شمشیر الحیدری

سندھی ادب کا درخشندہ ستارہ

سندھی ادب کا درخشندہ ستارہ۔ فوٹو: فائل

سندھ میں ادب کی دنیا میں کئی درخشندہ ستارے پیدا ہوئے اور ادب کے افق پر اپنی تخلیق کی روشنی سے ادب کے آسمان کو منور رکھا۔

وہ اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ ادیب، شاعر، محقق، اینکر اور اسکرپٹ رائٹر شمشیر الحیدری بھی ان ستاروں میں سے ایک ہیں، جنہیں ہم سے بچھڑے ایک سال ہوگیا ہے مگر آج بھی ان کی یادیں، اس کا ادب میں کیا ہوا کام ہر دل میں موجود ہے۔

شمشیر کی کی زندگی کا خاکہ، کاوشیں اور محنت کے بارے میں تو میں آپ کو بتائوںگا، مگر اس سے پہلے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میں ان سے جب بھی ملا ان کے ہاتھ میں سگریٹ اور چائے کا کپ ضرور دیکھا۔ وہ چین اسموکر تھے اور چائے قہوہ پیتے تھے۔ جس میں صرف چینی والا آدھا چمچہ، دودھ ڈالتے تھے۔ چائے ہر وقت ان کے ساتھ رہتی تھی۔ میں نے جب بھی انہیں کسی محفل میں دیکھا خوش ہی دیکھا۔ ان کے چہرے پر کبھی بھی مایوسی نہیں ہوتی تھی۔ آج سے سات سال پہلے جب میں شمشیر سے گلشن حدید میں ملا تو ان سے کچھ بات چیت ہوئی۔

انہوں نے اپنی گفتگو میں زیادہ تر سندھی ادبی سنگت کو موضوع بنائے رکھا۔ انہوں نے بتایا کہ سندھی ادبی کا قیام پاکستان بننے سے پہلے ہوا تھا اور جب کراچی میں مٹھا رام ہال میں سنگت وجود میں آئی تو اس موقع پر سوبھو گیان چندانی اور گوبندمالی بھی موجود تھے۔ پارٹیشن کے بعد کافی ہندو شاعر اور ادیب ہندوستان چلے گئے، جس کے بعد کئی سندھی ادبی انجمنیں وجود میں آئیں مگر سندھی ادبی سنگت کی اہمیت وہی رہی۔ لیکن 1956میں ایک تحریک چلی کہ اب ایک مرکزی تنظیم بنائی جائے جو پورے سندھ میں کام کرے جس کے لیے سینیٹوریم ہال کراچی میں ایک اجلاس ہوا، جس میں علامہ دائود پوتہ نے یہ رائے دی کہ سندھی ادب کے فروغ کے لیے پورے سندھ میں مہم چلائی جائے جس کی تائید تاج محمد ابڑو، عبدالغفور انصاری، ایاز قادری، سوبھو گیان چندانی، تاج جویو، الطاف شیخ، رشید بھٹی اور تنویر عباس نے بھی کی۔

مرکزی تنظیم بنانے کے بعد سندھی ادبی سنگت کے لیے مشکلات کے دن شروع ہوگئے، کیوںکہ اس میں جتنے بھی شاعر اور ادیب تھے۔ وہ تقریباً ترقی پسند تھے۔ ان کا اصلی مقصد یہ تھا کہ سندھی ادب کی راہ میں جتنے مسائل ہیں انہیں حل کرکے سندھی ادب کو ترقی دی جائے۔ حکومت اور مذہبی لوگ سنگت کی مخالفت کرنے لگے، کیوںکہ سندھی ادبی سنگت سیکولر بنیاد پر بنائی گئی تھی، جس میں کسی بھی مذہب کے ماننے والے ممبر بن سکتے تھے اور یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سنگت کی کارروائی کا آغاز شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری سے کیا جائے گا، جس پر حکومت اور مذہبی گروپوں کی طرف سے اعتراضات کیے گئے اور اختلافات اٹھ کھڑے ہوئے۔

