لوڈ شیڈنگ میں پنکھے چھوٹی بیٹری سے چلانے کا طریقہ دریافت
طریقے پر عمل کرکے چھت کے پنکھے کو 4 گھنٹے تک 50 فیصد کم بجلی پر چلایا جا سکتا ہے
بجلی کے نرخ میں اضافہ، لوڈ شیڈنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ ملک بھر کے کروڑوں عوام کا مسئلہ ہے۔
عوام کو سستی بجلی کی فراہمی پر حکومت بھی اربوں روپے خرچ کر رہی ہے لیکن یہ مسئلہ ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا، مسائل کا شکار عوام ایک طرح سے ان مسائل کے عادی ہو چکے ہیں، بجلی کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے کوئی جنریٹرز اور یو پی ایس پر پیسہ خرچ کررہا ہے تو کسی نے بجلی کی بچت کے لیے کفایت استعمال کا راستہ اختیار کیا لیکن مسائل کی چکی میں پسے عوام میں بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اس اجتماعی مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی، کراچی کے ایک انٹرپرنیور 39 سالہ امجد احمد کا شمار موخر الذکر افراد میں ہوتا ہے۔
جنھوں نے مہنگی بجلی، لوڈ شیڈنگ اور گرمی کا توڑ نکالتے ہوئے گھروں میں پہلے سے لگے ہوئے چھت کے پنکھوں کو چھوٹی بیٹری سے چلانے کا طریقہ دریافت کر لیا ہے اس طریقے پر عمل کر کے 100 ایمپیئر کی بیٹری کو بہت کم بجلی سے چارج کر کے چھت کے پنکھے 3 سے 4 گھنٹے عام بجلی کے مقابلے میں 50 فیصد کم لاگت پر چلایا جاسکتا ہے اس سسٹم کو شمسی توانائی سے منسلک کیے جانے کی صورت میں قدرتی بجلی بغیر کسی لاگت کے استعمال کی جاسکتی ہے۔
امجد احمد کا دعویٰ ہے کہ یہ طریقہ ملک سے بجلی کی قلت کا خاتمہ کر سکتا ہے مارکیٹ میں پہلے سے دستیاب ڈی سی پنکھوں کے مقابلے میں یہ طریقہ لاگت میں کم ہے اور کارکردگی میں 200 فیصد تک بہتر ہے، چھت کے پنکھوں کو امجد کی دریافت کردہ ٹیکنالوجی کی مدد سے خودکار موڈ کے علاوہ ریموٹ سے بھی چلایا جا سکتا ہے، امجد احمد نے پہلے مرحلے میں شہر کی مساجد کو بھاری بلوں سے نجات دلانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
لوڈشیڈنگ میں بیٹری سے چلنے والے پنکھے کا حل پیش کر دیا
7 سال قبل لوڈ شیڈنگ کے عروج کے زمانے میں بیٹری سے چلنے والے پنکھوں کا حل (سلوشن) پیش کیا ، یہ بات امجد احمد نے ملاقات میں بتائی انھوں نے بتایا کہ شیر شاہ کباڑی مارکیٹ سے پرانے پرزہ جمع کرکے انھوں نے خود اپنا پنکھا تیار کیا جسے بیٹری کے ذریعے چارج کر کے ڈھائی سے 3 گھنٹے چلایا جا سکتا تھا۔ لوڈ شیڈنگ سے پریشان شہریوں نے اس حل (سلوشن) کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ایک معروف کمپنی نے امجد علی کو شراکت داری کی پیش کش کی تاہم امجد علی بروقت کوئی فیصلہ نہ کرسکے۔
