مایوس افراد کی زندگی بدلنے والا
اپنی سوچ بدل کر ہم نہ صرف اپنی دنیا بدل سکتے ہیں، بلکہ پوری دنیا میں تبدیلی لا سکتے ہیں
QUETTA:
''میں تم سے محبت کرتا ہوں،'' کم عمر نوجوان نے آنکھوں میں ارمان لے کر اپنے سامنے کھڑی خوبصورت دوشیزہ سے کہا۔ اس کی سانسیں بے قابو ہورہی تھیں۔ ''تم نے ایسا سوچا بھی کیسے؟'' لڑکی نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر کہا، ''تم کیا سمجھتے ہو کہ تم میرے قابل ہوں؟ دو ٹکے کا گوالا خاندان ہے تمہارا! ہے کیا تمہارے پاس مجھے دینے کو؟ ہونہہ!'' لڑکی کا غصہ عروج پر تھا اور وہ یہ کہتی ہوئی بڑے بڑے قدم اٹھاتی چلی جاتی ہے۔ یہ سب ایسے ہوا کہ نوجوان اندازہ ہی نہ کرسکا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے؟ اسے شاید معلوم نہیں تھا کہ تقدیر اسے اس جیسے ردعمل کی طرف لے آئے گی۔ ذلت کے احساس کی وجہ سے اس کی آنکھیں بھر آئیں لیکن وہ بہت بے بس تھا، اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ وہ بوجھل قدموں سے گھر واپس آجاتا ہے۔ آج اسکول کا کام بھی نہیں کرسکا تھا۔ بہت دیر روتا رہا، خود سے باتیں بھی کیں اور تھک ہار کر سوگیا کیونکہ صبح اسے کام کےلیے بھی جلدی اٹھنا تھا۔
وہ صبح تین بجے اٹھا، جانوروں کو چارہ ڈالا اور پھر بھینسوں کا دودھ نکال کر جلدی سے تیار ہو کر اپنے اسکول کےلیے نکل پڑا۔ سارا دن وہ اپنی مایوس سوچوں میں غرق رہا۔ پورا ہفتہ اسی طرح گزر گیا۔ دن رات کا کچھ پتا نہ تھا۔ وہ ایک ایسا جسم بن گیا تھا جس میں جان نہیں تھی۔ ایسی ہی سوچوں میں گم وہ اپنے گاؤں میں ایک تالاب کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ تالاب میں بلاوجہ پتھر پھینک رہا تھا۔ اس کا دماغ مایوسی کی باتوں سے بھرا تھا کہ اسی دوران ایک خیال اس کے دماغ میں کوندا۔
وہ سوچنے لگا کہ اگر یہ لڑکی مان جاتی تو میں اس سے شادی کرتا، شادی کے بعد بچے پیدا کرتا اور اسی میں مر جاتا۔ وہ سوچنے لگا کہ قدرت مجھ سے کچھ اور چاہتی ہے۔ اس نے اپنی یاس کی کیفیت کو جھٹکا دیا اور سوچنے لگا کہ میں خود اپنے حالات بدلوں گا، اپنے خاندان کے حالات بدلوں گا، اپنے ارد گرد کے لوگوں کے حالات بدلوں گا! میں پوری دنیا کے حالات بدل دوں گا!
