ایران کی نئی حکومت کی ترجیحات
ویسے تو پورا عالم اسلام ہی سخت انارکی کا شکار ہے لیکن مشرق وسطیٰ جس انارکی کا شکار ہے وہ اب انتہائی شدید خانہ جنگی۔۔۔
ویسے تو پورا عالم اسلام ہی سخت انارکی کا شکار ہے لیکن مشرق وسطیٰ جس انارکی کا شکار ہے وہ اب انتہائی شدید خانہ جنگی کی طرف بڑھتی نظر آرہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بھی اس وقت مصر اور شام دو ایسے ملک ہیں جہاں احتجاج اور انقلاب کے حوالے سے خود عرب عوام ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں اور غریب عوام کا خون ہی نذر خاک ہورہا ہے۔ ہم نے مسلم ملکوں میں انارکی، انتشار اور خون خرابے کی وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے اس خدشے کا ذکر کیا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور اس کی استحصالی فطرت کے خلاف دنیا بھر میں جو زبردست بے چینی پائی جاتی ہے اس کا رخ موڑنے کے لیے سامراجی ملک عوام کو مختلف حوالوں سے تقسیم کرکے انھیں آپس میں لڑانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ عوام کی توجہ سرمایہ دارانہ طبقاتی استحصال کی طرف سے ہٹ جائے۔
مشرق وسطیٰ میں عوامی ابھار کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے اس تلخ حقیقت کی نشان دہی بھی کی تھی کہ مشرق وسطیٰ کا عوامی ابھار اس لیے بے معنی اور بے سمت ہوتا جارہا ہے کہ اس ابھار کو ایک مثبت سمت دینے والی طاقتوں کو امریکا اور اس کے حواریوں نے اپنے غلام ملکوں کی ریاستی طاقت سے اس طرح کچل دیا ہے کہ ان کی تنظیم نو اب آسان نہیں رہی۔ ان ترقی پسند اینٹی سامراج طاقتوں کو مزید کمزور کرنے کے لیے امریکا نے جو مختلف حربے اختیار کیے ان میں ایک خطرناک حربہ ان کے خلاف ڈالروں کی بھرمار کے ذریعے یہ پروپیگنڈہ مہم تھی اور ہے کہ ترقی پسندی لادینیت ہے۔
امریکا نے اس ہتھیار کے ذریعے مسلم ملکوں میں ترقی پسند طاقتوں کو کمزور کرنے میں کامیابی تو حاصل کرلی لیکن اس کے منصوبہ سازوں کو غالباً یہ احساس نہ رہا کہ مثبت طاقتوں کی عدم موجودگی سے منفی طاقتوں کو آگے آنے اور اس خلا کو پورا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ تیونس، لیبیا، مصر میں یہی ہوا، عوام جس قسم کی تبدیلی چاہتے تھے وہ معاشی ناانصافی کی جگہ معاشی انصاف کی تبدیلی تھی لیکن عوام کی اس خواہش کو پیچھے دھکیل کر مذہبی مجرد نعروں کی جو تبدیلی عوام کے سروں پر مسلط کی گئی عوام بہت کم عرصے میں اس سے بیزار ہوگئے اور وہ صورت حال پیدا ہوئی جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں اور خود سامراجی ملک اس تبدیلی سے پریشان ہیں۔
یہ خطہ صدیوں سے بادشاہوں، شیوخ کی خاندانی اور قبائلی حکمرانیوں کی گرفت میں رہا اور اس خطے پر امریکا شہنشاہ ایران کے ذریعے اپنی پالیسیاں مسلط کرتا رہا۔ ایک طویل عرصے تک اس خطے کو شہنشاہ ایران رضا شاہ کنٹرول کرتا رہا اور امریکا کے پولیس مین کا کردار ادا کرتا رہا۔ جب تک شہنشاہ ایران برسر اقتدار رہا اس خطے میں ''سیاسی استحکام'' اس لیے قائم رہا کہ اس خطے کے حکمران طبقات بھی امریکا کے غلام ابن غلام تھے لیکن اس سیاسی استحکام میں اس وقت بہت بڑا شگاف پڑا جب ایران میں انقلاب برپا ہوا اور شہنشاہ ایران کو فرار ہونا پڑا۔ ایران کا یہ انقلاب اپنی فطرت میں اینٹی امریکا، اینٹی سامراج تھا۔ امریکا نے اس انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے سازشوں کے علاوہ طاقت کا استعمال بھی کیا لیکن انقلاب ایران کو ناکام نہ بناسکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انقلابوں کی تاریخ میں انقلاب ایران ایک انتہائی اہم حیثیت کا حامل ہے لیکن اس کا ایک پہلو ایسا ہے جس نے اس انقلاب کو محدود کر دیا اور وہ پہلو ہے اس انقلاب میںایک مسلککی برتری۔