جس پر انھیں بعد میں پیش آنے والے مسائل کی وجہ سے پشیمانی ہوئی، امجد علی کے مطابق انھوں نے پاکستان میں چارجنگ کے پنکھوں کا پہلا سلوشن متعارف کرایا لیکن مارکیٹ میں آتے ہی اس سلوشن کی نقل تیار ہو کر مارکیٹ میں آ گئی، ان کے متعارف کردہ پائیدار اور قابل بھروسہ سلوشن کے برعکس سستے سلوشن کی لاگت بھی ان کے سلوشن سے آدھی تھی اور معیار بھی انتہائی پست تھا جلد ہی اس طرز کے پنکھنے ملک میں عام ہوگئے اور چین سے بھی بڑی تعداد میں چارجنگ پنکھے پاکستان آنا شروع ہو گئے۔
شمسی توانائی سے پنکھے چلانے پر 50 ہزار لاگت آتی ہے
امجد احمد کا سلوشن دو طریقوں سے کام کرتا ہے، ایک طریقہ شمسی توانائی سے پنکھے چلانے کا ہے جس میں 50 ہزار روپے کی لاگت سے دو پنکھے صبح 9 سے شام 5 بجے تک شمسی توانائی پر چلائے جا سکتے ہیں اس سسٹم اور پنکھوں پر اٹھنے والی لاگت 3 سال میں بجلی کے بلوں میں کمی کی شکل میں نکل جائے گی کیونکہ بجلی کے استعمال کردہ یونٹس کی تعداد کم ہونے سے فی یونٹ نرخ بھی کم ہوگا اور اس پر محصولات کی شرح بھی کم عائد ہوگی، شمسی توانائی کے بغیر چلنے والے 2 پنکھوں کا سلوشن 18 سے 20 ہزار روپے میں نصب ہو گا۔
اس سلوشن میں 100 ایمپیئر کی بیٹری سے 2 پنکھے اور 200 ایمپیئر کی بیٹری سے 4 پنکھے با آسانی 3 گھنٹے بغیر گرڈ کی بجلی سے چلائے جا سکتے ہیں، دوسرا سلوشن یو پی ایس کے بیک اپ سے زیادہ مفید اور موثر ہے کیونکہ 250 ایمپیئر تک کی بیٹری کو ہیوی یو پی ایس سے چارج کرنے کے بعد 3 پنکھوں کو بیک وقت بمشکل ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ چلایا جا سکتا ہے، امجد احمد کے سلوشن میں 200 ایمپیئر کی بیٹری سے بیک وقت 4 پنکھے پوری رفتار سے 3 گھنٹے تک چلائے جا سکتے ہیں۔
عام چھت کا پنکھا 75 سے 95 واٹ بجلی استعمال کرتا ہے
بجلی کے بلوں میں پنکھوں پر خرچ ہونیو الی بجلی کی لاگت کو اجاگر کرنے کے لیے سمجھنا ضروری ہے کہ عام چھت کا پنکھا 75 سے 95 واٹ بجلی استعمال کرتا ہے 300 یونٹ تک کے صارفین کے بجلی کے ماہانہ بلوں میں موسم گرما کے دوران دو پنکھوں کی بجلی کا خرچ بل کا نصف ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جن گھروں میں ایئرکنڈیشن استعمال نہیں ہوتے ان گھروں میں صرف موسم سرما میں پنکھے بند ہونے کی وجہ سے بجلی کا بل گرمیوں کے مقابلے میں پچاس فیصد تک کم ہو جاتا ہے ایک اوسط سائز کا چھت کا پنکھا گرمیوں میں ماہانہ 100 یونٹ تک کی بجلی استعمال کرتا ہے۔
اس لحاظ سے چھوٹے صارفین کے لیے ایک پنکھے کا ماہانہ بل 700 سے 800 روپے کے لگ بھگ بنتا ہے۔ امجد احمد کا دعویٰ ہے کہ ان کا تیار کردہ سلوشن پنکھوں پر خرچ ہونے والی بجلی کو 50 فیصد سے 100 فیصد تک کم کرسکتا ہے جس سے اوسط صارف کو سالانہ 9 ہزار روپے تک کی بچت ہوسکتی ہے اور بچنے والی بجلی صنعتی اور پیداواری مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتی ہے اور حکومت پر بھی بجلی کی سبسڈی کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔
