ہندوتوا

مسٹر مودی نے جس نعرے کو اپنا آئیڈیل بنایا ہے اس سے فتنہ پروری اور مذہبی تنگ نظری کی جھلک آتی ہے۔

anisbaqar@hotmail.com

ہندوستان ماضی میں مرکزی اور مضبوط حکومت سے محروم رہا۔ راجہ اور مہاراجوں کی علاقائی آماج گاہ تھا۔اسی لیے دنیا بھر سے طالع آزما یہاں کا رخ کرتے رہے اور زیادہ ترکامیاب ہوتے رہے۔

ہندوستان پورا کا پورا ایک زمانے میں سندھ کہلاتا تھا پھر عربوں، ایرانیوں اور ترکوں کی آمد سے اس کو ہند کہا جانے لگا اور سندھ ایک مخصوص علاقے تک محدود رہ گیا۔ سندھ کی قدامت پرستی کی پہچان شمالی ہند کے دور افتادہ گاؤں میں آج بھی مل سکتی ہے جو وہاں کی بولی ہے، پلنگ کوکھاٹ کہنا، سالن کو سندھی میں بور اور اودھ کے گاؤں میں بورن، لیکن یہ ایک طویل زبان پرگفتگو ہے لہٰذا اس کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ فی الوقت گفتگو ہند پر جاری ہے۔

انگریز آئے تو انھوں نے بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹوں کے سر تحفے میں پیش کیے، انگریزکو جنگ آزادی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جب 60 برس بیت گئے تو اصلاحات کی گئیں اور انصاف کا ڈھول پیٹا اور انڈیا کا بول بالا کیا۔ چھوٹی چھوٹی بغاوتیں بھی ہوتی رہیں، انقلابی بھی مد مقابل آئے جنھوں نے آزاد ہند فوج بنائی مگر انگریزکی اصلاحات نے جمہوریت کا جو چراغ روشن کیا تو اسی چراغ کی روشنی میں بڑے بڑے مدیران کی آواز گونجی۔ محمدعلی جیسے مدیر، مقرر اور ماہر قانون نے برٹش گورنمنٹ کو لرزہ براندام کردیا جن کی قانونی قیادت بے مثل تھی۔

ایسی قیادت جن کے افکار سے مہاتما گاندھی نے خلافت موومنٹ کی نہ صرف حمایت کی بلکہ عملی طور پر ساتھ دیا۔ تحریکیں بڑھتی گئیں اور پھر ایک دور آیا جب کہ انڈیا نیشنل کانگریس ہی وہ جماعت تھی جس نے سب سے پہلے یہ نعرہ لگایا ''ہند چھوڑ دو!'' اس پارٹی کے روح رواں مہاتما گاندھی نے جنھوں نے ظاہری یا باطنی طور پرکبھی بھی مسلمانوں کے خلاف کوئی لفظ ادا نہ کیا بلکہ پاکستان کے اثاثے نہیں بانٹے جا رہے تھے ، اس وقت گاندھی نے مرن برتھ یعنی تادم مرگ بھوک ہڑتال کی اور پاکستان کے جائز موقف کو تسلیم کیا گیا اور اثاثے تقسیم کیے گئے۔


اسی رویے کی وجہ سے کانگریس میں مسلمان لیڈر بھی موجود تھے۔ تقسیم ہند کے بعد گوڈسے نے گاندھی جی کو قتل کیا۔ گوڈسے کا تعلق جن سنگھ نامی پارٹی سے تھا جو گاندھی کے اس رویے کے شدید مخالف تھا، مگر گوڈسے کا یہ نظریہ رفتہ رفتہ ہندوتوا کے نام سے مشہور ہونا شروع ہوا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو پڑوسی ملک جن کی بولی ایک، دریا، ہوا، بادل، پھل پھول ایک مذہبی انتہا پسندوں کی وجہ سے دشمنی تک آن پہنچی ہے اور یہاں اور وہاں کے بے لگام لیڈر ایٹم بم کے استعمال کی دھونس دیتے ہیں جب کہ دونوں کی شہری آبادی جڑی ہوئی ہے۔