مزید یہ ہوا کہ سنگت میں کچھ ممبر ایسے بھی تھے جن کا تعلق جمعیت شوریٰ سے تھا اور وہ مذہب کے معاملے میں بہت کٹر تھے۔ انہوں نے بھی اختلاف ظاہر کیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ایاز قادری نے سنگت سے استعفیٰ دیا، وہ سنگت کے پہلے سیکریٹری جنرل بھی تھے۔ شمشیر الحیدری اس وقت جوائنٹ سیکریٹری تھے، اس لیے انہوںنے سیکریٹری جنرل کا چارج سنبھال لیا۔ یہ عہدہ شمشیر کے پاس 1966تک رہا، جس کے دوران انہوں نے دو مرتبہ سندھی ادبی سنگت کے کنونشن منعقد کروائے جو نواب شاہ میں کیے گئے، جب شمشیر کو سرکاری نوکری ملی تو انہوں نے یہ چارج تنویر عباسی کو دے دیا۔ شمشیر نے اپنے دور میں کئی برانچیں سنگت کی سندھ کے مختلف شہروں میں قائم کروائیں اور ادبی لوگوں کو سنگت کا ممبر بنایا۔ اس کے علاوہ ہر ہفتے ادبی اجلاس باقاعدگی سے پورے سندھ میں منعقد کروائے تاکہ شاعر اور ادیب اس میں حصہ لیں اور اپنے لکھے ہوئے کام کو پیش کریں تاکہ اس میں اصلاح ہو اور نئے نئے ادبی لوگوں میں شعور اور شوق پیدا ہو۔

اب پورے سندھ میں ادبی مشاعرے اور اجلاس ہورہے تھے جہاں پر نئی نسل کے شاعر اور رائٹر پیدا ہونے لگے اور ان کی حوصلہ افزائی ہوئی جس کے نتیجے میں سندھی ادبی سنگت اور سندھی زبان کی ترقی ہونے لگی۔ سندھی کتابوں کے میلے لگنے شروع ہوئے اور عام آدمی میں بھی کتاب پڑھنے کا رجحان بڑھنے لگا۔ اس عمل سے سندھی کلچر، سندھی ادب، سندھی زبان کی ترقی شروع ہوچکی تھی، جس کی وجہ سے سنگت لوگوں میں مقبول ہوگئی۔ اب سندھ کے ہر کونے میں سنگت کی آواز پہنچنے لگی اور سندھی زبان کے لیے ایک نیا باب کھلنے لگا اور لوگ ادب کی طرف بڑھنے لگے مگر افسوس جب سے سیاسی رنگ سنگت میں آنے لگا اس نے سنگت کو کم زور کردیا اور اس میں اختلافات بڑھتے گئے۔ اس لیے اسے دوبارہ آکسیجن دینے کی ضرورت محسوس کی گئی تاکہ اس تنظیم کو دوبارہ لوگوں تک لایا جائے۔

ماضی میں یہ تنظیم سیاست دانوں اور طلبہ کو گائیڈ لائن دیا کرتی تھی۔ 1960میں جنرل محمد ایوب خان کے زمانے میں ایجوکیشن کمیشن بنایا گیا تھا، جس نے طے کیا تھا کہ صرف چار جماعت تک سندھی پڑھائی جائے، اس کے بعد اردو پڑھائی جائے۔ اس سلسلے میں سندھی ادبی سنگت نے ایک تحریک چلائی جس کے نتیجے میں یہ حکم واپس لے لیا گیا۔ اب ایم اے تک سندھی زبان پڑھی اور لکھی جاتی ہے۔ اس کا کریڈٹ سنگت کو جاتا ہے۔