کاپی رائٹ کا تحفظ نہ ہونے سے ایجاد کو شدید نقصان پہنچا
ملک میں کاپی رائٹ اور انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس کا تحفظ نہ ہونے سے ملکی سطح پر ہونے والی ایجادات innovation کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے یہ بات امجد علی نے انٹرویو میں بتائی خود امجد علی بھی غیرمعیاری نقلی اور غیرپائیدار سلوشن کی وجہ سے دلبرداشتہ ہوگئے، امجد احمد کے مطابق جب کئی سال کی محنت اور اپنی جمع پونچی لگاکر کوئی باصلاحیت موجد سلوشن پیش کرتا ہے تو کم از کم اس سلوشن یا ٹیکنالوجی کا اسے کریڈٹ ملنا چاہیے لیکن پاکستان میں نقل ایک عام رجحان ہے، پاکستان میں نقلی مصنوعات متعارف کرانا جتنا آسان ہے یا ٹیکنالوجی کے موجدین کے لیے کاپی رائٹس کا تحفظ حاصل کرنا اتنا ہی دشوار اور پیچیدہ ہے۔ کسی کارگر ٹیکنالوجی یا سلوشن کی غیرمعیاری نقل مارکیٹ میں آنے اور ان کے استعمال کے خراب تجربہ کی وجہ سے صارفین کا اعتبار معیاری سلوشنز پر سے بھی اٹھ جاتا ہے۔
اس طرح innovationکا عمل رک جاتا ہے۔ امجد احمد بھی ان دشواریوں کا شکار ہوگئے ایک جانب ان کا سلوشن معیاری ہونے کے باوجود مارکیٹ میں فروخت کے قابل نہ رہا کیونکہ اس سے سستے سلوشن کی بھرمار تھی دوسری جانب درآمدی پنکھوں یوپی ایس اور جنریٹرز کی بھاری تعداد میں درآمد سے ملک کی معیشت کو بھی زرمبادلہ کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا، امجد احمد نے لگ بھگ 200 کے قریب بریکٹ فینز تیار کیے جو آج بھی چل رہے ہیں ان میں سے بہت سے پنکھے سندھ کے دیہی علاقوں میں بھی چل رہے ہیں لیکن انھوں نے دلبرداشتہ ہوکر کام بند کر دیا۔
حکومت میری مدد کرے تو بجلی کی 50 فیصد بچت یقینی بنا سکتا ہوں
اپنے سابقہ تجربہ کے پیش نظر امجد احمد اپنے اس سلوشن کو نقل سے بچانے کے خواہش مند ہیں اور اس حوالے سے قانونی تقاضے پورے کررہے ہیں، امجد کا کہنا ہے کہ حکومت کی سپورٹ ملے تو پورے ملک میں بجلی کی 50 فیصد بچت کو ممکن کرکے دکھاسکتا ہوں، امجد احمد نے اپنی اس ایجاد کو پاکستان میں ہیٹ ویوز سے ہلاک ہونے والے عوام بالخصوص بزرگ شہریوں کے نام کیا ہے جو گرمی اور سخت موسم کی تاب نہ لاکر دنیا سے رخصت ہوگئے امجد احمد نے پہلے مرحلے میں کراچی کی ان مساجد میں اپنا سلوشن نصب کرنے کا عزم کیا ہے۔
جنھیں بیک وقت درجنوں پنکھے ایک ساتھ چلنے کی وجہ سے بھاری بھر کم بلوں کا سامنا ہے، امجد احمد نے مختلف مساجد کی انتظامیہ سے رابطہ کرکے انھیں اپنی ٹیکنالوجی کی آزمائش پر آمادہ کیا ہے امجد احمد کا کہنا ہے کہ ان کے سلوشن کو کہیں بھی کسی بھی سطح پر آزمایا جا سکتا ہے۔
