ہربل کاسمیٹکس کی ملکہ شہناز حسین

ایک بھارتی خاتون خانہ، جنہوںنے کاروبار کی دنیا میں کام یابی کے جھنڈے گاڑ دیے

ایک بھارتی خاتون خانہ، جنہوںنے کاروبار کی دنیا میں کام یابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ فوٹو: فائل

اکثر کام یابی کی داستانیں شوق، لگن اور جستجو سے شروع ہوتی ہیں یا کبھی حالات کا دھارا مجبوراً کسی سمت لے جاتا ہے اور وہ شخص پھر کام یابیاں حاصل کرتا ہی چلا جاتا ہے۔

لیکن فرصت میں محض مصروفیت کی تلاش میں کسی شعبے کا چنائو کرنا اور پھر اس میں کام یابی و کامرانی کی منازل طے کرتے چلا جانا، یقیناً ایک مختلف معاملہ ہوتا ہے، کیوں کہ یہاں شوق اور مجبوری سے قطع نظر صرف وقت گزاری ہی مقصد ہوتا ہے، اس لیے اس قسم کے لوگوں کو اتنی ترقی شاذ ہی مل پاتی ہے۔ شاید وہ اس کے لیے شوق اور مجبوری کے عالم میں آنے والوں کی طرح مستقل مزاجی اور محنت کا مظاہرہ نہ کر پاتے ہوں، لیکن ہندوستان میں ایک خاتون شہناز حسین نے صرف ایک ڈگر پر چلنے والی سست زندگی کو کار آمد بنانے کے لیے لوگوں کے لیے قابل تقلید مثال قائم کردی اور آج وہ بین الاقوامی سطح کی خاتون بن چکی ہیں۔ انہوں نے کاسمیٹکس کے شعبے میں قدم رکھا اور اپنی جدوجہد اور لگن سے اس کاروبار میں اتنی کام یابی حاصل کی کہ ان کی حیثیت ایک گلوبل کارپوریٹ کی ہے۔ شہناز حسین گزشتہ 40 سال سے ایک نجی کمپنی ''شہناز ہربلز'' کی سربراہی کر رہی ہیں۔ ان کا شمار بھارت کے چوٹی کے تجارتی گروؤں میں ہوتا ہے۔ ان کے کام یاب سفر کو تجارتی شعبے میں کسی خاتون کی کام یابی کی انتہا سمجھا جا رہا ہے۔

شہناز حسین نے ہندوستان کے ایک صاحب ثروت اور روایتی مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے آباو اجداد ثمرقند (ازبکستان) سے ہجرت کر کے ہندوستان آیا۔ ا ن کے والد جسٹس این یو بیگ ایک علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت تھے۔ شہناز نے ایک آئریش کانوینٹ اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ ان کی شادی محض پندرہ برس کی عمر میں ہوگئی۔ شادی کے بعد جب انہیں فرصت ملی تو انہوں نے بیوٹیشن کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ شوہر کی تہران (ایران) تقرری پر اس کاروبار کا خیال سوجھا۔ 1977ء میں ہندوستان لوٹیں، تو انہوں نے 35 ہزار روپے کے سرمائے سے دارالحکومت نئی دہلی میںاپنا پہلا بیوٹی سیلون کھولا، جسے غیر معمولی پذیرائی ملی اور یوں ان کے ایک تاب ناک مستقبل کا آغاز ہوا۔ انہوں نے قدرتی جڑی بوٹیوں پر مرکوز رہتے ہوئے اپنی مصنوعات بھی تیار کرنا شروع کیں جو دیگر کاسمیٹک مصنوعات کے برعکس کسی بھی کیمیائی اجزا سے پاک تھیں۔ ان کی تمام مصنوعات مختلف پھلوں، پھولوں، پودوں، سبزیوں، شہد اور قدرتی جڑی بوٹیوں سے تیار کی جاتی ہیں اور خلاف روایت انہیں کسی جانور پر نہیں آزمایا جاتا۔ انہوں نے اپنی مصنوعات کے لیے قدرتی جڑی بوٹیوں کی کاشت کا انتظام بھی کر رکھا ہے۔

آج شہناز حسین کا ادارہ ہربل کاسمٹیکس بالخصوص جلد کے حوالے سے اپنی مصنوعات کی بین الاقوامی شہرت رکھتا ہے اور اس میدان میں شہناز حسین ایک معروف شخصیت بن چکی ہیں۔ ''شہناز حسین ہربلز'' کا شمار دنیا میں ہربل کاسمیٹک بنانے والی بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ شہناز حسین نے لندن میں بین الاقوامی بیوٹی تھراپی ایسوسی ایشن CIDESCO کی بیوٹی کانگریس میں ہندوستان کی نمایندگی کی۔ اس موقع پر انہیں اس ایسوسی ایشن کا صدر بھی مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے اس عہدے اور موقع کو ہندوستان اور ہربل مصنوعات کے فروغ کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کو مہمیز کیا، جب 1980ء میں انہیں لندن میں منعقدہ ایک میلے میں ہندوستان کی نمایندگی کا موقع ملا۔


