جنت میں گھر
عوام کو درختوں کا نظارہ کراتے ہوئے ان میں شوق و شعور پیدا کیا جائے بجائے اس کے کہ انھیں بینر پڑھا کر ٹرخا دیا جائے۔۔
ہر سال اگست کے مہینے میں بجلی کے کھمبوں اور درختوں کے سہارے ہفتہ شجر کاری کا مژدہ سنانے کے لیے محکمہ جنگلات بڑی بڑی سڑکوں پر کپڑے پر لکھے ہوئے اشعار اور عزائم کے بینرز لٹکانے کی کارروائی ڈالتا ہے۔گزشتہ دنوں بھی یہ ایکسرسائز حسب سابق و حسب معمول ہوئی۔ ہفتہ پورا ہوا تو محکمے کے غریب اہلکار بچوں کے کپڑے سلوانے کے لیے یہ بینرز اتار لے گئے۔ ویسے بھی درخت اگاؤ تحریک سے زیادہ اس ماہ ڈینگی مچھر مکاؤ مہم پر توجہ نسبتاً بھرپور تھی کیونکہ حکومت پر تنقید ڈینگی مچھر کی افزائش نہ روکنے پر زیادہ ہوتی ہے' جنگل اجاڑنے پر قطعی نہیں ہوتی حالانکہ درخت سے انسان کا رشتہ قدیمی اور ازلی ہے۔ بہتر تو یہ ہو کہ درختوں اور کھمبوں پر بینرز ٹانگنے کے بجائے ہر شہر اور گاؤں کی ایک دو سڑکوں اور مخصوص و معروف جگہوں پر درختوں کی شاخیں منظم طریقے پر لگانے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئےعوام کو درختوں کا نظارہ کراتے ہوئے ان میں شوق و شعور پیدا کیا جائے' بجائے اس کے کہ انھیں بینر پڑھا کر ٹرخا دیا جائے۔
شاید یہ محض اتفاق ہو کہ شہر کی ایک معروف نمائش گاہ حمائل آرٹ گیلری میں 29 اگست کی شام معروف آرٹسٹ عرفان رحمان کی تھری ڈی تکنیک سے بنائی ہوئی پینٹنگز کی نمائش کا افتتاح کالج آف آرٹ و ڈیزائن کی پرنسپل ملیحہ اعظمی آغا نے کیا۔ عرفان کی ان تمام پینٹنگز کی لازمی خصوصیت ان کا رنگوں اور برش کے استعمال کا مرہون منت تو بہرطور ہونا ہی تھا لیکن لطف کی بات کہ اس کے تمام رنگ سبز' پیلے' نیلے' سنہری تو تھے لیکن اس کی تصویروں میں درخت ہی درخت تھے جن میں سال کے سارے دنوں کے رنگ تھے' بہار' خزاں' پھول' پتے اور پت جھڑ یعنی سبھی کچھ جو کسی انسان یا درخت کی زندگی کے مختلف مراحل یا مدارج ہیں۔دراصل عام انسان کی سوچ میں اس حقیقت کا گزر ہی نہیں کہ درخت اس کا کتنا گہرا دوست ہے اور انسانی زندگی پر اس کے کتنے احسان ہیں اور یہ کہ ہر انسان کا فرض ہے کہ جب بھی موقع ملے یا درخت کو اس کی ضرورت ہو انسان بدلے میں اس کا قرض چکانے میں کوتاہی نہ کرے۔ بہت دور کیوں جایئے' یہ جو آپ اس وقت اخبار پڑھ رہے ہیں اس کا وجود بھی درخت کا مرہون منت ہے۔
درخت ان تمام دشمن Gasses کو جن میں نائیٹروجن اوکسائیڈ' امونیا' سلفر ڈائی اوکسائیڈ اور اوزون وغیرہ ہیں، کو فلٹر کر کے انسانی زندگی کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک جوان درخت اتنی آکسیجن پیدا کرتا ہے جو اٹھارہ انسانوں کی زندگی اور صحت کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کیونکہ یہ اس کے مشاہدے اور تجربے میں ہے کہ جب موسم گرما میں وہ کسی چٹیل میدان سے گزرتا ہے تو کیسا محسوس کرتا ہے اور جب ایسی سڑک پر سے گزرے جس کے دو رویہ درخت ہوں تو کیسی تر و تازگی پاتا ہے۔ ایسی ہی سڑک کو ٹھنڈی سڑک کا نام دیا جاتا ہے۔ جو لوگ اپنے اینٹوں' سریے اور سیمنٹ سے بنے مکانوں کے گرد درخت لگاتے ہیں' اندر کی فضا معتدل پاتے ہیں۔ زیر زمین پانی کو آلودہ ہونے سے درخت اس وقت کارآمد ہوتے ہیں جب طوفانی بارشیں اترائی کی طرف جاتے ہوئے سمندر میں جا کر گرتی ہیں۔ یہی درخت پہاڑی علاقوں میں اترائیوں کو پکڑے رکھتے ہیں۔
