دفاعی بجٹ میں کٹوتی… اصل صورت حال کیا ہے
جن قلیل وسائل (بجٹ) میں افواج پاکستان دفاع وطن کا فریضہ انجام دے رہی ہے، اس پر پوری قوم انھیں سلام پیش کرتی ہے
MADRID:
افواج پاکستان نے ملکی معیشت کو درپیش مشکلات کے باعث اپنے سالانہ بجٹ میں رضاکارانہ طور پر کٹوتی کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ پیشکش اس بات کی علامت ہے کہ ملکی دفاع کے لیے صرف اور صرف پیسہ ہی سب کچھ نہیں بلکہ قوم کی یکجہتی اور عظم صمیم دفاع وطن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی چیلنجز کا بظاہر تقاضا تو یہ تھا کہ دفاعی بجٹ میں پاک افواج دفاعی بجٹ میں اضافہ مانگتی لیکن انھوں نے نے کٹوتی کا فیصلہ کرکے ایک منفرد مثال قائم کی ہے۔اگر ہم دنیا کے مختلف ممالک کے دفاعی بجٹ تقابل پاکستان سے کریں تو حیران کن صورت حال سامنے آتی ہے۔
دفاعی بجٹ، ایسے مالی اخراجات کا تخمینہ ہے جو کوئی بھی ریاست اپنی حفاظت کے لیے مسلح افواج (آرمی، نیوی، ایئر فورس) اور اس سے متعلق محکموں پر خرچ کرتی ہے۔
اسٹاک ہوم میں قائم بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے سپری(SIPRI) کے مطابق دفاعی اخراجات میں تمام Capital اور رواں اخراجات کا تخمینہ لگایا جاتا ہے جن میں دفاعی ہتھیاروں( روایتی اور غیر روایتی) کی تیاری ان کا حصول اور دیکھ بھال سب شامل ہونے کے ساتھ ساتھ دفاعی افواج سے متعلق دوسرے اداروں (سول یا عسکری)کی افرادی قوت کی تنخواہیں,پینشن ان کی بہبود،تربیت، تعلیم اور طبی سہولتوں کی فراہمی اور فوجی تعمیرات کے اخراجات شامل ہوتے ہیں۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں وہی ممالک اور ریاست تادیر قائم اور مستحکم رہتی ہیں جنہوں نے ترجیحی بنیادوں پر گڈگورننس کے اہتمام کے ساتھ طاقتور فوج رکھی ہو۔ جن ممالک نے ان دونوں پہلوں کو متوازن اور حالات کے مطابق نہیں بنایا وہ نہ تو اقوام عالم میں ممتاز اور مقدم مقام حاصل کر سکی ہیں اور نہ ہی تادیر قائم رہ سکیں۔ حکومت گڈ گورننس کے تحت ملکی نظام احسن طریقے سے نبھاتی ہے جب کہ طاقتور فوج ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات کو کم کرنے یا ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
کسی بھی ملک کی مضبوط اور دیرپا عسکری طاقت کا تجزیہ اس کے دفاعی بجٹ سے بھی لگایاجاسکتاہے۔ جمہوری ممالک میں دفاعی بجٹ کو قومی بجٹ کے ایک اہم حصے کے طور پر پارلیمنٹ کی منظوری کے لیے پیش کیا جاتاہے۔ پاکستان کا سالانہ قومی بجٹ یکم جولائی سے نافذ ہوکر اگلے سال 30جون تک کے لیے ہوتا ہے۔ قومی بجٹ کی منصوبہ بندی کے وقت دفاعی اخراجات کا مجموعی تخمینہ تو لگایا جاسکتا ہے لیکن ان اخراجات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کیا اس عرصے کے دوران وہ ملک کسی جنگ کا شکار یا حصہ تو نہیں بنا۔ جنگ اور ناگہانی آفات ایسا عمل ہے جو ہر طرح کی مالی منصوبہ بندی کے تخمینوں کو بکھیر کر رکھ دیتا ہے۔
انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیزنے دفاعی اخراجات کے حوالے سے دنیا کے 15ایسے ممالک کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جو دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ دفاعی اخراجات کرتے ہیں، ان میں پاکستان شامل نہیںہے۔ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دفاعی بجٹ امریکا کا ہے، اس کے بعد چین، تیسرے نمبر پر سعودی عرب، چوتھے پر روس اور پانچویں پر بھارت، چھٹے پر برطانیہ، ساتویں پر فرانس اور آٹھویں پر جاپان، نویں نمبر پر جرمنی، دسویں پر ساؤتھ کوریا۔ گیارہویں پر برازیل، بارہویں پر آسٹریلیا ،تیرویں پر اٹلی، چودھویں پر اسرائیل اور پندرہویں پر عراق ہیں ۔
ان پندرہ ممالک کے دفاعی اخراجات کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
امریکا 3۔643 بلین ڈالر'چین 168.2بلین ڈالر' سعودی عرب 82.9'روس 63.1'بھارت 57.9' برطانیہ 56.9 ' فرانس 53.4'جاپان 47.3' جرمنی 45.3' ساؤتھ کوریا 39.2 'برازیل 28 'آسٹریلیا 26.6' اٹلی 24.9'اسرائیل 21.6'عراق 19.6 بلین ڈالر۔
پاکستان کے دفاعی بجٹ کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو سن 2018-19 میں پاکستان کی مسلح افواج اور اس کے ذیلی اداروں کو مجموعی طور پر نو اعشاریہ چھ بلین ڈالر (9.6) دیے گئے۔
پاکستان کو دفاعی میں جن حالات کا سامنا ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، یہی نہیں بلکہ ملک کے اندرونی حالات ' دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ختم کرنے میں بھی فوج پر جو اخراجات آتے ہیں اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ قلیل ترین مالی وسائل کے باوجود پاکستان کی مسلح افواج مثالی کردار ادا کر رہی ہیں۔
پاکستان کو بھارت اور افغانستان کی سرحدوں پر جس صورتحال کا سامنا ہے وہ ہم سب کے علم میں ہے، اسی طرح سیاچن جیسے دنیا کے بلند ترین فوجی محاذ اور قبائلی علاقوں میں فوجی اخراجات کا اندازہ صرف انھی کو ہوتا ہے جو دفاع وطن کے لیے وہاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا دفاعی بجٹ 57.9 بلین ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان کا دفاعی بجٹ 9.6 بلین ہے اس طرح بھارت کا دفاعی بجٹ پاکستان کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ ہے۔
بین الاقوامی ادارے کے ان اعداد و شمار کے تجزیہ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں رقبے آبادی اور کم دفاعی مسائل کا سامنا کرنے والے بہت سے ممالک کا دفاعی بجٹ پاکستان سے کئی گناہ زیادہ ہے۔
انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں جن پندرہ ممالک کے دفاعی بجٹ کا یہ چارٹ بنایا ہے، اس میں ایران اور پاکستان شامل نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ایران کا دفاعی بجٹ بھی عراق کے برابر ہے۔ سن 2018-19 میں ایران کا دفاعی بجٹ بھی عراق کی طرح 19.6 بلین ڈالر ہے جو پاکستان کے دفاعی بجٹ سے 2 گناہ زیادہ ہے۔
دفاعی بجٹ کے حوالے سے تقابل کرتے ہوئے ایک اور دلچسپ پہلو بھی سامنے آتا ہے، دنیا بھر کی افواج کے جوانوں اور افسران کو جو تنخواہیں دی جاتی ہیں ان میں سب سے زیادہ تنخواہ آسٹریلین فوجیوں کی ہے، دوسرے نمبر پر کینیڈا، تیسرے پر برطانیہ، چوتھے پر امریکی افواج ، پانچویں پر فرانس اور چھٹے پر جرمنی جب کہ ساتویں پر جاپان ،آٹھویں پر روس اور نویں نمبر پر اٹلی کی فوج ہے۔