چھت کے پنکھے کا حل ڈھونڈنے میں 3 سال لگے
میرے سلوشن والے پنکھے خریدنے والوں میں زیادہ تر کم آمدن والے گھرانے شامل تھے جنھیں مہنگائی اور بڑھتے ہوئے بجلی کے بلوں کا سامنا تھا، ایسے گھرانوں کی جانب سے امجد احمد سے مسلسل یہ ڈیمانڈ کی جاتی رہی کہ دیوار کے پنکھوں کی طرح چھت کے پنکھوں کا بھی کوئی سلوشن تیار کریں تاکہ لوڈشیڈنگ کے وقت ان پنکھوں سے گرمی کی شدت کا مقابلہ کیا جاسکے۔ امجد احمد نے ایک بار پھر بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور عام طبقہ کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے چھت کے پنکھوں کو بیٹری سے چلانے کا طریقہ تلاش کرنا شروع کیا۔
3 سال کی مسلسل جدوجہد اور کوششوں کے بعد امجد احمد گزشتہ ماہ اس مقصد میں کامیاب ہو گئے، امجد احمد کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے گھروں میں لگے ہوئے عام چھت کے پنکھوں کو چھوٹی بیٹری اور چارجر سے چلانے کا طریقہ ایجاد کیا ہے جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا سلوشن ہے، اس سلوشن کی 2 بنیادی خصوصیات ہیں پہلی یہ کہ عام گھریلو پنکھوں کو امجد کا ایجاد کردہ سلوشن لگاکر اسی رفتار پر چلایا جاسکتا ہے جس طرح گرڈ سے آنے والی بجلی سے چلایا جاتا ہے دوسری خصوصیت یہ ہے کہ عام یوپی ایس کے برعکس یہ پنکھے 100ایمپیئر کی چھوٹی بیٹری اور چھوٹے چارجر سے چلائے جاسکتے ہیں جو ایک بار چارج ہوکر 3 سے 4 گھنٹے تک کا بیک اپ فراہم کر سکتے ہیں اس طرح یو پی ایس کی نسبت بجلی کی 50 فیصد سے زائد بچت ہو گی۔
عوام کو سستی بجلی کی فراہمی پر حکومت بھی اربوں روپے خرچ کر رہی ہے لیکن یہ مسئلہ ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا، مسائل کا شکار عوام ایک طرح سے ان مسائل کے عادی ہو چکے ہیں، بجلی کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے کوئی جنریٹرز اور یو پی ایس پر پیسہ خرچ کررہا ہے تو کسی نے بجلی کی بچت کے لیے کفایت استعمال کا راستہ اختیار کیا لیکن مسائل کی چکی میں پسے عوام میں بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اس اجتماعی مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی، کراچی کے ایک انٹرپرنیور 39 سالہ امجد احمد کا شمار موخر الذکر افراد میں ہوتا ہے۔
جنھوں نے مہنگی بجلی، لوڈ شیڈنگ اور گرمی کا توڑ نکالتے ہوئے گھروں میں پہلے سے لگے ہوئے چھت کے پنکھوں کو چھوٹی بیٹری سے چلانے کا طریقہ دریافت کر لیا ہے اس طریقے پر عمل کر کے 100 ایمپیئر کی بیٹری کو بہت کم بجلی سے چارج کر کے چھت کے پنکھے 3 سے 4 گھنٹے عام بجلی کے مقابلے میں 50 فیصد کم لاگت پر چلایا جاسکتا ہے اس سسٹم کو شمسی توانائی سے منسلک کیے جانے کی صورت میں قدرتی بجلی بغیر کسی لاگت کے استعمال کی جاسکتی ہے۔
