کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
ستمبر میں مزید بارشوں کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ISLAMABAD:
وطن عزیز آج کل پھر سیلاب کی لپیٹ میں ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر ایک بار پھرمجبور ہوچکے ہیں۔
حکمران اپنی بساط کے مطابق امدادی کاموں کے ذریعے سیلاب زدگان کی دل جوئی میں مصروف ہیں لیکن ستمبر میں مزید بارشوں کی پیش گوئی نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ لاکھوں بے گھر شہریوں کی تکالیف میں جب مزید اضافہ (اللہ نہ کرے) ہو گا، تو اِس کو کم کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہو گا؟ بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور کیا بھی جا سکتا ہے۔ بہت سے ایسے کام جن کو لوگ آج بھی کرنا چاہتے ہیں وہ اس لیے نہیں ہو پاتے کہ بدعنوانی اور بدنیتی نے ہر جگہ پنجے گاڑے ہوئے ہیں، پاکستان میں جب بھی سیلاب آتا ہے حکومتی سطح پر یا وزیراعظم کے نام سے ایک فنڈ قائم ہو جا تا ہے،پھر تمام بینکوں کے ذریعے عطیات وصولی کا سلسلہ شروع ہوتا جاتا ہے، لیکن آج تک علم نہیں ہوا کہ ہر بار یہ عطیات کہاں خرچ ہوتے ہیں؟ مستحق افراد کو ملتے بھی یا نہیں؟
تاریخ گواہ ہے حکومتی سطح پر تمام تر اقدامات اور امدادی منصوبوں کے بعد ہمیشہ سیلاب زدگان اپنی مدد آپ کے تحت ہی زندگی کے دھارے میں دوبارہ واپس آئے، یہی ہمارے عہد کا ایسا کڑوا سچ ہے، جس کو ہضم کرنا مشکل ضرورہے مگر اس کے بغیر چارہ بھی نہیں۔ اِس ضمن میں ایک مثال درج ہے کہ مشرف حکومت تھی، سیلاب آ چکا تھا ، ملک کے اندر مخیر حضرات نے دل کھول کر عطیات دیے، غیر ممالک نے بھی ہر سطح پر مدد کی، سعودی عرب نے سیلاب زدگان کے لیے قیمتی کھجوروں کا تحفہ دیا تاکہ چند ہفتوں بعد آنے والے رمضان کے دنوں میںسیلاب زدگان روزہ افطار کر سکیں، سیلاب کے بعد رمضان المبارک آ گیا، کراچی میں ایک اعلیٰ حکومتی عہدے دار نے افطار پارٹی کا اہتمام کیا، وہاں سعودی سفیر بھی مدعو تھے۔ افطاری کے لیے جب کھجوریں میزوں پر رکھی گئیں تو سعودی سفیر نے وہ کھجوریں پہچان لیں، جو عطیہ کی گئی تھیں۔ پہلے تو وہ افطاری سے اٹھ کر جانے لگے مگر پھر ان کو یہ بتا کر روک لیا گیا '' کہ کھجوریں بہت زیادہ تھیں، اِس لیے تقسیم کے بعد جو بچ گئیں، وہ ارباب اختیار نے آپس میں تقسیم کرلیں'' کہتے ہیں سعودی سفیر صرف مسکرا کر رہ گئے اور اپنے ساتھ آنے والے ایک دوسرے معزز مہمان سے صرف یہ کہا ''میں نے پہلی مرتبہ عطیات بچتے اور آپس میں بٹتے ہوئے دیکھے ہیں''۔
پاکستان میں سیلاب اور مون سون بارشوں کی صورتحال بتدریج شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور بارشوں اور سیلاب سے اگست کے آخر تک 1.5 ملین پاکستانی متاثر ہوچکے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ کے دوران شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث کم از کم 178 افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔ رواں مون سون سیزن کے دوران پیدا ہونے والی سیلابی صورت حال اور بارشوں کی وجہ سے 855 افراد زخمی بھی ہوئے۔ حکام کے مطابق پاکستان بھر کے 5 ہزار 615 دیہات متاثر ہیں جب کہ 20 ہزار سے زائد گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ تقریباً دس لاکھ متاثرہ افراد کے بعد صورت حال تیزی کے ساتھ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ حکام کے مطابق ملک بھر میں متاثرہ افراد کی مدد کے لیے 350 امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وسطی پنجاب، جنوبی سندھ اور جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں قائم کیے گئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق آئندہ ماہ بھی شدید بارشوں کی توقع کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں ان کی تیاریاں مکمل ہیں۔ نومنتخب وزیراعظم نواز شریف نے بھی چاروں صوبوں کی انتظامیہ کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ممکنہ سیلاب کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے انتظامات مکمل رکھیں۔ اگر ستمبر کے دوران شدید بارشیں ہوتی ہیں تو پاکستان کا وسیع رقبہ زیر آب آنے کا خدشہ ہے اور اس سے نمٹنا نومنتخب حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ پاکستان کو اس وقت سنگین مالی بحران کا بھی سامنا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرض لیا گیا تھا۔ سیلاب کی صورت حال سنگین تر ہونے سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوجائے گا بل کہ وسیع پیمانے پر کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔
پاکستان گزشتہ تین برسوں سے سیلابوں اور مون سون کی شدید بارشوں کا سامنا کرتا چلا آ رہا ہے اور مقامی میڈیا کی طرف سے حکومتی اداروں کو موسمی خطرات سے مناسب طور پر نہ نمٹنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مگر نتیجہ وہی ''ڈھاک کے تین پات''رہتا ہے۔2010 میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم 1800 افراد ہلاک اور 21 ملین افراد متاثر ہوئے تھے اور اس سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔ اب حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث 178 افراد ہلاک جب کہ متاثرین کی تعداد پندرہ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے صوبہ پنجاب میں 64، خیبر پختونخوا میں 24، سندھ میں 35، بلوچستان میں 18، قبائلی علاقہ جات میں 12 اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اب تک 25 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ملک میں حالیہ بارشوں اور سیلاب میں سب زیادہ نقصان صوبہ پنجاب میں ہوا ہے جب کہ نقصان کے لحاظ سے صوبہ سندھ دوسرے نمبر پر ہے۔ بارشوں اور سیلاب سے 855 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ زخمی ہونے والوں میں 790 افراد پنجاب سے ہیں اس کے علاوہ سات لاکھ اٹھارہ ہزار سے زائد متاثرین کا تعلق بھی پنجاب سے ہے۔ اب تک تباہ ہونے والے دیہاتوں کی تعداد 5615 بتائی گئی ہے ۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دیہات صوبہ سندھ میں ہیں جن کی تعداد 3341 ہے۔ صوبہ پنجاب کے 1917، صوبہ بلوچستان کے 342 اور صوبہ خیبر پختونخوا کے 15 دیہات متاثر ہوچکے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے 20,312 مکانات مکمل طور پر تباہ جب کہ 28,017 مکانات جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں اگست کے آخر تک 55 افراد ہلاک اور 790 زخمی ہوئے تھے جب کہ سیلاب سے 1741 دیہات مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔555030 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں اور متاثرہ افرار کی تعداد 634322 ریکارڈ ہوئی تھی۔ بارشوں اور سیلاب سے کھڑی فصلیں بھی تباہ ہوئیں ہیں۔ صوبہ پنجاب میں 760353 ایکڑ، صوبہ سندھ میں 203,593 ایکڑ، بلوچستان میں 63969 اور صوبہ خیبر پختونخوا میں 4,279 ایکڑ اراضی پر فصلیں تباہ ہو گئیں ہیں۔ حالیہ بارشوں سے مویشیوں کو بھی نقصان پہنچا اور اس سلسلے میں زیادہ نقصان صوبہ بلوچستان میں ہوا جہاں 4,555 مویشی ہلاک ہوئے۔ متاثر افراد کی مدد کے لیے ملک کے مخلتف حصوں میں 323 امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں 210کیمپ صوبہ پنجاب، 109 کیمپ صوبہ سندھ اور 4 کیمپ صوبہ بلوچستان میں قائم کیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ ملک میں 2010 میں آنے والے سیلاب کے دوران ساڑھے آٹھ سو ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا تھا اور سیکڑوں افراد ہلاک ۔ اس کے علاوہ دو کروڑ سے زیادہ افراد کو غذائی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ حالیہ مون سون کی بارشوں سے دریاؤں اور ندی نالوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہونے سے اب بھی مختلف دریاؤں میں درمیانے اور اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ سیلاب سے متاثرہ بعض علاقوں میں جلد کی بیماری پھیلنے کے علاوہ لوگوں کو سانس لینے میں تکلیف کی شکایات بڑھنے کی اطلاعات ہیں تاہم محکمہ صحت کے مطابق صورت حال قابو میں ہے اور ان بیماریوں نے فی الحال وبائی شکل اختیار نہیں کی۔
چاروں اور سمندر چھلکے، پینے کو اک بوند نہیں
سیلاب کے دنوں میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہوتی ہے۔ ہر طرف پانی ہوتا ہے مگر وہ پانی رحمت کی بجائے زحمت بن چکا ہوتا ہے۔ انسانوں کے علاوہ پالتو جانوروں کو بھی پانی چاہیے، متاثرین کے بقول ''خوراک کے بغیر وقت کٹ جاتا ہے مگر پانی کے بغیر زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ کیچڑ، بد بو، حبس اور بے بسی کے عالم میں پانی وہ واحد شے ہو تی ہے، جو سانس کی ڈوری کو ٹوٹنے بچاتی ہے۔ بچے جب سوکھے ہونٹوں سے پانی مانگتے ہیں تو ..........؟ کر بلا کی یاد تازہ ہونے لگتی ہے''۔
وطن عزیز آج کل پھر سیلاب کی لپیٹ میں ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر ایک بار پھرمجبور ہوچکے ہیں۔
حکمران اپنی بساط کے مطابق امدادی کاموں کے ذریعے سیلاب زدگان کی دل جوئی میں مصروف ہیں لیکن ستمبر میں مزید بارشوں کی پیش گوئی نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ لاکھوں بے گھر شہریوں کی تکالیف میں جب مزید اضافہ (اللہ نہ کرے) ہو گا، تو اِس کو کم کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہو گا؟ بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور کیا بھی جا سکتا ہے۔ بہت سے ایسے کام جن کو لوگ آج بھی کرنا چاہتے ہیں وہ اس لیے نہیں ہو پاتے کہ بدعنوانی اور بدنیتی نے ہر جگہ پنجے گاڑے ہوئے ہیں، پاکستان میں جب بھی سیلاب آتا ہے حکومتی سطح پر یا وزیراعظم کے نام سے ایک فنڈ قائم ہو جا تا ہے،پھر تمام بینکوں کے ذریعے عطیات وصولی کا سلسلہ شروع ہوتا جاتا ہے، لیکن آج تک علم نہیں ہوا کہ ہر بار یہ عطیات کہاں خرچ ہوتے ہیں؟ مستحق افراد کو ملتے بھی یا نہیں؟
تاریخ گواہ ہے حکومتی سطح پر تمام تر اقدامات اور امدادی منصوبوں کے بعد ہمیشہ سیلاب زدگان اپنی مدد آپ کے تحت ہی زندگی کے دھارے میں دوبارہ واپس آئے، یہی ہمارے عہد کا ایسا کڑوا سچ ہے، جس کو ہضم کرنا مشکل ضرورہے مگر اس کے بغیر چارہ بھی نہیں۔ اِس ضمن میں ایک مثال درج ہے کہ مشرف حکومت تھی، سیلاب آ چکا تھا ، ملک کے اندر مخیر حضرات نے دل کھول کر عطیات دیے، غیر ممالک نے بھی ہر سطح پر مدد کی، سعودی عرب نے سیلاب زدگان کے لیے قیمتی کھجوروں کا تحفہ دیا تاکہ چند ہفتوں بعد آنے والے رمضان کے دنوں میںسیلاب زدگان روزہ افطار کر سکیں، سیلاب کے بعد رمضان المبارک آ گیا، کراچی میں ایک اعلیٰ حکومتی عہدے دار نے افطار پارٹی کا اہتمام کیا، وہاں سعودی سفیر بھی مدعو تھے۔ افطاری کے لیے جب کھجوریں میزوں پر رکھی گئیں تو سعودی سفیر نے وہ کھجوریں پہچان لیں، جو عطیہ کی گئی تھیں۔ پہلے تو وہ افطاری سے اٹھ کر جانے لگے مگر پھر ان کو یہ بتا کر روک لیا گیا '' کہ کھجوریں بہت زیادہ تھیں، اِس لیے تقسیم کے بعد جو بچ گئیں، وہ ارباب اختیار نے آپس میں تقسیم کرلیں'' کہتے ہیں سعودی سفیر صرف مسکرا کر رہ گئے اور اپنے ساتھ آنے والے ایک دوسرے معزز مہمان سے صرف یہ کہا ''میں نے پہلی مرتبہ عطیات بچتے اور آپس میں بٹتے ہوئے دیکھے ہیں''۔
پاکستان میں سیلاب اور مون سون بارشوں کی صورتحال بتدریج شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور بارشوں اور سیلاب سے اگست کے آخر تک 1.5 ملین پاکستانی متاثر ہوچکے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ کے دوران شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث کم از کم 178 افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔ رواں مون سون سیزن کے دوران پیدا ہونے والی سیلابی صورت حال اور بارشوں کی وجہ سے 855 افراد زخمی بھی ہوئے۔ حکام کے مطابق پاکستان بھر کے 5 ہزار 615 دیہات متاثر ہیں جب کہ 20 ہزار سے زائد گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ تقریباً دس لاکھ متاثرہ افراد کے بعد صورت حال تیزی کے ساتھ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ حکام کے مطابق ملک بھر میں متاثرہ افراد کی مدد کے لیے 350 امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وسطی پنجاب، جنوبی سندھ اور جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں قائم کیے گئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق آئندہ ماہ بھی شدید بارشوں کی توقع کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں ان کی تیاریاں مکمل ہیں۔ نومنتخب وزیراعظم نواز شریف نے بھی چاروں صوبوں کی انتظامیہ کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ممکنہ سیلاب کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے انتظامات مکمل رکھیں۔ اگر ستمبر کے دوران شدید بارشیں ہوتی ہیں تو پاکستان کا وسیع رقبہ زیر آب آنے کا خدشہ ہے اور اس سے نمٹنا نومنتخب حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ پاکستان کو اس وقت سنگین مالی بحران کا بھی سامنا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرض لیا گیا تھا۔ سیلاب کی صورت حال سنگین تر ہونے سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوجائے گا بل کہ وسیع پیمانے پر کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔
پاکستان گزشتہ تین برسوں سے سیلابوں اور مون سون کی شدید بارشوں کا سامنا کرتا چلا آ رہا ہے اور مقامی میڈیا کی طرف سے حکومتی اداروں کو موسمی خطرات سے مناسب طور پر نہ نمٹنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مگر نتیجہ وہی ''ڈھاک کے تین پات''رہتا ہے۔