کھنڈر کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ فوٹو: فائل

ضلع کچہری کے بالکل عقب میں ریٹی گن روڈ واقع ہے جو آگے چل کر حضرت داتا گنج بخش کے مزار مبار ک کے مغرب سے گزرتا ہے ، گو اس سڑک کی تاریخی اہمیت سے اب لوگ واقف نہیں ہیں مگر انگریزوں کے دور حکومت میں اس علاقے کی بڑی اہمیت تھی۔

ریٹی گن روڈ کو ضلع کچہری کی عقبی سڑک ایک طرف آئوٹ فال روڈ سے اور دوسری طرف لوئر مال سے ملاتی ہے ۔ گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول کے ساتھ ہی یہ سڑک شروع ہو جاتی ہے ۔ ریٹی گن روڈ شروع ہوتے ہی صرف سوگز چلنے کے بعد بائیں طرف دوسرے نمبر پر ایک گلی مڑتی ہے ، یہیں پر وہ مشہور تاریخی عمارت براڈ لے ہال موجود ہے جسے انسانی حقوق کے لئے لڑنے والے برطانوی ایڈووکیٹ اور دانشور سر چارلس براڈ لے کی خریدی گئی زمین پر تعمیر کیا گیا ، مین روڈ سے یہ اندازہ نہیں ہو تا کہ یہاں پر ایسی شاہکار تاریخی عمارت موجود ہے، وہ تو جب انسان اس گلی میں داخل ہوتا ہے تو تھوڑی سی کھلی جگہ کے بعد قدیم فن تعمیر کا شاہکار سامنے آجاتا ہے، اس دو منزلہ عظیم الجثہ عمارت کو دیکھ کر انسان مبہوت رہ جاتا ہے، ایک تو یوںگلی میں داخل ہونے سے عمارت کا اچانک سامنے آنا دوسرا قدامت کے باوجود عمارت کی شان و شوکت برقرار ہونا، جسے دیکھتے ہی انسان کے ذہن میں اس انقلابی دور کا نقشہ گھوم جاتا ہے۔

براڈلے ہال انگریزوں کے دور حکومت میں 1900ء سے لے کر 1947ء تک پورے ہندوستان کے لئے آزادی کے انقلاب کی علامت رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس جگہ کا مالک سر چارلس براڈلے ایک انگریز تھا جبکہ یہ جگہ استعمال ہندوستان کے لوگوں نے کی اور وہ بھی انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے۔ جس جگہ یہ ہال واقع ہے اب تو وہاں بہت گنجان آباد ی ہے جبکہ انیسویں صدی میں اس جگہ کو بہت اہمیت حاصل تھی اور یہاں پر انگریزوں کی رہائش گاہیں تھیں اور اس علاقے کا شمار شہر کے بہترین علاقوں میں ہوتا تھا ، بلکہ یوں کہا جائے کہ ایلیٹ کلاس یہاں آباد تھی تو غلط نہ ہو گا ، سر چارلس براڈلے جب ہندوستان آئے تو انھوں نے یہاں پر ایک قطعہ اراضی خریدا، مگر چارلس براڈلے لامذہب تھے اور برطانیہ کے مقبوضات پر بھی تنقید کرتے تھے حتیٰ کہ انھوں نے برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان کے عوام کو آزادی دینے کے حوالے سے ایک قرار داد بھی پیش کی اور انھوں نے یہاں پہنچ کر بھی ہندوستان کے عوام کے حق میں بولنا شروع کر دیا اس لئے ان کی طرف سے اراضی خریدنے کے اقدام کو اچھی نظر سے نہ دیکھا گیا۔