ایران میں مجموعی طور پر شیعہ مسلک کو برتری حاصل ہے لیکن عقائد خواہ ان کا تعلق کسی ملک یا قوم سے ہو جب سیاست میں ملوث ہوجاتے ہیں تو باہمی اختلافات کو جنم دیتے ہیں، عوام کو ان کے اصل مسائل سے ہٹانے کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ یہی ایران میں ہوا۔ ایران اور عرب کے درمیان عربی اور عجمی کی تقسیم بہت پرانی ہے، جو اس خطے کے حکمرانوں کے مشترکہ مفادات کی وجہ سے پس منظر میں چلی گئی تھی لیکن انقلاب ایران کی مخصوص نوعیت نے اس تقسیم کو دوبارہ زندہ کردیا اور سامراجی ملک اس تقسیم کو استعمال کرنے لگے۔
آج کے سیاسی منظرنامے اور اس خطے کی انارکی پر نظر ڈالیں تو بظاہر اس کی وجوہات مختلف نظر آتی ہیں لیکن اگر اس انارکی کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی جڑیں مسلکی اختلافات میں گڑی ہوئی ہیں۔ انقلاب ایران کے بعد عرب ملکو میںمسلکی اختلافات کی شدت میں اضافہ ہوا بلکہ اس کا دائرہ دوسرے مسلم ملکوں تک بڑھا دیا جن میں پاکستان کو ایک خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے افغانستان پاکستان کے علاوہ دوسرے مسلم ملکوں سے جن مجاہدین کو افغانستان لایا گیا، وہ روس کو افغانستان سے نکالنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن ان کی قیادت نے اپنے سیاسی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے ان مجاہدین کے ہاتھوں میں ہتھیار اور ذہنوں میں وہ نفرت بھر دی جس کے خوفناک نظارے کوئٹہ سے کراچی تک، پختونخوا سے گلگت تک فقہی قتل و غارت گری کی شکل میں ہم دیکھ رہے ہیں۔
ایران کے عوام میں یکجہتی کی بہت بڑی طاقت ہے، اس طاقت کے آگے دنیا کی سپر پاور بھی بے بس ہوجاتی ہے لیکن اس کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ ایران کی حکومت کے نظریات، مسلم ملکوں کے عوام کو تقسیم کرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں، اس کا سب سے بڑا نقصان خود ایران کو یہ ہورہا ہے کہ اس کی ساری توانائیاں ایران کی اقتصادی صنعتی اور سائنسی ترقی میں استعمال ہونے کے بجائے اپنے نظریات کے دفاع اور توسیع میں استعمال ہورہی ہیں اور اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ایرانی انقلاب کے اس نظریاتی تشخص کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے اپنے غلاموں کے ذریعے بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگرچہ ان کا یہ ہتھیار مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی شکل میں خود ان کے اور ان کے علاقائی غلاموں کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے لیکن سامراجی طاقتیں سرمایہ دارانہ نظام کو لاحق خطرات سے بچانے کے لیے ان خطرات سے صلح کر رہی ہیں۔
ایران کے اندر بھی ایک کشمکش انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں کی شکل میں جاری ہے۔ اگرچہ یہ انتہاپسندی اور اعتدال پسندی دودھ اور پانی کی طرح نظر آتی ہے لیکن خود ایران اور ایرانی عوام کے بہتر مستقبل کا تقاضا یہ ہے کہ ایران کی قیادت اپنے وسائل، اپنی توانائیاں ایران کی اقتصادی اور صنعتی ترقی کے لیے استعمال کرے۔ ایران اس خطے میں اسرائیل کی بالادستی ختم کرنے میں پرعزم ہے اور اسی کوشش میں وہ ایٹمی پروگرام کی طرف پیش رفت بھی کر رہا ہے لیکن ان کوششوں کے نتیجے میں اسے جن اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ اس کی اقتصادی بحالی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ہم نے ان ہی کالموں میں ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکا کی امتیازی پالیسی کی سخت مخالفت اور مذمت کی ہے لیکن چونکہ سامراج کی اندھی طاقت اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے لیے ہر غیر اصولی، ہر غیر امتیازی پالیسی کو اپنا سکتی ہے لہٰذا سامراجی ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی فراست اور بصیرت سے کام لینا پڑتا ہے۔