اس کے ذریعے انہوں نے اپنی مصنوعات کو دنیا بھر کے صارفین کے سامنے پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج یورپ، امریکا، آسٹریلیا، افریقا اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر کے 138 ممالک میں ان کی 400 سے زاید فرنچائز موجود ہیں۔ ان ممالک کے ہر بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں ان کی مصنوعات نظر آتی ہیں۔ شہناز حسین نے لندن کی 'ہیرلے اسٹریٹ ' پر اپنا ایک کلینک بھی کھول رکھا ہے۔ صرف نئی دہلی میں ان کے ادارے کے 40 تقسیم کار اور 600 ان کے معاون تقسیم کنندگان ہیں، جب کہ 20 کلینکس اور شاخیں موجود ہیں۔ شہناز حسین مصنوعات کی تشہیر پر یقین نہیں رکھتیں، بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ان کی چیزیں خود ہی اپنی تشہیر ہیں اور وہ سب سے زیادہ اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ ان کی مصنوعات کو لوگ اتنا زیادہ پسند کریں کہ خریدے بغیر نہ رہ سکیں۔ ان کی مصنوعات نے ایک سال میں سب سے زیادہ فروخت کے نئے ریکارڈ بھی قائم کیے۔ شہناز ہربلز میں 1970ء سے1980ء تک ترقی کی اوسطاً شرح 15% رہی، جب کہ 1990ء کی دہائی میں یہ 19.4% تک پہنچ گئی۔

شہناز حسین پہلی ایشیائی ہیں، جس کی مصنوعات پیرس کے Galeries Lafayette اسٹور میں رکھی گئیں۔ یہ ان کی ایک بہت بڑی کام یابی ہے کہ ان کی مصنوعات نے انتہائی سخت مسابقت کے باوجود مغربی منڈی تک رسائی حاصل کی۔ دنیا بھر میں جن اعلا شہرت کے حامل اسٹوروں میں ان کی مصنوعات موجود ہیں، ان میں لندن کے Harrods and Selfriges، نیویارک کے Bloomingadales، جاپان میں The Seiyan Chain، مشرق وسطیٰ میں سلطان اسٹور سمیت دنیا بھر کے بہت سے نام ور اسٹور شامل ہیں۔

شہناز حسین اس وقت نہ صرف دنیا بھر میں قدرتی بیوٹی ٹریٹمنٹ کے سیلون چلا رہی ہیں، بلکہ ان کے ہاں بنائو سنگھار کے حوالے سے لڑکیوں کو تربیت بھی دینے کا انتظام ہے۔ ان کے ہاں بیوٹیشن اور کاسمیٹکس تھراپی کے ڈپلومے کے علاوہ پوسٹ گریجویٹ سطح کے کورس بھی کرائے جا رہے ہیں۔ شہناز حسین کی صاحب زادی نیلوفر کریم نے اپنی والدہ کی جدوجہد پر ایک کتاب تحریر کی ہے۔ اس میں انہوں نے اپنی ماں کی زندگی کے نہایت غیر معمولی واقعات شامل کیے ہیں۔ اس کا عنوان انہوں نے Flame رکھا ہے۔ کچھ عرصے قبل شہناز حسین کی مصنوعات کی شنگھائی، چین میں نمایش بھی کی گئی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے اعلان کیا کہ چین و ہند کے روایتی طب کے حوالے سے ہر سال ایک کانفرنس کرائی جائے گی، تاکہ دونوں قدیم ترین طریقہ ہائے طب کے حوالے سے آگہی ہو سکے، کیوں کہ طب کے حوالے سے ہندوستان اور چین دنیا کی دو قدیم ترین تہذیبیں ہیں۔

اعزازات

شہناز حسین نے اپنے پیشہ ورانہ دور میں متعدد اعزازات حاصل کیے۔ 1996ء میں Success Magazine's 'World's Greatest Woman Entrepreneur' award دیا گیا۔ راجیو گاندھی میلینئم میڈل 2000ء میں دیا گیا۔ گلوبل کوالٹی مینجمنٹ کی جانب سے 2002ء میں لندن میں ان کی شان دار کارکردگی پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ Asia Pacific's Most Prestigious Awards for Entrepreneurs اور 2009ء میں Jewel ایوارڈ دیا گیا۔ اسی سال انہیں جنیوا میں انٹرنیشنل اسٹار ایوارڈ فور کوالٹی بھی ملا۔ Leonardo Da Vinci Diamond award ،عالمی تمغہ آزادی، اورprestigious International Star Awardسے بھی نوازا گیا۔ 2006ء میں انہیں ہندوستانی صدر ڈاکٹر عبدالکلام نے پدما شری ایوارڈ بھی دیا۔ چین میں بھی انہیں China's prestigious award سے نوازا گیا۔
Load Next Story