درختوں ہی سے انسان انواع و اقسام کے پھل حاصل کر کے کام و دہن کی لذات سے آشنا ہوتا ہے۔ ہمارا ملک پھلوں کے حوالے سے اپنے آموں' انگور' سیب اور کنو کی مٹھاس اور لذت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس طرح دوسرے ممالک کے اپنے اپنے لذیذ پھل ہیں جو انسان کی خوراک میں شامل ہو کر اس کی خوش خوراکی اور خوشیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ بہت سے درخت ایسے پھل پیدا کرتے ہیں جو انسانی صحت میں ادویات کے طور پر مددگار ہوتے ہیں۔ جہاں تک چرند و پرند اور دوسرے جانوروں کا تعلق ہے، ان کی تو خوراک کا ذریعہ ہی درخت ہیں۔ بہت سے افراد کے لیے تو درختوں کا نظارہ ہی خوشی اور صحت مندی کا باعث ٹھہرتا ہے۔ ویسے کوئی بھی صحیح الدماغ انسان درخت کی ہریالی' تازگی' مہک اور نظار ے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا بلکہ ممکن ہے درخت کی مذکورہ اور دیگر خوبیاں وجہ شفایابی بن جائیں۔ درخت موسم بھی بتاتے ہیں مثلاً موسم بہار' گرما'سرما اور پت جھڑ وغیرہ۔دنیا میں بے شمار افراد کا ذریعہ معاش یہ درخت ہیں۔ پھلوں' پھولوں' بیجوں کی تجارت سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔ جہاں تک درختوں کی لکڑی کا تعلق ہے اس موضوع پر تو ریسرچیں ہوئی ہیں' کتابیں لکھی گئی ہیں۔
کچھ دیر کے لیے دھیان میں لایئے کہ یہ دنیا درختوں سے خالی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ یکدم زمین پر یا فرش پر بیٹھے دکھائی دینگے۔ آپ کے سامنے زیادہ سے زیادہ جھاڑیوں اور گھاس کا منظر ہو گا۔ مکان کے اندر چھت اور باہر اوپر آسمان ہو گا اور نیچے عمارتیں' ویرانی تو نہیں ہو گی لیکن پھل' پھول اور ہریالی... صرف زمین کے نزدیک ہوا چلے گی تو درختوں کی شاخوں اور پتوں کا رقص دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ پرندوں کے لیے فضا ہو گی یا فرش خاکی... برسات ہو گی تو باغوں میں جھولے نہیں پڑیں گے۔
درخت صحت مند ہو تو اس کی خوبصورتی اور خوبیاں اپنی جگہ لیکن درخت کٹ کر جب مختلف مقاصد کے لیے ڈھلتا ہے تو ان کا شمار ہی نہیں۔ گھروں میں ڈرائنگ' ڈائننگ رومز کی زینت بنتا ہے تو کچن کے لیے ڈیزائنر اور مالک مکان کے ذوق سے نکھرتا ہے۔ دروازے اور کھڑکیاں بنتی ہیں تو یہ محافظ کا کام بھی کرتا ہے۔ لکڑی کی میزیں کرسیاں بلکہ پورے پورے لکڑی کے کچن امپورٹ و ایکسپورٹ ہوتے ہیں۔ کون سا دفتر' ہوٹل اور مکان ہو گا جو لکڑی کی کرسیوں' میزوں کے بغیر مکمل ہو۔ بیٹھنے کے لیے کرسی اور لیٹنے کے لیے پلنگ ہر مکان کی اولین ضرورت درخت کی لکڑی ہی سے بنتے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں تو مکان ہی اسی فیصد لکڑی سے بنتے ہیں کیونکہ ان کے جنگلات ایک سے بڑھ کر ایک قسم کی لکڑی سے بھرے رہتے ہیں۔ درختوں کا ذخیرہ ایک گراں دولت ہے لیکن پاکستان میں جنگل لگائے کم کاٹے زیادہ جاتے ہیں۔ پرانا تنومند درخت ایک مہنگی دولت ہے۔ ہم جنت کے متلاشیوں کے لیے تو درخت لگانا جنت میں گھر بنانا ہوا تو ہمیں تو درخت لگا کر اس کی حفاظت سے یہ سستا سودا ضرور کرنا چاہیے۔
