پاکستان کو امن چاہیے

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو مشرقی اور مغربی سرحد پر سیکیورٹی مسائل کا سامنا ہے۔

عید کے دن افواج پاکستان نے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے دفاعی اخراجات موخر کرنے اور فوج کے راشن 'سفری اخراجات اور انتظامی اخراجات میں کمی اور افسروں کی تنخواہ میں سالانہ اضافہ بھی نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔وزیر اعظم نے کہا ہے کہ'' افواج پاکستان نے کئی سیکیورٹی چیلنجز کے باوجود دفاعی اخراجات میں کٹوتی کی 'دفاعی اخراجات میںکٹوتی ہمارے ملک کی نازک مالی صورتحال کی وجہ سے کی' میں افواج پاکستان کے اس بے مثال رضاکارانہ اقدام کو سراہتا ہوں'' ۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو مشرقی اور مغربی سرحد پر سیکیورٹی مسائل کا سامنا ہے لیکن اب یہ صورت حال ملک کے معاشیات کو بری طرح متاثر کررہی ہے، اس لیے سیاسی مسائل کا حل سیاسی طور پر نکالنا چائیے ۔ادھر یہ خبریں بھی ہیں کہ حکومت کی ٹیم جس نے FATFمیں بات کی ہے 'اس ٹیم کی تیاری بھی مکمل نہیں تھی ، سننے میں آیا ہے کہ حکومتی ٹیم کے پاس کوئی ایف اے ٹی ایف کے بعض سوالوں کا جواب نہیں تھا ۔فواد چوہدری اوراسپیکر اسد قیصر کے بارے میں بھی اچھی خبریں نہیں آرہی ' قیاس آرائیاں ہیں کہ ججوںکے خلاف ریفرنس پر بھی کئی ممبران اور وزراء کے اعتراضات ہیں' موجودہ بدترین معاشی صورت حال میں یہ سیاسی بے چینی حالات مزید خراب کرسکتی ہے۔

آج کل تمام محبان پاکستان 'نظریہ پاکستان کے علم بردار'ہندوستان کے دشمن'لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے خواہش مند'اپنے آپ کو مسلمان اور ان کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والے کو سیکولر اور دشمن کا ایجنٹ کہنے والے 'جنرل ضیاء الحق کے قصیدہ گو' افغانستان میں ''امریکی جہاد'' کے ثنا خوان' غیرت بریگیڈ کے نمائندے بھارت دشمنی اور افغان دشمنی کی بیماری میں مبتلا ہیں'معلوم نہیں ہمارے نام نہاد مسلمان اور محبان پاکستان کو کب یہ ہوش آئے گا کہ ان لوگوں کی سوچوں کی وجہ سے آج پورا پاکستان عذاب میں مبتلا ہے۔

اگر سوات کے بچے 'خواتین اور مرد مصیبتوں کا سامنا کر رہے تھے تو اس پالیسی کے بیج بھی جنرل ضیاء کو مرد حق کا خطاب دے کر انھی لوگوں نے بویا تھا' یہ سوچ جو ہر وقت ہندوستان کو شکست دے کر دہلی کے لال قلعہ پرسبز ہلالی پرچم لہرانے'کشمیر بنے گا پاکستان جیسے نظریات سے لیس ہو کر ہر کسی کے ساتھ جہاد شروع کرنے پر تلا ہوتا ہے اور یہ کہ پاکستان اس لیے معرض وجود میں آیا تھا تاکہ تلوار اٹھا کرساری دنیا میں اسلامی نظام نافذ کرے 'ختم نہیں ہوگی 'اس خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔

جنرل یحییٰ کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی کی ایجاد کردہ اصطلاح'' نظریہ پاکستان '' کی مالا جپنے والے ان دانشوروں نے آج تک کبھی بھی سامراجی پالیسیوں کی مخالفت نہیں کی 'ان کو صرف اس کام پر لگایا گیا تھا کہ ''سوشلزم کفر ہے''ہندوستان ہمارا دشمن ہے'کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے' افغانستان کوپاکستان کی پالیسی اپنانی چاہیے 'پاکستان کو اسلحے کے انبار جمع کرنے چاہیے تاکہ کفار کا مقابلہ کرسکیں ' ایٹم بم بھی بہت ضروری ہے تاکہ ساری دنیا پاکستان کے ڈر سے خوفزدہ ہوکر تھر تھر کانپے 'پاکستان ایک سپر پاور بن جائے 'معلوم نہیں یہ عقل کب ہمارے دماغ میں آئے گی کہ بھیک اور قرض کی بھیک مانگنے والی قوموں کے لیے ہتھیاروں کے انبار لگانا بھی عیاشی ہے'پشتو میں ایک محاورہ ہے کہ '' اونٹ پالنے والوںکو گھروں کے دروازے اونچے رکھنے پڑتے ہیں''۔کیا ہمارے دروازے اتنے بلند ہیں؟۔

میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ جس ملک میں 72 سال کے بعد بھی یہ مسئلہ حل نہ ہوسکا کہ صدارتی نظام ہونا چائیے کہ پارلیمانی؟ آج تک اس ملک کی ساخت کا فیصلہ نہ ہو سکا کہ آیا یہ ملک ایک وفاقی ریاست ہے کہ وحدانی 'آئین میں وفاقی ریاست لکھا ہے لیکن صوبوں کے وسائل لوٹنے کے لیے وحدانی طرز پر چلایا جا رہا ہے ۔ملک کی تعلیمی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ آج تک قومی زبان 'رابطے کی زبان اوردفتری زبان جیسے مسائل حل طلب پڑے ہوئے ہیں'آج تک پاکستان کی تعلیمی مسائل کے بارے میں کبھی بھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا' تعلیم کس زبان میں د ی جائے ؟

