قومی زبان…چھیاسٹھ سال سے اپنا حق مانگ رہی ہے
انگلش میڈیم کے نام پر تعلیم کو بے رحم تجارت میں تبدیل کر دیا گیا
قومی زبان بمقابلہ انگریزی کا قصہ بہت پرانا ہونے کے ساتھ انتہائی کربناک بھی ہے۔
سچ کہا کسی نے کہ انگریز سے آزادی حاصل کرنے والی قوم ''انگریزی سامراج'' کے پنجوں میں اس بُری طرح جکڑ دی گئی کہ اس کا شکنجہ آئے روز پہلے سے زیادہ شدت سے کَسا جا نے لگا ہے۔ بظاہر آزاد ہونے والے ملک پر انگریز کے ذہنی غلاموں نے پالیسی ساز مسندوں پر قبضہ جما کر اپنے اختیارات کا اس طرح ناجائز استعمال کیا کہ قوم کی آواز کو کچل ڈالا گیا۔ ذرا تصور کیجیئے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر بچے اور بچی پر کس قدر ظلم روا رکھا جاتا ہے کہ اس سے یہ حق چھین لیا گیا ہے کہ وہ اپنی ماں بولی، وطن اور حتیٰ کہ براعظم کی زبانوں میں تعلیم حاصل کر سکے۔ ''بنیادی انسانی حقوق'' کے دعوے کرنے والے اس حقیقت کو سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ کسی بچے کو یہ حق نہیں دیا جا رہا کہ اپنے وطن کی زبان میں تعلیم پا کر اسی میں ہر سطح کے ملازمانہ امتحان میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھا کر اعلیٰ مرتبے حاصل کر سکے، جیسا کہ برطانیہ میں ہے۔
ایسی بیسیوں مثالیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں کہ انتہائی لائق اور ذہین و فطین نوجوان مقابلے کے امتحانات میں انگریزی کے جابرانہ تسلط کی بنا پر کامیاب نہ ہو سکے۔ کیا آج کی دنیا میں تصور کیا جا سکتا ہے کہ کسی آزاد ملک کے نوجوان اپنے سابق سامراج کی زبان میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھانے کے پابند بنا دیے جائیں۔ راقم 45سال سے کالج سطح کے تعلیمی نظام سے بہت گہرائی سے وابستہ ہے اور ہزاروں اساتذہ کی گواہی پیش کر سکتا ہے جو اس بات پر متفق ہیں کہ ''پاکستان کی تعلیمی ترقی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ انگریزی کا بطور لازمی مضمون نصاب میں شامل ہونا ہے''۔ میٹرک سے لے کر بی اے تک کے امتحانات کا سب سے سخت اور مشکل ترین دن وہ ہوتا ہے جس روز انگریزی کا پرچہ ہو رہا ہو۔
آج تک اس پالیسی کے جواز کے لئے کوئی دلیل سامنے نہیں آسکی کہ صحرائوں، پہاڑوں، دیہاتوں، شہروں کے ہر بیٹے/ بیٹی کو کیوں پابند کر دیا گیا کہ اگر تم انگریزی میں پاس نہ ہو سکے تو اپنی تعلیم آگے جاری نہیں رکھ سکتے۔ یعنی باقی مضمونوں میں تم کتنے ہی لائق ہو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ کیا دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے ایسی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟ ایک سازش کے تحت تعلیمی نظام میں انگلش میڈیم کا ڈول ڈال دیا گیا اور قومی تعلیمی نظام یعنی سرکاری سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کو بے اثر بنانے کے لیے تعلیم کو ''بے رحم تجارت'' میں تبدیل کر دیا گیا جس کا مرکزی عنوان ''انگلش میڈیم'' رکھا گیا اور اسے ترقی کی علامت قرار دیا گیا۔ اسے قومی نظام تعلیم کے مقابلے میں برتری کے تصور سے وابستہ کیا گیا چنانچہ اس کا جو انجام ہونا تھا وہ آنکھوں کے سامنے ہے کہ بچہ نکٹائی کے بغیر سکول نہیں جا سکتا اور پرائیویٹ سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک تعلیم کے نام پر بے رحمانہ و بے دردانہ لوٹ مار کا ایک بازار گرم ہے۔