وہ خود یہ بڑی بڑی باتیں سوچ کے بھونچکا رہ گیا۔ وہ اٹھا، کپڑے جھاڑے اور اپنے دل کی دنیا لے کر چل پڑا۔ لیکن اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ نوجوان واقعی ایک دنیا بدل دے گا۔
1904 میں جب وہ صرف 16 سال کا تھا تو اس کا خاندان امریکا کے ایک گاؤں وارنز برگ میں منتقل ہوا جہاں اس نے اپنا ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ اس کا اسکول صرف ایک کمرے پر مشتمل تھا اور اس میں ٹوائلٹ بھی نہیں تھا۔ وہ اسکول ہی سے غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ اس نے وارنز برگ ہی کے ایک کالج سے 1908 میں گریجویشن مکمل کی۔ پھر جب وہ 22 سال کا ہوا تو اس کا خاندان بیلٹن، میسوری چلا آیا۔ وہ بولتا اچھا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ اس کی پہلی جاب سیلز میں لگی۔ اس کی کمپنی کا نام ''آرمر اینڈ کو'' تھا۔ وہ کمپنی کےلیے گو شت اور صابن کا سیلز مین مقرر ہوا۔ وہ اپنی مہارت کی بدولت بہت جلد اپنے ایریا ساؤتھ اوماہا کا سیلز انچارج بن گیا اور بالآخر ترقی کرتے کرتے کمپنی کا سیلز ہیڈ بن گیا۔
لیکن یہ اس کی منزل نہیں تھی۔
اس نے تقریباً 500 ڈالر (آج کے 13 ہزار ڈالر) جمع کیے اور 1911 میں جاب چھوڑ کر اپنی دنیا بدلنے نکل پڑا۔ اس نے امریکا میں موجود ایک تنظیم کےلیے، جس سے وہ اسکول کے زمانے سے منسلک تھا، لیکچررشپ شروع کردی۔ لیکن یہاں بھی اسے کام کا مزہ نہ آیا اور جلدی ہی اس نے امریکن ڈرامہ سوسائٹی میں ایکٹنگ کےلیے اپلائی کیا اور ایکٹر بن گیا۔ لیکن یہاں قدرتی طور پر وہ کامیاب نہ ہو سکا۔
وہ نیویارک آگیا اور وائی ایم سی اے (ینگ مینز کرسچین ایسوسی ایشن) کے ہاسٹل میں رہنے لگا۔ مگر اس کے پاس پیسے ختم ہورہے تھے۔ وہ سوچنے لگا کہ سیلز جاب ہی بہتر تھی۔ اسے پریشانیوں نے گھیر لیا تھا اور نوبت فاقوں تک آنے لگی تھی۔ اس دوران ہی اسے ایک خیال آیا: پبلک اسپیکنگ۔ ہاں! لیکن اس کےلیے اسے لیکچر دینے کےلیے ایک ہال یا کلاس روم چاہیے تھا۔ اس نے وائی ایم سی اے ہی کے مینیجر سے بات کی۔ مینیجر نے منع کردیا لیکن اس نے پھر مینیجر کو اکٹھی ہونے والی فیس کا 80 فیصد دینے کا کہا۔ اب کی بار مینیجر انکار نہ کرسکا۔ مینیجر کا وہ اقرار ہی اس کا پہلا سنگِ میل تھا۔
جب وہ اپنا پہلا سیشن کروا رہا تھا تو لیکچر کے دوران اس کا مواد ختم ہوگیا اور وہ زیادہ بول ہی نہ سکا۔ یہاں پر اس نے ایک نئی تکنیک ایجاد کی۔ اس نے اپنے اسٹوڈنٹس کو کسی ایسے عنوان پر بولنے کو کہا جس سے انہیں غصہ آئے۔ اس کی یہ سو چ کام کرگئی۔ اس نے محسوس کیا کہ اس طریقے سے لوگوں کے اندر خود اعتمادی آتی ہے اور وہ بہتر طریقے سے پبلک اسپیکنگ کرسکتے ہیں۔ بعد میں اس کورس کا نام ''ڈیل کارنیگی کورس'' رکھا گیا، اور وہ اس کورس سے 500 ڈالر ہر ہفتے کمانے لگا۔
جی ہاں! یہ ڈیل کارنیگی ہی تھا جس نے انتہائی نامساعد حالات کا مقابلہ کرکے نہ صر ف اپنی دنیا بدلی بلکہ کئی دوسرے لوگوں کو بھی مایوسی، ناکامی اور احساس کمتری سے نکال کر کامیاب اور خود اعتماد بنانے میں مدد دی۔
1916 تک ڈیل اس قابل ہوچکا تھا کہ لیکچر کےلیے خود ہی ایک ہال کرائے پر حاصل کرلیتا۔ ایک وقت میں جب وہ لیکچر دے رہا ہوتا تھا تو ہال میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں ملتی تھی۔ اس کی کتاب 1932 میں شائع ہوئی جس کا نام Public speaking and influencing men in business تھا۔ یہ دنیا میں سیلف ہیلپ پر پہلی کتاب تھی۔ اس سے پہلے لوگ ناول، فکشن یا ڈرامہ لکھتے تھے۔ لیکن اس کی کامیاب ترین کتاب How to win friends and influence people ثابت ہوئی۔ یہ وہ کتاب تھی جس نے واقعی لوگوں کی زندگیاں بدل دیں۔ یہ 1936 میں شائع ہوئی، بیسٹ سیلر بنی، چند مہینوں میں 17 بار طبع ہوئی، 31 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا اور اب تک مجموعی طور پر اس کی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ کوئی طالبہ یا طالب علم اتنا کنفیوزڈ اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتا کہ لڑکھڑا جاتا تو ڈیل خود ڈائس کے پاس آتا، شفقت سے اس کا بازو پکڑ لیتا اور بولنے کو کہتا۔ وہ تب تک اس کے ساتھ کھڑا رہتا جب تک اسٹوڈنٹ اپنی بات پوری نہ کرلیتا۔ اس نے ہی سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ لوگوں کا سب سے بڑا خوف موت کا نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کا سامنا کرنے کا ہوتا ہے۔ اس نے ایک رپورٹر کو بتایا کہ وہ کامیاب ہونا چاہتا تھا، لیکن اتنا نہیں؛ اور اپنی اتنی کامیابی پر وہ خود بھی حیران ہے۔ ڈیل کارنیگی نے ایک ادارہ ''ڈیل کارنیگی انسٹی ٹیوٹ'' بھی بنایا جس کا مقصد انسانی رویوں اور مؤثر بول چال پر تعلیم دینا ہے۔
ڈیل کارنیگی کا انتقال 1955 میں خون کے ایک قسم کے کینسر سے ہوا۔ اسے اس کے ماں باپ کے ساتھ دفن کیا گیا۔ ڈیل کے انتقال تک تقریباً ساڑھے چار لاکھ طالب علم اس کے ادارے سے تعلیم حاصل کرکے اپنی زندگی بدل چکے تھے۔
ڈیل کارنیگی کی زندگی ان تمام لوگوں کےلیے ایک پیغام ہے جو اپنے مستقبل سے مایوس ہوچکے ہیں؛ کہ کس طرح اپنی سوچ بدل کر ہم نہ صرف اپنی دنیا بدل سکتے ہیں، بلکہ پوری دنیا میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''میں تم سے محبت کرتا ہوں،'' کم عمر نوجوان نے آنکھوں میں ارمان لے کر اپنے سامنے کھڑی خوبصورت دوشیزہ سے کہا۔ اس کی سانسیں بے قابو ہورہی تھیں۔ ''تم نے ایسا سوچا بھی کیسے؟'' لڑکی نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر کہا، ''تم کیا سمجھتے ہو کہ تم میرے قابل ہوں؟ دو ٹکے کا گوالا خاندان ہے تمہارا! ہے کیا تمہارے پاس مجھے دینے کو؟ ہونہہ!'' لڑکی کا غصہ عروج پر تھا اور وہ یہ کہتی ہوئی بڑے بڑے قدم اٹھاتی چلی جاتی ہے۔ یہ سب ایسے ہوا کہ نوجوان اندازہ ہی نہ کرسکا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے؟ اسے شاید معلوم نہیں تھا کہ تقدیر اسے اس جیسے ردعمل کی طرف لے آئے گی۔ ذلت کے احساس کی وجہ سے اس کی آنکھیں بھر آئیں لیکن وہ بہت بے بس تھا، اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ وہ بوجھل قدموں سے گھر واپس آجاتا ہے۔ آج اسکول کا کام بھی نہیں کرسکا تھا۔ بہت دیر روتا رہا، خود سے باتیں بھی کیں اور تھک ہار کر سوگیا کیونکہ صبح اسے کام کےلیے بھی جلدی اٹھنا تھا۔
وہ صبح تین بجے اٹھا، جانوروں کو چارہ ڈالا اور پھر بھینسوں کا دودھ نکال کر جلدی سے تیار ہو کر اپنے اسکول کےلیے نکل پڑا۔ سارا دن وہ اپنی مایوس سوچوں میں غرق رہا۔ پورا ہفتہ اسی طرح گزر گیا۔ دن رات کا کچھ پتا نہ تھا۔ وہ ایک ایسا جسم بن گیا تھا جس میں جان نہیں تھی۔ ایسی ہی سوچوں میں گم وہ اپنے گاؤں میں ایک تالاب کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ تالاب میں بلاوجہ پتھر پھینک رہا تھا۔ اس کا دماغ مایوسی کی باتوں سے بھرا تھا کہ اسی دوران ایک خیال اس کے دماغ میں کوندا۔
وہ سوچنے لگا کہ اگر یہ لڑکی مان جاتی تو میں اس سے شادی کرتا، شادی کے بعد بچے پیدا کرتا اور اسی میں مر جاتا۔ وہ سوچنے لگا کہ قدرت مجھ سے کچھ اور چاہتی ہے۔ اس نے اپنی یاس کی کیفیت کو جھٹکا دیا اور سوچنے لگا کہ میں خود اپنے حالات بدلوں گا، اپنے خاندان کے حالات بدلوں گا، اپنے ارد گرد کے لوگوں کے حالات بدلوں گا! میں پوری دنیا کے حالات بدل دوں گا!