یہ سوال پچھلے 60 سال سے ہمارا تعاقب کر رہا ہے 'اردو 'انگریزی اور عربی کا ایک ملغوبہ ہے جو ہم قوم کو کھلا رہے ہیں'ایک ملک میں آٹھ نو قسم کی نسل تیار ہو رہی ہے 'اردو میڈیم کی سرکاری اسکول 'انگلش میڈیم اسکولوں کی مختلف قسمیں' مدرسوں کے نام پر ہر فرقے کے الگ الگ مدارس جو صرف فرقہ واریت ہی پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں'غرض نرسریوں کی ایک بڑ ی تعداد ہے جو پاکستانی قوم کی اگلی نسل اگا رہی ہیں'یہ مختلف الخیال اور مختلف بیک گرائونڈ سے آنے والی نسل جب پاکستان کی بھاگ ڈور سنبھالے گی تو نہ جانے اس ملک کا حشر کیا ہوگا ۔


پاکستان کی معاشی صورت حال اتنی خراب ہے کہ اس کے متعلق کچھ لکھنا وقت کا ضیاع محسوس ہوتا ہے' کروڑوں جوان بے روزگار پھر رہے ہیں'مہنگائی کا جن قابو میں نہیںآرہا 'ہر طرف کرپشن کا بازار گرم ہے۔پاکستان کی پہچان دنیا میں ''بھکار ی ریاست'' (Beggar state)کے نام سے ہو گئی ہے ۔ امریکا اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کے تو پاکستانی سدا کے غلام اور قرض دار رہتے ہیں'پاکستانیوں کا خون چوسنے کے لیے IMFَ' ورلڈبینک اور WTO جیسے ادارے کافی ہیں۔

حکومت پاکستان کے نمائندے ان کے سامنے اپنے ملک کی مالی مشکلات بیان کرکے قرض یا امداد کی اپیل کرتے ہیں'اس دوران امریکی حکومت کا نما یندہ اٹھ کر پاکستانی حکومت کے درخواست کی حمایت کرتاہے 'امریکی نمایندہ شرکاء سے پاکستاان کی پھیلی ہوئی جھو لی میں خیرات یا زکواۃڈالنے کی اپیل کرتاہے 'قرض دینے والے ممالک کے نمائندے پہلے تو کھڑے ہو کرپاکستان کی حکومت کی خراب کارکردگی پر تنقید کرتے ہیں'ایٹمی تنصیبات کی سیکیورٹی پر تحفظات کا اظہار کر کے آخر میں چند ملین ڈالر کی امداد یا قرضے کا اعلان کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دیتے ہیں۔

عمران خان اور شاہ محمود قریشی خیرات کے حصول میں کامیابی اور اس میںامریکی حمایت کاشکریہ ادا کرتے ہیں'IMF اور عالمی بینک امریکی گارنٹی کے بغیر پاکستان کو قرضے بھی نہیں دیتے' حالانکہ ان قرضوں کی شرح سود بھی زیادہ ہوتی ہے۔

کیا پاکستان ایک خود مختار ملک ہے؟اگر قیام سے لے کر آج تک دیکھا جائے تو پاکستان کی کوئی آزادخارجہ پالیسی کبھی بھی نہیں رہی 'ابتدا سے ہی پاکستان کے حکمران طبقوںنے ملک کو امریکی سامراج کی جھولی میں ڈال دیا'پاکستان کو ہمیشہ امریکی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا'آج بھی ملک امریکی سامراج کی بھڑکائی ہوئی آگ میں جل رہا ہے' امریکا کی مرضی ہے جب بھی اس کا مفاد ہوا پاکستان کو '' کافر سوشلزم ''کے خلاف استعمال کیا اور کبھی '' اسلامی انتہا پسندی ''کے خلاف۔ ملک کی انتظامی اور امن و امان کی صو رت حال نا گفتہ بہ ہے' عجیب صورت حال سے دو چار ہیں'ملک میں نہ فوجی حکومت کامیاب ہوتی ہے اور نہ جمہوری پارٹیاں اپنی ذاتی مفادات کو ترک کرنے پرتیار ہوتی ہیں۔

کہتے ہیں کہ دائی سے پیٹ نہیں چھپایا جا سکتا'آخر ہم امریکا سے کیسے اپنی نا اہلی چھپا سکتے ہیں'سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر امریکا ہندوستان' برطانیہ' فرانس' روس' اسرائیل اور چین سمیت دوسری ایٹمی ملکوں کے ایٹمی اسلحے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیوں نہیں کرتا؟یہ اس لیے کہ دوسرے ممالک نے امریکا کے سامنے کبھی بھی اپنا پیٹ اتنا ننگا نہیں کیا جتنا کہ پاکستان نے بار بار کیا ہے۔بدقسمتی سے امریکی CIAاور پنٹا گون پاکستان کے خفیہ رازوں سے ہم سے زیادہ واقف ہیں۔

ملکوں کی محافط اسلحہ نہیں عوام ہوتے ہیں'تاریخ کے اوراق ان واقعات سے بھرے پڑے ہیں 'اسلحے کے ساتھ عوام کی طاقت ہونی چائیے 'چین کے عظیم رہنما مائو زے تنگ کا قول ہے کہ

This is not the gun, but man behind the gun who decides the war.

ترجمہ۔ بندوق نہیں بلکہ بندوق چلانے والا شخص جنگ کا فیصلہ کرتا ہے۔میں فوج کے اس اقدام کی حمایت کرتا ہوں۔
Load Next Story