انڈیا پہنچ کر انھوں نے ریلوے ٹریک بچھانے کا کنٹریکٹ لے لیا مگر جب ان کی تنقید انگریز حکومت کی برداشت سے باہر ہوگئی تو چارلس براڈلے کو انڈیا چھوڑ دینے کا حکم دے دیا گیا ، مگر چارلس براڈلے دل میں تہیہ کر چکے تھے کہ حکومت کی اس زبردستی کو نہیں مانیں گے ، حکومت کی طرف سے انھیں جو نوٹس ملا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ وہ انڈیا کی سرزمین چھوڑ دیں تو انھوں نے اس حکم پر من و عن عمل کرنے کے لئے ایک کشتی خریدی اور کھانے پینے کی اشیاء اس میں رکھ کر دریائے راوی میں لنگر انداز ہو گئے ، جب ان سے کہا گیا کہ انھیں تو انڈیا چھوڑ دینے کے احکامات دئیے گئے ہیں تو ان کا موقف تھا کہ انھیں جو نوٹس ملا ہے اس میں انڈیا کی سرزمین پر نہ رہنے کا حکم ہے اور وہ نوٹس کے مطابق عمل کر رہے ہیں کیونکہ وہ دریائے راوی کے پانی پر لنگر انداز ہیں نہ کہ انڈیا کی سرزمین پر ۔ یوں کافی دن تک محاذ آرائی چلتی رہی ، حکومت نے جب کوئی چارا نہ دیکھا تو انھوں نے چارلس براڈلے کو زبردستی ہندوستا ن سے نکال دیا ۔ برطانیہ جا کر بھی انھوں نے انڈیا کے عوام کو ان کے حقوق دلانے کے لئے سول سوسائٹی اور مزدوروں کو متحرک کیا۔

چارلس براڈلے کے جانے کے بعد ہندوستانی سیاستدان سریندر ناتھ بینر جی نے 1900ء میں اس ہال کا افتتاح کیا ۔ سریندر ناتھ بینر جی کا شمار اس وقت کے مدبر سیاستدانوں میں ہوتا تھا ، وہ انڈین نیشنل ایسوسی ایشن کے ممبر تھے اور یہی تنظیم بعد میں انڈین نیشنل کانگریس بنی۔ سریندر ناتھ بینر جی 1898ء سے 1905ء تک انڈین نیشنل کانگریس کے صدر رہے۔ تب یہ ہال سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا اور یہاں گاہے بگاہے سیاسی اور ثقافتی تقاریب منعقد ہونے لگیں۔



براڈلے ہال کے حوالے سے سب سے زیادہ کام لالہ لاجپت رائے نے سر انجام دیا۔ لالہ لاجپت رائے 28جنوری 1865ء میں دھودک ضلع موگا میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1880ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے قانون کی ڈگری حاصل کی ، مہاتما گاندھی کی سول نافرمانی تحریک میں انھوں نے نمایاں کردار ادا کیا اور براڈلے ہال لاہور میں ان لوگوں کے لئے نیشنل کالج کی بنیاد رکھی جو انگریز سرکار کی طرف سے قائم کردہ سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے ، نیشنل کالج کا ذکر آتے ہی انگریزوںکے ہندوستان پر غاصبانہ قبضے کے خلاف بھرپور جدو جہد کرنے والے پنجاب کے ہیرو بھگت سنگھ ، سکھ دیو اور یش پال کا تصور ذہن میں در آتا ہے، بھگت سنگھ نے 1922ء میں نیشنل کالج میں داخلہ لیا اور یہیں اس کی ملاقات سکھ دیو وغیرہ سے ہوئی، اس کالج میں داخلہ دلانے میں بھگت سنگھ کے چچا اجیت سنگھ نے اہم کردار ادا کیا ، وہ غدر تحریک کے نمایاں رہنمائوں میں سے تھے، بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی 1926ء تک اس کالج سے منسلک رہے اور یوں ان کی سیاسی تربیت ہوئی اور انھوں نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں بھر پور کردار ادا کیا۔

اس دور میں کالج میں ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے ڈرامے اور مختلف تقاریب منعقد ہوتی رہیں ۔ 1928ء میں جب سائمن کیمشن کا بائیکاٹ کیا گیا تو براڈلے ہال بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا اور لالہ لاجپت رائے ، مولانا ظفر علی خان اور سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ان تقاریب کے میزبان ہوتے تھے، اسی دور میں جواہر لال نہرو، اجیت سنگھ اور دیگر نامور سیاستدان ان تقاریب میں اپنی شعلہ بیانی کا جادو جگاتے اور سامعین کے دلوں کو گرماتے۔ بھگت سنگھ کی پارٹی نوجوان بھارت سوابھا کے ممبر شریف متین نے بھگت سنگھ کے کیس کے دوران احتجاج کے لئے براڈلے ہال میں کیمپ لگایا، جس میں پارٹی ممبران کے علاوہ بھگت سنگھ کے خاندان والوں نے بھی شرکت کی، یہ لوگ براڈلے ہال کے باہر چارپائیوں پر بیٹھ جاتے اور وہاں سے گزرنے والوں کو احتجاجی پیغام دیتے ، انگریز حکومت نے سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے براڈلے ہال کے باہر مین روڈ پر پولیس چوکی قائم کر دی مگر آزادی کے متوالوں کی سرگرمیاں ہر حال میں جاری رہیں۔