دنیا بھر کے ممالک کے دفاعی بجٹ کا تجزیہ کرنے سے یہ پہلو بھی کھل کر سامنے آتا ہے کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر جن خطرات کا سامنا ہے اس پس منظر میں پاکستانی افواج جس قلیل دفاعی بجٹ میں اپنے اہداف پورے کر رہی ہیں وہ ایک مثال ہے۔
پاکستان کو اپنے اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کے لیے دنیا کی تیسری بڑی فوجی طاقت (بھارتی فوج) سے ہمہ وقت چوکس اور تیار رہنا ہے۔ پاکستان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی فوج کو جدید اسلحے کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ جوہری توانائی اور میزائل پروگرام( Delivery System) پر تحقیق اور اس کی پروڈکشن بھی جاری رکھے تاکہ ہمارے پاس ایسا Deterent موجود رہے کہ بھارت پاکستان کو جارحانہ نظر سے نہ دیکھ سکے۔
ہمیں دفاع وطن کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جوہری صلاحیت کے ساتھ ساتھ روایتی ہتھیاروں کے حصول کو بھی یقینی بنانا ہے کیونکہ ملکی دفاع کے لیے یہ ہتھیار بھی بنیادی ضرورت ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت بھارت دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ جنگی ہتھیار خریدتے ہیں۔
جغرافیائی اعتبار سے پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں دنیا کی بڑی طاقتوں امریکا روس چین اور بھارت کے عظیم تر معاشی اور عسکری مفادات ہیں، اس حوالے سے بھی پاکستان کو اپنی سالمیت خودمختاری اندرونی استحکام اور اقتدار اعلیٰ کو محفوظ بنانے کے لیے ایک پرعزم پروفیشنل اور حب الوطن فوج کی اشد ضرورت ہے۔
جن قلیل وسائل(بجٹ)میں افواج پاکستان دفاع وطن کا فریضہ انجام دے رہی ہے، اس پر پوری قوم انھیں سلام پیش کرتی ہے۔
افواج پاکستان نے ملکی معیشت کو درپیش مشکلات کے باعث اپنے سالانہ بجٹ میں رضاکارانہ طور پر کٹوتی کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ پیشکش اس بات کی علامت ہے کہ ملکی دفاع کے لیے صرف اور صرف پیسہ ہی سب کچھ نہیں بلکہ قوم کی یکجہتی اور عظم صمیم دفاع وطن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی چیلنجز کا بظاہر تقاضا تو یہ تھا کہ دفاعی بجٹ میں پاک افواج دفاعی بجٹ میں اضافہ مانگتی لیکن انھوں نے نے کٹوتی کا فیصلہ کرکے ایک منفرد مثال قائم کی ہے۔اگر ہم دنیا کے مختلف ممالک کے دفاعی بجٹ تقابل پاکستان سے کریں تو حیران کن صورت حال سامنے آتی ہے۔
دفاعی بجٹ، ایسے مالی اخراجات کا تخمینہ ہے جو کوئی بھی ریاست اپنی حفاظت کے لیے مسلح افواج (آرمی، نیوی، ایئر فورس) اور اس سے متعلق محکموں پر خرچ کرتی ہے۔
اسٹاک ہوم میں قائم بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے سپری(SIPRI) کے مطابق دفاعی اخراجات میں تمام Capital اور رواں اخراجات کا تخمینہ لگایا جاتا ہے جن میں دفاعی ہتھیاروں( روایتی اور غیر روایتی) کی تیاری ان کا حصول اور دیکھ بھال سب شامل ہونے کے ساتھ ساتھ دفاعی افواج سے متعلق دوسرے اداروں (سول یا عسکری)کی افرادی قوت کی تنخواہیں,پینشن ان کی بہبود،تربیت، تعلیم اور طبی سہولتوں کی فراہمی اور فوجی تعمیرات کے اخراجات شامل ہوتے ہیں۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں وہی ممالک اور ریاست تادیر قائم اور مستحکم رہتی ہیں جنہوں نے ترجیحی بنیادوں پر گڈگورننس کے اہتمام کے ساتھ طاقتور فوج رکھی ہو۔ جن ممالک نے ان دونوں پہلوں کو متوازن اور حالات کے مطابق نہیں بنایا وہ نہ تو اقوام عالم میں ممتاز اور مقدم مقام حاصل کر سکی ہیں اور نہ ہی تادیر قائم رہ سکیں۔ حکومت گڈ گورننس کے تحت ملکی نظام احسن طریقے سے نبھاتی ہے جب کہ طاقتور فوج ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات کو کم کرنے یا ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
کسی بھی ملک کی مضبوط اور دیرپا عسکری طاقت کا تجزیہ اس کے دفاعی بجٹ سے بھی لگایاجاسکتاہے۔ جمہوری ممالک میں دفاعی بجٹ کو قومی بجٹ کے ایک اہم حصے کے طور پر پارلیمنٹ کی منظوری کے لیے پیش کیا جاتاہے۔ پاکستان کا سالانہ قومی بجٹ یکم جولائی سے نافذ ہوکر اگلے سال 30جون تک کے لیے ہوتا ہے۔ قومی بجٹ کی منصوبہ بندی کے وقت دفاعی اخراجات کا مجموعی تخمینہ تو لگایا جاسکتا ہے لیکن ان اخراجات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کیا اس عرصے کے دوران وہ ملک کسی جنگ کا شکار یا حصہ تو نہیں بنا۔ جنگ اور ناگہانی آفات ایسا عمل ہے جو ہر طرح کی مالی منصوبہ بندی کے تخمینوں کو بکھیر کر رکھ دیتا ہے۔
انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیزنے دفاعی اخراجات کے حوالے سے دنیا کے 15ایسے ممالک کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جو دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ دفاعی اخراجات کرتے ہیں، ان میں پاکستان شامل نہیںہے۔ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دفاعی بجٹ امریکا کا ہے، اس کے بعد چین، تیسرے نمبر پر سعودی عرب، چوتھے پر روس اور پانچویں پر بھارت، چھٹے پر برطانیہ، ساتویں پر فرانس اور آٹھویں پر جاپان، نویں نمبر پر جرمنی، دسویں پر ساؤتھ کوریا۔ گیارہویں پر برازیل، بارہویں پر آسٹریلیا ،تیرویں پر اٹلی، چودھویں پر اسرائیل اور پندرہویں پر عراق ہیں ۔
ان پندرہ ممالک کے دفاعی اخراجات کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
امریکا 3۔643 بلین ڈالر'چین 168.2بلین ڈالر' سعودی عرب 82.9'روس 63.1'بھارت 57.9' برطانیہ 56.9 ' فرانس 53.4'جاپان 47.3' جرمنی 45.3' ساؤتھ کوریا 39.2 'برازیل 28 'آسٹریلیا 26.6' اٹلی 24.9'اسرائیل 21.6'عراق 19.6 بلین ڈالر۔
پاکستان کے دفاعی بجٹ کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو سن 2018-19 میں پاکستان کی مسلح افواج اور اس کے ذیلی اداروں کو مجموعی طور پر نو اعشاریہ چھ بلین ڈالر (9.6) دیے گئے۔
پاکستان کو دفاعی میں جن حالات کا سامنا ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، یہی نہیں بلکہ ملک کے اندرونی حالات ' دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ختم کرنے میں بھی فوج پر جو اخراجات آتے ہیں اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ قلیل ترین مالی وسائل کے باوجود پاکستان کی مسلح افواج مثالی کردار ادا کر رہی ہیں۔