یہاں اس موقع پر کہنا ضروری ہوگا کہ ہندوستان کے دوربین لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیر کے مقبول وزیر اعلیٰ کی زندگی میں مسئلے کا حل نہ ڈھونڈا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں جنگ کی سی کیفیت رہتی ہے چونکہ بھارت میں 50 برسوں میں جن سنگھ کے بجائے نام بدل کر بھارتیہ جنتا پارٹی رکھ لیا (BJP) اور بابری مسجد جیسے اہم ٹارگٹ کو نشانہ بنا کے کام شروع کیا اور رفتہ رفتہ پڑوسی ملک سے نعروں کی حد تک لیڈروں کو للکار کے ان کو تھوڑی بہت توانائی بخشی۔ آخر کار مسلمانوں سے نفرت میں وہ اس لیے کامیاب رہے کہ ہر جگہ بھارت میں مساجد کا وجود اور بڑی اقلیت موجود ہے۔ لہٰذا ایک ارب اور تئیس کروڑ لوگوں کے مسٹر مودی لیڈر بن گئے اور ہندوتوا کے نعرے نے ان کو توانائی بخشی۔ وہ الیکشن جیت تو گئے مگر بن گئے کنوئیں کے مینڈک۔

جب میں یہ لکھتا ہوں کہ ہندو یا مسلم جب ایک دوسرے کو جنگ کی باتیں کرتے ہیں تو دراصل یہ ان کا ووٹ بینک بڑھاتے ہیں۔ مسٹر مودی نے ہندوتوا کا نعرہ لگا کر الیکشن تو جیت لیا لیکن اپنا عالمی چہرہ مسخ کرلیا۔ کیونکہ آج کا دور انسانی اقدار اور احترام کا ہے خواہ عملاً کوئی کرے یا نہ کرے۔ مگر بیان کی حد تک مذہبی باتیں اور فرقہ واریت کو دنیا نے رد کردیا ہے۔ صرف اسرائیل ایک ملک ہے مسٹر مودی ان کے نقص اقدام پر چلتے ہیں مگر ایک زمانہ تھا جب پنڈت نہرو یاسر عرفات کے ہمنوا تھے یہی بھارتی لیڈروں کے انداز اور سیاسی اعمال تھے جس نے بھارت کا عالمی چہرہ روشن کر رکھا تھا۔ جس کی وجہ سے کشمیر کے مسئلے پر آج دنیا خاموش ہے مگر مسٹر مودی کا ہندوتوا کا مہیب چہرہ جلد دنیا کے سامنے آجائے گا اور کسی حد تک ان کی تنگ نظری انسان کے بجائے گائے کا احترام بھارت کو پستی کی سمت دھکیل رہا ہے۔

اس کا واضح ثبوت مسٹر مودی کی تقریب حلف برداری تھی۔ انھوں نے دنیا کے اہم لیڈروں کو اپنی حلف برداری میں مدعو کیا تھا جن میں روسی صدر پوتن کا نام سر فہرست تھا۔ مگر ان کے ارد گرد کے ممالک کے سوا کوئی شریک نہ ہوا۔ جن میں بھوٹان، سری لنکا، بنگلہ دیش، میانمار جیسے ممالک تھے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر بھارت کا عالمی مقام مائل بہ زوال ہے۔ ورنہ 8 ہزار مہمانوں میں عالمی مقام کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ورنہ اتنی اہم معیشت کہ چین اور امریکا دونوں بھارتی روابط سے خود کو الگ کرنا نہیں چاہتے مگر سیاسی اعتبار سے اس کا مقام کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ مسٹر مودی نے جس نعرے کو اپنا آئیڈیل بنایا ہے اس سے فتنہ پروری اور مذہبی تنگ نظری کی جھلک آتی ہے۔ کیونکہ ہندی ڈکشنری میں یہ نہ کوئی لفظ ہے اور نہ کوئی اس کے معنی ہیں۔ البتہ مسٹر مودی نے اور ان کے ساتھیوں نے اپنی گفتگو میں یہ لفظ وضع کیا ہے۔ ظاہر ہے عام بازاری لوگوں کے لیے تو یہ لفظ کچھ دنوں تک تو سیاسی موضوع کو سہارا دے سکتا ہے مگر زیادہ عرصے تک ہندوتوا نہیں چل سکتا۔
Load Next Story