شمشیرالحیدری ساری عمر سندھی زبان کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سندھی ادبی سنگت کے لیے ریڈیو پاکستان نوگوایریا تھا۔ جب وہاں پر کچھ آسانی پیدا ہوئی تو شمشیر نے ریڈیو کے لیے کئی فیچر پروگرام لکھے اور شاعری لکھی، مگر جب فروری 1970کو پی ٹی وی پر سندھی سیکشن کا قیام ہوا تو اس میں شمشیر نے رس رھان پروگرام کے لیے کام کیا جسے عبدالکریم بلوچ پروڈیوس کرتے تھے۔ اس وقت اسلم اظہر کراچی سینٹر کے جی ایم تھے، جنہیں ''فادر آف پی ٹی وی'' کہا جاتا ہے، وہ بہت ذہین تھے۔ بعد میں شمشیر کو پی ٹی وی میں آرگنائزر کے طورپر بھرتی کیاگیا اور وہ وہاں پر شاہ بھٹائی کے عنوان سے پروگرام کرتے تھے، جس میں پیر حسام الدین راشدی، جی الانہ، لطف علی شاہ نقوی بھی حصہ لے چکے تھے۔ اس پروگرام میں محمد جمن نے بھٹائی کے سر کلیان سے جو کلام ''دوست درایو'' پیش کیا جس نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ اس پروگرام کے پہلے حصے میں انہوں نے خود کمپیئرنگ کی تھی۔ اس کے علاوہ مرزا کلیم بیگ کے لکھے ہوئے ناول ''زینت'' کو ڈرامائی تشکیل دی تھی۔ شمشیر الحیدری نے سندھی پی ٹی وی نیوز سیکشن کو بھی آرگنائز کیا۔


پی ٹی وی پر شمشیر نے بہت سارے سندھی اور اردو ڈرامے لکھے۔ ان کے ترجمے کیے ہوئے مشاعرے ''گیت منظر'' کے نام سے اردو میں 6ماہ تک چلنے والے پروگرام نے بڑی مقبولیت حاصل کی، جس میں سندھی فوک گیتوں کو اردو میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے سندھی فلم ''بے زبان'' کے گانے بھی لکھے جو ریڈیو سے وقتاً فوقتاً نشر ہوتے رہے ہیں، مگر افسوس کہ یہ فلم ریلیز نہ ہوسکی۔

ان کی شاعری کا مجموعۂ کلام 1962میں ''لاٹ'' کے نام سے چھپا تھا جو 82 صفحے پر مشتمل تھا۔ انہوں نے ''کاک'' کے نام سے ایک ڈراما بھی لکھا جو 12قسطوں کا تھا، اسے سنگم پبلی کیشن والوں نے شایع کیا تھا۔ اندازاً200کے قریب کتاب انہوں نے ترجمے کیے ہیں اور 8 کتابیں اردو اور سندھی میں چھپ گئی ہیں اور باقی اور بھی مواد ہے جو ہاتھ سے لکھا ہوا ہے۔ ان کی لکھی ہوئی کتابیں بی اے اور ایم اے میں کراچی یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہیں۔

شمشیر الحیدری 15ستمبر1931کو ضلع بدین کے شہر کڈھن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام رسول بخش تھا۔ ان کے دادا ہاری تھے مگر وہ حکمت کا کام بھی جانتے تھے۔ اس لیے انہوں نے بدین میں پنساری کی دکان کھول لی اور حکمت بھی کرنے لگے، انھوں نے بہ اس کام میں بڑا نام کمایا۔ اب یہ کام شمشیر کے والد کو منتقل ہوا اور ان سے شمشیر کو ملا۔ ان کے نانا چمڑے کا کاروبار کرتے تھے اور امیر آدمی تھے۔

