ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کے سوا حکومت کے پاس کوئی آپشن نہیں
معاملے پر صنعتکار تقسیم، اپٹما کا اظہار رضامندی، دیگر صنعتکار انکاری، آج وزیر اعظم سے مشاورت
حکومت اور صنعت کاروں کے درمیان ٹیکس رعایتوں اور توانائی پر سبسڈیز کے خاتمے کے متنازع موضوع پر قبل از بجٹ گفت و شنید ختم ہو گئی جس میں ٹیکس حکام نے برآمدکنندگان اور مقامی سپلائرز کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھالینے کا دعویٰ کیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی بنیادی شرط کو پورا کرنے کے لیے برآمدکنندگان کے لیے مینوفیکچرنگ اسٹیج پر زیرو ٹیکس کی سہولت کو ختم کر کے کم از کم 7.5 فیصد سیلزٹیکس عائد کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔
جی ایس ٹی کی نئی مجوزہ شرح 7.5 فیصد کے برخلاف آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ جولائی سے ٹیکسوں کی مد میں دی گئی تمام رعایتیں ختم کردی جائیں اور ٹیکسٹائل سیکٹر پر بھی 7.5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جائے۔ یہ بات گذشتہ روز وزیرمملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے صنعت کاروں کو آئی ایم ایف کی شرائط سے آگاہ کرتے ہوئے کہی۔
حکومت جولائی سے 5 برآمدی شعبوں کی مصنوعات کی مقامی فروخت پر ٹیکس کے نفاذ سے 80 ارب روپے جمع کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ حکومت نے آئندہ سال کے لیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 55.50 کھرب روپے مقرر کیا ہے جس حاصل کرنے کے لیے ریونیو میں 42 فیصد اضافہ ناگزیر ہے۔ اس وقت ٹیکسٹائل، گارمنٹس، لیدر، سرجیکل آلات اور کھیلوں کے سامان کی برآمدات پر سیلز ٹیکس لاگو نہیں ہے۔
ایف بی آر کے مطابق صنعتکار اس سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مقامی فروخت کو بھی برآمد ظاہر کردیتے ہیں۔ حکومت اور صنعتکاروں کے درمیان مذاکرات کا آخری دور ہفتے کو ایف بی آر کے ہیڈکوارٹر میں ہوا۔ اس دوران زیادہ مصنوعات برآمد کرنے والوں اور مقامی مارکیٹ میں فروخت کرنے والے صنعتکاروں کے درمیان اختلافات سامنے آئے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن ( اپٹما) نے اس شرط پر ٹیکس رجیم قبول کرنے کا عندیہ دیا کہ ایکسپورٹ اور امپورٹ پر سیلز ٹیکس 7.5 فیصد کی یکساں شرح سے نافذ کیا جائے اور ان کے ری فنڈز کمرشل بینکوں کے ذریعے فوری ادا کیے جائیں۔
دوسری جانب زبیرموتی والا اورجاوید بلوانی کے حامی صنعتکاروں نے ٹیکس کا نفاذ قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور بجٹ کے بعد ہڑتال کی دھمکی دے ڈالی۔ حکام کے مطابق سیلز ٹیکس لیوی کا معاملہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ آج ( اتوار کو) زیربحث لایا جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی بنیادی شرط کو پورا کرنے کے لیے برآمدکنندگان کے لیے مینوفیکچرنگ اسٹیج پر زیرو ٹیکس کی سہولت کو ختم کر کے کم از کم 7.5 فیصد سیلزٹیکس عائد کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔
جی ایس ٹی کی نئی مجوزہ شرح 7.5 فیصد کے برخلاف آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ جولائی سے ٹیکسوں کی مد میں دی گئی تمام رعایتیں ختم کردی جائیں اور ٹیکسٹائل سیکٹر پر بھی 7.5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جائے۔ یہ بات گذشتہ روز وزیرمملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے صنعت کاروں کو آئی ایم ایف کی شرائط سے آگاہ کرتے ہوئے کہی۔
حکومت جولائی سے 5 برآمدی شعبوں کی مصنوعات کی مقامی فروخت پر ٹیکس کے نفاذ سے 80 ارب روپے جمع کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ حکومت نے آئندہ سال کے لیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 55.50 کھرب روپے مقرر کیا ہے جس حاصل کرنے کے لیے ریونیو میں 42 فیصد اضافہ ناگزیر ہے۔ اس وقت ٹیکسٹائل، گارمنٹس، لیدر، سرجیکل آلات اور کھیلوں کے سامان کی برآمدات پر سیلز ٹیکس لاگو نہیں ہے۔
ایف بی آر کے مطابق صنعتکار اس سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مقامی فروخت کو بھی برآمد ظاہر کردیتے ہیں۔ حکومت اور صنعتکاروں کے درمیان مذاکرات کا آخری دور ہفتے کو ایف بی آر کے ہیڈکوارٹر میں ہوا۔ اس دوران زیادہ مصنوعات برآمد کرنے والوں اور مقامی مارکیٹ میں فروخت کرنے والے صنعتکاروں کے درمیان اختلافات سامنے آئے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن ( اپٹما) نے اس شرط پر ٹیکس رجیم قبول کرنے کا عندیہ دیا کہ ایکسپورٹ اور امپورٹ پر سیلز ٹیکس 7.5 فیصد کی یکساں شرح سے نافذ کیا جائے اور ان کے ری فنڈز کمرشل بینکوں کے ذریعے فوری ادا کیے جائیں۔
دوسری جانب زبیرموتی والا اورجاوید بلوانی کے حامی صنعتکاروں نے ٹیکس کا نفاذ قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور بجٹ کے بعد ہڑتال کی دھمکی دے ڈالی۔ حکام کے مطابق سیلز ٹیکس لیوی کا معاملہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ آج ( اتوار کو) زیربحث لایا جائے گا۔