2010 میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم 1800 افراد ہلاک اور 21 ملین افراد متاثر ہوئے تھے اور اس سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔ اب حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث 178 افراد ہلاک جب کہ متاثرین کی تعداد پندرہ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے صوبہ پنجاب میں 64، خیبر پختونخوا میں 24، سندھ میں 35، بلوچستان میں 18، قبائلی علاقہ جات میں 12 اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اب تک 25 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ملک میں حالیہ بارشوں اور سیلاب میں سب زیادہ نقصان صوبہ پنجاب میں ہوا ہے جب کہ نقصان کے لحاظ سے صوبہ سندھ دوسرے نمبر پر ہے۔ بارشوں اور سیلاب سے 855 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ زخمی ہونے والوں میں 790 افراد پنجاب سے ہیں اس کے علاوہ سات لاکھ اٹھارہ ہزار سے زائد متاثرین کا تعلق بھی پنجاب سے ہے۔ اب تک تباہ ہونے والے دیہاتوں کی تعداد 5615 بتائی گئی ہے ۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دیہات صوبہ سندھ میں ہیں جن کی تعداد 3341 ہے۔ صوبہ پنجاب کے 1917، صوبہ بلوچستان کے 342 اور صوبہ خیبر پختونخوا کے 15 دیہات متاثر ہوچکے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے 20,312 مکانات مکمل طور پر تباہ جب کہ 28,017 مکانات جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں اگست کے آخر تک 55 افراد ہلاک اور 790 زخمی ہوئے تھے جب کہ سیلاب سے 1741 دیہات مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔555030 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں اور متاثرہ افرار کی تعداد 634322 ریکارڈ ہوئی تھی۔ بارشوں اور سیلاب سے کھڑی فصلیں بھی تباہ ہوئیں ہیں۔ صوبہ پنجاب میں 760353 ایکڑ، صوبہ سندھ میں 203,593 ایکڑ، بلوچستان میں 63969 اور صوبہ خیبر پختونخوا میں 4,279 ایکڑ اراضی پر فصلیں تباہ ہو گئیں ہیں۔ حالیہ بارشوں سے مویشیوں کو بھی نقصان پہنچا اور اس سلسلے میں زیادہ نقصان صوبہ بلوچستان میں ہوا جہاں 4,555 مویشی ہلاک ہوئے۔ متاثر افراد کی مدد کے لیے ملک کے مخلتف حصوں میں 323 امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں 210کیمپ صوبہ پنجاب، 109 کیمپ صوبہ سندھ اور 4 کیمپ صوبہ بلوچستان میں قائم کیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ ملک میں 2010 میں آنے والے سیلاب کے دوران ساڑھے آٹھ سو ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا تھا اور سیکڑوں افراد ہلاک ۔ اس کے علاوہ دو کروڑ سے زیادہ افراد کو غذائی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ حالیہ مون سون کی بارشوں سے دریاؤں اور ندی نالوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہونے سے اب بھی مختلف دریاؤں میں درمیانے اور اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ سیلاب سے متاثرہ بعض علاقوں میں جلد کی بیماری پھیلنے کے علاوہ لوگوں کو سانس لینے میں تکلیف کی شکایات بڑھنے کی اطلاعات ہیں تاہم محکمہ صحت کے مطابق صورت حال قابو میں ہے اور ان بیماریوں نے فی الحال وبائی شکل اختیار نہیں کی۔
چاروں اور سمندر چھلکے، پینے کو اک بوند نہیں
سیلاب کے دنوں میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہوتی ہے۔ ہر طرف پانی ہوتا ہے مگر وہ پانی رحمت کی بجائے زحمت بن چکا ہوتا ہے۔ انسانوں کے علاوہ پالتو جانوروں کو بھی پانی چاہیے، متاثرین کے بقول ''خوراک کے بغیر وقت کٹ جاتا ہے مگر پانی کے بغیر زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ کیچڑ، بد بو، حبس اور بے بسی کے عالم میں پانی وہ واحد شے ہو تی ہے، جو سانس کی ڈوری کو ٹوٹنے بچاتی ہے۔ بچے جب سوکھے ہونٹوں سے پانی مانگتے ہیں تو ..........؟ کر بلا کی یاد تازہ ہونے لگتی ہے''۔