امجد احمد کا دعویٰ ہے کہ یہ طریقہ ملک سے بجلی کی قلت کا خاتمہ کر سکتا ہے مارکیٹ میں پہلے سے دستیاب ڈی سی پنکھوں کے مقابلے میں یہ طریقہ لاگت میں کم ہے اور کارکردگی میں 200 فیصد تک بہتر ہے، چھت کے پنکھوں کو امجد کی دریافت کردہ ٹیکنالوجی کی مدد سے خودکار موڈ کے علاوہ ریموٹ سے بھی چلایا جا سکتا ہے، امجد احمد نے پہلے مرحلے میں شہر کی مساجد کو بھاری بلوں سے نجات دلانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
لوڈشیڈنگ میں بیٹری سے چلنے والے پنکھے کا حل پیش کر دیا
7 سال قبل لوڈ شیڈنگ کے عروج کے زمانے میں بیٹری سے چلنے والے پنکھوں کا حل (سلوشن) پیش کیا ، یہ بات امجد احمد نے ملاقات میں بتائی انھوں نے بتایا کہ شیر شاہ کباڑی مارکیٹ سے پرانے پرزہ جمع کرکے انھوں نے خود اپنا پنکھا تیار کیا جسے بیٹری کے ذریعے چارج کر کے ڈھائی سے 3 گھنٹے چلایا جا سکتا تھا۔ لوڈ شیڈنگ سے پریشان شہریوں نے اس حل (سلوشن) کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ایک معروف کمپنی نے امجد علی کو شراکت داری کی پیش کش کی تاہم امجد علی بروقت کوئی فیصلہ نہ کرسکے۔
جس پر انھیں بعد میں پیش آنے والے مسائل کی وجہ سے پشیمانی ہوئی، امجد علی کے مطابق انھوں نے پاکستان میں چارجنگ کے پنکھوں کا پہلا سلوشن متعارف کرایا لیکن مارکیٹ میں آتے ہی اس سلوشن کی نقل تیار ہو کر مارکیٹ میں آ گئی، ان کے متعارف کردہ پائیدار اور قابل بھروسہ سلوشن کے برعکس سستے سلوشن کی لاگت بھی ان کے سلوشن سے آدھی تھی اور معیار بھی انتہائی پست تھا جلد ہی اس طرز کے پنکھنے ملک میں عام ہوگئے اور چین سے بھی بڑی تعداد میں چارجنگ پنکھے پاکستان آنا شروع ہو گئے۔
شمسی توانائی سے پنکھے چلانے پر 50 ہزار لاگت آتی ہے
امجد احمد کا سلوشن دو طریقوں سے کام کرتا ہے، ایک طریقہ شمسی توانائی سے پنکھے چلانے کا ہے جس میں 50 ہزار روپے کی لاگت سے دو پنکھے صبح 9 سے شام 5 بجے تک شمسی توانائی پر چلائے جا سکتے ہیں اس سسٹم اور پنکھوں پر اٹھنے والی لاگت 3 سال میں بجلی کے بلوں میں کمی کی شکل میں نکل جائے گی کیونکہ بجلی کے استعمال کردہ یونٹس کی تعداد کم ہونے سے فی یونٹ نرخ بھی کم ہوگا اور اس پر محصولات کی شرح بھی کم عائد ہوگی، شمسی توانائی کے بغیر چلنے والے 2 پنکھوں کا سلوشن 18 سے 20 ہزار روپے میں نصب ہو گا۔
اس سلوشن میں 100 ایمپیئر کی بیٹری سے 2 پنکھے اور 200 ایمپیئر کی بیٹری سے 4 پنکھے با آسانی 3 گھنٹے بغیر گرڈ کی بجلی سے چلائے جا سکتے ہیں، دوسرا سلوشن یو پی ایس کے بیک اپ سے زیادہ مفید اور موثر ہے کیونکہ 250 ایمپیئر تک کی بیٹری کو ہیوی یو پی ایس سے چارج کرنے کے بعد 3 پنکھوں کو بیک وقت بمشکل ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ چلایا جا سکتا ہے، امجد احمد کے سلوشن میں 200 ایمپیئر کی بیٹری سے بیک وقت 4 پنکھے پوری رفتار سے 3 گھنٹے تک چلائے جا سکتے ہیں۔