پاکستان کو بھارت اور افغانستان کی سرحدوں پر جس صورتحال کا سامنا ہے وہ ہم سب کے علم میں ہے، اسی طرح سیاچن جیسے دنیا کے بلند ترین فوجی محاذ اور قبائلی علاقوں میں فوجی اخراجات کا اندازہ صرف انھی کو ہوتا ہے جو دفاع وطن کے لیے وہاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا دفاعی بجٹ 57.9 بلین ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان کا دفاعی بجٹ 9.6 بلین ہے اس طرح بھارت کا دفاعی بجٹ پاکستان کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ ہے۔
بین الاقوامی ادارے کے ان اعداد و شمار کے تجزیہ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں رقبے آبادی اور کم دفاعی مسائل کا سامنا کرنے والے بہت سے ممالک کا دفاعی بجٹ پاکستان سے کئی گناہ زیادہ ہے۔
انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں جن پندرہ ممالک کے دفاعی بجٹ کا یہ چارٹ بنایا ہے، اس میں ایران اور پاکستان شامل نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ایران کا دفاعی بجٹ بھی عراق کے برابر ہے۔ سن 2018-19 میں ایران کا دفاعی بجٹ بھی عراق کی طرح 19.6 بلین ڈالر ہے جو پاکستان کے دفاعی بجٹ سے 2 گناہ زیادہ ہے۔
دفاعی بجٹ کے حوالے سے تقابل کرتے ہوئے ایک اور دلچسپ پہلو بھی سامنے آتا ہے، دنیا بھر کی افواج کے جوانوں اور افسران کو جو تنخواہیں دی جاتی ہیں ان میں سب سے زیادہ تنخواہ آسٹریلین فوجیوں کی ہے، دوسرے نمبر پر کینیڈا، تیسرے پر برطانیہ، چوتھے پر امریکی افواج ، پانچویں پر فرانس اور چھٹے پر جرمنی جب کہ ساتویں پر جاپان ،آٹھویں پر روس اور نویں نمبر پر اٹلی کی فوج ہے۔
دنیا بھر کے ممالک کے دفاعی بجٹ کا تجزیہ کرنے سے یہ پہلو بھی کھل کر سامنے آتا ہے کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر جن خطرات کا سامنا ہے اس پس منظر میں پاکستانی افواج جس قلیل دفاعی بجٹ میں اپنے اہداف پورے کر رہی ہیں وہ ایک مثال ہے۔
پاکستان کو اپنے اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کے لیے دنیا کی تیسری بڑی فوجی طاقت (بھارتی فوج) سے ہمہ وقت چوکس اور تیار رہنا ہے۔ پاکستان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی فوج کو جدید اسلحے کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ جوہری توانائی اور میزائل پروگرام( Delivery System) پر تحقیق اور اس کی پروڈکشن بھی جاری رکھے تاکہ ہمارے پاس ایسا Deterent موجود رہے کہ بھارت پاکستان کو جارحانہ نظر سے نہ دیکھ سکے۔
ہمیں دفاع وطن کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جوہری صلاحیت کے ساتھ ساتھ روایتی ہتھیاروں کے حصول کو بھی یقینی بنانا ہے کیونکہ ملکی دفاع کے لیے یہ ہتھیار بھی بنیادی ضرورت ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت بھارت دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ جنگی ہتھیار خریدتے ہیں۔
جغرافیائی اعتبار سے پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں دنیا کی بڑی طاقتوں امریکا روس چین اور بھارت کے عظیم تر معاشی اور عسکری مفادات ہیں، اس حوالے سے بھی پاکستان کو اپنی سالمیت خودمختاری اندرونی استحکام اور اقتدار اعلیٰ کو محفوظ بنانے کے لیے ایک پرعزم پروفیشنل اور حب الوطن فوج کی اشد ضرورت ہے۔
جن قلیل وسائل(بجٹ)میں افواج پاکستان دفاع وطن کا فریضہ انجام دے رہی ہے، اس پر پوری قوم انھیں سلام پیش کرتی ہے۔