بیسویں صدی کے پہلے تین چار عشروں میں غدر تحریک، کسان تحریک اور پگڑی سنبھال جٹا کے ممبران براڈلے ہال میں ہی پناہ گزیں ہوتے تھے۔ اسی ہال میں 1920ء میں آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی کے بانی رہنما موہن رائے نے ہندوستان پر برطانیہ کے غاصبانہ قبضے کے خلاف زبردست تقریرکی اور عوام کو ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کو کہا، ان کی اس تقریر کی گونج پورے ہندوستان میں سنی گئی۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال کا کہنا ہے کہ ان کے سیاسی کیرئیر کا آغاز براڈلے ہال سے ہوا اور انھوں نے پہلی سٹوڈنٹ یونین یہیں پر بنائی ۔ انھوں نے یہاں پر جواہر لعل نہرو، جوش ملیح آبادی ، سیف الدین کچلو، میاں افتخار الدین، ہران مکھر جی اور ڈاکٹر محمد اشرف کی تقاریر سنیں۔



لاہور کا پہلا فلم سٹوڈیو 1933 ء میں براڈلے ہال کے قریب ہی قائم کیا گیا تھا ، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی میں انقلاب کی علامت بن جانے والی یہ عمارت پاکستان بننے کے بعد نظر انداز کر دی گئی، 1947ء کے بعد پہلے یہاں خوراک کا سٹور قائم کیا گیا بعد میں یہاں سٹیل مل قائم کردی گئی جو 1980تک قائم رہی ، اس کے بعد یہاں ایک پرائیویٹ ٹیکنیکل ایجوکیشن سنٹر قائم کیا گیا ، چند سال بعد کالج کے مالکان میں آپس میں جھگڑے کی وجہ سے کالج بند کر دیا گیا ، تب متروکہ وقف املاک بورڈ نے عدالت میں کیس کر دیا جس کا فیصلہ 2009ء میں اس کے حق میں ہو گیا تو بورڈ انتظامیہ نے ہال کو تالہ لگا دیا ، یوں ہندوستان میں انقلاب کی علامت یہ ہال تب سے بند پڑا ہے، جبکہ ہال کے بعض حصوں پر قبضے ہیں ، ویرانی کی وجہ سے یہ جگہ اب جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بھی بن چکی ہے ، ہال کی عمارت بھی خستہ حالی کا شکار ہے۔

تاریخی اور ثفاقتی پہلو رکھنے والی عمارتیں ملک و قوم کا سرمایہ ہوتی ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ براڈلے ہال کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے حالانکہ یہاں پر قومی مشاہیر کے حوالے سے میوزیم قائم کیا جا سکتا ہے یوں یہ یادگار بھی محفوظ ہو جائے گی اور عوام کو بھی برصغیر کی نامور شخصیات کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا۔

سر چارلس براڈلے 26ستمبر 1833ء کو لندن کے قریب ہی ایک علاقے ہاکسٹن میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، ان کے والد ایک لاء فرم میں کلرک تھے ۔ ان کی آمدن کم ہونے کی وجہ سے گزر بسر بڑی مشکل سے ہوتی تھی، اسی وجہ سے چارلس براڈلے کو اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ جب وہ صرف گیارہ سال کے تھے تو مالی مسائل کی وجہ سے انھیں سکول سے ہٹا کر ایک دفتر میں آفس بوائے کے طور پر کام کرنے پر لگا دیا گیا۔ وہاں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد انھیں اس سے تھوڑا بہتر کام میسر آیا اور ان کی ذہانت کی وجہ سے انھیں ایک تاجر نے اپنے پاس کلرک رکھ لیا۔ چارلس براڈلے کو اپنی پڑھائی کے ادھورا رہ جانے کا احساس تھا اسی لئے انھوں نے کام کے ساتھ ساتھ تعلیم پر بھی توجہ دی تاکہ خود کو بہتر زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکے، یوںمسلسل محنت کے بعد وہ اس قابل ہوگئے کہ کسی سکول میں پڑھانے کی نوکری حاصل کر سکیں ، تب انھوں نے کوشش کر کے ایک سکول میں نوکری تلاش کر لی۔