ان کے طلبہ کی فیسیں لاکھوں تک پہنچ جاتی ہیں جب کہ ملک میں ووٹ دینے والوں کی غالب اکثریت زندہ رہنے کے لئے خوراک او ر سر چھپانے کے لیے مکان تک سے محروم ہے۔ آخر کس نے معاشرے میں تعلیم کے نام پر اس مالیاتی گروہ بندی اور اداروںکی امیر و غریب میں تقسیم کی اجازت دی۔ تحریک پاکستان میں قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ہر شخص قوم کے خانے میں مسلمان اور زبان کے خانے میں اردو لکھے اور کہا گیا کہ پاکستان میں اسلام ہو گا، اردو ہو گی، مساوات ہو گی... اور بعدازاں اس کا نام ''اسلامیہ جمہوریہ پاکستان'' جب کہ اس کے صدر مقام کا نام اسلام آباد رکھا گیا۔ مگر زبان کے حوالے سے ہمارے ملک میں مغرب پرستانہ پالیسی سازوں نے قیام پاکستان سے وفاداری کا ثبوت دیا یا بے وفائی کا، اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں۔
زبان روئے زمین کے ہر فرد کو اللہ کا دیا ہوا عطیہ ہے جس کے ذریعے وہ بلا تکلف اپنا مافی الضمیر ظاہر کرتا ہے۔ ہر خطے و ملک کی اپنی اپنی زبان ہوتی ہے، انگریز نے بھی استعماری دور میں اپنی زبان اپنی مقبوضہ زمینوں پر مسلط کی۔ آج انگریزی جسے برطانیہ کے قریب ترین ممالک فرانس، جرمنی، اٹلی، ترکی اور اہم و بڑے ممالک روس، چین، جاپان گھاس تک نہیں ڈالتے، اسے ہمارے (استثنیٰ کے ساتھ) بیوروکریٹوں، وزیروں اور سفیروں نے گویا ''آسمانی زبان'' کا درجہ دے رکھا ہے۔ بات بات پر بین الاقوامی زبان کی رٹ لگائی جاتی ہے۔ آج علامہ اقبال ، بلھے شاہ، بابا فرید، وارث شاہ، میاں محمد بخش اور سلطان باہو جیسے اکابرین کی سرزمین کو ازسر نو ''انگریزی پرستی'' کے زہریلے انجکشن کمال عیاری اور مکروفریب سے لگائے جا رہے ہیں۔
برطانوی تعلیمی مشیرمائیکل باربر سے لے کر وزیروں یا وزیراعظم تک، سب شریف برادران کا گھیرائو کیے ہوئے ہیں اور اپنی ان چالوں کا نام ''تعلیمی ترقی میں مدد'' جیسے غلافوں میں لپیٹ رکھا ہے۔ ہمارے حکمران عالمی چال بازوں کی ہوشیاری سے خبردار رہیں۔ کاش کہ آج کا ہمارا آزاد عدالتی نظام عشروں سے قوم کی پیٹھ میں گھونپے ہوئے اس خنجر (قومی زبان کی جگہ برطانوی سامراج کی نشانی انگریزی کا جابرانہ و حاکمانہ تسلط) سے نجات دلا سکیں۔ آج پاکستان کا حقیقی وفادار، مخلص اور سچا محب وطن وہ فرد یا ادارہ ہو گا جو انگریز کے جانے کے بعد قوم کی گردن پر لپیٹے انگریزی کے سانپ سے قوم کو آزاد کرائے گا۔ اے کاش کہ ہماری آنکھیں انگریزی سامراج کی زنجیروں کو توڑ کر آزاد قوم کا مرتبہ حاصل کر لینے کے اس منظر کو دیکھ سکیں، بصورت دیگر ہمارے یہ کمزور سے حروف آنے والے وقتوں میں ہنسی خوشی اپنے آپ کو غلامی کی تاریکیوں میں دھکیلنے والی قوم کی حالت پر ''آنسوئوں بھرا مرثیہ'' بن کر انہیں آزادی کی راہ دکھاتے رہیں گے۔
آج نوجوان نسل کو قومی ورثہ اور ادب سے دور کرنے کی کوششیں زور و شور سے جاری ہیں۔ غالب، اقبال، حالی، اکبر، فیض، شبلی، مودودی، تھانوی، ماجدی کے اردو لٹریچر سے ہماری آنے والی نسلوں کا تعلق کاٹ ڈالنے کے لئے انگریز ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اپنے ناپاک مشن کی تکمیل میں سرگرداں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انگریز بہادر کو یہ بات قبول ہو گی کہ برطانیہ کے طالب علموں کو شیکسپیئر، ورڈز ورتھ، کیٹس، برٹ رینڈ رسل، میکالے اور ڈارون جیسے لوگوں کی تحریروں سے محروم کر دیا جائے اور وہاں کے سکولوں کا تعلیمی نظام انگلش میڈیم کے بجائے اردو میڈیم یا عربی میڈیم کر دیا جائے۔ لہٰذا انگریز کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔
سچ کہا کسی نے کہ انگریز سے آزادی حاصل کرنے والی قوم ''انگریزی سامراج'' کے پنجوں میں اس بُری طرح جکڑ دی گئی کہ اس کا شکنجہ آئے روز پہلے سے زیادہ شدت سے کَسا جا نے لگا ہے۔ بظاہر آزاد ہونے والے ملک پر انگریز کے ذہنی غلاموں نے پالیسی ساز مسندوں پر قبضہ جما کر اپنے اختیارات کا اس طرح ناجائز استعمال کیا کہ قوم کی آواز کو کچل ڈالا گیا۔ ذرا تصور کیجیئے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر بچے اور بچی پر کس قدر ظلم روا رکھا جاتا ہے کہ اس سے یہ حق چھین لیا گیا ہے کہ وہ اپنی ماں بولی، وطن اور حتیٰ کہ براعظم کی زبانوں میں تعلیم حاصل کر سکے۔ ''بنیادی انسانی حقوق'' کے دعوے کرنے والے اس حقیقت کو سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ کسی بچے کو یہ حق نہیں دیا جا رہا کہ اپنے وطن کی زبان میں تعلیم پا کر اسی میں ہر سطح کے ملازمانہ امتحان میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھا کر اعلیٰ مرتبے حاصل کر سکے، جیسا کہ برطانیہ میں ہے۔
ایسی بیسیوں مثالیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں کہ انتہائی لائق اور ذہین و فطین نوجوان مقابلے کے امتحانات میں انگریزی کے جابرانہ تسلط کی بنا پر کامیاب نہ ہو سکے۔ کیا آج کی دنیا میں تصور کیا جا سکتا ہے کہ کسی آزاد ملک کے نوجوان اپنے سابق سامراج کی زبان میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھانے کے پابند بنا دیے جائیں۔ راقم 45سال سے کالج سطح کے تعلیمی نظام سے بہت گہرائی سے وابستہ ہے اور ہزاروں اساتذہ کی گواہی پیش کر سکتا ہے جو اس بات پر متفق ہیں کہ ''پاکستان کی تعلیمی ترقی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ انگریزی کا بطور لازمی مضمون نصاب میں شامل ہونا ہے''۔ میٹرک سے لے کر بی اے تک کے امتحانات کا سب سے سخت اور مشکل ترین دن وہ ہوتا ہے جس روز انگریزی کا پرچہ ہو رہا ہو۔
آج تک اس پالیسی کے جواز کے لئے کوئی دلیل سامنے نہیں آسکی کہ صحرائوں، پہاڑوں، دیہاتوں، شہروں کے ہر بیٹے/ بیٹی کو کیوں پابند کر دیا گیا کہ اگر تم انگریزی میں پاس نہ ہو سکے تو اپنی تعلیم آگے جاری نہیں رکھ سکتے۔ یعنی باقی مضمونوں میں تم کتنے ہی لائق ہو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ کیا دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے ایسی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟ ایک سازش کے تحت تعلیمی نظام میں انگلش میڈیم کا ڈول ڈال دیا گیا اور قومی تعلیمی نظام یعنی سرکاری سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کو بے اثر بنانے کے لیے تعلیم کو ''بے رحم تجارت'' میں تبدیل کر دیا گیا جس کا مرکزی عنوان ''انگلش میڈیم'' رکھا گیا اور اسے ترقی کی علامت قرار دیا گیا۔ اسے قومی نظام تعلیم کے مقابلے میں برتری کے تصور سے وابستہ کیا گیا چنانچہ اس کا جو انجام ہونا تھا وہ آنکھوں کے سامنے ہے کہ بچہ نکٹائی کے بغیر سکول نہیں جا سکتا اور پرائیویٹ سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک تعلیم کے نام پر بے رحمانہ و بے دردانہ لوٹ مار کا ایک بازار گرم ہے۔