وہ خود یہ بڑی بڑی باتیں سوچ کے بھونچکا رہ گیا۔ وہ اٹھا، کپڑے جھاڑے اور اپنے دل کی دنیا لے کر چل پڑا۔ لیکن اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ نوجوان واقعی ایک دنیا بدل دے گا۔
1904 میں جب وہ صرف 16 سال کا تھا تو اس کا خاندان امریکا کے ایک گاؤں وارنز برگ میں منتقل ہوا جہاں اس نے اپنا ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ اس کا اسکول صرف ایک کمرے پر مشتمل تھا اور اس میں ٹوائلٹ بھی نہیں تھا۔ وہ اسکول ہی سے غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ اس نے وارنز برگ ہی کے ایک کالج سے 1908 میں گریجویشن مکمل کی۔ پھر جب وہ 22 سال کا ہوا تو اس کا خاندان بیلٹن، میسوری چلا آیا۔ وہ بولتا اچھا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ اس کی پہلی جاب سیلز میں لگی۔ اس کی کمپنی کا نام ''آرمر اینڈ کو'' تھا۔ وہ کمپنی کےلیے گو شت اور صابن کا سیلز مین مقرر ہوا۔ وہ اپنی مہارت کی بدولت بہت جلد اپنے ایریا ساؤتھ اوماہا کا سیلز انچارج بن گیا اور بالآخر ترقی کرتے کرتے کمپنی کا سیلز ہیڈ بن گیا۔
لیکن یہ اس کی منزل نہیں تھی۔
اس نے تقریباً 500 ڈالر (آج کے 13 ہزار ڈالر) جمع کیے اور 1911 میں جاب چھوڑ کر اپنی دنیا بدلنے نکل پڑا۔ اس نے امریکا میں موجود ایک تنظیم کےلیے، جس سے وہ اسکول کے زمانے سے منسلک تھا، لیکچررشپ شروع کردی۔ لیکن یہاں بھی اسے کام کا مزہ نہ آیا اور جلدی ہی اس نے امریکن ڈرامہ سوسائٹی میں ایکٹنگ کےلیے اپلائی کیا اور ایکٹر بن گیا۔ لیکن یہاں قدرتی طور پر وہ کامیاب نہ ہو سکا۔
وہ نیویارک آگیا اور وائی ایم سی اے (ینگ مینز کرسچین ایسوسی ایشن) کے ہاسٹل میں رہنے لگا۔ مگر اس کے پاس پیسے ختم ہورہے تھے۔ وہ سوچنے لگا کہ سیلز جاب ہی بہتر تھی۔ اسے پریشانیوں نے گھیر لیا تھا اور نوبت فاقوں تک آنے لگی تھی۔ اس دوران ہی اسے ایک خیال آیا: پبلک اسپیکنگ۔ ہاں! لیکن اس کےلیے اسے لیکچر دینے کےلیے ایک ہال یا کلاس روم چاہیے تھا۔ اس نے وائی ایم سی اے ہی کے مینیجر سے بات کی۔ مینیجر نے منع کردیا لیکن اس نے پھر مینیجر کو اکٹھی ہونے والی فیس کا 80 فیصد دینے کا کہا۔ اب کی بار مینیجر انکار نہ کرسکا۔ مینیجر کا وہ اقرار ہی اس کا پہلا سنگِ میل تھا۔
جب وہ اپنا پہلا سیشن کروا رہا تھا تو لیکچر کے دوران اس کا مواد ختم ہوگیا اور وہ زیادہ بول ہی نہ سکا۔ یہاں پر اس نے ایک نئی تکنیک ایجاد کی۔ اس نے اپنے اسٹوڈنٹس کو کسی ایسے عنوان پر بولنے کو کہا جس سے انہیں غصہ آئے۔ اس کی یہ سو چ کام کرگئی۔ اس نے محسوس کیا کہ اس طریقے سے لوگوں کے اندر خود اعتمادی آتی ہے اور وہ بہتر طریقے سے پبلک اسپیکنگ کرسکتے ہیں۔ بعد میں اس کورس کا نام ''ڈیل کارنیگی کورس'' رکھا گیا، اور وہ اس کورس سے 500 ڈالر ہر ہفتے کمانے لگا۔