ہماری کتابیں' اخبار' لفافے' اسٹمپ اور بینکوں کے چیک' میگزین بلکہ کھیلوں کا بہت سا سامان درختوں ہی کی بدولت ہے اور غریب آدمی کا تو چولہا ہی لکڑی سے جلتا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کے ساتھی اور بہترین دوست سے پکی اور سچی دوستی نبھانی چاہیے اور جنت میں تو گھر ضرور بنانا چاہیے۔
شاید یہ محض اتفاق ہو کہ شہر کی ایک معروف نمائش گاہ حمائل آرٹ گیلری میں 29 اگست کی شام معروف آرٹسٹ عرفان رحمان کی تھری ڈی تکنیک سے بنائی ہوئی پینٹنگز کی نمائش کا افتتاح کالج آف آرٹ و ڈیزائن کی پرنسپل ملیحہ اعظمی آغا نے کیا۔ عرفان کی ان تمام پینٹنگز کی لازمی خصوصیت ان کا رنگوں اور برش کے استعمال کا مرہون منت تو بہرطور ہونا ہی تھا لیکن لطف کی بات کہ اس کے تمام رنگ سبز' پیلے' نیلے' سنہری تو تھے لیکن اس کی تصویروں میں درخت ہی درخت تھے جن میں سال کے سارے دنوں کے رنگ تھے' بہار' خزاں' پھول' پتے اور پت جھڑ یعنی سبھی کچھ جو کسی انسان یا درخت کی زندگی کے مختلف مراحل یا مدارج ہیں۔دراصل عام انسان کی سوچ میں اس حقیقت کا گزر ہی نہیں کہ درخت اس کا کتنا گہرا دوست ہے اور انسانی زندگی پر اس کے کتنے احسان ہیں اور یہ کہ ہر انسان کا فرض ہے کہ جب بھی موقع ملے یا درخت کو اس کی ضرورت ہو انسان بدلے میں اس کا قرض چکانے میں کوتاہی نہ کرے۔ بہت دور کیوں جایئے' یہ جو آپ اس وقت اخبار پڑھ رہے ہیں اس کا وجود بھی درخت کا مرہون منت ہے۔
درخت ان تمام دشمن Gasses کو جن میں نائیٹروجن اوکسائیڈ' امونیا' سلفر ڈائی اوکسائیڈ اور اوزون وغیرہ ہیں، کو فلٹر کر کے انسانی زندگی کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک جوان درخت اتنی آکسیجن پیدا کرتا ہے جو اٹھارہ انسانوں کی زندگی اور صحت کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کیونکہ یہ اس کے مشاہدے اور تجربے میں ہے کہ جب موسم گرما میں وہ کسی چٹیل میدان سے گزرتا ہے تو کیسا محسوس کرتا ہے اور جب ایسی سڑک پر سے گزرے جس کے دو رویہ درخت ہوں تو کیسی تر و تازگی پاتا ہے۔ ایسی ہی سڑک کو ٹھنڈی سڑک کا نام دیا جاتا ہے۔ جو لوگ اپنے اینٹوں' سریے اور سیمنٹ سے بنے مکانوں کے گرد درخت لگاتے ہیں' اندر کی فضا معتدل پاتے ہیں۔ زیر زمین پانی کو آلودہ ہونے سے درخت اس وقت کارآمد ہوتے ہیں جب طوفانی بارشیں اترائی کی طرف جاتے ہوئے سمندر میں جا کر گرتی ہیں۔ یہی درخت پہاڑی علاقوں میں اترائیوں کو پکڑے رکھتے ہیں۔
