خان صاحب قوم کا بچہ بچہ ٹیکس دیتا ہے

موبائل فون آج ایک عیاشی نہیں بلکہ ضرورت بن چکا ہے۔اس سروس پراتنا بھاری ٹیکس ہماری حکومت کیلیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔

mnoorani08@gmail.com

ISTANBUL:
یہ ایک غلط تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ یہ قوم ٹیکس نہیں دیتی، جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ اِس قوم کا بچہ بچہ ٹیکس دیتا ہے۔ بچہ کے دودھ کے پوڈر پرہمارے حکام پہلے ہی ٹیکس کاٹ چکے ہوتے ہیں۔ وہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے اور ٹافی یا چاکلیٹ کھانے کے قابل ہوتا ہے تو وہ اُس پر بھی وہ ٹیکس اداکرتاہے۔

اُس کے بیمار ہونے کی صورت میں لائی جانے والی دوائیں بھی ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں ہیں ۔ پھر نجانے کیوں ہمارے وزیر اعظم اور اُن کے وزراء رات دن یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ہمارے لوگ ٹیکس نہیں دیتے ۔ وہ یا تو اِس حقیقت سے لاعلم ہیں یا پھر جان بوجھ کراپنی نا اہلی پر پردہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم نے ایک طویل عرصہ اپوزیشن میں رہ کرعوام کے حقوق کی باتیں کی ہیں۔

2014ء میں دھرنے والے دنوں میں تو 126روز تک بجلی اور گیس کے بل دکھا دکھا کر قوم کو ٹیکس نہ دینے پر اُکسایا کرتے تھے۔ پھر یہ کیا ہوگیا ہے کہ اُنہیں آج بجلی کے اِن بلوں میں مہنگی ترین بجلی کے علاوہ اُس پر لیا جانے والا بلاجواز اضافی ٹیکس کیوں دکھائی نہیں دے رہا ۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ صابن، چائے ، پانی اورگیس سمیت ضروریات زندگی کی ہر شہ پرکسی نہ کسی شکل میں حکومت لوگوں سے ٹیکس وصول کرلیتی ہے۔ موبائل فون کے کارڈز پر 25سے 35فیصد کاٹیکس اُنہیں دھرنے والے دنوں میں توبہت برا اور ناجائزلگا کرتاتھالیکن آج جب اُن کی اپنی حکومت ہے تو وہ خاموشی سے بہرامند بھی ہورہے ہیں۔

موبائل فون آج ایک عیاشی نہیں بلکہ ضرورت بن چکا ہے۔ اِس سروس پر اتنا بھاری ٹیکس ہماری حکومت کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعے اِسے ختم کرنے کی کوشش تو ضرورکی تھی جوزیادہ دنوں تک شاید اِس لیے فعال اور کارآمد نہیں رہی جس طرح پیٹرولیم مصنوعات پر لیا جانے والا ٹیکس ایک فوری اورکیش آمدنی ہوا کرتی ہے اُسی طرح موبائل فون کے کارڈز پر لیا جانے والا یہ ٹیکس بھی استعمال سے پہلے ہی حکومت کے خزانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ کوئی معمولی انکم نہیں ہے۔

تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں سے حاصل کیا جانے والا انکم ٹیکس بھی اُن ٹیکسوں میں سے ایک ہے جوکسی شخص کو اُس کی خدمت کے عوض اداکیے جانے والے معاوضے سے پہلے ہی کٹوتی کرکے حکومتی خزانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔عام آدمی کے استعمال کی اب ایسی کوئی چیز باقی نہیں رہی جس پر حکومت کوئی ٹیکس نہ لیتی ہو۔ اب صرف ایک ہوا ہی ایسی باقی رہ گئی ہے جو حکمرانوں کے قابو میں نہیں ہے ورنہ وہ اُسے بھی سلنڈروں میں بند کرکے بھاری ٹیکس لگاکر بیچا کرتی۔


30مئی کے شام کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے رات نو بجے کے قریب یہ نوید سنائی گئی کہ وزیراعظم ایک بیان جاری کرنے والے ہیں۔یہ وہ وقت اور دن تھا جب خان صاحب او آئی سی کی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے سعودی عرب کے دورے پرجاچکے تھے۔ لوگ سمجھے ضرور کوئی خاص بات ہوگی کہ دوران سفر یہ نیوز جاری کرنا پڑی۔لیکن جب عقدہ کھلا تو کان اوردماغ یہ سنکر حیران رہ گئے کہ وزیراعظم صاحب کو ہرلمحہ یہ فکر لاحق رہنے لگی ہے کہ اُن کی حکومت کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔

جس ملک کے دورے پر وہ جارہے تھے اُس سے تو پہلے ہی بہت کچھ وہ ادھار لے چکے تھے۔ اب کوئی دوسراآسرا بھی باقی نہیں رہا ۔ لہذا عوام ہی کو پیغام دیا جائے کہ وہ بجٹ سے پہلے حکومت کے خزانوں میں اپنی رہی سہی باقی رقوم بھی جمع کردے۔اپنے اِس غیرمتوقع پیغام میں اُنہوں نے ایک بار پھرقوم کے سامنے اپنی اِس لاعلمی اوربے خبری کااعادہ فرمایاکہ ہمارے لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔

اُن کے بقول صرف ایک فیصد لوگ اِس ملک میں ٹیکس دیتے ہیں۔حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ براہ راست اور باالواستہ ٹیکس اداکرنے والوں کی تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے جو حکومتی اعدادوشمار میں درج ہے۔ہاں البتہ باقاعدہ طور پر ریٹرن داخل کرنے والے اور ٹیکس فائلرز کے تعداد بہرحال کم ہے۔ایف بی آر کے مطابق اِس وقت ملک میں رجسٹرڈ فائلرز کے تعداد 20لاکھ کے لگ بھگ ہے۔یہ بھی سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کی مرہون منت ہے کہ 8لاکھ سے یہ تعداد اُنہوں نے اپنی کوششوں سے 20 لاکھ کے برابر کردی۔ ورنہ اُن سے پہلے تو صرف 8لاکھ ہی افراد فائلر کی حیثیت میں رجسٹرڈ تھے۔لیکن اِس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ 20لاکھ لوگوں کے علاوہ ہمارے یہاں کوئی ٹیکس نہیں دیتا۔ایسا سمجھنا اور ایسا کہناانتہائی نامناسب اور جھوٹ ہے۔ایسا کہنے والا یا تو زمینی حقائق سے نابلد اور ناواقف ہے یاپھر وہ اپنی نااہل اور ناکامی کوغلط بیانی اوردروغ گوئی کے پردوں میں چھپارہاہوتا ہے۔

خان صاحب کی حکومت نے اول تو پہلے دن سے یہ شور ڈالنا شروع کردیا کہ ملکی خزانہ خالی ہے۔ خزانے کے خالی ہونے کا جتنا شور اِنہوں نے مچایا تھا ، شاید ہی اِن سے پہلے کسی نے مچایا ہو۔بہرحال اِس شوروغوغا میں اُنہوں نے بے تحاشہ قرضوں کے حصول کو اُس کاجواز بناکر ایک برس توبا آسانی گزار لیا لیکن اب باقی چار سال گزارنے کے لیے اُن کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے سوائے اِس کے کہ عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جائے اوراِس کے لیے اُنہیں ہی مورد الزام ٹہرایاجائے کہ چونکہ وہ ٹیکس نہیں دیتے اِس لیے یہ مہنگائی کرنا پڑرہی ہے۔حکومت نے سب سے پہلے تو وہ ساری سبسڈیز ختم کرڈالیں جواُن سے پیش روؤں نے اِ س ملک کے غریب اور نادار لوگوں کے لیے مختص کی تھیں۔

سبسڈیز ختم کرتے ہوئے جواز یہ پیش کیاگیا کہ اِن پیسوں کوہم لوگوں کی تعلیم اورصحت عامہ پر خرچ کریں گے ۔لیکن اب یہ بھی ممکن نہ رہا تو فرمایاجانے لگا کہ اگر ٹیکس نہیں دو گے توپھر اچھی تعلیم اور صحت کی فراہمی حکومت کے بس کی بات نہیں۔ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کس قسم کی حکومت ہے۔جس نے آنے سے پہلے تو عوام کی بھلائی اوربہبود کے نجانے کتنے بلند بانگ دعوے کیے تھے اور سڑکوں ، شاہراہوں کی تعمیر اور میٹرو بسوں کو غیر ضروری قرار دیکر پہلے تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کو اپنا مشن بنایا تھا۔ لیکن اب تمام ترقیاتی کاموں پر قدغنیں لگاکر بھی اُس سے عوامی بھلائی کے دیگرکام بھی نہیں ہوپا رہے۔

اِس ضمن میں بچایاجانے والا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا وہ یہ بتانے کی بھی روادار نہیں ہے۔ایک طرف تمام سبسڈی ختم کرکے اِس ملک کے غریب لوگوں پرمہنگائی کا زبردست بوجھ ڈالا جارہا ہے تودوسری جانب ٹیکس نہ دینے کاالزام بھی اُسی کے سر تھوپ کراپنی نااہلی اور ناقص حکمت عملی پر پردہ ڈالاجا رہا ہے۔حکومت کو اپنے رویے اور طرزعمل کو بدلنا ہوگااور ایک سنجیدہ اور ذمے دارانہ اسلوب اختیارکرتے ہوئے قوم کی خدمت کرنا ہوگی ورنہ وہ یاد رکھے کہ جب عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز ہو گا توپھر اُسے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔جن قوتوں کے بل بوتے پر وہ اقتدار میں آئی ہے نظریں چرا لینے میں اُنہیں پھر لمحے بھر کی دیر نہیںلگے گی۔
Load Next Story