ان کے طلبہ کی فیسیں لاکھوں تک پہنچ جاتی ہیں جب کہ ملک میں ووٹ دینے والوں کی غالب اکثریت زندہ رہنے کے لئے خوراک او ر سر چھپانے کے لیے مکان تک سے محروم ہے۔ آخر کس نے معاشرے میں تعلیم کے نام پر اس مالیاتی گروہ بندی اور اداروںکی امیر و غریب میں تقسیم کی اجازت دی۔ تحریک پاکستان میں قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ہر شخص قوم کے خانے میں مسلمان اور زبان کے خانے میں اردو لکھے اور کہا گیا کہ پاکستان میں اسلام ہو گا، اردو ہو گی، مساوات ہو گی... اور بعدازاں اس کا نام ''اسلامیہ جمہوریہ پاکستان'' جب کہ اس کے صدر مقام کا نام اسلام آباد رکھا گیا۔ مگر زبان کے حوالے سے ہمارے ملک میں مغرب پرستانہ پالیسی سازوں نے قیام پاکستان سے وفاداری کا ثبوت دیا یا بے وفائی کا، اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں۔
زبان روئے زمین کے ہر فرد کو اللہ کا دیا ہوا عطیہ ہے جس کے ذریعے وہ بلا تکلف اپنا مافی الضمیر ظاہر کرتا ہے۔ ہر خطے و ملک کی اپنی اپنی زبان ہوتی ہے، انگریز نے بھی استعماری دور میں اپنی زبان اپنی مقبوضہ زمینوں پر مسلط کی۔ آج انگریزی جسے برطانیہ کے قریب ترین ممالک فرانس، جرمنی، اٹلی، ترکی اور اہم و بڑے ممالک روس، چین، جاپان گھاس تک نہیں ڈالتے، اسے ہمارے (استثنیٰ کے ساتھ) بیوروکریٹوں، وزیروں اور سفیروں نے گویا ''آسمانی زبان'' کا درجہ دے رکھا ہے۔ بات بات پر بین الاقوامی زبان کی رٹ لگائی جاتی ہے۔ آج علامہ اقبال ، بلھے شاہ، بابا فرید، وارث شاہ، میاں محمد بخش اور سلطان باہو جیسے اکابرین کی سرزمین کو ازسر نو ''انگریزی پرستی'' کے زہریلے انجکشن کمال عیاری اور مکروفریب سے لگائے جا رہے ہیں۔
برطانوی تعلیمی مشیرمائیکل باربر سے لے کر وزیروں یا وزیراعظم تک، سب شریف برادران کا گھیرائو کیے ہوئے ہیں اور اپنی ان چالوں کا نام ''تعلیمی ترقی میں مدد'' جیسے غلافوں میں لپیٹ رکھا ہے۔ ہمارے حکمران عالمی چال بازوں کی ہوشیاری سے خبردار رہیں۔ کاش کہ آج کا ہمارا آزاد عدالتی نظام عشروں سے قوم کی پیٹھ میں گھونپے ہوئے اس خنجر (قومی زبان کی جگہ برطانوی سامراج کی نشانی انگریزی کا جابرانہ و حاکمانہ تسلط) سے نجات دلا سکیں۔ آج پاکستان کا حقیقی وفادار، مخلص اور سچا محب وطن وہ فرد یا ادارہ ہو گا جو انگریز کے جانے کے بعد قوم کی گردن پر لپیٹے انگریزی کے سانپ سے قوم کو آزاد کرائے گا۔ اے کاش کہ ہماری آنکھیں انگریزی سامراج کی زنجیروں کو توڑ کر آزاد قوم کا مرتبہ حاصل کر لینے کے اس منظر کو دیکھ سکیں، بصورت دیگر ہمارے یہ کمزور سے حروف آنے والے وقتوں میں ہنسی خوشی اپنے آپ کو غلامی کی تاریکیوں میں دھکیلنے والی قوم کی حالت پر ''آنسوئوں بھرا مرثیہ'' بن کر انہیں آزادی کی راہ دکھاتے رہیں گے۔
آج نوجوان نسل کو قومی ورثہ اور ادب سے دور کرنے کی کوششیں زور و شور سے جاری ہیں۔ غالب، اقبال، حالی، اکبر، فیض، شبلی، مودودی، تھانوی، ماجدی کے اردو لٹریچر سے ہماری آنے والی نسلوں کا تعلق کاٹ ڈالنے کے لئے انگریز ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اپنے ناپاک مشن کی تکمیل میں سرگرداں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انگریز بہادر کو یہ بات قبول ہو گی کہ برطانیہ کے طالب علموں کو شیکسپیئر، ورڈز ورتھ، کیٹس، برٹ رینڈ رسل، میکالے اور ڈارون جیسے لوگوں کی تحریروں سے محروم کر دیا جائے اور وہاں کے سکولوں کا تعلیمی نظام انگلش میڈیم کے بجائے اردو میڈیم یا عربی میڈیم کر دیا جائے۔ لہٰذا انگریز کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