چارلس بریڈلے کے مذہب کے حوالے سے خیالات دیگر اساتذہ سے بالکل مختلف تھے یعنی وہ کسی مذہب کو نہیں مانتے تھے ، اسی لئے ان کے ساتھی اساتذہ انہیں پسند نہیں کرتے تھے، چارلس براڈلے کے یہی خیالات ان کو جلد ہی نوکری سے نکالے جانے کا باعث بنے، مگر انھوں نے ہمت نہ ہاری اور صحافت کے میدان میں قدم رکھ دیا اور جیسے تیسے صرف 17سال کی عمر میں اپنا پہلا پمفلٹ شائع کرایا۔ اس دور میں نوجوانوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کیا جارہا تھا، یوں انھیں بھی فوج میں بھرتی کر لیا گیا، امید تھی کہ انھیں پہلی مرتبہ ہندوستان میں بھیجا جائے گا مگر کسی وجہ سے انھیں ہندوستان کی بجائے دبلن میں تعینات کر دیا گیا۔ وہ فوج کی نوکری سے بہت تنگ تھے مگر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق سرکاری احکامات کو ماننے پر مجبور تھے،مگر پھر تقدیر نے ان کا ساتھ دیا اور 1853ء میں ان کی فوت ہونے والی خالہ اپنے پیچھے بہت سی جائیداد چھوڑگئی،اس کا اکلوتا رشتے دار ہونے کی وجہ سے وہ تمام جائیداد کے وارث قرار پائے۔

انھوں نے اس جائیداد کو فوج کی نوکری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا اور محکمے کو راضی کر کے فوج کی نوکری سے اپنی جان چھڑا لی۔ اس کے بعد وہ لندن لوٹ آئے۔ اب انھوں نے اپنے باپ کی طرح ایک لاء فرم میں بطور کلرک کام کرنا شروع کر دیا ۔ ان کے سیکولر خیالات سے تمام لوگ آگاہ تھے ، اسی مکتبہ فکر کے لوگوں نے ان کے ساتھ روابط بڑھا ئے۔ لندن میں لامذہبیت کے خیالات رکھنے والے افراد کی ایک تنظیم لندن سیکولر سوسائٹی کام کر رہی تھی، وہ اس کے ممبر بن گئے۔ 1958ء میں انھیں اس سوسائٹی کا صدر منتخب کر لیا گیا ۔ ان کی صدارت میں اس سوسائٹی نے اپنے افکار کو خوب پھیلایا اور مذہب کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں پر تنقید کی۔1860ء میں انھیں سیکولر نیوز پیپر نیشنل ریفارم کا ایڈیٹر مقرر کردیا گیا ۔

انھوں نے 1866ء میں نیشنل سیکولر سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔1868میں ان پر توہین مذہب کے الزامات لگائے مگر الزامات ثابت نہ ہونے پر انھیں بری کر دیا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے وکالت کو بطور پیشہ اپنایا اور اپنی قابلیت کا لوہا منوایا اور بہت سے مشہور کیسز میں کامیابی حاصل کی۔ان کی ذہانت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے انھیں 1880ء میں پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کر لیا گیا، تب انھوں نے بائبل پر حلف دینے سے انکار کردیا اور اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے عدالت سے رجوع کیا۔ بالآخر وہ کیس جیت گئے اور بائبل پر حلف دیئے بغیر پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے پہلے ممبر بنے۔ ممبر اسمبلی بننے کے بعد انھوں نے برطانیہ کے مختلف ممالک پر قبضے پر تنقید کی ، خاص طور پر آئرلینڈ اور ہندوستان کے لوگوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا حق دینے کے لئے اسمبلی میں قراردادیں پیش کیں، آزادی اظہار کی علمبردار اس عظیم شخصیت کا انتقال1891ء میں ہوا۔
Load Next Story