شمشیر نے مدرسے سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جو غریب آباد محلہ بدین شہر میں واقع تھا۔ یہ مدرسہ مولوی حاجی احمد ملاح نے قائم کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے چار جماعت پرائمری اور پھر انگریزی میں پاس کی، جس کے بعد انہیں مزید تعلیم کے لیے کراچی بھیجا گیا، جہاں سے وہ میٹرک کا امتحان پاس نہ کرسکے، کیوںکہ مدرسے کے ہیڈ نے ان پر یہ الزام لگایا کہ مدرسہ میں جو ہڑتال ہورہی ہے اس کا ذمے دار شمشیر ہیں، جب کہ ایسا نہیں تھا، کیوں کہ ہڑتال سے قبل وہ ایک مہینے سے بیمار تھے اور بدین میں اپنے گھر پر تھے۔ انہیں مدرسہ سے نکال دیا گیا۔ اسے لیونگ سرٹیفکیٹ بھی نہیں دیا گیا۔ اسی دوران انہوں نے این جے وی اسکول میں اپنی پڑھائی جاری رکھی جہاں سے بھی لیونگ سرٹیفکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے نکال دیے گئے۔ اب وہ نور محمد ہائی اسکول حیدرآباد چلے گئے، جہاں ان سے کہا گیا کہ تمہارے پاس لیونگ سرٹیفکیٹ نہیں ہے اس لیے تم جاسکتے ہو۔ آخرِکار انہوں نے ٹنڈو باگو میں خان بہادر غلام محمد اسکول میں داخلہ لیا جس نے کئی اچھی شخصیتوں کو تعلیم دی تھی۔ وہاں سے انہوں نے پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ حالاںکہ انہیں سخت بخار تھا اور الٹیاں ہورہی تھیں، مگر انہوں نے میٹرک کے امتحان میں شرکت کی، لیکن وہ فیل ہوگئے۔ دوبارہ سپلیمنٹری امتحان میں بیٹھے اس میں بھی فیل ہوگئے۔

اب وہ ناکامیوں سے اکتاگئے تھے اور رشتے داروں کے کہنے پر انہوں نے شادی کرلی اور ایک مل کے اندر منشی کی نوکری کرنا شروع کی۔ اس کے بعد آب پاشی کے محکمے میں ٹیلی فون آپریٹر بنے پھر کلرک ہوگئے۔ آگے چل کر وہ سندھ کوآپریٹیو سوسائٹی کمرشیل بینک کے منیجر بن گئے، جہاں پر وہ 1954تک رہے۔ پھر وہ 1955میں ہلال پاکستان اخبار کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے امور سرانجام دینے لگے۔ اس وقت یہ اخبار حیدرآباد سے نکلتا تھا، جہاں پر وہ آگے چل کر نیوز ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ ایک سال کے بعد پھر انہوں نے سندھی ادبی بورڈ جوائن کیا اور مہران میگزین میں کام کرنے لگے۔ اس کے علاوہ انہوں نے وہاں پر چھپنے والی کتابوں کو ایڈٹ کرنا شروع کیا۔ ان کی محمد عثمان ڈیپلائی کے ساتھ اچھی دوستی تھی، جن کے ساتھ وہ بھی اورینٹل کالج میں میٹرک کے امتحان میں بیٹھے اور پاس ہوگئے۔ پھر انٹر کیا۔ اس کے بعد سندھ یونیورسٹی سے بی اے (آنرز) پاس کیا۔ پھر ایم اے سندھی میں کیا، یہ سال تھا 1966۔

1966میں سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں اپیئر ہوئے اور انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں فلم اینڈ پبلی کیشن سیکشن میں جوائن کیا۔ وہاں سے نکلنے والے میگزین نئی زندگی کے ایڈیٹر ہوگئے، جہاں تین سال تک کام کرتے رہے۔ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں وہ 11سال رہے۔ اس کے بعد وہ منسٹری آف کمیونیکیشن میں چلے گئے، جہاں پر انہیں انفارمیشن سیل میں تعینات کیا گیا۔ وہاں سے ایک رسالہ کمیونیکیٹر نکلتا تھا۔ اس سیل میں قمرشہباز منیجر اور رسالے کے ایڈیٹر تھے۔ شمشیر کو وہاں ڈپٹی منیجر اور ڈپٹی ایڈیٹر بنایا گیا۔ انہوں نے اس ادارے میں ڈیڑھ سال کام کیا، مگر جب ضیاء الحق اقتدار میں آئے تو یہ سیل بند کردیا گیا، جس کی وجہ سے شمشیر بے روزگار ہوگئے۔ بے روزگاری کا یہ سلسلہ 11سال تک چلتا رہا۔ اس دوران انہوں نے پی ٹی وی اور اخباروں میں لکھ کر وقت گزارا۔