جی ہاں! یہ ڈیل کارنیگی ہی تھا جس نے انتہائی نامساعد حالات کا مقابلہ کرکے نہ صر ف اپنی دنیا بدلی بلکہ کئی دوسرے لوگوں کو بھی مایوسی، ناکامی اور احساس کمتری سے نکال کر کامیاب اور خود اعتماد بنانے میں مدد دی۔
1916 تک ڈیل اس قابل ہوچکا تھا کہ لیکچر کےلیے خود ہی ایک ہال کرائے پر حاصل کرلیتا۔ ایک وقت میں جب وہ لیکچر دے رہا ہوتا تھا تو ہال میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں ملتی تھی۔ اس کی کتاب 1932 میں شائع ہوئی جس کا نام Public speaking and influencing men in business تھا۔ یہ دنیا میں سیلف ہیلپ پر پہلی کتاب تھی۔ اس سے پہلے لوگ ناول، فکشن یا ڈرامہ لکھتے تھے۔ لیکن اس کی کامیاب ترین کتاب How to win friends and influence people ثابت ہوئی۔ یہ وہ کتاب تھی جس نے واقعی لوگوں کی زندگیاں بدل دیں۔ یہ 1936 میں شائع ہوئی، بیسٹ سیلر بنی، چند مہینوں میں 17 بار طبع ہوئی، 31 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا اور اب تک مجموعی طور پر اس کی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ کوئی طالبہ یا طالب علم اتنا کنفیوزڈ اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتا کہ لڑکھڑا جاتا تو ڈیل خود ڈائس کے پاس آتا، شفقت سے اس کا بازو پکڑ لیتا اور بولنے کو کہتا۔ وہ تب تک اس کے ساتھ کھڑا رہتا جب تک اسٹوڈنٹ اپنی بات پوری نہ کرلیتا۔ اس نے ہی سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ لوگوں کا سب سے بڑا خوف موت کا نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کا سامنا کرنے کا ہوتا ہے۔ اس نے ایک رپورٹر کو بتایا کہ وہ کامیاب ہونا چاہتا تھا، لیکن اتنا نہیں؛ اور اپنی اتنی کامیابی پر وہ خود بھی حیران ہے۔ ڈیل کارنیگی نے ایک ادارہ ''ڈیل کارنیگی انسٹی ٹیوٹ'' بھی بنایا جس کا مقصد انسانی رویوں اور مؤثر بول چال پر تعلیم دینا ہے۔
ڈیل کارنیگی کا انتقال 1955 میں خون کے ایک قسم کے کینسر سے ہوا۔ اسے اس کے ماں باپ کے ساتھ دفن کیا گیا۔ ڈیل کے انتقال تک تقریباً ساڑھے چار لاکھ طالب علم اس کے ادارے سے تعلیم حاصل کرکے اپنی زندگی بدل چکے تھے۔
ڈیل کارنیگی کی زندگی ان تمام لوگوں کےلیے ایک پیغام ہے جو اپنے مستقبل سے مایوس ہوچکے ہیں؛ کہ کس طرح اپنی سوچ بدل کر ہم نہ صرف اپنی دنیا بدل سکتے ہیں، بلکہ پوری دنیا میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