ایران کے حالیہ انتخابات میں جو قیادت کامیاب ہوئی ہے اسے اعتدال پسند قیادت کا نام دیا جارہا ہے۔ اس قیادت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ سامراجی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیوں سے مذہب کو الگ کرے اور اپنی ترجیحات کے تعین میں اقتصادی اور صنعتی ترقی اور جدید علوم پر دسترس کو اولیت دے، اگر ایران کی نئی قیادت اس راستے پر چل پڑتی ہے تو جہاں سامراجی ملکوں کے لیے اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا جواز ختم ہوجائے گا وہیں ایران مسلم ملکوں میں غیر متنازعہ حیثیت اختیار کرلے گا اور مسلم عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش کرنے والے مذہبی انتہاپسندوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مشرق وسطیٰ میں عوامی ابھار کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے اس تلخ حقیقت کی نشان دہی بھی کی تھی کہ مشرق وسطیٰ کا عوامی ابھار اس لیے بے معنی اور بے سمت ہوتا جارہا ہے کہ اس ابھار کو ایک مثبت سمت دینے والی طاقتوں کو امریکا اور اس کے حواریوں نے اپنے غلام ملکوں کی ریاستی طاقت سے اس طرح کچل دیا ہے کہ ان کی تنظیم نو اب آسان نہیں رہی۔ ان ترقی پسند اینٹی سامراج طاقتوں کو مزید کمزور کرنے کے لیے امریکا نے جو مختلف حربے اختیار کیے ان میں ایک خطرناک حربہ ان کے خلاف ڈالروں کی بھرمار کے ذریعے یہ پروپیگنڈہ مہم تھی اور ہے کہ ترقی پسندی لادینیت ہے۔
امریکا نے اس ہتھیار کے ذریعے مسلم ملکوں میں ترقی پسند طاقتوں کو کمزور کرنے میں کامیابی تو حاصل کرلی لیکن اس کے منصوبہ سازوں کو غالباً یہ احساس نہ رہا کہ مثبت طاقتوں کی عدم موجودگی سے منفی طاقتوں کو آگے آنے اور اس خلا کو پورا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ تیونس، لیبیا، مصر میں یہی ہوا، عوام جس قسم کی تبدیلی چاہتے تھے وہ معاشی ناانصافی کی جگہ معاشی انصاف کی تبدیلی تھی لیکن عوام کی اس خواہش کو پیچھے دھکیل کر مذہبی مجرد نعروں کی جو تبدیلی عوام کے سروں پر مسلط کی گئی عوام بہت کم عرصے میں اس سے بیزار ہوگئے اور وہ صورت حال پیدا ہوئی جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں اور خود سامراجی ملک اس تبدیلی سے پریشان ہیں۔
یہ خطہ صدیوں سے بادشاہوں، شیوخ کی خاندانی اور قبائلی حکمرانیوں کی گرفت میں رہا اور اس خطے پر امریکا شہنشاہ ایران کے ذریعے اپنی پالیسیاں مسلط کرتا رہا۔ ایک طویل عرصے تک اس خطے کو شہنشاہ ایران رضا شاہ کنٹرول کرتا رہا اور امریکا کے پولیس مین کا کردار ادا کرتا رہا۔ جب تک شہنشاہ ایران برسر اقتدار رہا اس خطے میں ''سیاسی استحکام'' اس لیے قائم رہا کہ اس خطے کے حکمران طبقات بھی امریکا کے غلام ابن غلام تھے لیکن اس سیاسی استحکام میں اس وقت بہت بڑا شگاف پڑا جب ایران میں انقلاب برپا ہوا اور شہنشاہ ایران کو فرار ہونا پڑا۔ ایران کا یہ انقلاب اپنی فطرت میں اینٹی امریکا، اینٹی سامراج تھا۔ امریکا نے اس انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے سازشوں کے علاوہ طاقت کا استعمال بھی کیا لیکن انقلاب ایران کو ناکام نہ بناسکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انقلابوں کی تاریخ میں انقلاب ایران ایک انتہائی اہم حیثیت کا حامل ہے لیکن اس کا ایک پہلو ایسا ہے جس نے اس انقلاب کو محدود کر دیا اور وہ پہلو ہے اس انقلاب میںایک مسلککی برتری۔
ایران میں مجموعی طور پر شیعہ مسلک کو برتری حاصل ہے لیکن عقائد خواہ ان کا تعلق کسی ملک یا قوم سے ہو جب سیاست میں ملوث ہوجاتے ہیں تو باہمی اختلافات کو جنم دیتے ہیں، عوام کو ان کے اصل مسائل سے ہٹانے کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ یہی ایران میں ہوا۔ ایران اور عرب کے درمیان عربی اور عجمی کی تقسیم بہت پرانی ہے، جو اس خطے کے حکمرانوں کے مشترکہ مفادات کی وجہ سے پس منظر میں چلی گئی تھی لیکن انقلاب ایران کی مخصوص نوعیت نے اس تقسیم کو دوبارہ زندہ کردیا اور سامراجی ملک اس تقسیم کو استعمال کرنے لگے۔