درختوں ہی سے انسان انواع و اقسام کے پھل حاصل کر کے کام و دہن کی لذات سے آشنا ہوتا ہے۔ ہمارا ملک پھلوں کے حوالے سے اپنے آموں' انگور' سیب اور کنو کی مٹھاس اور لذت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس طرح دوسرے ممالک کے اپنے اپنے لذیذ پھل ہیں جو انسان کی خوراک میں شامل ہو کر اس کی خوش خوراکی اور خوشیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ بہت سے درخت ایسے پھل پیدا کرتے ہیں جو انسانی صحت میں ادویات کے طور پر مددگار ہوتے ہیں۔ جہاں تک چرند و پرند اور دوسرے جانوروں کا تعلق ہے، ان کی تو خوراک کا ذریعہ ہی درخت ہیں۔ بہت سے افراد کے لیے تو درختوں کا نظارہ ہی خوشی اور صحت مندی کا باعث ٹھہرتا ہے۔ ویسے کوئی بھی صحیح الدماغ انسان درخت کی ہریالی' تازگی' مہک اور نظار ے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا بلکہ ممکن ہے درخت کی مذکورہ اور دیگر خوبیاں وجہ شفایابی بن جائیں۔ درخت موسم بھی بتاتے ہیں مثلاً موسم بہار' گرما'سرما اور پت جھڑ وغیرہ۔دنیا میں بے شمار افراد کا ذریعہ معاش یہ درخت ہیں۔ پھلوں' پھولوں' بیجوں کی تجارت سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔ جہاں تک درختوں کی لکڑی کا تعلق ہے اس موضوع پر تو ریسرچیں ہوئی ہیں' کتابیں لکھی گئی ہیں۔
کچھ دیر کے لیے دھیان میں لایئے کہ یہ دنیا درختوں سے خالی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ یکدم زمین پر یا فرش پر بیٹھے دکھائی دینگے۔ آپ کے سامنے زیادہ سے زیادہ جھاڑیوں اور گھاس کا منظر ہو گا۔ مکان کے اندر چھت اور باہر اوپر آسمان ہو گا اور نیچے عمارتیں' ویرانی تو نہیں ہو گی لیکن پھل' پھول اور ہریالی... صرف زمین کے نزدیک ہوا چلے گی تو درختوں کی شاخوں اور پتوں کا رقص دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ پرندوں کے لیے فضا ہو گی یا فرش خاکی... برسات ہو گی تو باغوں میں جھولے نہیں پڑیں گے۔
درخت صحت مند ہو تو اس کی خوبصورتی اور خوبیاں اپنی جگہ لیکن درخت کٹ کر جب مختلف مقاصد کے لیے ڈھلتا ہے تو ان کا شمار ہی نہیں۔ گھروں میں ڈرائنگ' ڈائننگ رومز کی زینت بنتا ہے تو کچن کے لیے ڈیزائنر اور مالک مکان کے ذوق سے نکھرتا ہے۔ دروازے اور کھڑکیاں بنتی ہیں تو یہ محافظ کا کام بھی کرتا ہے۔ لکڑی کی میزیں کرسیاں بلکہ پورے پورے لکڑی کے کچن امپورٹ و ایکسپورٹ ہوتے ہیں۔ کون سا دفتر' ہوٹل اور مکان ہو گا جو لکڑی کی کرسیوں' میزوں کے بغیر مکمل ہو۔ بیٹھنے کے لیے کرسی اور لیٹنے کے لیے پلنگ ہر مکان کی اولین ضرورت درخت کی لکڑی ہی سے بنتے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں تو مکان ہی اسی فیصد لکڑی سے بنتے ہیں کیونکہ ان کے جنگلات ایک سے بڑھ کر ایک قسم کی لکڑی سے بھرے رہتے ہیں۔ درختوں کا ذخیرہ ایک گراں دولت ہے لیکن پاکستان میں جنگل لگائے کم کاٹے زیادہ جاتے ہیں۔ پرانا تنومند درخت ایک مہنگی دولت ہے۔ ہم جنت کے متلاشیوں کے لیے تو درخت لگانا جنت میں گھر بنانا ہوا تو ہمیں تو درخت لگا کر اس کی حفاظت سے یہ سستا سودا ضرور کرنا چاہیے۔
ہماری کتابیں' اخبار' لفافے' اسٹمپ اور بینکوں کے چیک' میگزین بلکہ کھیلوں کا بہت سا سامان درختوں ہی کی بدولت ہے اور غریب آدمی کا تو چولہا ہی لکڑی سے جلتا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کے ساتھی اور بہترین دوست سے پکی اور سچی دوستی نبھانی چاہیے اور جنت میں تو گھر ضرور بنانا چاہیے۔