عام چھت کا پنکھا 75 سے 95 واٹ بجلی استعمال کرتا ہے
بجلی کے بلوں میں پنکھوں پر خرچ ہونیو الی بجلی کی لاگت کو اجاگر کرنے کے لیے سمجھنا ضروری ہے کہ عام چھت کا پنکھا 75 سے 95 واٹ بجلی استعمال کرتا ہے 300 یونٹ تک کے صارفین کے بجلی کے ماہانہ بلوں میں موسم گرما کے دوران دو پنکھوں کی بجلی کا خرچ بل کا نصف ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جن گھروں میں ایئرکنڈیشن استعمال نہیں ہوتے ان گھروں میں صرف موسم سرما میں پنکھے بند ہونے کی وجہ سے بجلی کا بل گرمیوں کے مقابلے میں پچاس فیصد تک کم ہو جاتا ہے ایک اوسط سائز کا چھت کا پنکھا گرمیوں میں ماہانہ 100 یونٹ تک کی بجلی استعمال کرتا ہے۔
اس لحاظ سے چھوٹے صارفین کے لیے ایک پنکھے کا ماہانہ بل 700 سے 800 روپے کے لگ بھگ بنتا ہے۔ امجد احمد کا دعویٰ ہے کہ ان کا تیار کردہ سلوشن پنکھوں پر خرچ ہونے والی بجلی کو 50 فیصد سے 100 فیصد تک کم کرسکتا ہے جس سے اوسط صارف کو سالانہ 9 ہزار روپے تک کی بچت ہوسکتی ہے اور بچنے والی بجلی صنعتی اور پیداواری مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتی ہے اور حکومت پر بھی بجلی کی سبسڈی کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔
کاپی رائٹ کا تحفظ نہ ہونے سے ایجاد کو شدید نقصان پہنچا
ملک میں کاپی رائٹ اور انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس کا تحفظ نہ ہونے سے ملکی سطح پر ہونے والی ایجادات innovation کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے یہ بات امجد علی نے انٹرویو میں بتائی خود امجد علی بھی غیرمعیاری نقلی اور غیرپائیدار سلوشن کی وجہ سے دلبرداشتہ ہوگئے، امجد احمد کے مطابق جب کئی سال کی محنت اور اپنی جمع پونچی لگاکر کوئی باصلاحیت موجد سلوشن پیش کرتا ہے تو کم از کم اس سلوشن یا ٹیکنالوجی کا اسے کریڈٹ ملنا چاہیے لیکن پاکستان میں نقل ایک عام رجحان ہے، پاکستان میں نقلی مصنوعات متعارف کرانا جتنا آسان ہے یا ٹیکنالوجی کے موجدین کے لیے کاپی رائٹس کا تحفظ حاصل کرنا اتنا ہی دشوار اور پیچیدہ ہے۔ کسی کارگر ٹیکنالوجی یا سلوشن کی غیرمعیاری نقل مارکیٹ میں آنے اور ان کے استعمال کے خراب تجربہ کی وجہ سے صارفین کا اعتبار معیاری سلوشنز پر سے بھی اٹھ جاتا ہے۔
اس طرح innovationکا عمل رک جاتا ہے۔ امجد احمد بھی ان دشواریوں کا شکار ہوگئے ایک جانب ان کا سلوشن معیاری ہونے کے باوجود مارکیٹ میں فروخت کے قابل نہ رہا کیونکہ اس سے سستے سلوشن کی بھرمار تھی دوسری جانب درآمدی پنکھوں یوپی ایس اور جنریٹرز کی بھاری تعداد میں درآمد سے ملک کی معیشت کو بھی زرمبادلہ کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا، امجد احمد نے لگ بھگ 200 کے قریب بریکٹ فینز تیار کیے جو آج بھی چل رہے ہیں ان میں سے بہت سے پنکھے سندھ کے دیہی علاقوں میں بھی چل رہے ہیں لیکن انھوں نے دلبرداشتہ ہوکر کام بند کر دیا۔