جب پی پی پی اقتدار میں آئی تو پرویز شاہ یوتھ افیئرز کے منسٹر بنے، انہوں نے شمشیر الحیدری کو کراچی میں پبلک ریلیشنز ڈپارٹمینٹ کے چیف کے طور پر بھرتی کیا۔ اس کے بعد وہ گریڈ انیس میں ترقی پاکر اسلام آباد چلے گئے۔ آگے چل کر وہ گریڈ20 میں ڈائریکٹر پبلسٹی اور پبلی کیشن بنادیے گئے۔ پی پی پی کی حکومت کے جانے کے بعد انہیں واپس کراچی میں19گریڈ میں بھیج دیا گیا، جہاں سے وہ ڈیڑھ سال کے بعد ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کے پاس حکمت کا سرٹیفکیٹ تھا۔ اس لیے انہوں نے تھوڑا بہت حکمت کا کام بھی شروع کردیا اور کئی بیماریوں کے علاج کے لیے دوائیں بھی بنائیں ، جن سے لوگ مستفید بھی ہوئے۔

شمشیر کے والد نے تین شادیاں کی تھیں۔ جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر 6سال تھی۔ ان کی پرورش اس کے نانا کے گھر ہوئی تھی۔ ان کے نانا کامریڈ ڈاکٹر نذیر حسین حیدری ہاری کمیٹی کے نائب صدر تھے اور کامریڈ حیدربخش جتوئی کے دوست بھی تھے۔ شمشیر نے لکھنے پڑھنے کا شوق اپنے نانا سے لیا، جو ایک اچھے قلم کار، مقرر اور شاعر تھے۔ اس کے علاوہ وہ ''اعلان حق'' کے پبلشر بھی تھے۔ شمشیر اپنے آپ کو شاعر نہیں کہتے تھے، مگر وہ ایک فطری شاعر تھے۔ ان کے نانا کی بہت بڑی لائبریری تھی جہاں جاکر وہ کتابیں پڑھتے تھے۔ اس لائبریری میں ہر قسم کی کتابیں ہوتی تھیں۔ وہاں پر موجود کتابوں کو پڑھنے سے ان میں علم کی روشنی مزید تیز ہوگئی اور وہ ایک روشن خیال انسان بن گئے، اب انہیں لکھنے کا ڈھنگ آگیا اور اس میں لفظوں کا استعمال کا ہنر بھی مل گیا۔ سندھی ادبی بورڈ میں کام کرنے کے دوران ان کے تعلقات کافی وسیع ہوگئے اور انہوں نے اپنے دوست ہندوستان میں بھی بنالیے، جس سے اس کے علم اور ادب میں کافی اضافہ ہوا۔ شمشیر نے مذہب اور سماج پر بہت کچھ پڑھا، جس کی وجہ سے ان میں انسانیت کے لیے زیادہ عزت اور محبت پیدا ہوگئی تھی۔ انہوں نے کئی رائٹرز کی کتابیں پڑھی اور ان میں سے کافی کچھ حاصل کیا، جس کی وجہ سے ان کی سوچ میں وسعت پیدا ہوئی۔

شمشیر الحیدری کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے تھے، جس کے بارے میں بڑی دیر کے بعد معلوم ہوا۔ انہیں آخری دنوں میں کلچر ڈپارٹمنٹ سندھ کی طرف سے آغاخان اسپتال میں بھی داخل کرایا گیا، مگر زندگی نیان کا ساتھ نہیں دیا اور وہ خالقِ حقیقی سے جاملے۔ ان کی وصیت کے مطابق انھیں چوکنڈی کے قبرستان میں ان کے دوست تاجل بے وس کے برابر سپرد خاک کیاگیا۔ انہوں نے پس ماندگان میں بیوہ، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اور 5بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے لاکھوں چاہنے والے، دوست اور 200 سے زیادہ کتابیں چھوڑی ہیں۔
Load Next Story