آج کے سیاسی منظرنامے اور اس خطے کی انارکی پر نظر ڈالیں تو بظاہر اس کی وجوہات مختلف نظر آتی ہیں لیکن اگر اس انارکی کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی جڑیں مسلکی اختلافات میں گڑی ہوئی ہیں۔ انقلاب ایران کے بعد عرب ملکو میںمسلکی اختلافات کی شدت میں اضافہ ہوا بلکہ اس کا دائرہ دوسرے مسلم ملکوں تک بڑھا دیا جن میں پاکستان کو ایک خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے افغانستان پاکستان کے علاوہ دوسرے مسلم ملکوں سے جن مجاہدین کو افغانستان لایا گیا، وہ روس کو افغانستان سے نکالنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن ان کی قیادت نے اپنے سیاسی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے ان مجاہدین کے ہاتھوں میں ہتھیار اور ذہنوں میں وہ نفرت بھر دی جس کے خوفناک نظارے کوئٹہ سے کراچی تک، پختونخوا سے گلگت تک فقہی قتل و غارت گری کی شکل میں ہم دیکھ رہے ہیں۔
ایران کے عوام میں یکجہتی کی بہت بڑی طاقت ہے، اس طاقت کے آگے دنیا کی سپر پاور بھی بے بس ہوجاتی ہے لیکن اس کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ ایران کی حکومت کے نظریات، مسلم ملکوں کے عوام کو تقسیم کرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں، اس کا سب سے بڑا نقصان خود ایران کو یہ ہورہا ہے کہ اس کی ساری توانائیاں ایران کی اقتصادی صنعتی اور سائنسی ترقی میں استعمال ہونے کے بجائے اپنے نظریات کے دفاع اور توسیع میں استعمال ہورہی ہیں اور اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ایرانی انقلاب کے اس نظریاتی تشخص کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے اپنے غلاموں کے ذریعے بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگرچہ ان کا یہ ہتھیار مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی شکل میں خود ان کے اور ان کے علاقائی غلاموں کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے لیکن سامراجی طاقتیں سرمایہ دارانہ نظام کو لاحق خطرات سے بچانے کے لیے ان خطرات سے صلح کر رہی ہیں۔
ایران کے اندر بھی ایک کشمکش انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں کی شکل میں جاری ہے۔ اگرچہ یہ انتہاپسندی اور اعتدال پسندی دودھ اور پانی کی طرح نظر آتی ہے لیکن خود ایران اور ایرانی عوام کے بہتر مستقبل کا تقاضا یہ ہے کہ ایران کی قیادت اپنے وسائل، اپنی توانائیاں ایران کی اقتصادی اور صنعتی ترقی کے لیے استعمال کرے۔ ایران اس خطے میں اسرائیل کی بالادستی ختم کرنے میں پرعزم ہے اور اسی کوشش میں وہ ایٹمی پروگرام کی طرف پیش رفت بھی کر رہا ہے لیکن ان کوششوں کے نتیجے میں اسے جن اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ اس کی اقتصادی بحالی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ہم نے ان ہی کالموں میں ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکا کی امتیازی پالیسی کی سخت مخالفت اور مذمت کی ہے لیکن چونکہ سامراج کی اندھی طاقت اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے لیے ہر غیر اصولی، ہر غیر امتیازی پالیسی کو اپنا سکتی ہے لہٰذا سامراجی ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی فراست اور بصیرت سے کام لینا پڑتا ہے۔
ایران کے حالیہ انتخابات میں جو قیادت کامیاب ہوئی ہے اسے اعتدال پسند قیادت کا نام دیا جارہا ہے۔ اس قیادت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ سامراجی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیوں سے مذہب کو الگ کرے اور اپنی ترجیحات کے تعین میں اقتصادی اور صنعتی ترقی اور جدید علوم پر دسترس کو اولیت دے، اگر ایران کی نئی قیادت اس راستے پر چل پڑتی ہے تو جہاں سامراجی ملکوں کے لیے اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا جواز ختم ہوجائے گا وہیں ایران مسلم ملکوں میں غیر متنازعہ حیثیت اختیار کرلے گا اور مسلم عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش کرنے والے مذہبی انتہاپسندوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