حکومت میری مدد کرے تو بجلی کی 50 فیصد بچت یقینی بنا سکتا ہوں
اپنے سابقہ تجربہ کے پیش نظر امجد احمد اپنے اس سلوشن کو نقل سے بچانے کے خواہش مند ہیں اور اس حوالے سے قانونی تقاضے پورے کررہے ہیں، امجد کا کہنا ہے کہ حکومت کی سپورٹ ملے تو پورے ملک میں بجلی کی 50 فیصد بچت کو ممکن کرکے دکھاسکتا ہوں، امجد احمد نے اپنی اس ایجاد کو پاکستان میں ہیٹ ویوز سے ہلاک ہونے والے عوام بالخصوص بزرگ شہریوں کے نام کیا ہے جو گرمی اور سخت موسم کی تاب نہ لاکر دنیا سے رخصت ہوگئے امجد احمد نے پہلے مرحلے میں کراچی کی ان مساجد میں اپنا سلوشن نصب کرنے کا عزم کیا ہے۔
جنھیں بیک وقت درجنوں پنکھے ایک ساتھ چلنے کی وجہ سے بھاری بھر کم بلوں کا سامنا ہے، امجد احمد نے مختلف مساجد کی انتظامیہ سے رابطہ کرکے انھیں اپنی ٹیکنالوجی کی آزمائش پر آمادہ کیا ہے امجد احمد کا کہنا ہے کہ ان کے سلوشن کو کہیں بھی کسی بھی سطح پر آزمایا جا سکتا ہے۔
چھت کے پنکھے کا حل ڈھونڈنے میں 3 سال لگے
میرے سلوشن والے پنکھے خریدنے والوں میں زیادہ تر کم آمدن والے گھرانے شامل تھے جنھیں مہنگائی اور بڑھتے ہوئے بجلی کے بلوں کا سامنا تھا، ایسے گھرانوں کی جانب سے امجد احمد سے مسلسل یہ ڈیمانڈ کی جاتی رہی کہ دیوار کے پنکھوں کی طرح چھت کے پنکھوں کا بھی کوئی سلوشن تیار کریں تاکہ لوڈشیڈنگ کے وقت ان پنکھوں سے گرمی کی شدت کا مقابلہ کیا جاسکے۔ امجد احمد نے ایک بار پھر بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور عام طبقہ کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے چھت کے پنکھوں کو بیٹری سے چلانے کا طریقہ تلاش کرنا شروع کیا۔
3 سال کی مسلسل جدوجہد اور کوششوں کے بعد امجد احمد گزشتہ ماہ اس مقصد میں کامیاب ہو گئے، امجد احمد کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے گھروں میں لگے ہوئے عام چھت کے پنکھوں کو چھوٹی بیٹری اور چارجر سے چلانے کا طریقہ ایجاد کیا ہے جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا سلوشن ہے، اس سلوشن کی 2 بنیادی خصوصیات ہیں پہلی یہ کہ عام گھریلو پنکھوں کو امجد کا ایجاد کردہ سلوشن لگاکر اسی رفتار پر چلایا جاسکتا ہے جس طرح گرڈ سے آنے والی بجلی سے چلایا جاتا ہے دوسری خصوصیت یہ ہے کہ عام یوپی ایس کے برعکس یہ پنکھے 100ایمپیئر کی چھوٹی بیٹری اور چھوٹے چارجر سے چلائے جاسکتے ہیں جو ایک بار چارج ہوکر 3 سے 4 گھنٹے تک کا بیک اپ فراہم کر سکتے ہیں اس طرح یو پی ایس کی نسبت بجلی کی 50 فیصد سے زائد بچت ہو گی۔